• 25 اپریل, 2024

دعا ہر احمدی کا ہتھیار ہے

حدیقة النساء
دعا ہر احمدی کا ہتھیار ہے

؎غیر ممکن کو یہ ممکن میں بدل دیتی ہے
اے میرے فلسفیو! زورِ دعا دیکھو تو

زمانہ پیدائش سے لے کر بستر مرگ تک انسان کمزور ہے، لاچار ہے، محتاج ہے، محدودعلم، محدود وسائل رکھتا ہے دنیا کا طاقتور ترین انسان بھی زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر مدد کا امیدوار ہوتا ہے۔ مدد کسی بھی رنگ میں ہو مگر انسان کو درکار ہوتی ہے اور انسانی مدد بھی ایک خاص حد تک ہوتی ہے ایسے بھی صرف اور صرف خدائے عزّوجل کی ذات ہی انسان کی ہرمشکل کا حل ہے۔ وہی ہے جو ہر بظاہر غیر ممکن کام کو آسان اور ممکن بنا دیتی ہے۔ خدا تعالیٰ کتاب رحمان میں بار بار دعا کرنے کی تلقین کرتا ہے وہ پکارنے والے کو نوازتا ہے۔ فرماتا ہے۔

وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ ؕ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙ فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ وَلۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ لَعَلَّہُمۡ یَرۡشُدُوۡنَ ﴿۱۸۷﴾

(البقرہ: 187)

اور جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں تو یقیناً میں قریب ہوں۔ میں دعا کرنے والے کی دعا کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔ پس چاہئے کہ وہ بھی میری بات پر لبّیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پائیں۔

خداتعالیٰ ایک مخفی خزانہ تھا جب اس نے چاہا کہ وہ پہچانا جائے تو اس نے بنی نوع انسان کو تخلیق کر کے اسے اپنی ذات کا عرفان و شعور بخشا خدا تعالیٰ کی بے شمار صفات میں ایک صفت مجیب الدعوات بھی ہے وہ حیی و القیوم خدا سمیع الدعوۃ بھی ہے وہ جو زندہ ہے اور زندگی بخشتا ہے۔ وہ جو کہتا ہے کہ مجھ سے مانگو میں تمہیں نوازوں گا۔ پس ہمیں کبھی بھی رحمت خداوندی سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔

؎بارگاہ ایزدی سے تو نہ مایوس ہو
مشکلیں کیا چیز ہیں مشکل کشا کے سامنے
حاجتیں پوری کریں گے کیا تیری عاجز بشر
کر بیاں سب حاجتیں حاجت روا کے سامنے

(درثمین)

ہمارے پیارے آقا افضل الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ ہمارے لیے باعث تقلید ہے۔ آپ کی شب بیداریاں اور راتوں کو کی گئی گریہ و زاری نے صدیوں کے مردوں کو زندہ کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ تو بڑا حیا والا ہے۔ بڑا کریم ہے، سخی ہے۔ جب بندہ اس کے حضور اپنے ہاتھ بلند کرتا ہے تو وہ ان کو خالی اور ناکام واپس کرتے ہوئے شرماتا ہے۔

(ابو داؤد ابواب الوتر باب الدعاء)

اب ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ خدا تعالیٰ کیوں ہر ناممکن دعا کو بھی شرف قبولیت بخشتا ہے۔ کیونکہ وہ ہر چیز پر قادر ہے اور انسان خدا تعالیٰ کی تخلیق ہے اور یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ ادنیٰ خالق بھی اپنی تخلیق سے پیار کرتا ہے۔ صانع اپنی صنعت سے پیار کرتا ہے مصور اپنی بنائی گئی تصاویر سے، افسانہ نگار اپنے خیالی گھڑے گئے افسانونی کرداروں سے، شاعر اپنے اشعار سے، انجینیر اپنی بنائی گئی عمارات سے الفت و محبت کے جذبات رکھتا ہے۔ جب ادنیٰ خالق کا یہ حال ہے تو وہ کامل ذات جو احسن الخالق ہے وہ اپنی مخلوق سے پیار کا سلوک نہ کرے یہ کس طور ممکن ہے۔ اب ہمیں بحیثیت مخلوق چاہیے کہ ہم خدا کی محبت میں گم ہو کر اس سے مانگیں تاکہ وہ ہم پر انعام کرے۔

مہدی آخر الزماں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعا کو ایک لازوال اور ناقابل تسخیر ہتھیار قرار دیا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں:
’’دعا میں اللہ تعالیٰ نے بڑی قوتیں رکھی ہیں۔ خدا نے مجھے بار بار بذریعہ الہامات کے یہی فرمایا ہے جو کچھ ہوگا دعا کے ذریعے ہی ہوگا۔ ہمارا ہتھیار تو دعا ہی ہے اور اس کے سوا کوئی ہتھیار میرے پاس نہیں ہے جو کچھ ہم پوشیدہ مانگتے ہیں خدا اس کو ظاہر کرکے دکھا دیتا ہے۔‘‘

(روحانی خزائن جلد2 صفحہ156)

غیر ممکن صرف انسان کے لیے ہوتا ہے خدا تعالیٰ تو صرف کُن کہتا ہے اور وہ کام وقوع پذیر ہو جاتا ہے۔ دعا ایک ایسی چیز ہے جو کہ خشک لکڑی کو سرسبز و شاداب کر سکتی ہے جو بظاہر ایک ناممکن بات لگتی ہے۔ دعا کے ذریعے ممکن ہو سکتا ہے۔ دعا تو وہ ہے جو فرش سے کی جائے تو عرش کو ہلا دیتی ہے دعا تو وہ ہے جو ابراہیم کے لیے تپتے انگاروں کو گل و گلزار بنا دیتی ہے یہ دعا سے ہی ممکن ہوا کہ حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں بھی زندہ رہے۔ یہ دعا سے ہی ممکن ہوا کہ حضرت موسیؑ کو مارنے کے فرعون کے سب منصوبے خاک میں مل گئے اور بالآخر انہوں نے ہی اس متکبر کا تخت الٹا دیا۔

؎ یہ دعا ہی کا تھا معجزہ کہ عصا ساحروں کے مقابل بنا اژدھا
آج بھی دیکھنا مرد حق کی دعا سحر کی ناگنوں کونگل جائے گی

(کلام طاہر)

یہ دعا ہی تھی جس نے حضرت اسماعیلؑ کے پیروں تلے سے زمزم بہا دیا اور ان کی بجائے دنبے پر چھری چلوا دی۔ یہ دعا ہی تھی جس نے عرب کے بدووٴں کو اطاعت سکھا دی۔ انہیں بتوں کی بجائے ایک زندہ خدا کی پہچان کروا کر اسی حنیف ذات کے آگے جھکنا سکھا دیا۔ یہ دعا ہی تھی کہ قادیان کی گمنام بستی سے اٹھنے والی آواز آج دو سو سے زائد ممالک میں گونج رہی ہے۔ یہ اسی فانی فی اللہ اور اس کے عاشق صادق کی دعاؤں کی ہی برکات ہیں کہ وہ خلافت جس کا لوگ نام و نشان تک مٹا دینا چاہتے تھے آج ہم اس کے پانچویں دور سے گزر رہے ہیں۔ یہ خدائی قدرت کی معجزہ نمائی ہی ہے کہ وہ زمین جسے بنجر اور بانجھ قرار دیا جا چکا تھا اس پر حضرت فضل عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آہ و زاریوں نے وہ گلستان کھلائے کہ اس کرہ ارض کو منکرین خلافت نے بھی جنت قرار دیا۔ پھر سن 74ء کا پُر آشوب دور ہو یا خلافت رابعہ کی ہجرت کیا یہ ناممکنات میں سے نہ تھا؟ لیکن ممکن ہوا کیسے؟ اسی ہتھیار سے جو ہر احمدی کو دیا گیا یعنی دعا کا ہتھیار۔ ایم ٹی اے کا نہ صرف قیام ہوا بلکہ کسی بھی دنیاوی مدد کے بغیر چلنے والا دنیا کا واحد چینل کیا یہ اس مطہر وجود کی قبولیت دعا کا نشان نہیں؟

؎راتوں کو آکے دیتا ہےمجھ کو تسلیاں
مردہ خدا کو کیا کروں میرا خدا یہ ہے

افریقہ کےصحراؤں میں گندم اگانے کا کامیاب تجربہ کرنے والے جن کو خدا تعالیٰ نے انی معک یا مسرور کہہ کر اپنی مدد کا یقین دلایا۔ وہی خدا جو مسیح پاک کو الہام کرتا ہےکہ ’’جے تو میرا ہو رہیں سب جگ تیرا ہو‘‘

یہ وہی خدا ہے جو فضل عمر رضی اللہ تعالیٰ کو زہر پینے سے محفوظ رکھتا ہے اور قاتلانہ حملہ سے بھی بچا لیتا ہے تو کبھی حضرت مرزا طاہر احمد رحمہ اللہ تعالیٰ کی جگہ ناصر احمد لکھوا کر بحفاظت اس مرد خدا کو ملک سے باہر بھیج دیتا ہے۔ یہ وہی خدا ہے جو بانجھ عورتوں کو اولاد سے نوازتا ہے اور بستر مرگ پر پڑے مریض کو کامل شفا عطاکرتا ہے۔ نامساعد حالات کو سازگار بناتا ہے۔ اس کلیم خدا کے لیے کچھ بھی ناممکن نہیں بس ہمیں ہی اپنی آنکھوں کے پانی کو اس کے آگے بہانا چاہیے اور اپنی راتوں کے تیروں سے اپنی زندگی سنوارنی چاہیے۔ ہم صرف اسی ہتھیار کے ذریعے اپنی بگڑی قسمت سنوار سکتے ہیں۔ کیونکہ ہمارے موجودہ خلیفہٴ وقت نے بھی اپنے پہلے خطاب میں جماعت کو یہی نصیحت فرمائی تھی کہ دعائیں کریں، دعائیں کریں، دعاؤں پر بہت زور دیں۔

دعا کی فرضیت اور برکات سے متعلق حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ فرماتے ہیں:
’’میں نے اپنے بچوں کو بچپن سے یہی تربیت دی ہے کہ تم ہر مشکل کے وقت خدا کو کہا کرو اور اس سے دعا مانگا کرو۔ لیکن ہمارا خدا تو ہماری پیدائش سے بھی پہلے موجود تھا اور اس پر تو کبھی موت نہیں آئے گی۔ اس لیے بچوں کو یہ سکھانا ضروری ہے کہ پہلے اپنے خدا سے تعلق جوڑیں اور پھر اپنے ماں باپ سے۔ تب وہ دیکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل ان پر نازل ہوں گے۔ چنا نچہ میرے بچوں نے جب دعائیں کیں۔ ایسے حیرت انگیز طور پر پوری ہوئیں کہ کئی دفعہ ان کو یقین نہیں آتا کہ خدا تعالیٰ اتنی جلدی قبول فرما لے گا۔‘‘

(تشحیذالاذھان جنوری1984ء)

خدا کرے کہ ہم سب اس مجیب الدعاء کے زندہ وجود کے نظارے اپنی آنکھوں سے دیکھنے والے ہوں اور اس ہتھیار کے ساتھ اپنی اور جماعت کے ہر فرد کی قسمت بدل دینے والے ہوں۔ کیونکہ خدا تعالیٰ ہر مضطر کی دعا قبول کرتا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

آمین یا رب العالمین

(صدف علیم صدیقی۔کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

ریشہ دار (فائبر والی) غذاؤں کی افادیت اور ذرائع

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 دسمبر 2022