• 24 اپریل, 2024

سر زمینِ امریکہ کے ابتدائی احمدی

امریکہ کےاوّلین احباب جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے خط و کتابت کے ذریعہ یا رسالہ ریویو آف ریلیجنز انگریزی (Review of Religions English) کے مطالعہ سے بشرفِ اسلام ہوئے ان کا تذکرہ کرنا مقصود ہے۔

؎ہر طرف آواز دینا ہے ہمارا کام آج
جس کی فطرت نیک ہے وہ آئے گا انجام کار

امام الزّمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کتاب ازالہ اوہام حصہ دوم میں تحریر کرتے ہیں:
اس عاجز پر جو ایک رؤیا میں ظاہر کیا گیا ہے وہ یہ ہے جو مغرب کی طرف سے آفتاب کا چڑھنا یہ معنیٰ رکھتا ہے کہ ممالک مغربی جو قدیم سے ظلمت کفرو ضلالت میں ہیں آفتابِ صداقت سے منّور کئے جائیں گے اور ان کو اسلام سے حصّہ ملے گا۔ اور میں نے دیکھا کہ میں شہرلنڈن میں ایک منبر پر کھڑا ہوں اور انگریزی زبان میں ایک نہایت مدلّل بیان سے اسلام کی صداقت ظاہر کر رہاہوں۔ بعد اس کے میں نے بہت سے پرندے پکڑے جو چھوٹے چھوٹے درختوں پر بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے رنگ سفید تھے اور شاید تیتر کے جسم کے موافق ان کا جسم ہوگا۔ سو میں نے اس کی یہ تعبیر کی کہ اگرچہ میں نہیں مگر میری تحریریں ان لوگوں میں پھیلیں گی۔ اور بہت سے راستباز انگریز صداقت کے شکار ہو جائیں گے۔ درحقیقت آج تک مغربی ملکوں کی مناسبت دینی سچائیوں کے ساتھ بہت کم رہی ہے گویا خداتعالیٰ نے دین کی عقل تمام ایشیا کو دے دی اور دنیا کی عقل تمام یورپ اور امریکہ کو۔ نبیوں کا سلسلہ بھی اول سے آخر تک ایشیا کے ہی حصہ میں رہا اور ولایت کے کمالات بھی انہیں لوگوں کو ملے۔ اب خدائے تعالیٰ ان لوگوں پر نظر رحمت ڈالنا چاہتا ہے۔

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد3 صفحہ376 تا 377)

1901ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک تجویز پر ریویو آف ریلیجنز انگریزی اور اردو زبان میں جنوری 1902ء سے جاری ہوا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل اور حضورؑ کی روحانی توجہ کی بدولت رسالہ کو اندرون ملک میں ہی نہیں مغربی ممالک میں بھی بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس کی وجہ سے یورپ اور امریکہ کے نو مسلم انگریزوں میں اسلام کے لئے نیا جوش اور نیا ولولہ پیدا کیا۔

(تاریخ احمدیت جلدنمبر2 صفحہ203 تا 204)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے خط و کتابت اور ریویو آف ریلیجنز انگریزی کی بدولت امریکہ کی تین سعید روحوں کو احمدیت یعنی حقیقی اسلام قبول کرنے کی توفیق ملی۔ ان کے اسم ِگرامی مندرجہ ذیل ہیں:

1۔ ایف ایل اینڈرسن (F.L. Andersen) (مرزا حسن)
2۔ چارلس فرانسس سیورائٹ (Charles Francis Sievwright) (محمدعبدالحق)
3۔ڈاکٹر انتھونی جارج بیکر (Dr. Anthony George Baker)

ایف ایل اینڈرسن

ایف ایل اینڈرسن پہلے احمدی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں 26 ستمبر 1904ء میں ایمان لائے۔ آپؑ نے اُن کا نام حسن رکھا۔وہ ایک سائنسدان تھے اور نیو یارک شہر کے فرسٹ سائنٹیفک سٹیشن (First Scientific Station)پر ملازمت کرتے تھے۔اخبار البدر کی 14 ستمبر 1905ء کی اشاعت میں ان کے ایک خط کا اردو ترجمہ شائع ہوا۔ حضرت مفتی محمد صادق رضی اللہ عنہ سے 1901ء سے اُن کی خط و کتابت جاری تھی۔ وہ اپنے خطوط میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حال و احوال پوچھتے رہتے تھے۔ اس بات کی انہیں بڑی خوشی تھی کہ جماعت احمدیہ نے انہیں قبول کر لیا ہے۔ انہوں نے درخواست کی کہ جماعت احمدیہ انہیں ایک عددسرٹیفکٹ جاری کر دے کہ وہ احمدی مسلمان ہیں۔وہ ریویو آف ریلیجنز کا باقاعدگی سے مطالعہ کرتے اور اس میں شائع شدہ مضامین پر تبصرہ بھی کرتے تھے۔اپنے خطوط میں تمام احمدیوں کو السلام علیکم کا تحفہ بھی ارسال کیا کرتے تھے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایف ایل اینڈرسن کے بارے میں اپنی کتاب براہین احمدیہ میں تحریر فرماتے ہیں:
یورپ یا امریکہ کے قدیم عیسائیوں میں بھی تھوڑے عرصہ سے ہمارے سلسلہ کا رواج ہوتا جاتا ہے چنانچہ حال میں ہی ایک معزز انگریز شہر نیو یارک کا رہنے والا جو ملک یونائیٹڈ اسٹیٹ امریکہ میں ہے جس کا پہلا نام ہے ایف ایل اینڈرسن نمبر 202۔200 ورتھ سٹریٹ۔ اور بعد اسلام اس کا نام حَسن رکھا گیا ہے وہ ہماری جماعت یعنی سلسلہ احمدیہ میں داخل ہے اور اس نے اپنے ہاتھ سے چٹھی لکھ کر اپنا نام اس جماعت میں درج کرایا ہے اور ہماری کتابیں جو انگریزی میں ترجمہ شدہ ہیں پڑھتا ہے قرآن شریف کو عربی میں پڑھ لیتا ہے۔ اورلکھ بھی سکتاہے۔

(براہین احمدیہ جلد پنجم، روحانی خزائن جلد21 صفحہ106)

چارلس فرانسس سیورائٹ
(Charles Francis Sievwright) (محمد عبدالحق)

چارلس فرانسس سیورائٹ 1862ء میں مارکس سیورائٹ (Marcus Sievwright) اور جوسفین لاہو (Josephine Lahou) کے ہاں فٹزرائے وکٹوریہ (Fitzroy, Victoria)آسٹریلیا میں پیدا ہوئے۔ وہ آسٹریلیا میں ایک اعلیٰ عہدہ پر فائز رہے۔بعد میں وہ برٹش اور انڈین لیگ آسٹریلیا میں بطور کمشنر کے فرائض انجام دیتے رہے۔ اسلام کو جانچنے کے لئے انڈیا کا طویل سفر اختیارکیا۔وہ لکھتے ہیں:
میں 34 سال کی عمر میں 23 مارچ 1896ء کو اسلامی فلاسفی کا کھوج لگانے کے لئے سفر پر روانہ ہوا۔اس سفر کی وجہ سے میں نےایک کٹر عیسائی سے فطرتی مذہب اسلام کوقبول کیا جو کہ محمدرسول اللہ لائے تھے۔میں یہ بتاتا چلوں کہ مسلم سن رائز کے 1906ء کے ایک شمارے میں اس بات کا علی الاعلان ذکر کیا کہ وہ نسلی اعتبار سے محمدکے پیروکار نہیں بلکہ محمد رسول اللہ کے مذہب کے سچےعاشق ہیں۔اس سفر کا مقصد اسلامی تعلیم بھی حاصل کرنا تھا۔وہ لکھتے ہیں کہ اس بامقصد سفر کا مکمل احوال جاننے کے لئے ایک ضخیم کتاب درکار ہوگی۔

انہوں نے 1903ء میں قادیان کا تاریخی سفراختیار کیا جس کی بدولت وہ چارلس فرانسس سیورائٹ سےمحمد عبدالحق صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کہلائے۔قادیان کی زیارت کے بعد انہوں نے ریویو آف ریلیجنز میں صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اعلان کیا۔اس کے علاوہ 1923ء میں اپنے عقیدے کا اظہار مسلم سن رائز میں دوبارہ کیا۔ وہ لکھتے ہیں:
آخرکا ر بہت سوچ و بچار کے بعد ریویو آف ریلیجنز،اپریل 1906ء میں اعلان کیا تھاکہ وہ جماعت احمدیہ کے ممبر ہیں جو کہ دنیا کا سب سے اعلیٰ و ارفع مذہب ہے۔ یہ بات میں دور دراز ملک نیوزی لینڈ سے لکھ رہا ہوں۔ میں نے جو بھی اوپر کے پیرے میں لکھا وہ میرا سچا اور پختہ عقیدہ ہے۔ قادیان سے رخصت ہوئے اب 19 سال بیت گئے ہیں۔

(مسلم سن رائز 1922ء نمبر 4، صفحات 143 تا 146)

ڈاکٹرانتھونی جارج بیکر
(Dr. Anthony George Baker)

انتھونی جارج بیکرآف پینسلوینیا (Pennsylvania) امریکہ کے مشہور شہر پٹس برگ (Pittsburgh)میں 2 فروری 1849ء کو پیدا ہوئے۔وہ ڈاکٹر جیکب بیکر (Dr. Jacob Baker)اور میری کیتھرین پلاٹ (Mary Catherine Platt) کے بیٹے تھے جو جرمنی سے ہجرت کرکے امریکہ میں آباد ہوئے تھے۔وہ پٹس برگ میں جوان ہوئے۔ اپنی شروع کی تعلیم پٹس برگ پبلک سکول سے حاصل کی۔ 1869ء میں ویسٹرن یونیورسٹی پینسلوینیا (Western University Pennsylvania) جو بعد میں یونیورسٹی آف پٹس برگ کےنام سے جانی جاتی ہے،سے گریجویٹ کی ڈگری حاصل کی۔اس کے بعد 1873ء میں ایک مذہبی مدرسہ سے بیچولر آف ڈیونٹی (Bachelor of Divinity) کی ڈگری لی اور ایک گرجا گاہ میں وزیرمقررہوئے۔1877ء میں بینڈولف الینویئے (Bendolph Illinois) میں کچھ کام کیا۔ کچھ عرصہ بعد ان کی منتقلی اٹلانٹک سٹی (Atlantic City)، نیوجرسی میں ہو گئی۔ انہوں نے مذہب کا مطالعہ جاری رکھا۔ 1878ء میں آپ کی تعیناتی سینٹ جارج چرچ فلاڈلفیا (St. George Church) پینسلوینیا میں اسسٹنٹ ریکٹر (Assistant Rector) کے عہدہ پر ہوئی۔ایک سال کے بعد وہ پادری بن گئے اور سینٹ سائمن چرچ (St. Simon Church)کی بنیاد رکھی۔1887ء میں آپ جیفرسن یونیورسٹی (Jefferson University) سے بچوں (Pediatrics) کے ڈاکٹر کی ڈگری حاصل کی۔ پھر اچانک 38 سال کی عمر میں ہی ریٹائر ہوگئے اور شعبہ میڈیسن میں اپنی پریکٹس شروع کر دی۔اس کے علاوہ انہوں نے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی خدمات کئی ہسپتالوں کو دی ہوئی تھیں۔
ڈاکٹر بیکر نے اپنا علم عیسا ئیت کے فروغ تک محدود نہ رکھابلکہ مشرقی مذاہب کا مطالعہ بھی کرتے رہے۔انہوں نے یورپ کی تمام جدید زبانوں، عربی اور چینی زبانوں میں بھی مہارت حاصل کر لی۔ کئی زبانوں میں کتب بھی تحریر کیں۔آخرکار یہ علم دوستی ان کو انڈیا لے گئی۔

1904ء میں اخبار البدر قادیان کے ایڈیٹر مفتی محمد صادق نے تحقیقِ ادیان و تبلیغ اسلام کے عنوان سے ایک نیا سیکشن شروع کیا جس کا مقصد عام لوگوں کے لئے مذہب سے آگاہی اور دلچسپی قائم کرنا تھا۔اسی ہفتہ ان کو ایک نئے مسلمان کا خط ملا جو امریکہ میں رہتے تھے۔مفتی صاحب انہیں جانتے نہ تھے۔یہ سب ایک اشتہار کی وجہ سےممکن ہوا جو ایک کتاب فروش نے اخبار میں دیا تھا۔

(ذکر حبیب مصنفہ مفتی محمد صادق صفحہ347)

مفتی محمد صادق صاحب نے کتاب ذکرِ حبیب میں ڈاکٹر بیکر کے ایک خط کا اردو ترجمہ اور اپنا جواب شائع کیا۔ آپؓ نے ڈاکٹر بیکر سے استفسار کیاکہ وہ اپنا مذہب بتائیں جس پر وہ ایمان رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر بیکر نے لکھا:
میں نےاسلامی تعلیمات اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے گہرے لگاؤ کا اظہار کوپر لٹریری انسٹیٹیوٹ (Cooper Literary Institute) فلاڈلفیا کے لیکچروں میں بانگِ دہل کیا ہے۔کچھ لیکچر ریویو آف ریلیجنز میں فروری 1912ء اور اگست 1913ء میں چھپنے کے لئے بھجوائے ہیں۔

ان مضامین میں جو اگست 1913ء میں شائع ہوئے، ڈاکٹر بیکر نے حضرت مرزا غلام احمد کے نبی ہونے کا بھرپور اظہار کیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نہ صرف مسلمانِ ہند بلکہ تمام انسانیت کے لئے بے بہا علمی خزانے عنایت کئے۔

(ریویو آف ریلیجنز اگست 1913ء، صفحہ327)

احمدیہ مشن امریکہ کی رپورٹ میں جو ریویو آف ریلیجنز مارچ 1916ء، صفحہ 154 پر دیکھی جاسکتی ہے۔ڈاکٹر بیکر نے لکھا کہ وہ سچے مسلمان ہیں، قرآن اور اس کا ترجمہ پڑھتے ہیں اور جو اسلام میں ضروری ہے اسے سر انجام دیتے ہیں۔

ڈاکٹر انتھونی جارج بیکر19 فروری 1918ء کو نمونیا کے حملے میں وفات پاگئے۔ اس وقت ان کی عمر 69 سال تھی۔ وہ فلاڈلفیا کے پہلے احمدی صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھے۔ ان کی تدفین آبائی قبرستان واقع لارل ہل (Laurel Hill)میں ہوئی۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ 20 اکتوبر 2018ء کو دعا کی غرض سے لارل ہل کے قبرستان تشریف لے گئے اور اس صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مغفرت کے لئے دعا کی۔ یہ سو سال پرانی قبر شاید قصہ پارینہ بن جاتی اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس صحابی کا ذکر اپنی کتاب میں نہ کرتے۔ آپؑ لکھتے ہیں:
ایسا ہی اور کئی انگریز ان ملکوں میں اس سلسلہ کے ثناخواں ہیں اور اپنی موافقت اس سے ظاہر کرتے ہیں۔ چنانچہ ڈاکٹر بیکرجن کانام ہے اےجارج بیکر نمبر 404 سیس کوئی ھینا ایونیو فلاڈلفیا امریکہ۔ میگزین ریویو آف ریلیجنز میں میرا نام اور تذکرہ پڑھ کر اپنی چٹھی میں یہ الفاظ لکھتے ہیں:
’’مجھے آپ کے امام کے خیالات کے ساتھ بالکل اتفاق ہے انہوں نے اسلام کو ٹھیک اُس شکل میں دنیا کے سامنے پیش کیا ہے جس شکل میں حضرت نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کیا تھا‘‘ ۔۔۔ اسی طرح اور کئی خط امریکہ انگلینڈ روس وغیرہ ممالک سے متواتر آرہے ہیں اور وہ تمام خطوط متعصّب منکروں کے منہ بند کرنے کے لئے محفوظ رکھے جاتے ہیں۔ ایک بھی ضائع نہیں کیا گیا۔

(براہین احمدیہ جلد پنجم، روحانی خزائن جلد21 صفحہ106 تا 107)

(ڈاکٹر محمود احمد ناگی۔ کولمبس اوہایو)

پچھلا پڑھیں

مطالعہ کتب حضرت مسیح موعودؑ حصول برکات کا ذریعہ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 اکتوبر 2021