• 20 اپریل, 2024

خلاصہ خطبہ جمعۃ المبارک فرمودہ مؤرخہ یکم؍ اپریل 2022ء

خلاصہ خطبہ جمعۃ المبارک امیر المؤمنین سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیحِ الخامس ایدہ الله فرمودہ مؤرخہ یکم؍ اپریل 2022ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد؍ٹلفورڈ یوکے

بعد میں آنے والے مؤرخین اور سیرت نگاروں نے حضرت ابوبکر رضی الله تعالیٰ عنہ کو عقیدۂ ختم نبوت  کا محافظ اور اُس کے  ہیرو کے طور پر پیش کیا، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ  خلافتِ راشدہ کے اِس دَور میں ختم نبوت  اور عقیدۂ ختم نبوت  کے اِس طرح کے تحفظ کی کوئی سوچ یا نظریہ موجود ہی نہیں تھا اور نہ ہی اِن لوگوں کے خلاف اِس لئے تلوار اٹھائی گئی تھی کہ ختم نبوت کو کوئی خطرہ تھا یا مرتد کی سزاء چونکہ قتل تھی اِس لئے اُن کو قتل کیا جائے

حضورِ انور ایدہ الله نے تشہد، تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ کے زمانہ کے فتنوں  کے تناظرمیں ارشاد فرمایا!  یہ جو بحث چل رہی ہے ، اِس میں بعض غلط فہمیاں بھی پیدا ہو سکتی ہیں اور یہ سوال بھی اٹھایا جا سکتا ہے  کہ کیا اسلام میں ارتداد کی سزاء قتل ہے؟

ایسے تمام  افراد کے لئے مرتدین کا لفظ استعمال ہؤا ہے

نبیٔ       کریم صلی الله علیہ و سلم  کی وفات کے بعد  جب تقریبًا سارے عرب نے ارتداد اور بعض لوگوں نے کُلی طور پر اسلام سے دُوری اختیار کر لی اور بعض نے زکوٰۃ کی ادائیگی سے انکار کیا تو حضرت ابوبکرؓ نے اُن سب کے خلاف قتال کیا،  کتب تاریخ اور سیرت میں ایسے تمام  افراد کے لئے مرتدین کا لفظ استعمال ہؤا ہے۔

جس کی وجہ سے بعد میں آنے والے سیرت نگار اور علماء کو غلطی لگی

 یا وہ غلط تعلیم پھیلانے کا باعث بنےکہ گویا مرتد کی سزاء قتل ہے اور اِسی لئے حضرت ابوبکرؓ نے تمام مرتدین کے خلاف اعلان جہاد کیا اور ایسے سب لوگوں کو قتل کروا دیا سوائے اِس کے کہ وہ دوبارہ اسلام قبول کر لیں۔ اور یوں اِن مؤرخین اور سیرت نگاروں نے حضرت ابوبکؓر کو عقیدۂ ختم نبوت کا محافظ اور اُس کے  ہیرو کے طور پر پیش کیا۔

حالانکہ حقیقت یہ ہے

خلافتِ راشدہ کے اِس دَور میں ختم نبوت اور عقیدۂ ختم نبوت  کے اِس طرح کے تحفظ کی کوئی سوچ یا نظریہ موجود ہی نہیں تھا اور نہ ہی اِن لوگوں کے خلاف اِس لئے تلوار اٹھائی گئی تھی کہ ختم نبوت  کو کوئی خطرہ تھا یا مرتد کی سزاء چونکہ قتل تھی اِس لئے اُن کو قتل کیا جائے۔

کیا قرآنِ کریم یا آنحضرتؐ نے مرتد کی سزاء قتل مقرر کی ہےیا کوئی اور؟

اسلامی اصطلاح میں مرتد اُس کو کہا جاتا ہے  جو دین اسلام سے انحراف کر جائےاور اسلام قبول کرنے کے بعد پھر دائرۂ اسلام سے نکل جائے۔ جب ہم قرآنِ کریم کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ الله تعالیٰ نے متعدد جگہوں پر  مرتد ہونے والوں کا باقاعدہ  ذکر تو فرمایا ہےلیکن اُن کے لئے قتل یا کسی بھی قسم کی  دنیاوی سزاء  دینے کا ذکر نہیں کیا۔اِس تناظر میں حضورِانور ایدہ الله نے بطورِ نمونہ  قرآنِ کریم کی چندآیات پیش فرمائیں۔

اِس سے خوب واضح ہو رہا ہے کہ مرتد کی سزاء قتل نہ تھی

(البقرۃ: 218) ۔۔۔ اِس آیت میں بیان ہؤا ہے کہ تم میں سے جو کوئی مرتد ہو جائے اور آخر کار اِسی کفر کی حالت میں مر جائے، اِس سے خوب واضح ہو رہا ہے کہ مرتد کی سزاء قتل نہ تھی کیونکہ اگر اُس کی سزاء قتل ہوتی  تو یہ بیان نہ ہوتا کہ ایسا مرتد آخر کار کفر کی حالت میں مر جائے۔

اِس جگہ بھی کہیں یہ ذکر نہیں فرمایاکہ مرتد ین کو قتل کر دو

(المآئدۃ: 55)۔۔۔ اِس جگہ بھی مرتد ہونے والوں  کا ذکر فرماتے ہوئے مؤمنوں کو یہ خوشخبری تو دی گئی کہ ایسے لوگوں کے بدلہ میں الله تعالیٰ قوموں کی قومیں عطاء فرمائے گا لیکن کہیں یہ ذکر نہیں فرمایاکہ مرتد ہونے والوں کو قتل کر دو یا فلاں فلاں سزاء دو۔

ہر قسم کے شکوک و شبہات اور سوالات کو ختم کر دینے والی آیت

(سورۃ النّسآء: 138)۔۔۔  بڑے واضح نفی ہے اِس میں کہ مرتد کی سزاء قتل نہیں ہے اور یہی ہمارے لٹریچر میں تشریح بھی کی جاتی ہے۔

مفسرین نے بھی اِس کی وضاحت کی ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے تھوڑی سی وضاحت اپنے ترجمۃ القرآن میں اِس طرح فرمائی ہے، یہ آیت (النّسآء: 138) اِس عقیدہ کی نفی کرتی ہے  کہ مرتد کی سزاء قتل ہے۔ چنانچہ فرمایا! اگر کوئی مرتد ہو جائے پھر  ایمان لے آئے پھر مرتد ہو جائے پھر ایمان لے آئے تو اِس کا فیصلہ الله تعالیٰ کے  سپرد ہے اور اگر کفر کی حالت میں مرے گا تو لازمی طور پر جہنمی ہو گا۔ اگر مرتد کی سزاء قتل ہوتی تو اُس کے بار بار ایمان لانے اور کفر کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔

اصولی طور پر قتلِ مرتد کی نفی کرنے والی کچھ اور آیات

اِس ضمن میں آیاتِ قرآنیہ (الکہف: 30) اور (البقرۃ: 257) پیش کرنے کے بعد حضورِ انور ایدہ الله نے ارشاد فرمایا! قرآن کریم کی کچھ آیات بطور نمونہ پیش کی گئی ہیں جن میں دین کے نام پر کسی بھی قسم کی سختی،  جبر  اور سزاء کی نفی کی گئی ہے اور مرتد ہونے والوں کا ذکر کر کے  کسی بھی قسم کی سزاء کا ذکر نہ کرنا ہماری رہنمائی کرتا ہے کہ مرتد ہونے والے کے لئے شریعتِ اسلامی کوئی جسمانی اور دنیاوی سزاء مقرر نہیں کرتی۔

اِسی قرآنی تعلیم اور نظریہ کی مزید تائید اِس سے بھی ہوتی ہے

قرآنِ کریم میں جگہ جگہ منافقین کا ذکر موجود ہے اور منافقین کی برائیاں اِس قدر زور سے بیان کی گئی ہیں کہ کفار کی برائیوں کا بھی اِس طرح ذکر نہیں۔ اِن لوگوں کو فاسق اور  کافر بھی کہا گیا ہے، اُن کے بارہ میں اسلام لانےکے بعد کفر  اختیار کرنے  کا ذکر کیا گیا ہے لیکن ایسے کسی بھی منافق کے لئے نہ تو  کسی قسم کی سزاء کا ذکر کیا گیا ہے  اور تاریخِ اسلام گواہ ہے کہ  نہ ہی کسی منافق کو اِن کے نفاق کی بناء پر کوئی سزاء دی گئی۔

آنحضرت صلی الله علیہ و سلم مرتد کے بارہ میں کیا فرماتے ہیں؟

حضرت جابرؓ بن عبداللهؓ بیان کرتے ہیں، ایک اعرابی نبیٔ کریمؐ کے پاس آیا اور اسلام قبول کرتے ہوئے آپؐ سے بیعت کی۔ اگلے روز اُس کو مدینہ میں بخار ہو گیا، وہ آنحضرتؐ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میری بیعت مجھے واپس دے دیں، پھر وہ دوبارہ آیا اور یہی کہا۔ آپؐ نے تین مرتبہ انکار فرمایا، اُس کا جواب نہیں دیا،  پھر وہ مدینہ سے چلا گیا۔ اِس پر آپؐ نے فرمایا! مدینہ ایک بھٹی کی طرح ہے، وہ میل کو نکال دیتا ہے اور اصل پاکیزہ چیز کو خالص کر دیتا ہے۔

یہ سب امور صاف طور پر اِس امر کے شاہدِ  بیّن ہیں

حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ نے اپنی تصنیف قتلِ مرتد اور اسلام، جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی نگرانی میں تیار کی گئی تھی، اُس میں یہ حدیث درج کی ہے اور لکھتے ہیں۔ پس اِس اعرابی کا بار بار ارتداد کا اظہار کرنا اور اِس کا آپؐ کے پاس بار بار جانا اور آپؐ کا اُس کو ارتداد کے نتیجہ سے متنبہ نہ کرنا اور نہ صحابہؓ کو اُس کو قتل کا حکم سنانا اور آخر کار اِس کا بغیر کسی قسم کے تعارض کے مدینہ  سے نکل جانا، یہ سب امور صاف طور پر اِس امر کے شاہدِ  بیّن ہیں کہ اسلام میں مرتد کے لئے کوئی شرعی حد مقرر نہ تھی۔ پھر آپؐ کا اِس کے نکل جانے پر ایک طرح کی خوشی کا اظہار کرنا۔۔۔ صاف ظاہر کرتا ہے کہ آپؐ اِس اصول کے مخالف تھے کہ کسی کو جبر سے اسلام پر  رکھا جاوے  اور لوگوں کو جبری ذرائع اختیار کر کے ارتداد سے روکا جائے۔۔۔ غرض اِس اعرابی کی مثال قطعیٔ اور یقینی ثبوت اِس امر کا ہے کہ مرتد کے لئے کوئی شرعی سزاء مقرر نہ تھی۔

دوسرا ثبوت اِس امر کا کہ مرتد کے لئے کوئی شرعی حد مقرر نہ تھی

صلحٔ حُدیبیہ کی دوسری شرط کہ اگر مسلمانوں میں سے کوئی شخص مرتد ہو کر مشرکین کی طرف چلا جائے تو  وہ اِس کو آپؐ کی طرف واپس نہیں کریں گے، اِس سے صاف طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ مرتد کے لئے کوئی شرعی حد مقرر نہ تھی کیونکہ ارتداد کے لئے اگر شریعتِ اسلام میں یہ شرط مقرر ہوتی  کہ اُس کو قتل کیا جائے  تو شرعی حد کے معاملہ میں بھی کبھی مشرکین کی بات قبول نہ فرماتے آپؐ۔

اِس کے علاوہ بھی ایسے  کئی واقعات ہیں کہ جن سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے

نبیٔ اکرمؐ کے عہدِ مبارک میں چند لوگوں نے دینِ اسلام سے ارتداد اختیار کیا لیکن محض ارتداد کی وجہ سے اُن سے کوئی تعارض نہ کیا گیا تا وقتیکہ اُنہوں نے   محاربت اور بغاوت جیسے افعالِ شنیعہ کا ارتکاب نہ کیا۔

دلیل کے ساتھ بات منوانا مذہبی لوگوں کا کام ہوتا ہے

حضرت المصلح الموعودؓ نے قرآنِ مجید کی ایک اور  آیت   سے  بھی اِس مسئلہ کو یوں واضح فرمایا ہے۔  وَ مَا عَلَی الرَّسُوۡلِ اِلَّا الۡبَلٰغُ  الْمُبِيْنُ (العنکبوت: 19)  میں اِس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ تلوار کی بجائے تبلیغ سے کام لینا ہی ایک دیرینہ اصول  ہے اور حضرت ابراہیمؑ نے بھی اِسی اصول کو اختیار کیا تھا۔ ۔۔ اور یہی سارے قرآن کا خلاصہ ہے کہ دلیل کے ساتھ بات  منوانا مذہبی لوگوں کا کام ہوتا ہے، جبر سے منوانا مذہبی لوگوں کا کام نہیں۔ مگر افسوس ہے  کہ اب تک دنیا اِس مسئلہ کو نہیں سمجھی بلکہ خود مسلمانوں میں بھی قتلِ مرتد کو جائز سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ کسی کا عقیدہ جھوٹ ہو یا سچ، عقیدہ رکھنے والا اُسے بہر حال ویسا ہی سچا سمجھتا ہے جیسے ایک مسلمان سچا سمجھتا ہے۔

کیا اِس حق کو جاری کر کے دنیا میں کبھی امن قائم رہ سکتا ہے؟

فرمایا! اگر مسلمان جبرًا دوسروں کو اپنے عقیدہ پر لا سکتے ہیں تو ویسا ہی حق عقلًا دوسروں کو بھی حاصل ہے  لیکن  کیا اِس حق کو جاری کر کے دنیا میں کبھی امن قائم رہ سکتا ہے؟ کیا اِس حق کو جاری کر کے تم اپنے بیٹے (یا بیوی) کو بھی کہہ سکتے ہو  کہ یہ مسئلہ ٹھیک ہے کہ عیسائیوں کا حق ہے کہ وہ مسلمانوں کو زبردستی عیسائی بنا لیں۔۔۔ غرض یہ ایسی عقل کے خلاف بات ہے کہ کوئی انسان اِس کو ایک منٹ کے لئے بھی تسلیم نہیں کر سکتا۔

اگر تم خود پسند نہیں کرتے تو ہم جبرًا تمہیں ہدایت نہیں دے سکتے

 اگر دنیا اِس مسئلہ کو سمجھ جائے تو یقینًا ظلم اور تعدی  مذہبی اور سیاسی امور میں بند ہو جائے، نہ لوگ اپنے عقیدے لوگوں پر جبرًا ٹھونسیں اور نہ اپنے سیاسی نظام دوسرے ملکوں میں جبرًا جاری کرنے کی کوشش کریں۔

حضرت ابوبکرؓ نے مرتدین کو کیوں قتل کیا اور قتل کرنے کا حکم دیا؟ 

حضورِ انور ایدہ الله نے ارشاد فرمایا! اِن آیاتِ قرآنیہ اور ارشادات کی روشنی میں یہ تو ثابت ہو گیا کہ مرتد کی سزاء قتل نہیں ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مرتد کی سزاء قتل نہیں تو حضرت ابوبکرؓ نے مرتدین کو کیوں قتل کیا اور قتل کرنے کا حکم دیا؟ حقیقت یہ ہے کہ تاریخ کا مطالعہ کرنے سے بڑی آسانی سے یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کے عہد میں مرتد ہونے والے صرف مرتد ہی نہیں تھے بلکہ وہ خونخوار اِرادوں کے حامل باغی تھے ۔۔۔یہ مرتدین ظلم و ستم، قتل و غارت، بغاوت  اور لوٹ مار جیسے بھیانک جرائم کا ارتکاب کرنے والے  لوگ تھے۔ جس کی وجہ سے دفاعی اور انتقامی کاروائی  کے طور پر  اُن محارب لوگوں سے جنگ کی گئی اور جَزٰٓؤُا سَیِّئَةٍ سَیِّئَةٌ مِّثۡلُھَا (الشّورٰی: 41) کے تحت اُن کو بھی ویسی سزائیں دے کر قتل  کرنے کے احکامات صادر کئے گئے جیسے جرائم کے وہ مرتکب ہوئے تھے۔

خطبۂ ثانیہ سے قبل تین مرحومین کا تذکرۂ خیر

مکرم محمد بشیر شاد صاحب ریٹائرڈ مربّیٔ سلسلہ حال مقیم امریکہ (1984ء میں جماعت کے خلاف جو آرڈیننس ہؤا تھا، اِس لحاظ سے تاریخ میں بھی اِن کا ذکر ہے کہ ہجرت سے قبل حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی موجودگی میں اِن کو خطبہ (جمعہ) دینے کی توفیق ملی۔)؛ مکرم رانا محمد صدیق صاحب آف ملیانوالہ ضلع سیالکوٹ؛ مکرم ڈاکٹر محمود احمد خواجہ صاحب آف اسلام آباد (حضورِ انور ایدہ الله کا ذاتی مشاہدہ !مَیں نے دیکھا ہے کہ انتہائی سادہ مزاج  اور عاجز اور بے نفس انسان تھے۔)

(خاکسار قمر احمد ظفر۔ نمائندہ  روزنامہ الفضل آن لائن جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 اپریل 2022

اگلا پڑھیں

پھر آمدِ رمضان ہے