• 20 اپریل, 2024

تیری ہر بات ہے سر آنکھوں پر

مجھ سے اونچا ترا قد ہے، حد ہے
پھر بھی سینے میں حسد ہے، حد ہے

میرے تو لفظ بھی کوڑی کے نہیں
تیرا نقطہ بھی سند ہے، حد ہے

تیری ہر بات ہے سر آنکھوں پر
میری ہر بات ہی رد ہے، حد ہے

عشق میری ہی تمنا تو نہیں
تیری نیت بھی تو بد ہے، حد ہے

زندگی کو ہے ضرورت میری
اور ضرورت بھی اشد ہے، حد ہے

بے تحاشہ ہیں ستارے لیکن
چاند بس ایک عدد ہے، حد ہے

اشک آنکھوں سے یہ کہہ کر نکلا
یہ ترے ضبط کی حد ہے حد ہے

شاعری پر ہے وہ اب تک غالب
نام میں جس کے اسد ہے حد ہے

روک سکتے ہو تو روکو جاذل
یہ جو سانسوں کی رسد ہے، حد ہے

(جواد جاذل)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 ستمبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ