• 25 اپریل, 2024

تعارف سورۃ القصص (اٹھائیسویں سورۃ)

(مکی سورۃ، تسمیہ سمیت اس سورۃ کی 89 آیات ہیں)
ترجمہ از انگریزی ترجمہ قرآن (حضرت ملک غلام فرید صاحب) ایڈیشن 2003
(مترجم: وقار احمد بھٹی)

وقت نزول اور سیاق و سباق

ایک متفقہ رائے کے مطابق یہ سورۃ مکہ میں نازل ہوئی۔ حضرت عمر بن محمد ؓ کے مطابق یہ سورۃ ہجرت مدینہ کے دوران نازل ہوئی تھی۔ جبکہ آپ ﷺ مدینہ جا رہے تھے۔ جیساکہ آیت 86 میں فرمایا گیا ہے کہ ’یقینا ًوہ جس نے تجھ پر قرآن کو فرض کیا ہے ضرور تجھے ایک واپس آنے کی جگہ کی طرف واپس لے آئے گا۔ تو کہہ دے میرا رب اسے زیادہ جانتا ہے جو ہدایت لے کر آتا ہے اور جو کھلی کھلی گمراہی میں ہے‘۔ جو بڑی وضاحت سے ظاہر کرتی ہے کہ آنحضرت ﷺ ابھی مکہ میں ہی تھے جب انہیں بتایا گیا کہ آپ ﷺ کو مکہ سے نکلنا پڑے گا اور فاتحانہ شان کے ساتھ واپس مکہ میں داخل ہوں گے۔ سابقہ سورۃ اس آیت پر ختم ہوئی تھی کہ جو کوئی بھی ہدایت کی پیروی کرے وہ اپنی ذات کی بہتری کے لئے ہی پیروی کرتا ہے اور جو گمراہی میں مبتلا ہو تو کہہ دے کہ میں صرف ایک ہوشیار کرنے والا ہوں، جس کا مطلب ہے کہ قرآنی تعلیمات کی تبلیغ میں کبھی بھی طاقت کا استعمال کرنے کی اجازت نہ ہوگی۔ قرآن کریم کے اس دعویٰ کی تائید میں یہ موجودہ سورۃ (القصص) نازل ہوئی ہے۔

مضامین کا خلاصہ

موجودہ سورۃ ان تین سورتوں میں تیسری اور آخری سورۃ ہے جو ’طسم‘ کے گروپ سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ تینوں سورتیں ایک ہی جیسے حروف مقطعات سے شروع ہوتی ہیں ۔ اسی لئے ان کے مضامین میں غیر معمولی مشابہت پائی جاتی ہے۔ یہ سب سورتیں قرآنی وحی کے نزول کے مضمون کی اہمیت سے شروع ہوتی ہیں اور اسی مضمون پر ختم ہوتی ہیں۔ 26 ویں سورۃ کا ایک بڑا حصہ حضرت موسیٰ کی فرعون کو تبلیغ کرنے کے بارے میں ہے۔ 27 ویں سورۃ میں حضرت موسیٰ کے وادئ طویٰ میں الٰہی شان و شوکت کے نظارے اور روحانی تجربات کا ذکر کیا گیا ہے۔ موجودہ سورۃ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کی تفصیل بیان کی گئ ہےجو کسی دوسری سورۃ میں یوں بیان نہیں ہوئی جیسے کہ آُپ کا بچپن کی عمر میں سمندر سے معجزانہ طور پر زندہ نکالا جانا، آپ کا بچپن، جوانی، ہجرت اور پھر نبوت۔ اس مضمون کی اہمیت اس لئے ہے کہ آپ ﷺ مثیل موسیٰ ہیں لہٰذا آپ ﷺ کو بھی ایسے ہی تجربات سے گزرنا پڑے گا اگرچہ کچھ مختلف حالات کے ساتھ، جو ایک لازمی امر ہے۔

اس سورۃ (القصص) کا آغاز بھی اسرائیلیوں کی فرعون کے مقابل پر قابل رحم حالت کے ذکر سے کیا گیا ہے کہ کس طرح اپنےبے رحم استحصال اور ظلم سے اس نے بنی اسرائیلیوں کی مردانہ صفات جیسے جرات اور دلیری کا قتل کیا اور جب ان کی تذلیل اپنی انتہا کو پہنچ گئی تو خدا نے حضرت موسیٰ کو مبعوث کیا اور ان بنی اسرائیلیوں کی آنکھوں کے سامنے فرعون اور اس کے لشکر کو سمندر میں غرق کرکے ان کی نجات کے سامان پیدا کئے۔حضرت موسیٰ کے حالات زندگی کے تذکرہ کے بعد اس سورۃ میں آنحضرت ﷺ کے بارہ میں بائیبل میں مذکور پیشگوئیوں کا ذکر کیا گیا ہے اور قریش کو بتایا گیا ہے کہ اگر وہ آپ ﷺ کو قبول کرلیں گے تو وہ ان تمام روحانی اور مادی نعمتوں کے وارث ہوں گے جو اس نئے عقیدہ (اسلام) کا مرکز ہونے کی وجہ سے مکہ کے مقدر میں لکھی جا چکی ہیں۔ لیکن اگر انہوں نے انکار کیا تو وہ خدا کے غضب کو بھڑکانے والے ہوں گے۔

پھر اس سورۃ میں بتایا گیاہے کہ جب کفار مستقل بنیادوں پر سچائی کو جھٹلاتے ہیں اور سزا کے مستحق بن جاتے ہیں اور مورد غضب ہوتے ہیں تو وہ اپنے سرداروں کو برا بھلا کہنے لگتے ہیں کہ ان کی وجہ سے وہ گمراہ ہوئے اور ان کی بربادی کی وجہ بھی ہیں۔ ان کے مقابل پر ان کے سردار ان سے لا تعلقی کا اظہار کرتے ہیں بلکہ ان کی اندھا دھند تقلیدکی وجہ سے ان پر لعنت کریں گے۔ اس سورۃ میں بتایا گیاہے کہ ان کے انکار کی بنیادی وجہ دنیاوی مال و متاع کی کثرت اور اپنے تئیں محفوظ سمجھنا ہے۔ مالدار لوگ خداکے نبیوں کا استہزاء کرتے ہیں اور ان سے ظلم و تعدی سے پیش آتے ہیں اور تاریخی اوراق میں محفوظ اس سبق کو بھول جاتے ہیں کہ کبھی حق کی مخالفت کو بغیر سزا کے نہیں چھوڑا گیا اور حق کا انکار کرنے والوں کا مقدر بربادی کے سوا کچھ نہیں ہوا۔

اس سورۃ کے اختتام پر ایک عظیم پیشگوئی کا حوالہ دیا گیاہے جو حضرت موسیٰ کے مصر سے مدین کے سفر کے دوران کی گئی تھی کہ آپ دس سال تک حالت سفر میں رہےپھر مصر واپسی ہوئی اور بنی اسرائیلیوں کو فرعون سے آزاد کروایا۔ اس پیشگوئی کا گہرا تعلق آنحضرت ﷺ سے ہےکہ آپؐ بھی اپنے آبائی شہر مکہ کو چھوڑ کر چلے جائیں گے او ر دس سال تک ایک اجنبی جگہ میں رہیں گےاور پھر اپنے عقیدہ کے مرکز (مکہ) میں فاتحانہ شان سے واپس لوٹیں گے اور اسلام کو مضبوط بنیادوں پر مستحکم کردیں گے۔ اس سورۃ کی آخری آیات میں اس کے مضامین کا خلاصہ یوں بیان کیا گیا ہےکہ آنحضرت ﷺ کو بتایا گیاہےکہ آپ کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ آپ پر خدا کی وحی کا نزول ہوگا مگر اب چونکہ اس عظیم مقصد کے لئے آپ کو خدا نے چن لیا ہے تو آپ کو جملہ انسانیت کو خدا کی طرف بلانا ہے اور خدا پر توکل رکھنا چاہیئے اور حوصلہ نہیں ہارنا چاہیئے اور کامیابی کے لئے بھرپور کوشش کرنی چاہیئے جیساکہ آپ سچائی کے بلند مینار پر فائز ہیں۔

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 ستمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 اکتوبر 2020