• 20 اپریل, 2024

نیا سال منانے کا اسلامی طریق

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
ہم مسلمان تو قمری سال سے بھی سال شروع کرتے ہیں اور شمسی سال سے بھی۔ یہ قمری سال صرف مسلمانوں میں ہی نہیں ہے بلکہ بہت سی قوموں میں پرانے زمانے میں قمری سال سے ہی سال شروع کیا جاتا تھا۔ چینیوں میں بھی یہ رواج ہے، ہندوؤں میں بھی ہے اَور قوموں میں بھی ہے۔ بہت سے مذہبوں میں پایا جاتا ہے اور اسلام سے پہلے عرب میں بھی دنوں کے حساب کے لئے قمری کیلنڈر ہی رائج تھا۔ بہرحال دنیا میں عام طور پر یہ گریگورئین کیلنڈر رائج ہے اور سب اس کو سمجھتے ہیں۔ اس لئے ہر قوم اور ہر ملک نے اس کیلنڈر کو اپنے دن اور مہینوں کے حساب کے لئے اپنا لیا ہے تو اسی وجہ سے دنیا میں ہر سال ہر جگہ اس کے حساب سے یکم جنوری سے سال شروع ہوتا ہے اور 31؍دسمبر کو ختم ہوتا ہے۔ بہرحال سال آتے ہیں، بارہ مہینے گزرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں چاہے قمری مہینے کے سال ہوں یا یہ جو رائج کیلنڈر ہے گریگورئین کیلنڈر اس کے سال ہوں۔ لیکن دنیا والے چاہے وہ مسلمانوں میں سے ہیں یا غیر مسلموں میں سے دنوں اور مہینوں اور سالوں کو دنیاوی غُل غپاڑے اور ہاؤ ہُو اور دنیاوی تسکین کے کاموں میں گزار کر بیٹھ جاتے ہیں۔ نئے سال کے آغاز پر جو یکم جنوری سے شروع ہوتا ہے دنیا والے کیا کچھ نہیں کرتے۔ مغربی ممالک میں یا ترقی یافتہ ممالک میں خاص طور پر اور باقی دنیا میں بھی 31؍دسمبر اور یکم جنوری کی درمیانی رات کو کیا کچھ شوروغل نہیں ہوتا۔ آدھی رات تک خاص طور پر جاگا جاتا ہے بلکہ ساری ساری رات صرف شور شرابے کے لئے، شراب کباب کے لئے، ناچ گانے کے لئے جاگتے ہیں۔ گویا گزشتہ سال کا اختتام بھی لغویات اور بیہودگیوں کے ساتھ ہوتا ہے اور نئے سال کا آغاز بھی لغویات کے ساتھ ہوتا ہے۔ دنیا کی اکثریت کی دین کی آنکھ تو اندھی ہو چکی ہے اس لئے ان کی نظر تو وہاں تک پہنچ نہیں سکتی جہاں مومن کی نظر پہنچتی ہے اور پہنچنی چاہئے۔ ایک مومن کی شان تو یہ ہے کہ نہ صرف ان لغویات سے بچے اور بیزاری کا اظہار کرے بلکہ اپنا جائزہ لے اور غور کرے کہ اس کی زندگی میں ایک سال آیا اور گزر گیا۔ اس میں وہ ہمیں کیا دے کر گیا اور کیا لے کر گیا۔ ہم نے اس سال میں کیا کھویا اور کیا پایا۔ ایک مومن نے دنیاوی لحاظ سے دیکھنا ہے کہ اس سال میں اس نے کیا کھویا اور کیا پایا۔ اس کی دنیاوی حالت میں کیا بہتری پیدا ہوئی یا دینی لحاظ سے اور روحانی لحاظ سے دیکھنا ہے کہ کیا کھویا اور کیا پایا اور اگر دینی اور روحانی لحاظ سے دیکھنا ہے تو کس معیار پر رکھ کر دیکھنا ہے تا کہ پتا چلے کہ کیا کھویا اور کیا پایا۔

ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود اور مہدی معہود کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی جنہوں نے ہمارے سامنے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی تعلیم کا نچوڑ یا خلاصہ نکال کر رکھ دیا اور ہمیں کہا کہ تم اس معیار کو سامنے رکھو تو تمہیں پتا چلے گا کہ تم نے اپنی زندگی کے مقصد کو پورا کیا ہے یا پورا کرنے کی کوشش کی ہے یا نہیں؟ اس معیار کو سامنے رکھو گے تو صحیح مومن بن سکتے ہو۔ یہ شرائط ہیں ان پہ چلو گے تو صحیح طور پر اپنے ایمان کو پرکھ سکتے ہو۔ ہر احمدی سے آپ نے عہد بیعت لیا اور اس عہد بیعت میں شرائط بیعت ہمارے سامنے رکھ کر لائحہ عمل ہمیں دے دیا جس پر عمل اور اس عمل کا ہر روز ہر ہفتے ہر مہینے اور ہر سال ایک جائزہ لینے کی ہر احمدی سے امید اور توقع بھی کی۔

پس ہم سال کی آخری رات اور نئے سال کا آغاز اگر جائزے اور دعا سے کریں گے تو اپنی عاقبت سنوارنے والے ہوں گے اور اگر ہم بھی ظاہری مبارکبادوں اور دنیاداری کی باتوں سے نئے سال کا آغاز کریں گے تو ہم نے کھویا تو بہت کچھ اور پایا کچھ نہیں یا بہت تھوڑا پایا۔ اگر کمزوریاں رہ گئی ہیں اور ہمارا جائزہ ہمیں تسلی نہیں دلا رہا تو ہمیں یہ دعا کرنی چاہئے کہ ہمارا آنے والا سال گزشتہ سال کی طرح روحانی کمزوری دکھانے والا سال نہ ہو۔ بلکہ ہمارا ہر قدم اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اٹھنے والا قدم ہو۔ ہمارا ہر دن اُسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر چلنے والا دن ہو۔ ہمارے دن اور رات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے عہد بیعت نبھانے کی طرف لے جانے والے ہوں۔ وہ عہد جو ہم سے یہ سوال کرتا ہے کہ کیا ہم نے شرک نہ کرنے کے عہد کو پورا کیا۔ بتوں اور سورج چاند کو پوجنے کا شرک نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق وہ شرک جو اعمال میں ریاء اور دکھاوے کا شرک ہے۔ وہ شرک جو مخفی خواہشات میں مبتلا ہونے کا شرک ہے۔

(مسند احمد بن حنبل جلد4 صفحہ800-801۔ حدیث محمود بن لبید حدیث نمبر24036۔ عالم الکتب بیروت 1998ء)

کیا ہماری نمازیں، ہمارے روزے، ہمارے صدقات، ہماری مالی قربانیاں، ہمارے خدمت خلق کے کام، ہمارا جماعت کے کاموں کے لئے وقت دینا، خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی بجائے غیر اللہ کو خوش کرنے یا دنیا دکھاوے کے لئے تو نہیں تھا۔ ہمارے دل کی چُھپی ہوئی خواہشات اللہ تعالیٰ کے مقابلے پر کھڑی تو نہیں ہو گئی تھیں۔ اس کی وضاحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس طرح فرمائی ہے، فرمایا کہ:
’’توحید صرف اس بات کا نام نہیں کہ منہ سے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کہیں اور دل میں ہزاروں بُت جمع ہوں۔ بلکہ جو شخص کسی اپنے کام اور مکر اور فریب اور تدبیر کو خدا کی سی عظمت دیتا ہے یا کسی انسان پر بھروسہ رکھتا ہے جو خدا تعالیٰ پر رکھنا چاہئے یا اپنے نفس کو وہ عظمت دیتا ہے جو خدا کو دینی چاہئے ان سب صورتوں میں وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک بُت پرست ہے۔‘‘

(سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب، روحانی خزائن جلد12 صفحہ349)

پس اس معیار کو سامنے رکھ کر جائزے کی ضرورت ہے۔

(خطبہ جمعہ 30؍دسمبر 2016ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ 30؍دسمبر 2022ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 جنوری 2023