قضائے عمری کیا شے ہے
ایک صاحب نے سوال کیا کہ قضائے عمری کیا شے ہے؟ جو کہ لوگ (عید الاضحٰی) کے پیشتر جمعہ کو ادا کرتے ہیں۔ فرمایا:
میرے نزدیک یہ فضول باتیں ہیں۔ ان کی نسبت وہی جواب ٹھیک ہے کہ حضرت علی ؓ نے ایک شخص کو دیا تھا جبکہ ایک شخص ایک ایسے وقت نماز ادا کر رہا تھا جس وقت میں نماز جائز نہیں۔ اس کی شکایت حضرت علیؓ کے پاس ہوئی تو آپ نے اسے جواب دیا کہ مَیں اس آیت کا مصداق نہیں بننا چاہتا۔ اَرَءَیۡتَ الَّذِیۡ یَنۡہٰی ۙ﴿۱۰﴾ عَبۡدًا اِذَا صَلّٰی ﴿ؕ۱۱﴾ (العلق: 10۔11) یعنی تو نے نہیں دیکھا اس کو جو ایک نماز پڑھتے بندے کو منع کرتا ہے نماز جو رہ جاوے اس کا تدارک نہیں ہو سکتا ہاں روزہ کا ہو سکتا ہے۔
اور جو شخص عمداً سال بھر اس لئے نماز کو ترک کرتا ہے کہ قضا ئے عمری والے دن ادا کر لوں گا وہ گنہگار ہے اور جو شخص نادم ہو کر توبہ کرتا ہے اور اس نیت سے پڑھتا ہے کہ آئندہ نماز ترک نہ کروں گا تو اس کے لئے حرج نہیں۔ ہم تو اس معاملہ میں حضرت علیؓ ہی کا جواب دیتے ہیں
(البدر یکم مئی 1903ء صفحہ114)
- ایک شخص نے سوال کیا کہ میں چھ ماہ تک تارکِ صلوٰة تھا۔ اب میں نے توبہ کی ہے کیا وہ سب نمازیں اب پڑھوں؟ فرمایا
’’نماز کی قضاء نہیں ہوتی۔ اب اس کا علاج توبہ ہی کافی ہے‘‘
(بدر 24تا 31دسمبر 1908ءصفحہ5)
(داؤد احمد عابد۔ استاذ جامعہ احمدیہ یوکے)