• 18 اپریل, 2024

اگر ہم نے اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو ہر قسم کے اعتراضوں اور استہزاء سے پاک کرنا ہے تو کسی قانون سے نہیں بلکہ دنیاکو آنحضرتؐ کے جھنڈے تلے لا کر کرنا ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
2005ء میں جب ڈنمارک میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بیہودہ تصاویر بنائی گئیں تو ڈنمارک مشن نے بھی اور مَیں نے بھی خطبات کے ذریعہ اس کا جواب دیا۔ قانون کے اندر رہتے ہوئے کارروائیاں بھی کیں۔ ہالینڈ کے ممبر آف پارلیمنٹ کی طرف سے قرآنِ کریم پر حملہ ہوا، اسلام پر حملہ ہوا توان کے جوابات دئیے گئے۔ تو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے غیرت کا مظاہرہ ہے جو ایک حقیقی مسلمان کا سرمایہ ہے۔ قانون سے باہر نکل کر ہم جو بھی عمل کریں گے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے صدق و وفا کا تعلق نہیں ہے۔

لیکن اصل چیز جو اس صدق و وفا کے تعلق کو جاری رکھنے والی ہے وہ آپؐ کا پیغام ہے۔ اگر مسلمان اس پیغام کی حقیقت کو سمجھتے ہوں، اس خوبصورت پیغام کے پہنچانے کا حق ادا کرنے والے بن جائیں تو آج یہ حالات نہ ہوں۔ اگر وہ حقیقت میں اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر عمل کر رہے ہوتے تو دشمن کا منہ خود بخود بند ہو جاتا۔ اور اگر مسلمانوں میں سے چند مفاد پرست قانون کی آڑ میں ناجائز فائدہ اٹھانے والے ہوتے بھی یا فائدہ اٹھانے کی کوشش بھی کرتے تو قانون ان کو مجرم بنا کر اس مفاد پرستی کی جڑ اکھیڑ دیتا۔ لیکن یہ سب کام تقویٰ کے ہیں۔ پس مسلمان اگر ناموسِ رسالت کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں تو اس تقویٰ کو تلاش کریں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں پیدا کرنا چاہتے تھے۔ جماعت احمدیہ کی تاریخ میں غیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعات بھرے پڑے ہیں۔ ایک خطبہ میں تو ان کا ذکر نہیں ہو سکتا۔ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ چند خطبوں میں بھی نہیں ہوسکتا۔ اگر ہم نے اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو ہر قسم کے اعتراضوں اور استہزاء سے پاک کرنا ہے تو کسی قانون سے نہیں بلکہ دنیاکو آنحضرتؐ کے جھنڈے تلے لا کر کرنا ہے۔ کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ دنیا کے فساد اس وقت ختم ہوں گے جب ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل تعلیم کو اپنے اوپر لاگو کریں گے اور دنیا کو آنحضرتؐ کے جھنڈے تلے لائیں گے۔ لیکن اگر صرف قانون بنا کر پھر اس قانون سے اپنے مفاد حاصل کر رہے ہوں گے تو ہم بھی توہینِ رسالت کے مرتکب ہو رہے ہوں گے۔ ورتمان رسالہ جو تھا جس کے بارے میں مَیں نے بیان کیا کہ خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اس کے بارے میں لکھا اور مسلمانوں کو کہا کہ احتجاج کرو اور پھر ساری مسلم امت جو تھی وہ سراپا احتجاج بن گئی، مقدمے بھی چلے لیکن بہر حال آخر تبدیلی لانی پڑی اور مجرم کو سزا بھی ملی۔ جب اس کا فیصلہ ہو گیا تو اس کے فیصلے کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے ہی فرمایا اور بالکل صحیح فرمایا کہ: ’’میرے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اس سے بالا ہے کہ کسی فرد یا جماعت کا قتل اس کی قیمت قرار دیا جائے۔ میرا آقا دنیا کو زندگی بخشنے آیا تھا نہ کہ ان کی جان نکالنے کے لئے‘‘۔

(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 4صفحہ606۔607 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

کاش کہ آج بھی ہر مسلمان یہ بات سمجھ جائے کہ اگر حقیقت میں کوئی فتنہ ہے تو قانون ظاہری فتنے کا علاج کرتا ہے، دل کا نہیں۔ اوّل تو یہی تحقیق نہیں ہوتی کہ فتنہ ہے بھی کہ نہیں؟ مسلمان کے لئے حقیقی خوشی اس وقت ہو گی اور ہونی چاہئے جب دنیا کے دلوں میں آنحضرتؐ کی محبت قائم ہو جائے گی۔ آج احمدیوں کا تو یہ فرض ہے ہی جس کے لئے ہمیں بھرپور کوشش کرنی چاہئے۔ اگر دوسرے مسلمان بھی سختی کے بجائے عفو اور پیار کا مظاہرہ کریں اور وہ نمونہ دکھائیں جو آنحضرتؐ نے دکھایا تو پھر یہی اسلام کی خدمت ہو گی۔ آپ نے دو کٹّردشمنانِ اسلام جنہوں نے فتح مکہ کے موقع پر مزاحمت کا فیصلہ کیا تھا لیکن پھر بعد میں جب لشکر کو دیکھا اور فتح مکہ کی شوکت دیکھی تو گھبرا گئے۔ اور پھر ایک عورت اُمّ ہانیؓ، جن کے خاوند کے وہ عزیزتھے جب اُن کے گھر وہ پناہ لینے کے لئے آئے تو امّ ہانی نے پناہ دے دی اور پھر آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ انہوں نے دو اشخاص کو پناہ دی ہے۔ لیکن میرا بھائی علی کہتا ہے کہ مَیں انہیں قتل کر دوں گا وہ مجرم ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ اے اُمّ ہانی! جسے تم نے پناہ دی اسے ہم نے پناہ دی۔ انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔

(السیرۃ النبویۃ لابن ھشام باب من أمر الرسولﷺ بقتلھم صفحہ 742-743مطبع دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001)

اس پناہ کے بعد انہی دشمنوں کو یہ فکر تھی کہ آنحضرتؐ نے اس طرح شفقت اور رأفت اور پیار کا سلوک کیا ہے کہ ہم کس طرح ان کومنہ دکھائیں گے۔ لیکن جب ایک موقع پر حارث بن ہشام کی مسجد کے قریب آنحضرتؐ سے اتفاقاً ملاقات ہوئی تو اس رحمۃ للعالمین نے نہایت شفقت سے ملاقات فرمائی۔ اور پھر یہ حارث جنگِ یرموک میں اسلام کے دفاع میں جاں نثاری دکھاتے ہوئے شہید ہو گئے۔

(سبل الہدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العباد از محمد بن یوسف شامی۔ ذکر اسلام الحارث بن ہشامؓ … جلد 5صفحہ 249بیروت1993) (اسد الغابۃ جلد 1صفحہ 478 الحارث بن ہشام مطبوعہ دارالفکر بیروت 2003ء)

پس ایک عورت کے پناہ دئیے ہوئے کا بھی آنحضرتؐ نے یہ احترام فرمایا کہ جس کے نتیجہ میں وہ اسلام کی آغوش میں آ گیا۔ آج بھی ہمیں اسی اُسوہ کی ضرورت ہے اور اسلام کا حقیقی پیغام دنیا میں پہنچانے کی ضرورت ہے نہ کہ ظاہری قانون بنا کر پھر غلط طریقے سے ان پر عمل کرنے کی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اور سب مسلمانوں کو بھی اس کی توفیق عطا فرمائے۔

(خطبہ جمعہ 21؍ جنوری 2011ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 مارچ 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 مارچ 2021