• 24 اپریل, 2024

خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ 29؍جولائی 2022ء

خلاصہ خطبہ جمعہ

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 29؍جولائی 2022ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آبادٹلفورڈ یو کے

ایرانی سرحدوں سےرومیوں پر حملہ کا رستہ کھل جانا ایک ایسا معجزہ تھا جس کا خیال حضرت ابوبکر رضی الله عنہ کو بھی نہیں آ سکا اور یہ کارنامہ ایسے شخص کے ہاتھوں رونما ہؤا جس کی نظیر پیدا کرنے سے عرب و عجم کی عورتیں واقعی عاجز رہیں جیسا کہ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا تھا۔۔۔ حضرت خالدؓبن ولید ہر معرکہ میں شامل ہوئے ، اُنہیں کسی موقع پر بھی شکست کا منہ نہ دیکھنا پڑا، دربار رِسالت صلی الله علیہ و سلم سے آپؓ کو سیف الله (الله کی تلوار) کا خطاب ملا تھا اور آپؓ نے اِس خطاب کا حق ادا کر دیا

حضور انور ایدہ الله نے تشہد، تعوذ اور سورۃالفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ کی مہمات کے تذکرہ کے تسلسل میں حضرت خالدؓ بن ولید کی سرکردگی میں 12 ہجری میں لڑی گئی باقی جنگوں حیرہ، اَنبار (ذات العیون)، عین التَّمر، دُومتہ الجندل، حُصَیدوخَنافس، مُصَیّخ، ثنی و زُمیل، رُضاب نیز فِراض کے اسباب اور فتوحات کی بابت مفصل تفصیلات بیان فرمائیں۔

فتح حیرہ عظیم جنگی اہمیت کی حامل ثابت ہوئی

اِس سے مسلمانوں کی نگاہ میں فتح فارس کی امیدیں بڑھ گئیں۔ حیرہ کو اسلامی فوج کے سپۂ سالار اعظم نے اپنا مرکز اور صدر مقام قرار دیا، جہاں سے اسلامی افواج کو ہجوم و دفاع اور نظم و امداد کے احکام جاری کئے جاتے تھے اور قیدیوں کے امور کے نظم و ضبط سے متعلق تدبیر و سیاست کا مرکز بنایا اور وہاں سے حضرت خالدؓ نے خراج اور جزیہ کو وصول کرنے کے لئے مختلف صوبوں پر عامل اور اِسی طرح سرحدوں پر اُمَراء مقرر کئے تاکہ دشمن سے حفاظت ہو سکے ۔ ۔۔حیرہ کی فتح سے عراق کو فتح اور اُس کو اسلامی سلطنت کے تابع کرنے سے متعلق حضرت ابوبکرؓ کی آرزوؤں کا ایک حصہ پایہ ٔتکمیل کو پہنچ گیا۔

حضرت خالدؓ بن ولید پر الزام لگانے والوں کے لئے قابل غور

جنگ اَنبار یا ذات العیون (آنکھوں والی جنگ) میں دشمن کے پسپا ہو کر قلعہ بند ہونے نیز حاکم اَنبار شِیرازاذ کی حضرت خالدؓ بن ولید سے درخواست صلح کے تناظر میں بیان ہوا۔ یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ جو مؤرّخ اور سیرت نگار حضرت خالد ؓپر یہ الزام لگاتے ہیں کہ آپؓ وحشت و بربریت کا بازار گرم رکھتے اور قتل و غارت گری کئے جاتے تھے، اُن کے لئے قابل غور ہے کہ سخت ترین جنگ کرنے اور بار بار پیشکش صلح کو بھی قبول نہ کرنے کے باوجود دشمن پر غلبہ پا لیا اور اُس نے جب وہاں سے جانے کی اجازت مانگی تو پھر تین دن کا سامان رسد ساتھ لے کر جانے کی اجازت بھی دے دی اور کسی قسم کا تعرض نہیں کیا۔ پس یہ اِس بات کی دلیل ہے کہ آپؓ پر الزام ہے کہ آپؓ ظلم کیا کرتے تھے۔

عہد تاریخ پر گہرے اور اَن مٹ نقوش چھوڑنے والے

جنگ عین التَّمر اور اُس کے قلعہ کے محاصرہ نیز اِس کا سامان بطور غنیمت لینے کے ضمن میں بیان ہوا۔ حضرت خالدؓ بن ولید نےاُن کے کلیساء کے اندرچالیس لڑکوں کو پایا جنہیں عیسائیوں نے گروی بنا لیا تھا، یہ لڑکے بیشتر عربی نژاد تھے، اِن کو اسلامی تاریخ میں اِس لئے اہمیت حاصل ہے کہ اِن کی اولاد میں سے ایسے بڑے بڑے لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے اُس عہد میں اور بعد کے عہد کی تاریخ پر گہرے اور اَن مٹ نقوش چھوڑے۔ اِن لڑکوں میں محمدؒ بن سیرین کے والد سیرین، موسیٰ بن نُصیر کے والد نُصیر اور حضرت عثمانؓ کے آزاد کردہ غلام حُمران بھی شامل تھے۔ بہت بڑے صناع سیرین عراق کے رہنے والے تھے، معرکۂ عین التَّمر میں قیدی ہوئے اور حضرت انسؓ بن مالک کے غلام بنے نیز آپؓ سے مکاتبت کرتے ہوئے آزادی حاصل کر لی تھی۔ اُن کے بیٹے مشہور تابعی اور اُن کا نام محمد ؒبن سیرین تھا نیز تفسیر، حدیث ، فقہ اور تعبیر الرؤیا فنون میں امام تھے۔ پھر بنو اُمَیَّہ کے قیدیوں میں سے نُصیر، موسیٰ بن نُصیر کے والد، جنہیں بنو اُمَیَّہ کے کسی شخص نے آزاد کروایا تھا، یہ اپنے بیٹے موسیٰ کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں۔ موسیٰ بن نُصیر نے شمالی افریقہ میں شہرت پائی اور طارق بن زیاد کے ساتھ مِل کر اسپین میں اسلامی حکومت قائم کرنے میں بہت بڑا کردار ادا کیا تھا۔ یہود میں سے حُمران بن اَبان بھی عین التَّمر کے قیدیوں میں سے تھے، اِنہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا، حضرت عثمانؓ نے اِنہیں آزاد کروا دیا تھا ۔ آپؓ کاخاص قرب پانے والے 41 ہجری میں کچھ عرصہ کے لئے حاکم بصرہ بنے اور بعد میں بنو اُمَیَّہ کی حکومت میں بڑا نام پیدا کیا۔

اُکیدر کو قیدی بنا کر قتل کرنے کی وجہ

بر تفصیلات جنگ دُومتہ الجندل بمطابق ایک روایت بیان ہوا کہ حضرت خالدؓ بن ولید کو غزوۂ تبوک کے موقع پر رسول اللهؐ نے اُکیدر کی طرف روانہ کیا، آپؓ اُس کو قید کر کے آپؐ کی خدمت میں لے آئے، آپؐ نے اُس پر احسان کر کے اُسے چھوڑ دیا نیز اُس سے معاہدہ لکھوایا تھا لیکن اُس نے اِس کے بعد بد عہدی کی اور حکومت مدینہ کے خلاف بغاوت کر دی تھی۔ جس وقت اُکیدر کو حضرت خالدؓ کے دُومتہ الجندل آنے کی اطلاع ملی تو یہ اپنی قوم کا ساتھ چھوڑ کر نکل گیا، آپؓ کو دُومتہ الجندل کے راستہ میں سے خبر ملی تو آپؓ نے عاصمؓ بن عَمرو کو اِس کے گرفتار کرنے کے لئے روانہ کیا، اُنہوں نے اُسے گرفتار کر لیا اور اُس کی سابقہ خیانت کی وجہ سے حضرت خالدؓ نے اُس کو قتل کرنے کا حکم دیا اور اُس کو قتل کر دیا گیا۔ اِس طرح الله تعالیٰ نے اُس کی خیانت اور غداری کی وجہ سے اُسے ہلاک کیا۔

دوران جنگ مُصَیّخ دو ایسے اسلامی فوجی مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے

جو مُصَیّخ میں مقیم اور جن کے پاس حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کا عطاء کیا ہوا اَمان نامہ بھی تھا، جب آپؓ کو اُن کے مارے جانے کی اطلاع ملی تو اُن کا خون بہا ادا کر دیا۔ حضرت عمرؓ نے اصرار کیا کہ حضرت خالدؓ بن ولید کو اُن کے اِس فعل کی سزاء ملنی چاہئے لیکن حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا! جو مسلمان دشمن کی سرزمین میں دشمن کے ساتھ قیام پذیر ہوں اُن کے ساتھ ایسی صورت حال پیدا ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں ہے، تاہم آپؓ نے اُن کی اولاد کی پرورش نیز خیال رکھنے کے متعلق وصیت بھی فرمائی۔

عرب کی آخری فتح فِراض مقام کی فتح تھی

حضرت خالدؓ بن ولید رُضاب پر قبضہ کر کے فِراض پہنچے، اِس سفر میں آپؓ کو بہت سے لڑائیاں پیش آئیں، یہاں آپؓ رمضان کے روزے بھی نہ رکھ سکے۔ حضرت خالدؓ کے اِن اچانک حملوں اور قبائل کے اِن کے بالمقابل عاجز رہنے کی خبریں عراق بھر میں پھیل چکی تھیں اور صحراء میں رہنے والے تمام قبائل خوفزدہ ہو چکے تھے، اُنہوں نے مسلمانوں کے آگے ہتھیار ڈالنے اور اُن کی اطاعت قبول کرنے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔ اگر عیاضؓ بن غنم کی قسمت ساتھ دیتی اور وہ ابتداء ہی سے دُومتہ الجندل فتح کر لیتے تو غالبًا خالدؓ فِراض تک نہ پہنچتے کیونکہ حضرت ابوبکر رضی الله عنہ کا منشاء سارے عراق اور شام کو فتح کرنے کا نہ تھا، وہ صرف یہ چاہتے تھے کہ اِن دونوں ملکوں کی سرحدوں پر جو عرب سے ملتی ہیں امن و امان قائم ہو جائے اور اِن اطراف سے ایرانی اور رومی عرب پر حملہ آور نہ ہو سکیں لیکن الله کو یہی منظور تھا کہ یہ دونوں مملکتیں مکمل طور پر مسلمانوں کے قبضہ میں آ جائیں، اِس لئے اُس نے ایسے اسباب پیدا کر دیئے کہ خالدؓ عراقی قبائل کو مطیع کرنے کی غرض سے انتہائی شمال تک چلے گئے اور اِس طرح مسلمانوں کے لئے بالائی جانب سے شام پر حملہ کرنے کا راستہ کھل گیا۔ فِراض میں حضرت خالدؓ بن ولید کو کامل ایک مہینہ قیام کرنا پڑا، یہاں بھی اُنہوں نے ایسی جرأت اور عظم و استقلال کا مظاہرہ کیا کہ وہ اپنی نظیر آپ ہے۔ عراق میں خالدؓ سیف الله نے جو معرکے سر کئے یہ اُس کی آخری کڑی تھی، اِس کے بعد ایرانیوں کی شان و شوکت خاک میں مِل گئی پھر اُن کو ایسی جنگی قوت حاصل نہ ہو سکی جس سے مسلمان خوفزدہ ہوں۔

عراق کی فتح پر ایک نظر

عراق پر چڑھائی ایک بہت بڑی کامیابی کی علامت تھی، وہاں مسلمانوں نے فارسی افواج کو جو اُن سے تعداد اور سامان حرب میں کہیں زیادہ طاقتور تھیں پے در پے تباہ کن شکستیں دیں، یاد رہے کہ فارسی لشکر اپنے وقت کا سب سے مہلک جنگی لشکر تھا، عہد صدیقی کا یہ ایک ایسا عظیم الشان کارنامہ ہے جس کی مثال تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اِس میں شک نہیں کہ عسکری میدان میں تمام تر کامیابی حضرت خالدؓ بن ولید، اِن کے رفقاء و سپۂ سالاروں کی مرہون منت ہے مگر اِس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اِن فتوحات اور کامیابیوں کو حضرت ابوبکرؓ جیسی عظیم شخصیت کی سرپرستی حاصل تھی۔ تاریخ گواہ ہے کہ کسی فوج کا کوئی بڑے سے بڑا با صلاحیت سپۂ سالار ایسے تیقن، یکسوئی، وفاداری اور خلوص کا مظاہرہ نہیں کر سکتا جب تک اُسے سربراہ مملکت کی ذاتی خوبیوں اور اعلیٰ کردار نے متاثر نہ کیا ہو۔ جہاں خلیفہ اوّلؓ کو تاریخ اسلام میں ایک اہم ترین مقام حاصل ہے وہاں سیّدنا خالدؓ بھی اِن نامور سپۂ سالاروں میں سب سے پہلے تھے جو بیرونی علاقوں کو فتح کرنے اور دنیا کے سیاسی اور مذہبی نقشہ کو نئی شکل دینے میں حضرت ابوبکرؓ کے دست راست تھے۔

خطبہ ثانیہ سے قبل

حضور انور ایدہ الله نے ارشاد فرمایا! اگلے جمعہ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ تَعَالٰی جماعت احمدیہ برطانیہ کا جلسۂ سالانہ بھی شروع ہو رہا ہے، دعا کریں الله تعالیٰ ہر لحاظ سے اِس جلسہ کو بابرکت فرمائے۔ شامل ہونے والے جو آ رہے ہیں اُن کا سفر بھی خیریت سے ہو ۔ جو ڈیوٹی دینے والے ہیں اُن کے لئے بھی دعا کریں، الله تعالیٰ اُن کو اپنے فرائض ادا کرنے کی صحیح طرح توفیق عطاء فرمائے کیونکہ دو بلکہ تین سال کے وقفہ سے (پچھلے سال ہوا تھا مگر چھوٹے پیمانہ پر) مکمل طور پر بڑا جلسہ اب ہو رہا ہے، اِس لئے بعض دقتیں بھی ہوں گی۔ الله تعالیٰ جو بھی انتظامی دقتیں ہیں یا جو بھی دقتیں کسی صورت میں پیدا ہو سکتی ہیں اُن کو دُور فرمائے۔

(قمر احمد ظفر۔ نمائندہ روزنامہ الفضل آن لائن جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 جولائی 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ