• 25 اپریل, 2024

بدی پر غیر کی ہر دم نظر ہے مگر اپنی بدی سے بے خبر ہے

’’ہماری جماعت کو چاہئے کہ کسی بھائی کا عیب دیکھ کر اس کے لئے دعا کریں۔ لیکن اگر وہ دعا نہیں کرتے اور اس کو بیان کرکے دُور سلسلہ چلاتے ہیں تو گناہ کرتے ہیں۔ کون سا ایسا عیب ہے جو کہ دُور نہیں ہو سکتا۔ اس لئے ہمیشہ دعا کے ذریعے سے دوسرے بھائی کی مدد کرنی چاہئے۔

ایک صوفی کے دو مرید تھے۔ ایک نے شراب پی اور نالی میں بیہوش ہو کر گرا۔ دوسرے نے صوفی سے شکایت کی۔ اس نے کہا توُ بڑا بے ادب ہے کہ اس کی شکایت کرتا ہے اور جا کر اٹھا نہیں لاتا۔ وہ اُسی وقت گیا اور اسے اٹھا کر لے چلا۔ کہتے تھے کہ ایک نے تو بہت شراب پی لیکن دوسرے نے کم پی کہ اسے اٹھا کر لے جا رہاہے۔ صوفی کا یہ مطلب تھا کہ توُ نے اپنے بھائی کی غیبت کیوں کی۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے غیبت کا حال پوچھا تو فرمایا کہ کسی کی سچی بات کا اس کی عدم موجودگی میں اس طرح سے بیان کرنا کہ اگر وہ موجود ہو تو اسے برا لگے غیبت ہے۔ اور اگر وہ بات اس میں نہیں ہے اور توُ بیان کرتا ہے تو اس کا نام بہتان ہے۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے :۔ وَلَایَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا۔ اَ یُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا (الحجرات:13) اس میں غیبت کرنے کو ایک بھائی کا گوشت کھانے سے تعبیرکیا گیا ہے۔ اور اس آیت سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ جو آسمانی سلسلہ بنتا ہے ان میں غیبت کرنے والے بھی ضرور ہوتے ہیں۔ اور اگر یہ بات نہیں ہے تو یہ آیت بیکار جاتی ہے۔ اگر مومنوں کو ایسا ہی مطہّر ہونا تھا اور ان سے کوئی بدی سرزد نہ ہوتی تو پھر اس آیت کی کیا ضرورت تھی؟۔

بات یہ ہے کہ ابھی جماعت کی ابتدائی حالت ہے۔ بعض کمزور ہیں جیسے سخت بیماری سے کوئی اٹھتا ہے۔ بعض میں کچھ طاقت آ گئی ہے۔ پس چاہئے کہ جسے کمزور پاوے اسے خفیہ نصیحت کرے۔ اگر نہ مانے تو اس کے لئے دعا کرے۔ اور اگر دونوں باتوں سے فائدہ نہ ہو تو قضاء و قدر کا معاملہ سمجھے۔ جب خدا تعالیٰ نے ان کو قبول کیا ہوا ہے تو تم کو چاہئے کہ کسی کا عیب دیکھ کر سردست جوش نہ دکھلایا جاوے۔ ممکن ہے کہ وہ درست ہو جاوے۔ قطب اور ابدال سے بھی بعض وقت کوئی عیب سرزد ہو جاتا ہے۔ بلکہ لکھا ہے اَلْقُطْبُ قَدْ یَزْنِیْ، قطب سے بھی زنا ہو جاتا ہے۔ بہت سے چور اور زانی آخر کار قطب اور ابدال بن گئے۔ جلدی اور عجلت سے کسی کو ترک کر دینا ہمارا طریق نہیں ہے۔ کسی کا بچہ خراب ہو تو اس کی اصلاح کے لئے وہ پوری کوشش کرتا ہے۔ ایسے ہی اپنے کسی بھائی کو ترک نہ کرنا چاہئے بلکہ اس کی اصلاح کی پوری کوشش کرنی چاہئے۔ قرآن کریم کی یہ تعلیم ہرگز نہیں ہے کہ عیب دیکھ کر اسے پھیلاؤ اور دوسروں سے تذکرہ کرتے پھرو۔ بلکہ وہ فرماتا ہے تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَۃِ (البلد:18) کہ وہ صبر اور رحم سے نصیحت کرتے ہیں۔ مَرْحَمَۃ یہی ہے کہ دوسرے کے عیب دیکھ کر اسے نصیحت کی جاوے اور اس کے لئے دعا بھی کی جاوے۔ دعا میں بڑی تاثیر ہے۔ اور وہ شخص بہت ہی قابل افسوس ہے کہ ایک کے عیب کو بیان تو سَومرتبہ کرتا ہے لیکن دعا ایک مرتبہ بھی نہیں کرتا۔ عیب کسی کا اس وقت بیان کرنا چاہئے جب پہلے کم از کم چالیس دن اس کے لئے رو رو کر دعا کی ہو۔۔۔

خداتعالیٰ کا نام ستّار ہے۔ تمہیں چاہئے کہ تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللّٰہ بنو۔ ہمارا یہ مطلب نہیں ہے کہ عیب کے حامی بنو بلکہ یہ کہ اشاعت اور غیبت نہ کرو کیونکہ کتاب اللہ میں جیسا آگیا ہے تویہ گناہ ہے کہ اس کی اشاعت اور غیبت کی جاوے۔ شیخ سعدیؒ کے دو شاگرد تھے۔ ایک ان میں سے حقائق و معارف بیان کیا کرتا تھا۔ دوسرا جلا بھنا کرتا تھا۔ آخرپہلے نے سعدی سے بیان کیا کہ جب مَیں کچھ بیان کرتا ہوں تو دوسرا جلتا ہے اور حسد کرتا ہے۔ شیخ نے جواب دیا کہ ایک نے راہ دوزخ کی اختیار کی کہ حسد کیا اور تُونے غیبت کی۔ غرضیکہ یہ سلسلہ چل نہیں سکتا جب تک رحم، دعا، ستّاری اور مَرْحَمَۃ آپس میں نہ ہو‘‘۔

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ61-60جدید ایڈیشن- البدر صفحہ 4مورخہ 8؍ جولائی 1904ء)

٭…٭…٭

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 جولائی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 2 جولائی 2020ء