• 24 اپریل, 2024

ڈوری میں احمدیت کا آغاز

برکینافاسو کے شمال میں صحرائے اعظم شروع ہوتا ہے اس علاقے کو ساحل بھی کہتے ہیں اور پرانے زمانے کی ریاست لپٹاکو گورماں (Liptako Gourma) کا یہ حصہ تھا اس علاقے میں زیادہ تر فولانی قبائل آباد ہیں۔ اسی طرح ٹمبکٹو سے ہجرت کر کے تماشق بھی یہاں آباد ہوئے۔ یہاں نوے فیصد سے زائد آبادی مسلمان ہے۔

برکینافاسو میں احمدیت کے آغاز سے ہی اس علاقہ میں جماعتی تبلیغی دورے شروع ہوئے۔نوے کی دہائی میں مکرم طارق محمو د صاحب مبلغ سلسلہ برکینا فاسو ان علاقوں کے دورے کرتے رہے۔ 1998ء میں یہاں کرائے کے ایک مکان میں باقاعدہ احمدیہ مشن کا آغاز ہوا اور مکرم ناصر سدھو صاحب کی تقرری یہاں ہوئی جبکہ بطور لوکل مبلغ زالے طاہر صاحب ان کے ساتھ تھے۔ مکرم ناصر سدھو صاحب نے بڑی جانفشانی سے کام کا آغاز کیا اور جلد ہی اس کے پھل ملنا شروع ہو گئے جس کے ساتھ شدید مخالفت بھی شروع ہو گئی۔ مربی صاحب نے ڈوری سے باہر قریہ قریہ جا کر اسلام احمدیت کا پیغام پہنچانا شروع کیا۔ اسی مہم کے دوران ہمارے مبلغین کی ملاقات 1999ء میں گل گونتو (Goulgountou) کے لوگوں سے فلاگنتو (Fala Gountou) کی مقامی مارکیٹ میں ہو گئی۔ان کو وفات مسیح اور آمد امام مہدی کا پیغام پہنچایا گیا۔ ان کے بڑے امام ابراہیم بی دیگا صاحب سے بھی تعارف ہوا جو جلد ہی سچائی کو پہچان گئے اور اپنے لوگوں کے ساتھ احمدیت قبول کر لی۔ چونکہ امام ابراہیم صاحب عربی زبان کے ماہر تھے اور اس علاقہ میں عربی بولنے والے بکثرت تھے چنانچہ سال 2000ء میں مکرم لوکل مبلغ ابوبکر سانغو صاحب جو مصر سے پڑھ کے آئے تھے اور ان کی عربی زبان بہت اچھی تھی کو ناصر سدھو صاحب کے مددگار کے طو رپر بھجوا دیا گیا۔ پھر ان دونوں نے الحاج ابراہیم کے ساتھ مل کر اس علاقے کے چپے چپے پر پیغام حق پہنچایا اور بڑی کثرت سے لوگ احمدیت میں داخل ہوئے۔ چونکہ اس علاقے میں وہابیوں کا زیادہ اثر رسوخ ہے اس لئے کھلی مخالفت کا سامناہونا ضروری تھا۔ بکثرت بڑے بڑے مناظرے ہوئے جن میں اللہ تعالیٰ کے فضل اور حضور کی دعاؤں سے احمدیت کو واضح فتح ہوتی رہی اور مخالفین شکست فاش سے دوچار ہوتے رہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو مخلص تھے اور اپنے ایمان میں سچے تھے وہ سینہ سپر ہوگئے اور جو کمزور اور مخالفین سے خوفزدہ تھے وہ پیچھے ہٹ گئے۔

چونکہ یہ ایک بہت بڑا تبلیغی میدان تھا جس میں مکرم ناصر سدھو صاحب کی درخواست پر نیشنل ہیڈ کواٹرز سے تبلیغی ٹیمیں بھی بنا کر بھجوائی جاتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے خاکسار کو بھی ان مبلغین اور داعیان الی اللہ کے ساتھ بہت مسلسل لمبے لمبے دورے کرنے کی توفیق ملی۔

ان دنوں میں ہمارے مبلغ مکرم ناصر سدھو صاحب نے اپنا حلیہ بھی تماشق لوگوں کی طرح کا بنا لیا تھا اسی طرح بڑی پگڑی باندھتے تھے اور ہر وقت تبلیغی مہمات پر رہتے۔

ان کی تبلیغی مہمات میں ما رسیلا (Marsela) کے علاقے کے سب سے بڑے امام الحاج محمود پنبالی نے بیعت کر لی اور اس کےساتھ دو سو گاؤں بھی احمدیت میں شامل ہوگئے۔ ابتداء میں انہوں نے اخلاص دکھایا لیکن جب کہا گیا کہ ہر شخص نے انفرادی طور پر بیعت کرنی ہے اور نظام جماعت کے مطابق چندہ دینا ہے تو امام محمود پنبالی صاحب اختلاف کرنے لگے۔ وہ بہت ہی متشدد اور کٹر وہابی تھا اپنی دانست میں شریعت کا نفاذ کرتا، لوگوں کو کو ڑے لگواتا اور اور دیگر سزاؤں کا اطلاق کرتا۔ اس کے دیگر مسلمان فرقوں سے شدید اختلافات اور لڑائی جھگڑے تھے۔ بعد ازاں یہ شخص قتل کے مقدمہ میں گرفتار ہو گیا اور جیل میں ہی مرا۔ لیکن اس نے اپنے زہریلا پراپیگنڈا سے ان تمام لوگوں کو جماعت سے متنفر کر دیا جو اس کے سا تھ احمدیت میں داخل ہوئے تھے۔ایک تاثر یہ بھی ہے کہ اس علاقے میں پر تشدد کارروائیاں کرنے والے افراد کی سوچ اسی شخص کی عکاس ہے اور عملاً اس کے پیروکار اس کی متعین کردہ راہوں پر چل کر لوگوں کی زندگی اجیرن بنانے میں مصروف ہیں۔

اسی طرح ما رسیلا (Marsela) اور ڈوری کے درمیان بہت بڑی پانی کی گزرگاہ تھی۔ بارشوں کے موسم میں اس علاقہ میں آمدورفت بند ہو جاتی تھی۔ ہم اپنی کمزوریوں کی وجہ سے ان کو سنبھال نہ سکے۔ اسی طرح فلاگنتو جو بڑا قصبہ ہے کے چیف اور بڑے امام نے بھی بیعت کر لی تھی لیکن بعد میں وہابیوں کے دباؤ کی وجہ سے قائم نہ رہ سکے۔ مکرم ناصر سدھو صاحب نے ایک وقت میں چھ سو سے زائد گاؤں کی فہرست بنا ئی تھی جہاں بیعتیں ہوئیں تھیں لیکن بعد میں وہ لوگ مختلف وجوہات کی بنا پر قائم نہ رہ سکے۔

مہدی آباد کے مخلصین کی جماعت بھی انہی میں سے ایک ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے نو (9) انصار کو شہادت کے مرتبہ کے لئے چن لیا۔ ان لوگوں نے مضبوطی ایمان، شجاعت و استقامت کا وہ نمونہ دکھایا جو اپنی مثال آپ ہے۔اللہ تعالیٰ ان سب سے راضی ہو۔

مہدی آبا دجماعت کا تعارف

مہدی آباد جماعت، ڈوری شہر سے 45کلومیٹرز کے فاصلے پر نائیجر کی طرف واقع ہے۔ ڈوری کے علاقے میں اِکا دُکا احمدی پہلے بھی تھے تاہم 1998ء کے آخر پر یہاں باقاعدہ مشن شروع کیا گیا تو جماعت نے تیزی سے ترقی کی۔ 1999ء میں ایک گاؤں تیکنے وانے (Ticknevwane) کی بھاری اکثریت احمدی ہوگئی اور ایک مخلص جماعت اس جگہ قائم ہوگئی۔اس گاؤں کے امام ا لحاج ابراہیم بی دیگا صاحب (Boureima Bidiga) احمدیت قبول کرنے سے پہلے اس علاقے کے سب سے بڑے وہابی امام تھے۔ آپ نے بہت تحقیق کے بعد بیعت کی تھی۔ بیعت کرنے کے بعد ایک بہت پرجوش داعی، اک نڈر مبلغ اور جری سپاہی کے طو رپر سامنے آئے۔

اس گاؤں کے تمام لوگ تماشق قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں اور تماشق زبان بولتے ہیں۔ تماشق لوگوں میں احمدی ہونے والے زیادہ نہیں ہیں تاہم برکینا فاسو میں مہدی آباد کے تماشق باشندے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی بیعت کرنے میں سبقت لے گئے ہیں اور اب اتنی بڑی قربانی دے کر بہت بلند ی پر فائز ہو چکے ہیں۔

پہلےیہ گاؤں، ایسا کان (ESAKAN) گاؤں کے ساتھ واقع تھا۔ 2004ء میں اس علاقے میں سونے کے بہت بڑے ذخائر دریافت ہوئے تومائننگ کمپنی نے ا س گاؤں کی آبادی کو قریب ہی ایک نئی جگہ پر گاؤں آباد کرنے کے لئے مکانات بنا دئیے اور ان لوگوں کو وہاں منتقل کر دیا گیا۔ان منتقل ہونے والے افراد میں بھاری اکثریت احمدیوں کی تھی۔ صرف چند ایک گھرانے دوسرے تھے۔ عملاً یہ نیا گاؤں احمدیوں کا ہی تھا۔ امام ابراہیم بی دیگا صاحب نے تجویز دی کہ اب ہم نے اس نئے گاؤں کا پرانا نام ہر گز نہیں رکھنا بلکہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے پوچھ کر نیا نام رکھیں گے۔ چنانچہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس اید للہ تعالیٰ نے اس کا نام ‘‘مہدی آباد’’ عطا فرمایا۔ سال 2008ء میں یہاں پہلا ماڈل ویلج بنایا گیا۔ یہ IAAAE کا برکینا فاسو اور دنیا بھر میں پہلا ماڈل ویلج پراجیکٹ تھا۔ اس پراجیکٹ کے تحت گاؤں میں بجلی،پانی اور سلائی اسکول وغیرہ کی سہولیات دی گئیں۔

مکرم رانا فاروق احمد صاحب سابق مبلغ سلسلہ ڈوری ریجن لکھتے ہیں:
خاکسار کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ڈوری ریجن میں تقریباً اڑھائی سال تک خدمت کی توفیق ملی۔اس دوران میں مہدی آباد میں کئی بار دورہ کرنے کا موقع ملا۔ خاکسار جب بھی اس جماعت کے دورہ پر گیا ا ن کے اخلاص و محبت کو دیکھ کر ہمیشہ ان پر رشک آتا۔جب بھی ان سے ملاقات ہوتی مسکراتے ہوئے چہروں کے ساتھ ملتے۔امام صاحب اور دیگر احباب جماعت اپنی بساط سے بڑھ کر مبلغین کی خدمت کرتے۔ جو کچھ بھی گھر میں موجود ہوتامہمان کو پیش کر دیتے۔ہمیشہ بہت خوش ہوتے کہ انہیں خلیفہ وقت کے نمائندہ کی خدمت کی توفیق مل رہی ہے۔ امام ابراہیم صاحب کو حضور انور سے بہت محبت تھی یہی وجہ ہے کہ اس جماعت کے دیگر احباب میں بھی خلافت احمدیہ سے محبت بہت نمایاں تھی۔ کئی دفعہ ایسا دیکھاگیا کہ الحاج ابرہیم بی دیگا صاحب ایم ٹی اے پر حضور انور کی بچوں کے ساتھ کلاس دیکھ رہے ہوتے،ان کو اردو زبان سے بالکل واقفیت نہیں تھی لیکن پھر بھی بہت انہماک سے دیکھتے تھےجیسے ان کو سب سمجھ آرہاہو۔آپ معلم یا مربی نہیں تھے۔ لیکن جماعت کی خدمت کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے۔ خاکسار کے ساتھ اکثردورہ پر جاتے اور خود بھی جماعتوں کے دورہ پر نکل جاتے۔ جب بھی انہیں کسی جماعت کے دورہ پر بھجوایا جاتا ہمیشہ جانے کے لئے تیار رہتے تھے۔

رانا فاروق احمد صاحب سابق مبلغ سلسلہ ڈوری ریجن مزید بیان کرتے ہیں:
برکینا فاسو میں رمضان المبارک اور عید ین کا اعلان سرکاری سطح پر ہوتا ہے۔ جماعت احمدیہ بھی حکومت کے اعلانات کے مطابق عمل کرتی ہے۔ایک دفعہ برکینا فاسو میں عید الفطر کا اعلان رات بہت دیر کو ہوا۔خاکسار نے باقی جماعتوں کی طرح ڈوری بھی اطلاع بھجوائی کہ صبح عید ہوگی۔ جب ڈوری کے مبلغ مکرم رانا فاروق احمد صاحب نے مہدی آباد اطلاع کی تو ان کے رویہ سے معلوم ہوتا تھاکہ وہ اپنے سابقہ وہابی عقائد کے زیر اثر اس فیصلہ سے متفق نہیں ہیں کہ آدھی رات کو کون سا چاند دیکھا جا سکتا ہے۔چاند کے لیے رؤیت نظری ضروری ہے۔ رات گیارہ بجے کون سا چاند نکل آیا ہے۔

ہمارے مبلغ صاحب بیان کرتے ہیں کہ خاکسار کو محسوس ہوا کہ ان کے لئے ماننا مشکل ہو رہا ہے اس لئے اگلے دن صبح عید پڑھنے کے لئے میں اپنی فیملی کے ساتھ ان کے گاؤں چلا گیا۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ سب نے روزے رکھے ہوئے ہیں۔جب انہیں بتایا گیا کہ جماعت احمدیہ اولی الامر کی اطاعت کرتی ہے۔ حکومت کی طرف سے اعلان ہوگیا ہے اور ہمیں امیر صاحب کی طرف عید منانے کا پیغام مل گیا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اطاعت نہ کریں۔ اس پر امام ا براہیم صاحب نے فوری گاؤں والوں کو اکھٹا کیا اور روزے کھلوا کر نماز عید اداکی گئی۔

لوکل مبلغ یاتارا سلیمان صاحب (Yattara Souleman) بیان کرتے ہیں:
یکم جنوری 2023ء کو یعنی اس سال کے پہلے دن مہدی آباد میں باجماعت نماز تہجد پڑھانے کے لئے میری ڈیوٹی لگی تھی۔ میں گروم گروم شہر سے مہدی آباد 31؍دسمبر کی شام تک پہنچ گیا تھا۔ صبح جب نماز تہجد پڑھانے کے لئے میں مسجد پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرے پہنچنے سے پہلے ہی مہدی آباد کے تمام انصار مسجد میں پہنچے ہوئے تھے۔ شہید ہونے والوں میں اکثر پہلی صف میں موجود نماز کا انتظار کر رہے تھے۔مہدی آباد جماعت کے لوگ نمازوں کے پابند ہیں۔

ڈوری مشن ہاؤس

ڈوری شہر میں داخل ہوتے ہی مین سٹرک پر پندرہ ایکٹر رقبہ جماعت کی ملکیتی جائیداد ہے۔اس میں مسجد بیت الطاہر واقع ہے جس کا خرچ مکرم ناصر سدھو صاحب امیر جماعت سینیگال کی فیملی کی طرف سے اد اکیا گیا تھا۔اسی زمین پر احمدیہ پرائمری اسکول واقع ہے جس کا سنگ بنیاد حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دورہ 2004ء کے دوران میں رکھا تھا۔ اس کے ساتھ یہاں مرکزی مبلغ کی رہائش گاہ، معلم ہاؤس،احمدیہ ریڈیو اسٹیشن،لائبریری اور گیسٹ ہاؤس موجود ہیں۔

ڈوری میں خدمت کی توفیق پانے والے
مرکزی مبلغین کرام

نمبر شمارنام مبلغ سلسلہعرصہ خدمت
1مکرم طارق محمو د صاحبنوے کی دہائی میں ڈوری کےدورے کئے
2مکرم ناصر احمد سدھو صاحب1998ء تا 2005ء
3مکرم رانا فاروق احمد صاحبدسمبر 2005ء سے
جون 2008ء
4مکرم عطاء الحبیب صاحب2008ء تا 2009ء
ڈوری -گورم گورم
5مکرم ناصر احمد سدھو صاحب2009ء تا 2011ء
6مکرم مسرور احمد چانڈیو صاحب2011ء تا 2013ء
7مکرم اکبر احمد طاہر صاحب2013ء تا 2016ء
8مکرم مبارک احمد منیر صاحب2016ء تا 2019ء
9مکرم شاکر مسلم صاحبفروری2020ء تا اگست2021ء
10مکرم لقمان فردوس بٹر صاحباگست 2021ء
تا مارچ 2022ء

(ابو سعود۔ برکینا فاسو)

پچھلا پڑھیں

شہداء احمدیت برکینا فاسو کے نام

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی