• 19 اپریل, 2024

میرے استاد حافظ روشن علی صاحبؓ مرحوم

تبرکات حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے رضی اللہ عنہ

حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ مرحوم میرے استاد تھے اور جماعت احمدیہ کے علماء کی صفِ اوّل میں شمار ہوتے تھے۔ ان کے ذکر سے دل میں بہت سی شیریں یادیں تازہ ہوتی ہیں جن میں لازماً کچھ تلخی بھی ملی ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی روح کو جنت الفردوس کے اعلیٰ مقام میں جگہ دے اور جماعت میں ان کا علمی اور روحانی ورثہ جاری رکھے۔ حضرت حافظ صاحب کا دماغ بہت روشن اور صاف تھا اور گفتگو نہایت واضح اور مدلّل فرمایا کرتے تھے جو سننے والے کے دل میں بیٹھتی چلی جاتی تھی اور پیرایہ بھی بہت دلکش تھا۔ مناظرہ میں بھی حضرت حافظ صاحب کو یدِ طولیٰ حاصل تھا اور جب مخالف مناظر ان کے دلائل سے گھبرا کر پیچھے ہٹتا تھا تو حافظ صاحب کی بمباری دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ گویا حریف کو اس کے گھر تک پہنچا کر ختم کرنا چاہتے ہیں۔ افسوس ہے کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی طرح حضرت حافظ صاحب صرف سینتالیس (47) برس کی چھوٹی عمر میں فوت ہو گئے اور دوسری صدمہ کی بات یہ ہے کہ اپنے پیچھے کوئی نرینہ اولاد نہیں چھوڑی مگر کیا ان کے سینکڑوں شاگردانِ رشید ان کی روحانی اولاد نہیں ہیں؟

آخری عمر میں فالج کا حملہ ہوا تھا اور لمبے عرصہ تک صاحبِ فراش رہے مگر ہمت کا یہ عالم تھا کہ کسی قدر تخفیف ہوئی۔ پھر درس تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا مگر افسوس ہے کہ فالج کے دوسرے حملہ کے بعد دوبارہ نہ اُٹھ سکے۔

حافظہ غضب کا تھا اور قرآن مجید تو خیر حفظ ہی تھا حدیث اور فقہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے اکثر حوالے بھی ازبر تھے۔ اگر حضرت خلیفۃ المسیح اوّل رضی اللہ عنہ کے خصوصی شاگردوں میں انہیں نمبر اوّل پر شمار کیا جائے تو غلط نہیں ہو گا۔ طبیعت میں مزاح بھی تھا اور گفتگو میں بڑی شگفتگی ہوتی تھی۔ حضرت حافظ صاحب اپنے شاگردوں کے صرف استاد ہی نہیں تھے بلکہ مربی اور ہمدرد بھی تھے اور بے تکلفی کے ساتھ ان کے دُکھ سُکھ میں شریک ہوتے تھے۔ اپنے تبلیغی سفروں میں ہمیشہ ایک یا دو یا زیادہ شاگرد اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ یہ حضرت حافظ صاحب کے تعلیمی اور تدریسی پروگرام کا حصہ ہوتا تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے ساتھ حضرت حافظ صاحب کو بہت محبت تھی اور حضور بھی حضرت حافظ صاحب کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے چنانچہ 1924ء کے سفر ولایت میں حضور ان کو اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ اس عاجز کے ساتھ بھی حضرت حافظ صاحب کو محبت تھی اور مجھے اپنے مستحق شاگردوں کی امداد کے متعلق توجہ دلاتے رہتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ رسالہ الفرقان کے موجودہ ایڈیٹر محترم مولوی ابو العطاء صاحب کے متعلق ان کی طالب علمی کے زمانہ میں فرمایا کہ یہ نوجوان خرچ کے معاملہ میں کچھ غیر محتاط ہے مگر بڑا ہونہار اور قابلِ توجہ اور قابلِ ہمدردی ہے۔ کاش اگر حضرت حافظ صاحب اِس وقت زندہ ہوتے تو محترم مولوی ابو العطاء صاحب اور محترم مولوی جلال الدین صاحب شمس کے علمی کارناموں کو دیکھ کر ان کو کتنی خوشی ہوتی کہ میرے شاگردوں کے ذریعہ میری یاد زندہ ہے۔ ”خدا بخشنے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں“۔ اس عاجز کو جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا آخری زمانہ اور حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کی خلافت کا زمانہ اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ کی خلافت کا ابتدائی زمانہ جب کہ حضور اپنی صحت اور اپنی تبلیغی اور تربیتی گرمجوشی کے جوبن میں تھے اور ہم لوگوں کی طاقتیں بھی جوان اورخون گرم تھا یاد آتا ہے تو کیا بتاؤں کہ دل پر کیا گزرتی ہے۔ بس یوں سمجھئے کہ

دل میں اک درد اٹھا آنکھوں میں آنسو بھر آئے
بیٹھے بیٹھے مجھے کیا جانے کیا یاد آیا

(محررہ 26اکتوبر 1960ء)

(ماہنامہ الفرقان ربوہ دسمبر 1960ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 مارچ 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 مارچ 2021