• 18 اپریل, 2024

ہر ایک مسلمان اپنے نفس کو قابو میں رکھتاہے اور اس سے مغلوب نہیں ہوتا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
تو یہ ہے غیرتِ رسول کا ایسا اظہار کہ جس سے دوسرے کو خود ہی احساس ہو جائے کہ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں حدّ ادب کے اندر رہتے ہوئے بات کرنی ہے۔

غرض کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے عمل سے بھی اور اپنی تحریر و تقریر سے بھی دنیا پر یہ ثابت کر دیا کہ حقیقی عشقِ رسول اور غیرتِ رسول کیا ہے؟ اور پھر اپنی جماعت میں بھی یہی روح پھونکی۔ یہ غیرتِ رسول دکھاؤ، لیکن قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے۔ ہر کارروائی کرو لیکن قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے۔ چنانچہ اسی تعلیم کا نتیجہ ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایک دل آزار کتاب ایک آریہ نے لکھی اور پھر و رتمان جو رسالہ تھا اس میں بعد میں ایک مضمون بھی شائع کیا تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اس کے رد ّکے لئے ہر قسم کی کوشش کی۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی نصیحت فرمائی کہ‘‘مسلمان کو چاہئے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کو بچانے کے لئے غیرت دکھائیں مگر ساتھ ہی یہ بھی دکھا دیں کہ ہر ایک مسلمان اپنے نفس کو قابو میں رکھتاہے اور اس سے مغلوب نہیں ہوتا۔ جب مسلمان یہ دکھا دیں گے تو دنیا ان کے مقابلے سے خود بخود بھاگ جائے گی‘‘۔

(الفضل 5جولائی 1927ء صفحہ7 بحوالہ سوانح فضل عمر جلد 5صفحہ41)

اسی دوران آپ نے ایک پوسٹر بھی شائع کروایا۔ اس کے الفاظ دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ کس قدر غیرت کا مظاہرہ آپ نے فرمایا اور مسلمانوں کو بھی غیرت دکھانے پر آمادہ کیا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ اعتراضات ہو رہے تھے تو آپ نے اس میں فرمایا کہ‘‘کیا اس سے زیادہ اسلام کے لئے کوئی اور مصیبت کا دن آ سکتا ہے؟ کیا اس سے زیادہ ہماری بیکسی کوئی اور صورت اختیار کر سکتی ہے؟ کیا ہمارے ہمسایوں کو یہ معلوم نہیں کہ ہم رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم فداہ نفسی و اَھلی کو اپنی ساری جان اور سارے دل سے پیار کرتے ہیں اور ہمارے جسم کا ذرّہ ذرّہ اس پاکبازوں کے سردار کی جوتیوں کی خاک پر بھی فدا ہے۔ اگر وہ اس امر سے واقف ہیں تو پھر اس قسم کی تحریرات سے سوائے اس کے اور کیا غرض ہو سکتی ہے کہ ہمارے دلوں کو زخمی کیا جائے اور ہمارے سینوں کو چھیدا جائے اور ہماری ذلت اور بے بسی کو نہایت بھیانک صورت میں ہماری آنکھوں کے سامنے لایا جائے اور ہم پر ظاہر کیا جائے کہ مسلمانوں کے احساسات کی ان لوگوں کو اس قدر بھی پرواہ نہیں جس قدر کہ ایک امیر کبیر کو ایک ٹوٹی ہوئی جوتی کی ہوتی ہے۔ لیکن مَیں پوچھتا ہوں کہ کیا مسلمانوں کو ستانے کے لئے ان لوگوں کو کوئی اور راستہ نہیں ملتا؟۔ ہماری جانیں حاضر ہیں۔ ہماری اولادوں کی جانیں حاضر ہیں۔ جس قدر چاہیں ہمیں دکھ دے لیں لیکن خدارا نبیوں کے سردار کی ہتک کر کے اپنی دنیا اور آخرت کو تباہ نہ کریں کہ اس پر حملہ کرنے والوں سے ہم بھی صلح نہیں کر سکتے۔ ہماری طرف سے بار بار کہا گیا ہے اور مَیں پھر دوبارہ ان لوگوں کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ہماری جنگل کے درندوں اور بَن کے سانپوں سے صلح ہو سکتی ہے لیکن ان لوگوں سے ہرگز صلح نہیں ہو سکتی جو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دینے والے ہیں۔ بے شک وہ قانون کی پناہ میں جو کچھ چاہیں کر لیں اور پنجاب ہائی کورٹ کے تازہ فیصلے کی آڑ میں (اس وقت فیصلہ ہوا تھا جو مسلمانوں کے خلاف ہوا تھا) جس قدر چاہیں ہمارے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دے لیں۔ لیکن وہ یاد رکھیں کہ گورنمنٹ کے قانون سے بالا اَور قانون بھی ہے اور وہ خدا کا بنایا ہوا قانونِ فطرت ہے۔ وہ اپنی طاقت کی بِنا پر گورنمنٹ کے قانون کی زد سے بچ سکتے ہیں لیکن قانونِ قدرت کی زد سے نہیں بچ سکتے۔ اور قانونِ قدرت کا یہ اٹل اصل پورا ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ جس کی ذات سے ہمیں محبت ہوتی ہے اس کو برا بھلا کہنے کے بعد کوئی شخص ہم سے محبت اور صلح کی توقع نہیں رکھ سکتا‘‘۔

(تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 597 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

اس وقت جب یہ ہوا اور پھر اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہندوستان میں قانون میں تبدیلی بھی ہوئی اور یہ قانون پاس ہوا کہ جو انبیاء ہیں اور جو کسی بھی مذہب کے فرقے کے سربراہ ہیں ان کو برا بھلا نہیں کہا جا سکتا۔ اب آگے چلیں۔ احمدیوں کی تاریخ میں آج سے بیس سال یا پچیس سال پہلے بدنامِ زمانہ سلمان رشدی نے جواپنی مکروہ کتاب لکھی تھی تو اس وقت حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے خود بھی خطبوں میں اس کا جواب دیا اور پھر کتابی شکل میں بھی جواب لکھوایا گیا جو انگریزی میں چھپا، جس کا اردو ترجمہ بھی چھپ چکا ہے۔ اس کے اردو ترجمہ کا نام ’’سلمان رشدی بھوتوں کے آسیب میں‘‘ ہے۔

2005ء میں جب ڈنمارک میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بیہودہ تصاویر بنائی گئیں تو ڈنمارک مشن نے بھی اور مَیں نے بھی خطبات کے ذریعہ اس کا جواب دیا۔ قانون کے اندر رہتے ہوئے کارروائیاں بھی کیں۔ ہالینڈ کے ممبر آف پارلیمنٹ کی طرف سے قرآنِ کریم پر حملہ ہوا، اسلام پر حملہ ہوا توان کے جوابات دئیے گئے۔ تو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے غیرت کا مظاہرہ ہے جو ایک حقیقی مسلمان کا سرمایہ ہے۔ قانون سے باہر نکل کر ہم جو بھی عمل کریں گے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے صدق و وفا کا تعلق نہیں ہے۔

(خطبہ جمعہ 21؍ جنوری 2011ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 فروری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 مارچ 2021