• 25 اپریل, 2024

روزنامہ الفضل کی اشاعت پر دو خصوصی پیغامات

اخبار قوم کی زندگی کی علامت ہے۔ جو قوم زندہ رہنا چاہتی ہے اسے اخبار کو زندہ رکھنا چاہئے

روزنامہ الفضل 18جون 1913ء کوقادیان سے جاری ہوا تھا قیام پاکستان کے بعد الفضل لاہور سے شائع ہوتا رہاجلسہ سالانہ 1954ء کے ایام میں لاہور سے ربوہ منتقل کر دیا گیا اور 31دسمبر 1954ء سے ضیاء الاسلام پریس ربوہ میں چھپنے لگا۔ اس طرح الفضل قریباً سات برس کے بعد دوبارہ مرکز احمدیت سے نکلنا شروع ہوا۔ جس پر احباب جماعت نے بہت خوشی اور مسرت کا اظہار کیا اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ اور حضرت مرزا بشیر احمد ؓنے اس موقعہ پر جماعت احمدیہ کے نام خصوصی پیغامات دئیے۔ حضرت مصلح موعودؓ کے پیغام کا متن یہ تھا۔

حضرت مصلح موعودؓ کا پیغام

’’ آج ربوہ سے اخبار شائع ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کا ربوہ سے نکلنا مبارک کرے اور جب تک یہاں سے نکلنا مقدرہے۔ اس کو اپنے صحیح فرائض ادا کرنے کی توفیق دے۔ اخبار قوم کی زندگی کی علامت ہوتا ہے۔ جو قوم زندہ رہنا چاہتی ہے۔ اسے اخبار کو زندہ رکھنا چاہئے اور اپنے اخبار کے مطالعہ کی عادت ڈالنی چاہئے۔اللہ تعالیٰ آپ کو ان امور پر عمل کرنے کی توفیق بخشے۔‘‘

خاکسار مرزا محمود احمد

(الفضل 31دسمبر 1954ء)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ کا پیغام

حضرت صاحبزادہ مرزابشیر احمدؓ نے ’’ الفضل کا دورجدید‘‘ کے عنوان سے یہ رقم فرمایا:۔
الحمدللہ ثم الحمدللہ کہ ایک لمبے وقفہ کے بعد الفضل پھر مرکز سلسلہ سے نکلنا شروع ہو گیاہے غالباً 43 سال کا عرصہ گزرا کہ سلسلہ احمدیہ کے مرکز قادیان سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ سے الفضل کا اجراء ہوا۔ یہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کا زمانہ تھا۔ اس کے بعد ہمارا یہ مرکزی اخبار خدا کے فضل سے مسلسل ترقی کرتا گیا۔ حتیٰ کہ ملکی تقسیم کے دھکے کے نتیجہ میں الفضل کو بھی جماعت کی اکثریت کے ساتھ قادیان سے نکلنا پڑا۔ جس کے بعد حالات کی مجبوری کے ماتحت وہ لاہور سے شائع ہوتا رہا۔ یہ گویا اس کے لئے برزخ کا زمانہ تھااب سات سال کے درمیانی زمانہ کے بعد الفضل پھر ربوہ یعنی مرکز سلسلہ نمبر2سے نکلنا شروع ہوا ہے۔ الفضل کے اس نئے دور میں تمام جماعت کی دعائیں اس کے ساتھ ہیں اور ہر مخلص احمدی کے دل سے یہ صدا اٹھ رہی ہے کہ مرکز سلسلہ کا یہ پودا جو گویا اب اپنے بلوغ کو پہنچ رہا ہے۔بیش از بیش سُرعت کے ساتھ بڑھے اور پھیلے اور پھولے اور اس کے پھلوں سے لوگ زیادہ سے زیادہ مستفیض ہوں۔ مگر اس تبدیلی کے نتیجہ میں جہاں جماعت کی یہ ذمہ داری بڑھ گئی ہے کہ وہ اپنے اس مرکزی اخبار کی اشاعت کی توسیع میں پہلے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لے اور مرکز کی ان صحافتی تاروں کو اور بھی زیادہ وسیع اور مضبوط کر دے جو اسے افراد جماعت کے ساتھ باندھ رہی ہیں۔ وہاں الفضل کے عملہ کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ نہ صرف الفضل کو زیادہ سے زیادہ مفید اور دلکش بنائے بلکہ لاہور سے ربوہ کی طرف منتقل ہونے کے نتیجہ میں جو بعض مادی وسائل (کی) ترقی میں امکانی کمی آ سکتی ہے اسے بیش از بیش توجہ اور کوشش کے ذریعہ کم نہ ہونے دے۔ اس زمانہ میں پریس کی اہمیت اور اس کے اثر کی وسعت ظاہر و عیاں ہے۔ سو اب یہ جماعت اور عملہ الفضل کا مشترکہ فرض ہے کہ وہ الفضل کو ہر جہت سے ترقی دے کر اسے ایک الٰہی جماعت کے شایان شان بنائے۔ وَکَانَ اللّٰہُ مَعَنَا اَجْمَعِیْنَ

(خاکسار)
مرزا بشیر احمد
31-12-54

(الفضل یکم جنوری 1955ء)

پچھلا پڑھیں

جماعت احمدیہ گلاسگو، اسکاٹ لینڈ کا تربیتی پروگرام

اگلا پڑھیں

رزقِ حلال کی برکت