• 25 اپریل, 2024

تعارف سورۂ یوسف (بارہویں سورہ)

(مکی سورۃ، تسمیہ سمیت اس سورۃ کی 112 آیات ہیں)
اردو ترجمہ ازترجمہ قرآن انگریزی (حضرت ملک غلام فرید صاحبؓ) ایڈیشن 2003ء
(مترجم: وقار احمد بھٹی
)

وقت ِنزول اور مضامین کا خلاصہ

آنحضرت ﷺ کے متعدد صحابہ سے مروی ہے کہ یہ مکمل سورۃ مکہ میں نازل ہوئی لیکن ابنِ عباس اور قتادۃ کے نزدیک اس کی آیات 2 اور 4 مدینہ میں نازل ہوئیں۔ جیساکہ قبل ازیں ذکر کیا جا چکا ہے کہ دسویں سورۃ(یونس) میں خدا کے انسان سے برتاؤ کے دونوں پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے یعنی عذاب اور رحم۔ جبکہ گیارہویں سورۃ (ھود) میں خدا تعالیٰ کے عذاب کا ذکر ہے۔ اس سورۃ (یوسف) میں خدا کے رحم کا ذکر ہے۔ سورۃ ھود جس میں خدا کے عذاب کا ذکر ہے کو اس سورۃ سے پہلے رکھنے میں حکمت یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے دشمنوں پر بھی خدا کا رحم ان کی بدکاریوں کی سزا کے بعد ہی ہونا تھا۔ تاہم اس سورۃ میں ایک منفرد خاصیت یہ ہے کہ یہ مکمل سورۃ ایک نبی (حضرت یوسف علیہ السلام) کے حالاتِ زندگی پر روشنی ڈالتی ہے۔اس حوالہ سے یہ سورۃ دیگر سورتوں سے منفرد ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی، آنحضرت ﷺ کی زندگی سے کئی رنگ میں مطابقت رکھتی ہے، یہاں تک کہ معمولی پہلوؤں میں بھی یہ یگانگت نمایاں ہے۔ اس سورۃ میں ایک نبی حضرت یوسف علیہ السلام کے حالاتِ زندگی بیان کئے گئے ہیں تاکہ یہ آنحضرت ﷺ کی زندگی میں پیش آنے والے واقعات کی پیشگی اطلاع دے۔ دسویں سورۃ میں حضرت یونس علیہ السلام کے واقعات کو خدا کے رحم کے تناظر میں پیش کیا گیا تھااور اس سورۃ میں حضرت یوسف علیہ السلام کی مثال کی روشنی میں خدا کے رحم کو مزید اجاگر کیا گیا ہے۔

اس کی دو دلیلیں دی جا سکتی ہیں ۔ اول یہ کہ حضرت یونس علیہ السلام اور آنحضرت ﷺ کے حالات زندگی محض اختتام کے قریب ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں جبکہ حضرت یوسف علیہ السلام اور آنحضرت ﷺ کے حالات زندگی ہر طرح سے باہم مشابہ ہیں۔دوم یہ کہ اگرچہ حضرت یونس علیہ السلام اور آنحضرت ﷺ کی قوموں کے حالات اس لحاظ سے باہم مشابہ ہیں کہ دونوں کی قوموں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے سبب معاف فرما دیا یوں یہ جزوی مشابہت ہے جبکہ حضرت یوسف علیہ السلام اور آنحضرت ﷺ کی مشابہت بہت زیادہ اور کلی طور پر ہے۔ حضرت یونس علیہ السلام کی قوم پر رحم محض خدا کی رحمانیت کے نتیجہ میں تھا جس میں حضرت یونس علیہ السلام کا کوئی عمل دخل نہ تھا جبکہ حضرت یوسف علیہ السلام کا اپنے بھائیوں کو معاف کرنا خود انکے اپنے اختیار سے تھا۔ بالکل ویسے ہی جیسے قریش مکہ کی معافی کا اعلان مکمل طور پر آنحضرت ﷺ کی طرف سے اور آپ ﷺ کی زبان مبارک سے تھا۔ (اصل متن کا ترجمہ مکمل ہوا)۔

خاکسار کی رائے میں یہ مضمون تشنہ رہے گا اگر آنحضرت ﷺ اور حضرت یوسف علیہ السلام کی اٹھارہ مشابہتیں جو تفسیر کبیر میں حضرت مصلح موعود ؓنے بیان فرمائی ہیں ان کا تذکرہ نہ کیا جائے۔ ان مشابہتوں کا خلاصہ ذیل میں ہدیہ قارئین کیا جاتا ہے۔

پہلی مشابہت یہ ہے کہ جیسے حضرت یوسف علیہ السلام کو کنویں میں یہ وحی ہوئی کہ ایک دن ان کے بھائی اور ماں باپ ان کی اطاعت میں آجائیں گے اسی طرح آنحضرت ﷺ کو غار حرا میں جو پہلی وحی ہوئی اس میں سب قوم پر فضیلت پا جانے کی خبر تھی۔

دوسری مشابہت یہ ہے کہ جس طرح حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنی رؤیا اپنے باپ کو سنائی تھی اسی طرح حضرت رسول کریم ﷺ نے اپنی پہلی وحی ورقہ بن نوفل کو سنائی۔

تیسری مشابہت یہ ہے کہ حضرت یوسفؑ کے خواب سنانے پر حضرت یعقوبؑ نے بتایا کہ تیرے بھائی سنیں گے تو مخالفت کریں گے اسی طرح ورقہ بن نوفل نے کہا کہ اے کاش میں اس وقت مضبوط جوان ہوتا جب تیری قوم تجھے مکہّ سےنکالے گی۔

چوتھی مشابہت یہ ہے کہ حضرت یعقوبؑ نے حضرت یوسف علیہ السلام کی خواب کو آسمانی قرار دیا اور اس پر ایمان لائے، اسی طرح ورقہ بن نوفل نے آپ ﷺ کی تصدیق کی اور آپؐ پر ایمان لائے اور اسے موسیٰؑ کے الہام کی مانند قرار دیا۔

پانچویں مشابہت یہ ہے کہ جس طرح حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے ان سے حسد کیا اسی طرح یہود و نصاریٰ اور کفار مکہ نے بھی آپ ﷺ سے حسد کیا کہ کیوں نہ یہ قرآن مکہ یا طائف کے کسی بڑے آدمی پر نازل ہوا۔

چھٹی مشابہت یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام اور آنحضرت ﷺ دونوں کے قتل کا یا کسی دوسرے علاقہ میں پھینک دینے کا منصوبہ بنایا گیا۔

ساتویں مشابہت یہ ہے کہ جس طرح حضرت یوسف علیہ السلام کے قتل کے بارہ میں بعض لوگوں نے مخالفت کی تھی اسی طرح آنحضرت ﷺ کے قتل میں بھی بعض نے مخالفت کی اور خود اس معاہدہ کو توڑا جو آپ ﷺ اور آپ کے اتباع کو فاقے مارنےکے متعلق(یعنی مقاطعہ کی صورت میں)کیا گیا تھا۔

آٹھویں مشابہت یہ ہے کہ جس طرح حضرت یوسف علیہ السلام کو کنویں میں ڈالا گیا اسی طرح آپ ﷺ کو مکہ والوں سے بچنے کے لئے غار ثور میں چھپنا پڑا۔ کنویں کی مماثلت شعب ابی طالب میں محصوری کے ایام سے بھی ہے۔

نویں مشابہت یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کو قبل از وقت بتا دیا گیا تھا کہ آپ کے سامنے آپ کے بھائی (یعنی قوم) مجرم بن کر پیش ہوں گےجس طرح حضرت یوسف علیہ السلام کوان کے بھائیوں کے بارے میں بتا دیا گیا تھا کہ تو انہیں ان کے اس کام (یعنی کنویں میں پھینکنے) سے آگاہ کرے گا۔

دسویں مشابہت یہ ہے کہ جس طرح حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے جھوٹے طور پر کہہ دیا کہ یوسف مارا گیا (بھیڑیے نے کھا لیا) اسی طرح جنگ احد کے موقع پر کفار نے اعلان کر دیا کہ ہم نے محمد (ﷺ) کو مار دیا ہے۔

گیارہویں مشابہت یہ ہے کہ جس طرح عزیز کی بیوی نے حضرت یوسف ؑکو پھسلایا اسی طرح آپ ﷺ کے پاس کفار کا ایک وفد آیا اور آپؐ کو مال دینے، پسند کی عورت سے شادی کرنے اور سردار بنانے کا لالچ دیا جس کو آپ ﷺ نے ماننے سے انکار کر دیا۔

بارہویں مشابہت یہ ہے کہ قید میں حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے ساتھیوں کو (معمول کا کھانا پیش ہونے سے قبل) تبلیغ کی ایسا ہی آپ ﷺ نے اہلِ مکہ کو تبلیغ کے لئے دعوت کا انتظام کیا مگر وہ اٹھ کر چلے گئے۔ اس پرآپ ﷺ نے یہ تدبیرکی کہ پھر دعوت کی اور کھانا آنے سے پہلے اپنے دعویٰ سے آگاہ کردیااسطرح وہ لوگ کھانےکے انتظار میں بیٹھنے پر مجبور ہوگئے تھے۔

تیرھویں مشابہت یہ ہےکہ جس طرح حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے میں سات سال کے قحط کی خبر دی گئی تھی اسی طرح آپ ﷺ کو بھی اللہ تعالیٰ نے سات سال کے قحط کی خبر دی۔

چودھویں مشابہت یہ ہے کہ دونوں کو حسد کی وجہ سے گھر سے نکالا گیا مگر خدا نے دونوں کو خاص عزت دی۔ فرق صرف یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی عزت نیابتی تھی اور بادشاہ کی طرف سے تھی جبکہ آنحضرت ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے آزاد حکومت عطا فرمائی۔ یہی فرق دونوں وجودوں میں روحانیت کے لحاظ سے بھی ہے۔

پندرھویں مشابہت یہ ہے کہ جس طرح حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی آپؑ کی ترقی دیکھ کر حیران و ششدر رہ گئے تھے اسی طرح آپ ﷺ نے بادشاہوں کو خطوط لکھے اور ہرقل (بادشاہِ روم) کو بھی خط لکھا۔ جب ابو سفیان جو ایک تجارتی قافلہ کے ساتھ ملک شام گیا ہوا تھا تو ہرقل نے ابو سفیان سے کچھ سوال پوچھے اور آخر پر کہا کہ اگریہ باتیں صحیح ہیں تو وہ (ﷺ) ضرور اس علاقہ کا حاکم ہو جائے گا۔ ابو سفیان گھبرا کر باہر نکلا اور بے ساختہ یہ فقرہ بولا کہ محمد ﷺ کی عزت تو بہت بڑھ گئی ہے۔

سولہویں مشابہت یہ ہے حضرت یوسف علیہ السلام کے جذبہ محبت کا ذکر کیا گیا ہے کہ باوجود بھائیوں کی مخالفت کے وہ اپنے بھائیوں کی ملاقات کے لئے بے قرار تھے۔ یہی حال آنحضرت ﷺ کا بھی تھا جس کاذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یوں فرمایا ہے کہ کیا تو اس غم میں کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے اپنی جان کو ہلاک کردے گا۔

سترھویں مشابہت یہ ہے کہ جس طرح حضرت یوسفؑ نے اعلیٰ اخلاق کا نمونہ دکھایا اور اپنے بھائیوں کو مخاطب ہو کر فرمایا کہ لا تثریب علیکم الیوم یعنی آج کے دن تمہیں قطعاً کوئی ملامت نہ ہوگی اسی طرح آپ ﷺ نے فتح مکہ کے وقت اہلِ مکہ کو مخاطب ہو کر فرمایا کہ لا تثریب علیکم الیوم یعنی آج کے دن تم سے کوئی باز پُرس نہ ہوگی۔

اٹھارویں مشابہت یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے تو ایک بادشاہ کے تحت اپنے بھائیوں کو عزت بخشی مگر رسول کریم ﷺ نے اپنے بھائیوں کو آزاد حکومتوں کا مالک بنا دیا۔ خاص طور پر آپ ﷺ کے دو خسر حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ بڑی بڑی سلطنتوں کے مالک ہوئے۔

٭…٭…٭

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 جولائی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 2 جولائی 2020ء