• 25 اپریل, 2024

چمگادڑیں کیسے دیکھتی ہیں

ہمیں اپنے گرد و پیش میں جن حشرات کاسامنا رہتا ہے، قدرت نے ان کے اندر ایسے حیرت انگیز نظام نصب کر رکھے ہیں جن کے مطالعہ سے انسانی عقل ششدر رہ جاتی ہے۔ لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ ہم ان کے بارے میں بہت زیادہ نہیں جانتے۔ جاننے کا تجسس انسانی سرشت میں ہے اسی سبب شب و روز کی تحقیقات سے حقیقتیں آشکار ہوتی ہیں۔

مجھے یاد ہے بچپن میں جب ٹی وی،موبائل،انٹرنیٹ سمیت دیگر تفریحی ذرائع عام نہیں تھے۔ دن بھر کے کام کاج سے فارغ ہو کر لوگ جمع ہوتے اور گاؤں کے چوراہے پر سرشام محفلیں سجا کرتی تھیں۔جن میں دنیا بھر کے موضوعات پر بحث مباحثہ ہوا کرتا تھا۔ایسے ہی ایک دن محفل کا موضوع سخن یہ تھا کہ سانپ کے کان ہوتے ہیں یا نہیں۔ایک دھڑے کا ماننا تھا کہ سانپ کے کان ہوتے ہیں جبکہ دوسرا فریق اس بات کا قائل تھا کہ سانپ کے کان نہیں ہوتے اور وہ صرف بین کی حرکت کو دیکھ کر ردعمل ظاہر کرتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ کئی روز جاری رہنے والی بحث کا نتیجہ کیا رہا لیکن اس سے تحقیق اور جستجو کے جذبہ کو تحریک ضرور ملی۔

ہمارے ماحول میں موجود ایسی ہی ایک مخلوق چمگادڑ ہے جو بصارت سے محروم ہونے کے باوجود بناکسی چیز سے ٹکرائے نہ صرف اڑسکتی ہے بلکہ بڑی مہارت سے شکار بھی کرتی ہے۔ چمگادڑیں کم و بیش دنیا کے تمام خطوں میں پائی جاتی ہیں۔یاد رہے کہ چمگادڑوں کی تمام اقسام اندھی نہیں ہوتیں بلکہ ان میں سے بعض بالکل انسانوں کی طرح دیکھ سکتی ہیں۔لیکن رات کے وقت وہ بھی ایکو لوکیشن Echolocation کا استعمال کرکے اڑتی اور شکار کرتی ہیں۔چمگادڑیں اپنی آواز کی گونج یعنی Echo کو دیکھ سکتی ہیں۔یہ نہایت پیچیدہ ملٹری گریڈ مشینری جیسا نظام ہے جو قدرت نے اس چھوٹی سی مخلوق کے سر میں نصب کر رکھا ہے۔ اسے ہم بائیولوجیکل سونار سسٹم (آواز کی لہروں کی مدد سے جاسوسی کا نظام جو زیر زمین، زیر آب اور زمین کی سطح پر کام کرتا ہے) کہہ سکتے ہیں۔ کئی جانور ایسی آوازیں نکالتے ہیں جن کی گونج بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ان کا مقصد دوسرے جانوروں کو متوجہ کرنا ہوتا ہے۔ہم جانتے ہیں کہ آواز مختلف سطح سے ٹکرانے کے بعد تبدیل شدہ حالت میں ہمیں واپس سنائی دیتی ہے۔کوئی چیز جتنی زیادہ قریب ہوگی اس سے ٹکراکر واپس آنے والی آواز ہمیں اتنی ہی جلدی اور زیادہ سنائی دے گی۔ اس عمل کا ایک کمزور پہلو یہ ہے کہ آواز جتنا زیادہ فاصلہ سے آئے گی اتنا زیادہ کمزور ہوتی جائے گی۔اس پر ہوا اور پانی کا اثر بھی ہوتا ہے اور آواز ان میں جذب ہو جاتی ہے۔ چمگادڑوں کو اس مسئلہ کے حل کے لیے دو چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ایک یہ کہ ان کی نکالی ہوئی آواز بہت ہی زیادہ تیز اور طاقتور ہو، دوسرا، واپس لوٹ کر آنے والی آوازوں کو سننے کا نظام نہایت حساس ہو۔ چمگادڑوں میں پایا جانے والا یہ بائیلوجیکل سونار سسٹم تمام جانوروں میں سب سے زیادہ بہترین ہے۔ ان کا یہ نظام ایسے شاندار طریقے سے کام کرتا ہے کہ یہ تیزی سے اڑتے ہوئے بنا کسی چیز سے ٹکرائے چھوٹے پتنگوں کو آسانی سے پکڑ لیتی ہیں۔

دنیا میں چمگادڑوں کی بارہ سو سے زیادہ اقسام پائی جاتی ہیں،ان میں سے پچاس فیصد کا انحصار Echolocation پر ہے یعنی آواز کے ذریعے دیکھنے کا کام لینے والی ہیں۔ تیکنیکی اعتبار سے ایکو لوکیشن دیکھنے کا وہ عمل ہے جو کانوں، آنکھوں اور سننے کی حس کے باہمی تعامل سے انجام پاتا ہے۔ Echo یعنی گونج کسی بھی آواز کا پیدا کیا ہوا وہ ردعمل ہے جو سننے والے تک پہنچتا ہے۔ آواز ایسی چیز ہے جو اپنے ماخذ سے لہروں اور ارتعاش کی صورت میں خارج ہوتی ہے۔یہ لہریں جس مقدار میں خارج ہوتی ہیں اسے فریکوئنسی کہا جاتا ہے۔ آواز کی فریکوئنسی جتنی زیادہ ہوگی اس کی Pitch یعنی پھیلاؤ اتنا زیادہ ہوگا۔ انسان 20 سے 20000 میگاہرٹز تک کی آوازوں کو سن سکتے ہیں۔ جو بھی آواز بیس سے کم اور بیس ہزار سے زیادہ فریکوئنسی کی ہوگی انسانی کان اسے سن نہیں سکتے۔ جبکہ چمگادڑیں 100000 میگاہرٹز تک کی آواز پیدا کرتی ہیں جو کہ انسان کے سننے کی طاقت سے پانچ گنا زیادہ ہے۔

چمگادڑ کے آواز نکالنے کے عمل کو Chirp کہا جاتا ہے۔ ایک بارچرپ کرنے کے بعد آواز اس کے جسم سے خارج ہوکر چیزوں سے ٹکرا کر واپس آنے کے بعد بیرونی کان سے اندرونی کان میں داخل ہوتی ہے۔ پھریہ آوازکان میں موجود Eardrum سے ٹکراتی ہے جس کے نتیجے میں ڈرم پر ارتعاش پیدا ہوتا ہے۔ یہ ارتعاش آگے Basilar Membrane (آواز کے ارتعاش کو محسوس کرنے والا حصہ) تک منتقل ہوتا ہے جو آگے Cochlea پر منتقل ہو تا ہے۔ کوکلیا اور بیسلر میمبرین باہمی تعامل سے حاصل شدہ معلومات کو Nerve Impulses یعنی برقی سگنل میں تبدیل کرکے دماغ کو بھیج دیتے ہیں جس سے چمگادڑ کے دماغ میں سارے منظر کا ایک مکمل نقشہ تیار ہو جاتا ہے۔ چمگادڑ جان لیتی ہے کہ اس کے ارد گرد کون کون سی اشیاء موجود ہیں ان کا حجم کتنا ہے وہ کتنے فاصلہ پر ہیں، ساکن ہیں یا حرکت کر رہی ہیں۔مخصوص عضلات اور گلے کی بدولت چمگادڑ ایک سیکنڈ میں دوسو مرتبہ Chrip (آواز نکالنا) کر سکتی ہے۔

مختلف اقسام کی چمگادڑیں آواز کی مختلف فریکوئنسی کو استعمال کرتی ہیں۔یہ فریکوئنسی 20 سے 200 کلوہرٹز تک ہو سکتی ہے۔ کم فریکوئنسی کی آوازیں زیادہ تیزی سے سفر کرتی ہیں لیکن زیادہ طاقتور فریکوئنسی چمگادڑوں کے لیے ارد گرد کی تھری ڈی تصویر ان کے دماغ میں بنا دیتی ہیں۔خاص طور پر جب وہ ایک سیکنڈ میں دوسو بار اپنے اندر سے یہ ہائی فریکوئنسی آواز خارج کریں۔ خوش قسمتی سے انسان ان آوازوں کو نہیں سن سکتے ورنہ یہ اتنی تیز ہوتی ہیں کہ جیسے درخت کاٹنے والے مشینی آری چلنے سے ہوتی ہے۔ذرا تصور کریں آپ ایسی جگہ موجود ہوں جہاں ہزاروں چمگادڑیں سر پہ منڈلا رہی ہوں تو آپ کے کانوں کا کیا حشر ہوگا۔ چمگادڑوں کی نکالی ہوئی آوازوں کی فریکوئنسی بہت ہی زیادہ تیز ہوتی ہے لیکن جب یہ آواز لوٹ کر ان کی جانب واپس آتی ہے تو کئی ہزار گناتک اس کی طاقت کم ہو چکی ہوتی ہے جسے سن کر ڈی کوڈ کرنے کے لیے انہیں نہایت طاقتور حساس حس کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کے اندرونی کان میں بہت زیادہ حساس Receptor cell (آواز کا ارتعاش محسوس کرنے والے خلیے) ہوتے ہیں۔ ان کی حساسیت کا انداز اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ یہ صفر اعشاریہ ایک ہرٹز تک کی مدھم آواز کو سننے کی حیرت انگیز صلاحیت رکھتے ہیں۔

اپنی پیدا کی ہوئی شدید تیز آواز اس کے اپنے حساس اور نازک عضو کو ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں تباہ و برباد کر سکتی ہے لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ یہ ایک ملی سیکنڈ کے اندر اپنے اندرونی کان کو بند کرتی اور کھولتی ہیں یہ عمل اتنی تیزی سے پراسس ہوتا ہے کہ ایک سیکنڈ کے دوران دو سو مرتبہ چمگادڑ کا کان یہ عمل دھراتا ہے۔ نتیجۃً ان کے کان اپنی ہی آواز سے ہونے والے ممکنہ نقصان سے محفوظ رہتے ہیں۔

اس عمل کے دوران بہت زیادہ معلومات چمگادڑ تک پہنچ رہی ہوتی ہیں۔ اپنے اردگرد کے ماحول کا نقشہ دماغ میں بن جانے کے بعد چمگادڑ صرف اہم چیزوں پر ہی توجہ مرکوز کرتی ہے۔ اس طرح اپنے شکار تک پہنچنا اس کے لیے آسان ہوجاتا ہے۔

جانوروں میں ایکو لوکیشن کا دوسرا بہترین نظام چمگادڑوں کے بعد ڈولفن میں پایا جاتا ہے۔ نیز کئی پرندے بھی ایکو لوکیشن کا استعما ل کرتے ہیں۔ بصارت سے محروم ہونے کے باوجود صرف آواز کی بدولت دیکھنے کا یہ پیچیدہ نظام نہایت شاندار ہے جس کے بارے میں جان کر دل بے اختیار کہہ اٹھتا ہے۔ ’’فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحۡسَنُ الۡخٰلِقِیۡنَ‘‘

(ترجمہ و تلخیص: مُد ثر ظفر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 جون 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 جولائی 2021