• 25 اپریل, 2024

اللہ تعالیٰ کی صفتِ ’رقیب‘

اردو ادب اور احمدیہ اردو ادب میں ایک نمایاں امتیاز ہے ۔ احمدیہ اردو ادب میں لفاظی اور تصنع کو دخل نہیں ہوتا۔ شاعری ہو یا نثر ی بیان اس میں صداقت کی چاشنی ہوتی ہے۔ ایک مضمون میں جو الفضل کے بارہ جون 2020 کے شمارے میں شائع ہوا ہے اس میں لکھا تھا :

’’اردو شاعری کا بنظرِ غائر مطالعہ کیا جائے تو عاشق و معشوق کے علاوہ ایک تیسرا کردار رقیب کا بھی ملتا ہے جو عاشق و معشوق کے لئے بظاہر چاہت لیکن درپردہ ہوسناکی کا جذبہ رکھتا ہے اور معشوق بھی کبھی جان بوجھ کر ۔ کبھی عاشق کے حوصلے کو آزمانے کو اس کی طرف جھکتا ا ور ملتفت ہوتا رہتا ہے۔ اور یوں اردو شاعری کے ابتداء سے اب تک یہ کردار موردِ الزام بھی ہے اور معتوب و ملعون بھی۔‘‘

اس کا تجزیہ کرتے ہوئے مضمون نگار نے چند ایک اشعار کے ذریعہ اس کردار کو اپنے متعیّن کردہ مفہوم کے مطابق واضح کرنے کے بعد اس کردار کو اپنے آس پاس تلاش کرتے ہوئے کئی بشری اخلاقی کمزوریوں رقیب کے کھاتے میں ڈال کر ایک دشمن کا روپ بنا کر سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں احمدیہ اردو ادب کی سطح پست ہو جاتی ہے۔ لہذا ذیل کی تحریر میں اسی غلطی کی اصلاح احمدیہ اردو ادب کی روشنی میں کی جانی مقصود ہے ۔

یہ بات صرف اس حد تک درست ہے کہ محبت کے مجوزہ تین کرداروں میں سے عاشق اور معشوق کے علاوہ ایک رقیب بھی ہوتا ہے۔ احمدی کسی فانی ہستی کو اپنا محبوب مطلق نہیں سمجھتا۔ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورۃ الدہر کی آیت نمبر 18۔ وَ یُسۡقَوۡنَ فِیۡہَا کَاۡسًا کَانَ مِزَاجُہَا زَنۡجَبِیۡلًا کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’انتہائی درجہ کے با خدا لوگ وہ پیالے پیتے ہیں ۔جن میں زنجبیل ملی ہوئی ہے یعنی وہ روحانی حالت کی پوری قوت پا کر بڑی بڑی گھاٹیوں پر چڑھ جاتے ہیں اور بڑے مشکل کام ان کے ہاتھ سے انجام پذیر ہوتے ہیں۔اور خدا کی راہ میں حیرت ناک جانفشانیاں دکھلاتے ہیں۔‘‘

(اسلامی اصول کی فلاسفی ۔صفحہ 52)

اس سے قبل اس مضمون میں آپؑ نے بشر کے اخلاقی ارتقاء اور اس کے لوازمات بیان فرمائے ہیں اور رفتہ رفتہ اس مقام محمود کی طرف رہنمائی فرمائی ہے۔ یہ تعلیم ہمیں عشقِ حقیقی کی راہ دکھاتی ہے اور اس عشق میں معشوق ہی رقیب بھی ہوتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی صفتِ رقیب ہے جو بدیوں سے انسان کو بچاتی ہے ۔

اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنہ میں سے ایک ’’الرقیب‘‘ بھی ہے ۔حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ اپنے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں :

’’اَلْا َزْہَرِی، مشہور لغوی ہیں وہ کہتے ہیں کہ مُہَیْمِن کامطلب ہے، امین یعنی امانت دار۔ بعض نے مُہَیْمِن کو مُؤْتَمن کے معنوں میں بھی بیان کیا ہے یعنی وہ ذات جس کو امین سمجھا جائے۔ مُہَیْمِنًا عَلَیْہِ کے معنی ہیں وہ ذات جو مخلوقات کے معاملات پر نگران اور محافظ ہو۔ مُہَیْمِن کے معنی بعض نے رقیب کے کئے ہیں یعنی وہ ذات جو نگران ہو۔ پھر ایک جگہ لغت میں کہتے ہیں، قرآن کریم کے مُہَیْمِنًا عَلَیْہ ہونے کا ایک معنی یہ کیا گیا ہے کہ یہ کتب سابقہ پر نگران اور محافظ ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ ۔ 8 اگست 2008)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ اللہ تعالیٰ کی صفتِ رقیب کی بابت فرماتے ہیں :
’’حضرت مسیح موعودؑ نے اللہ تعالیٰ کی صفت رقیب کے سلسلے میں فرمایا۔ جب تم یہ خیال کرو گے کہ اللہ تم پر نگران ہے تو ہر گناہ اور بے حیائی سے بچ جاؤ گے کیونکہ ہر انسان اپنی بدی کو خفیہ رکھنا چاہتا ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 12۔اکتوبر 2001ء)

حضرت سیّد زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اپنے ایک مضمون ’’شیطان کا منصب‘‘ میں لکھتے ہیں:

یہ ’’مختصر تشریح ہے بدی کے محرکِ اوّل کی جس کا وصفی نام شیطان۔ وسواس خناس اور اپنے انتہائی مظاہرہ کی صورت میں طاغوت اور ابلیس ہے ۔اس کے ناموں سے شیطان کے منصب کی حقیقت از خود واضح ہو جاتی ہے۔ قران مجید میں ایک جگہ اس کا نام قعید بھی رکھا گیا ہے اور اس کے مقابلہ میں نیکی کے محرک کا نام رقیب عتید۔ کیونکہ دونوں نفس بشری کے ساتھ لازم و ملزوم کی طرح چمٹے ہوئے ہیں اور جو صراطِ مستقیم انسان کے لئے اللہ تعالیٰ تک پہونچنے کے لئے تجویز ہوئی ہے اس پر دونوں محرک اپنا فرض منصبی ادا کر رہے ہیں‘‘۔

(الفضل 25۔ مارچ 1959)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ اسی مضمون کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’یہ مضمون ایسا ہے جو دنیا کی محبت پر غور کرنیوالوں کو نہیں سمجھ آیا چنانچہ مجھےاس مضمون پر غور کرتے ہوئے غالب کا ایک شعر بھی یاد آیا کہ

ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا
بن گیا رقیب آخر تھا جو رازداں اپنا

کہ میں نے کسی کو رازداں بنایا تھامحبت میں لیکن اس نہایت ہی حسین پری چہرہ کا ذکر ہو اور وہ بھی غالب کی زبان میں ہو تو کیسے ہو سکتا ہے کہ سننے والا عاشق نہ ہو جائے۔ چنانچہ وہ جسے میں نے رازداں بنایا تھا وہ میرا رقیب بن گیا۔ تو حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ سے زیادہ عاشق تو کوئی دنیا میں سوچا ہی نہیں جا سکتا اور پھر ذکر بھی آپ کی زبان سے ہوخدا کا۔ جو عام باتوں کے علاوہ فصاحت و بلاغت میں بھی قرآن کے بعد سب سے بلند معیار رکھنے والے تھے۔ اس سے لازماً بے اختیار اللہ تعالیٰ کی محبت دل میں پیدا ہوتی ہے۔‘‘

(خطبہ 20 مارچ ۔ 1987)

حضرت مصلح موعودؓ اپنے ایک خطبہ نکاح بعنوان ’’اللہ تعالیٰ کی صفتِ رقیب ہمیشہ مدِ نظر رکھو‘‘ بیان فرمودہ 28 جنوری 1938 میں ارشاد فرماتے ہیں :

’’اللہ تعالیٰ کی انہی صفات میں سے جن کو انسان غلط طور پر استعمال کرتا اور جن پر کلیۃً حاوی ہو جانا چاہتا ہے ایک صفتِ رقیب بھی ہے۔ اسی کی طر ف اس آیت میں جو نکاح کے موقع پر پڑھی جاتی ہے توجہ دلائی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :یاد رکھو! رقیب میں ہوں۔ یعنی خدا ہی ہے جو لوگوں کا نگران ہے۔ وہ زید کے اعمال کو دیکھتا ہے اور پھر اس کے متعلق فیصلہ کرتا ہے کہ وہ اچھا ہے یا بُرا پھر وہ بکر کا رقیب بنتا اور اس کے اعمال کی نگرانی کر کے اس کے متعلق یہ فیصلہ کرتا ہے کہ وہ اچھا ہے یا بُرا۔ پس خدا رقیب ہے اور چونکہ انسانوں میں اللہ تعالیٰ نے یہ طاقت رکھی ہے کہ وہ اس کی صفات کو اپنے اندر پیدا کریں۔

(الفضل مورخہ 3فروری 1938ء)

عشق حقیقی میں محبوبِ ازلی کے عشاق کا معاملہ دنیاوی عاشقوں جیسا ہو نہیں سکتا۔ اس عشق کی نوعیت بالکل مختلف ہوتی ہے اور بقول چوہدری محمد علی مضطرؔ صاحب کے:

سبھناں دے سانجھے رانجھناں! توں جانویں کیہڑے راہ
ترا عاشق کل جہان اے، ترے عاشق اک نہ دو

اس عشق میں رقابت بمعنی عداوت نہیں ہوتی تو ’’محبت‘‘ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو کر اُس کی مخلوق کی طرف لوٹتی ہے تب جا کے انسان اس راز کو پا تا ہے کہ

محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں

٭…٭…٭

(محمد کولمبس خاں۔ مہدی آباد جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 جولائی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 2 جولائی 2020ء