• 26 اپریل, 2024

حضرت لقمان علیہ السلام

قرآن کریم کی سورہ31 لقمان کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اس سورہ میں ایک ایسی ہستی کا ذکر پایا جاتا ہے جو اپنے بیٹے کو بہت اہم نصائح کرتی ہے۔ اس بزرگ ہستی کا نام لقمان ہے اور حکمت و دانائی میں ضرب المثل ہے۔ عرب میں زمانہ جاہلیت میں بھی حضرت لقمان علیہ السلام کا ذکر کثرت سے پایاجاتا ہے۔ چنانچہ شعرائے جاہلیت مثلاً امرؤ القیس، لبید، طرفہ وغیرہ کے کلام میں لقمان کا ذکر موجود ہے۔ اہل عرب میں بعض پڑھے لکھے لوگوں کے پاس صحیفہ لقمان کے نام سے ان کے حکیمانہ اقوال کا ایک مجموعہ بھی موجود تھا۔ چنانچہ ایک روایت میں آیا ہے کہ ہجرت سے تین سال پہلے مدینے کا اولین شخص جو نبیﷺ سے متاثر ہو اوہ سوید بن صامت تھا۔ وہ حج کے لئے مکہ گیا۔ وہاں حضورﷺ اپنے قاعدے کے مطابق مختلف علاقوں سے آئے ہوئے حاجیوں کی قیام گاہ جا کردعوت اسلام دیتے پھر رہے تھے۔ اس سلسلہ میں سوید نے جب نبی اکرمﷺ کی تقریر سنی تو اس نے آپ سے عرض کیا کہ آپ جو باتیں پیش کر رہے ہیں ایسی ہی ایک چیز میرے پاس بھی ہے۔ آپ نے پوچھا وہ کیا ہے۔ اس نے کہا مجلہ لقمان ہے۔ اس پر آپﷺ کی فرمائش پر اس نے اس مجلہ کا کچھ حصہ آپﷺ کو سنایا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا یہ بہت اچھا کلام ہے مگر میرے پاس ایک اور کلام اس سے بھی بہتر ہے۔ اس کے بعد آپ نے اسے قرآن سنایا او اس نے اعتراف کیاکہ یہ بلا شبہ مجلہ لقمان سے بہتر ہے۔ یہی روایت حضرت مرزا بشیر احمد ایم اےؓ اپنی کتاب سیرت خاتم النیبین میں صفحہ 221 پر بھی درج کی ہے۔

حضرت لقمان علیہ السلام کا حسب نسب اور حلیہ

حضرت لقمان علیہ السلام کے حلیہ کے بارہ میں بھی مختلف روایات ملتی ہیں۔

ان کا حسب نامہ ایسے بیان کیا جاتا ہے کہ وہ لقمان بن عنقا بن سدون ہے اور کہتے ہیں کہ وہ مصری علاقہ سوڈان کے نوبی قبیلہ سے تھے اور پستہ قد بھاری بدن سیاہ رنگ تھا۔ ہونٹ موٹے تھے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکمت سے حصہ وافر عطاء کیا گیا تھا۔ (تاریخ ابن کثیر جلد دوم صفحہ 586) ایک روایت یہ بھی ملتی ہے کہ ’’حضرت ایوبؑ کے بھانجے تھے۔ اور انھی سے علم حاصل کیا۔ اور کہا گیا ہے کہ بنی اسرئیل میں قاضی رہے۔ ان کے سلسلہ نسب میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ لقمان بن باعور بن ناحور بن تارح اور تارح حضرت ابراہیم کے باپ تھے۔‘‘ (معالم التنزیل سورہ لقمان زیر آیت12) (اردو دائرہ معارف اسلامیہ زیر لفظ لقمان) صاحب اردو دائرہ معارف اسلامیہ نے خود ہی اس خیال کا رد بھی کیا ہے کہ اگر مندرجہ بالا نسب ہوتا تو یہود کی تاریخ میں ضرور اس کا ذکر ہوتا لیکن ایسا نہیں ہے اس لیے یہ غلط ہے۔

قصص القرآن میں لکھا ہے کہ ’’تاریخ قدیم میں لقمان نام کی ایک اور شخصیت کا پتہ چلتا ہے جو عاد ثانیہ (قوم ہود علیہ السلام) میں ایک نیک بادشاہ گزرا ہے اور خالص عرب نژاد ہے۔ ابن جریر، ابن کثیر، سہیلی جیسے مؤرخین کی رائے یہ ہے: مشہور لقمان حکیم افریقی النسل تھا اور عرب میں ایک غلام کی حیثیت میں آیا تھا‘‘۔

(قصص القرآن جلد3 صفحہ33)

قصص القرآن میں ایک اور روایت حضرت ابن عباس سے لی گئی ہے کہ

عن ابن عباس قال کان عبدا حبشیانجارا۔ وعن جابر بن عبداللہ قال کان لقمان قصیرا ا فطش من النوبۃ

یعنی حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ لقمان حبشی غلام تھے اور نجاری کا پیشہ کرتے تھے اور جابر بن عبداللہؓ فرماتے ہیں کہ لقمان پستہ قد موٹے ہونٹ والے نوبہ کے قبیلہ سے تھے۔

’’قتادہ عبداللہ بن زبیر کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ آخر الذکر نے جابر بن عبداللہ سے کہا کہ انہیں لقمان کے بارے میں جو جو باتیں معلوم ہوئی ہوں وہ انہیں بتائیں تو جابر بن عبداللہ بولے کہ وہ چھوٹے قد کے چپٹی ناک والے شخص تھے۔‘‘

(تاریخ ابن کثیر جلد دوم ص587)

ایک روایت میں ہے کہ ’’ایک سیاہ شخص حضرت سعید بن مسیبؓ کے پاس کچھ پوچھنے آیا تو انہوں نے فرمایا کہ سیاہ رنگ کی وجہ سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ بہترین لوگوں میں تین سیاہ افراد بھی شامل ہیں۔ بلال، حضرت عمرؓ کے غلام مھجع اور لقمان حکیم۔ لقمان حکیم نوبہ کے رہنے والے تھے۔ ان کے ہونٹ بڑے بڑے تھے۔ امام اعمش مجاہد سے نقل کرتے ہیں کہ لقمان سیاہ رنگ کے تھے۔ ہونٹ بڑے بڑے تھے اور دونوں پاؤں پھٹے ہوئے تھے۔ ایک روایت میں چوڑے قد م بتایا گیا ہے۔‘‘

(تاریخ بن کثیر جلد دوم ص587)

تفسیر کشاف میں سورۃ لقمان کی تفسیر میں ذکر ہے کہ

وقیل قاضیا فی بنی اسرئیل، واکثر الاقاویل انہ کان حکیماولم یکن نبیا وعن ابن عباسؓ لقمان لم یکن نبیا ولا ملکا، ۔ ۔ ۔ وقال عکرمۃ والشعبی کان نبیا۔ وقیل خیر بین النبوۃ والحکمۃ فاختار الحکمۃوعن ابن المسیب کان اسود من سودان مصر خیاطاً۔ ۔ ۔ ۔ وقیل کان نجاراً

(تفسیر کشاف سورۃ لقمان زیر آیت 13)

کہ کہا گیا وہ بنی اسرائیل میں قاضی تھے اور اکثر کہتے ہیں وہ حکیم تھے نبی نہیں تھے۔ حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ لقمان نبی نہیں تھے اور نہ ہی بادشاہ تھے۔ عکرمہ اور شعبی سے مروی ہے کہ وہ نبی تھے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ کو نبوت اور حکمت پیش کی گئی لیکن آپ نے حکمت اختیار کی۔ ابن مسیب بیان کرتے ہیں کہ سوڈان کے کالے رنگ کے تھے اور درزی تھے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ بڑھئی تھے۔

ایک روایت ابن ابی حاتم کی ملتی ہے کہ وہ حضرت ابو الدرداءؓ سے نقل کرتے ہیں کہ ایک دن آپ نے حضرت لقمان حکیم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ کو مال و دولت، اہل و عیال، حسب نسب اور حسن میں سے کسی چیز سے نہیں نوازا گیا تھا۔ آپ چوڑے جسم والے، خاموش، طویل غوروفکر کرنے والے، گہری نظر والے، دن میں کبھی نہیں سوئے، آپ کو کسی نے تھوکتے نہیں دیکھا، گلے سے آواز نکالتے کسی نے نہ سنا، پیشاب کرتے کسی نے نہیں دیکھا، پاخانہ کرتے کسی نے نہیں دیکھا، غسل کرتے ہوئے کسی نے نہیں دیکھا، فضول کام میں کبھی ملوث نہ ہوئے، کبھی زور سے ہنسے نہیں، آپ اپنی باتوں کو دہراتے بھی نہ تھے۔ البتہ کوئی حکمت کی بات اگر آپ فرماتے تو کوئی اس کو دہرانے کے لئے کہتا تو آپ اسے دہرادیتے۔ آپ نے شادی کی اور اولاد بھی ہوئی تھی۔ لیکن وہ فوت ہوگئی۔ آپ ان کے مرنے پر روئے نہیں، آپ حکام اور سلاطین کے پاس جاتے تھے لیکن جانے کا مقصد ان کے حالات سے عبرت حاصل کرنا ہوتا تھا۔ اسی لئے اللہ نے آپ کو مقام بلند عطاء کیا۔

(تاریخ ابن کثیر جلد دوم ص587)

جامع البیان میں ہے کہ ’’عن مجاھد قال کان لقمان الحکیم عبداً حبشیاًغلیظ الشفتین، مصفح القدمین قاضیاًعلی بنی اسرائیل‘‘

(جامع البیان فی تفسیر القرآن سورہ لقمان زیر آیت نمبر12)

کہ حضرت لقمان حبشی غلام، موٹے ہونٹوں والے اور چوڑے پاؤں والے اور بنی اسرائیل میں قاضی کے منصب پر فائز تھے۔

امام ابن مردویہ رحمہ اللہ نے حضرت ابوہریرہؓ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:کہ تم جانتے ہو کہ لقمان کون تھے؟ صحابہ نے عرض کی:اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا وہ ایک حبشی تھے۔

(تفسیر در منثور اردو جلد۵ ص468 سورہ لقمان)

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا حبشیوں کو لازم پکڑلو ان میں سے تین افراد جنتی لوگوں کے سردار ہوں گے: حضرت لقمان حکیم، حضرت نجاشی اور حضرت بلال مؤذن

(تفسیر در منثور اردو جلد ۵ ص468 سورہ لقمان)

عن ابن عمرقال:سمعت رسول اللہﷺ یقول حقا اقول لم یکن لقمان نبیاً ولکن عبد صمصامۃ کثیر التفکیر، حسن الیقین، احب اللہ فاحبہ وضمن علیہ بالحکمۃ

(الکشف والبیان لثعلبی سورہ لقمان زیر آیت نمبر 12)

کہ حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ لقمان نبی نہیں تھے لیکن خاموش رہنے والے اور کثرت سے غور وفکر کرنے والے، اچھی سوچ والے تھے وہ اللہ سے محبت کرتے تھے پس اللہ بھی ان سے محبت کرتا تھا اور ان کو حکمت عطاء کی۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
’’کہتے ہیں لقمان بھی سیاہ منظر تھے‘‘

(ملفوظات جلد چہارم ص414)

تفسیر در منثور میں ایک روایت درج ہے کہ ’’امام حکیم ترمذی رحمہ اللہ نے نوادر الاصول میں حضرت ابو مسلم خولانیؓ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ حضرت لقمان علیہ السلام ایسے بندے تھے جو بہت سوچ و بچار کرنے والے، حسن ظن رکھنے والے اور بہت شہرت رکھنے والے تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ سے محبت کی تو اللہ تعالیٰ نے اس سے محبت کی۔ اس پر حکمت کے ساتھ احسان فرمایا۔ حضرت داؤد علیہ السلام سے پہلے انہیں خلافت کے ساتھ نداء کی گئی۔ ان سے کہا گیا اے لقمان!کیا تو یہ پسند کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے اپنا خلیفہ بنالے تو تو لوگوں کے درمیان انصاف سے فیصلہ کرے؟ لقمان نے کہا اگر اللہ تعالیٰ مجھے زبردستی یہ اختیار دے تو میں قبول کر لوں گا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ایسا کیا تو وہ میری مدد فرمائیگا، مجھے علم عطاء فرمائے گا اور مجھے غلطی سے محفوظ رکھے گا۔ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا تو میں عافیت کو قبول کروں گا اور آزمائش کا سوال نہیں کروں گا۔ فرشتوں نے کہا ایسا کیوں؟ حضرت لقمان علیہ السلام نے کہا بادشاہ سخت ترین اور آلودہ جگہ پر ہوتا ہے۔ ہرجانب سے ظلم اس پر چھایا ہوتا ہے۔ اسے بے یارومددگار چھوڑ دیا جاتا ہے یا اس کی مدد کی جاتی ہے۔ اگر وہ درست فیصلہ کرے تو اس قابل ہے کہ نجات پائے۔ اگر غلطی کرے تو اس نے جنت کا راستہ چھوڑ دیا۔ جو آدمی دنیامیں کمزور ہے اس سے بہتر ہے جو دنیا میں معزز اور معروف ہے۔ جو آخرت پر دنیا کو ترجیح دیتا ہے دنیا بھی اس سے چھن جاتی ہے اور آخرت کے ملک تک بھی نہیں پہنچ سکتا۔ فرشتے اس کی اچھی گفتگو سے متعجب ہوئے۔ وہ ایک لمحہ کے لیے سوئے اور حکمت کا ایک خراٹالیا۔ بیدار ہوئے اور یہ باتیں کیں۔ ان کے بعد حضرت داؤدؑکو خلافت کی ندا کی گئی۔ انہوں نے خلافت کو قبول کر لیا اور حضرت لقمان علیہ السلام جیسی شرط نہ لگائی اور غلطی میں واقع ہوگئے۔ ان کی غلطی سے درگزر کر لیا گیا۔ حضرت لقمان علیہ السلام اپنے علم اور حکمت سے ان کی مدد کرتے۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے کہا اے لقمان تجھے مبارک ہو، تجھے حکمت دی گئی اور تجھ سے مصیبت کو دور کردیا گیا‘‘

(تفسیر در منثور اردو جلد۵ ص469 سورہ لقمان)

حضرت لقمان علیہ السلام کے بارہ میں آتا ہے کہ سب سے پہلے آپ کی حکمت و دانائی کاایسے پتہ چلا کہ ایک دن آپ کے مالک نے حکم دیا کہ بکری ذبح کرو اور اس کا بہترین حصہ لے آؤ۔ اس پر آپ نے بکر ی ذبح کی اور بکری کی زبان اور دل لے آئے۔ کچھ عرصہ بعد مالک نے حکم دیا کہ بکری ذبح کرو اور اس کے جسم کا برا ترین حصہ لے آؤ تو آپ نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے بکری ذبح کی اور اس کا دل اور زبان لے آئے۔ اس پر مالک نے پوچھا یہ کیا بات ہے۔ تو آپ نے جواب دیا کہ جب یہ دونوں حصے اچھے ہو جائیں تو سب سے بہترین یہی ہوتے ہیں اور جب یہ دونوں حصے اگر برے ہوجائیں تو سب سے برے حصے یہی ہوتے ہیں۔

حضرت مصلح موعودؓ حضرت لقمان علیہ السلام کی زندگی کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ ’’وہ ابھی چھوٹے ہی تھے کہ انہیں کسی نے ان کے والدین کی وفات کی وجہ سے غلام بنا لیا اور ایک تاجر کے پاس بیچ دیا۔ اس تاجر نے انہیں ذہین او رہوشیار سمجھ کر ان سے غلاموں والا سلوک ترک کر دیا اور ان سے محبت کرنے لگا۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد دوم ص298)

حضرت لقمان علیہ السلام نبی تھے یا نہیں

حضرت لقمان علیہ السلام نبی تھے یا نہیں اس کے بارہ میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔

’’امام ابن مردویہ نے حضرت ابن عباس سے یہ قول نقل کیا ہے کہ حکمت سے مراد عقل، سمجھ بوجھ اور ذہانت ہے نہ کہ نبوت۔‘‘

(تفسیر در منثور اردو جلد ۵ ص469سورہ لقمان)

امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم رحمہما اللہ نے حضرت قتادہ رحمہ اللہ سے یہ قول نقل کیا ہے کہ حکمت سے مراد اسلام میں سمجھ بوجھ ہے۔ آپ نبی نہ تھے اور نہ ہی ان کی طرف وحی کی گئی۔

(تفسیر در منثور اردو جلد ۵ ص470سورہ لقمان)

تفسیر جامع البیان فی تفسیر القرآن میں لکھا ہے کہ ’’قال قتادۃ ولم یکن نبیاًولم یوح الیہ۔ ۔ ۔ ۔ عن مجاھد انہ قال کان لقمان رجلاً صالحاًولم یکن نبیاً‘‘

(تفسیر جامع البیان فی تفسیر القرآن سورہ لقمان زیر آیت 12)

کہ قتادہ نے کہا کہ حضرت لقمان نبی نہیں تھے اور نہ آپ کی طرف وحی ہوئی ۔ ۔ ۔ مجاہد نے کہا کہ لقمان صالح آدمی تھے لیکن نبی نہیں تھے۔

تفسیر در منثور میں امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم رحمہما اللہ نے حضرت عکرمہ سے روایت کی ہے کہ حضرت لقمان علیہ السلام علیہ السلام نبی تھے۔

(تفسیر در منثور اردو جلد ۵ ص470سورہ لقمان)

تفسیر کشاف میں بھی ذکر ہے کہ کہا جاتا ہے کہ آپ کو نبوت اور حکمت پیش کی گئی تو آپ نے حکمت اختیار کی۔

حضرت مصلح موعودؓ الزامی جواب دیتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ
’’پھر حضرت لقمان علیہ السلام کو یہ لوگ نبی مانتے ہیں اور ان کے متعلق ان کی کتابوں میں لکھا ہے کہ وہ ایک جگہ ملازم رہے۔ ‘‘

(انوارالعلوم جلد 8ص69)

پھر تفسیر کبیر میں بھی فرماتے ہیں کہ ’’مثنوی رومی میں حضرت لقمان علیہ السلام کے متعلق جن کو بعض لوگ نبی سمجھتے ہیں۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد2ص298)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اپنے ایک انگریزی درس القرآن میں فرماتے ہیں کہ حضرت لقمان علیہ السلام نبی نہیں تھے اور نہ ہی قرآن نے انہیں نبی کہا ہے۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے واضح ارشا د اور حضرت مصلح موعودؓ کا بھی طرز کلام یہی بتاتا ہے کہ ان کے نزدیک بھی نبی نہیں تھے کیونکہ وہ دونوں جگہوں پر دوسرے بعض مسلمانوں کے اعتقاد کا ذکرالزامی جواب کے رنگ میں دے رہے ہیں۔ واللہ اعلم

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ انوارالعلوم میں ایک جگہ حضر ت لقمان کا واقعہ یوں بیان کرتے ہیں کہ
’’حضرت لقمان علیہ السلام ایک شخص کے ملازم تھے۔ آقا بوجہ ان کی مخلصانہ خدمات کے ان سے بہت پیار کرتا تھا۔ ایک دفعہ اس کے پاس خربوزہ آیا جو بے بہار کا تھا۔ اس نے عجوبہ چیز سمجھ کر ایک پھانک ازراہ محبت لقمان کو دی، آپ نے اسے چٹخارے لے لے کر کھانا شروع کیا حالانکہ دراصل وہ خربوزہ بہت تلخ اور بد مزہ تھا۔ آقا نے اپنے وفادار مخلص غلام کو چٹخارے لیتے دیکھ کر ایک پھانک اور دی جو آپ نے بڑے مزے سے کھائی۔ یہ حالت دیکھ کر آقا کو شوق ہوا کہ میں بھی خربوزہ کھاؤں۔ کیونکہ بڑا مزیدار معلوم ہوتا ہے۔ جب اس نے چکھا تو معلوم ہوا سخت کڑوا اور بد مزہ ہے۔ اس نے حضرت لقمان علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ خربوزہ تو سخت کڑوا ہے۔ آپ نے مجھے بتایا کیوں نہیں۔ میں اس خیال سے کہ آپ کو پسند ہے بار بار پھانکیں دیتا رہا۔ حضرت لقمان علیہ السلام نے جواب دیا کہ اتنی مدت آپ کے ہاتھ سے میٹھی اور خوشگوار چیزیں کھاتا رہا ہوں۔ میں بڑا ہی نہ شکر گزار ہوتا کہ جس ہاتھ سے اس قدر میٹھی چیزیں کھائیں اس سے ایک کڑوی ملنے پر ناک بھوں چڑھاتا۔‘‘

(انوارالعلوم جلد 1ص379,380)

حضرت لقمان علیہ السلام کی شخصیت کے بارہ میں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ بعض عرب کی روایات کے مطابق بعض لوگ لقمان کو قوم عاد کا ایک فرد اور یمن کا ایک بادشاہ قرار دیتے تھے۔ مولانا سید سلیمان ندوی نے ا نہی روایات پر اعتماد کر کے ارض القرآن میں رائے ظاہر کی ہے کہ قوم عاد پر خدا کا عذاب آنے کے بعد اس قوم کے جو اہل ایمان حضرت ہودؑ کے ساتھ بچ رہے تھے، لقمان انہی کی نسل سے تھے۔ او ر یمن میں اس قوم نے جو حکومت قائم کی تھی یہ اس کے بادشاہوں میں سے ایک تھے۔ اردو دائرہ معارف اسلامیہ میں لقمان حکیم کے حسب ونسب کے متعلق مزید ذکر ہے کہ کتاب التیجان میں حسب و نسب کسی قدر مختلف ہے جس سےظاہر ہوتا ہے کہ وہ افریقی الاصل نہیں بلکہ عربی النسل تھے۔

’’وہب بن منبہ کی روایت ہے کہ جب شداد بن عاد کا انتقال ہوا تو حکومت اس کے بھائی لقمان بن عاد کو ملی۔ لقمان کو سو آدمیوں کے برابر حاسہ ادراک عطاء ہواتھا اور اپنے اپنے زمانے میں سب سے زیادہ طویل القامت انسان تھے۔ وہب نے یہ بھی روایت کی ہے کہ عبداللہ بن عباسؓ فرمایا کرتے تھے کہ ان کا نسب نامہ لقمان بن عاد بن الملطاط بن السکسک بن وائل بن حمیر ہے‘‘۔

(اردو دائرہ معارف اسلامیہ ص129)

قصص القرآن جلد سوم کے صفحہ نمبر 34میں حضرت لقمان علیہ السلام کی شخصیت کے بارہ میں مختلف حوالے پیش کیے گئے ہیں چنانچہ ذکر ہے کہ تاریخ قدیم میں لقمان نام کی ایک اور شخصیت کا پتہ چلتا ہے جو عاد ثانیہ میں ایک نیک بادشاہ گزرا ہے اور خالص عرب نژاد ہے۔ ابن جریر ابن کثیر سہیلی جیسے مؤرخین کی رائے یہ ہے: مشہور لقمان حکیم افریقی نسل تھے اور عرب میں ایک غلام کی حیثیت میں آئے تھے۔

مشہور مورخ اور صاحب مغازی محمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ لقمان حکیم عرب کے مشہور قبیلہ عاد سے یعنی عرب بائدہ کی نسل سے تھے اور غلام نہ تھے بلکہ بادشاہ تھے۔ چنانچہ بعض کے نزدیک لقمان حکیم اور لقمان بادشاہ ایک ہی شخصیت ہیں اور وہ بلاشبہ عاد ثانیہ کے نیک بادشاہوں میں اور بہت بڑے حکیم و دانا تھے اور عرب لقمان کے نام سے جو صحیفہ منسوب تھا وہ ان ہی لقمان عاد کا ہی ہے۔ اس کے دعویٰ میں وہ ایک دلیل یہ لاتے ہیں کہ شاعرزمانہ جاہلیت سلمیٰ بن ربیعہ کے اشعار اس حقیقت کو بخوبی واضح کرتے ہیں۔ جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’حوادث زمانہ نے قبیلہ طسم کو اسکے بعد ذاجدون شاہ یمن کو اہل جاش و مارب کو اور قبلہ لقمان کو مٹا دیا‘‘

حضرت لقمان علیہ السلام کے بادشاہ ہونے کے بارہ میں ایک یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ حضرت لقمانؑ نے اپنے بیٹے کو عاجزی اختیار کرنے کی نصیحت کی زمین پر اکڑ کر نہ چلنے کی نصیحت کی۔ یہ سب باتیں ایک بادشاہ کے لیے ہوسکتی ہیں نہ کہ غلام کے لیے کیونکہ غلام تو پہلے ہی عاجز ہوتا ہے اور دنیا کی لعن طعن اور جبر سے پسا ہوتا ہے۔ وہ کیسے ایسی نصیحتیں کر سکتا ہے۔

جماعت احمدیہ کے ایک عظیم محقق شیخ عبد القادر صاحب نے جماعت احمدیہ کے ایک پرانے رسالہ ’الفرقان‘ میں حضرت لقمان علیہ السلام پر ایک مضمون لکھا ہے جس میں مختلف کتب کے حوالوں سے تفصیل بیان کی ہے۔ چنانچہ وہ حضرت لقمان علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ ’’عرب کی قدیم روایت بتاتی ہیں کہ لقمان حضرت نوح علیہ السلام کی پانچویں پشت میں عاد کے بیٹے تھے اور یمن کے بادشاہ حکمت میں وہ اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ بہت طویل قامت اور اپنے جد امجد حضرت نوح علیہ السلام کی طرح طویل العمر۔ ان کی فطرت میں عام انسانوں کے مقابلہ میں فہم و ادراک سو گنا زیادہ تھا۔ وہ عرب کے ایک عظیم مصلح تھے۔ ان کے اقوال زبان زد خلائق اور ان کا ’’مجلہ حکمت‘‘ عرب میں شائع تھے۔‘‘

(الفرقان ربوہ شمارہ نومبر 1965ء)

شیخ صاحب نے بعض کتب کے حوالے سے لکھا ہے کہ طوفان نوح کے بعد عاد کی حکومت عرب سے نکل کر عراق اور شام و مصر تک پھیل گئی تھی۔ چنانچہ عاد کے ایک بیٹے کا نام شداد تھا اور دوسرے کا نام لقمان تھا۔ جب عاد کی قوم مختلف ملکوں میں پھیل گئی تو حکمت لقمان بھی مختلف ملکوں تک پھیل گئی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت لقمان علیہ السلام کی حکمت کی باتوں پر مشتمل صحیفہ مختلف جگہوں سے ملے ہیں۔ مصر میں اسوسی بادشاہ جس کا زمانہ 2500قبل مسیح کے لگ بھگ ہے، کے دور حکومت میں شاہی نسل کے ایک وزیر فتاح ہوتپ نے بزرگان قدیم کے کلمات حکمت کو مرتب کیا۔ اس میں لکھا ہے کہ بزرگان قدیم کی الہامی ہدایات اس میں شامل ہیں۔ بادشاہ مصراسوسی اور اس کے فرزند اکبر فتاح ہوتپ کا زمانہ چونکہ وہی ہے جبکہ عاد عرب مصر میں حکمران تھے۔ اس لئے بالکل قرین قیاس ہے کہ فتاح ہوتپ قوم عاد میں سے ہو اور جس بزرگ کی الہامی ہدایات کو اس نے جمع کیا تھا وہ لقمان ہوں۔ فتاح ہوتپ کا صحیفہ مصر کے آثار سے نہایت عمدہ حالت میں برآمد ہواہےاور پیرس کے عجائب گھر میں محفوظ ہے۔ فتاح ہوتپ کے صحیفہ میں اپنے بیٹے کے نام 43نصائح قلمبند کی گئی ہیں۔

شیخ صاحب نے مضمون میں مصر کے آثار سے برآمد ہونے والے ایک اور صحیفہ جس کو حکیم آنی کا صحیفہ کہاجاتاہے اور اس کا زمانہ 2700قبل مسیح بتایا گیا ہے، کا بھی ذکر کیا ہے۔ اس میں بیٹے کو ماں کے بارہ میں بہت خوبصورت الفاظ میں نصیحت کی گئی ہے۔

اس کے علاوہ شیخ صاحب نے مختلف حوالوں سے بتایا ہے کہ لقمان حکیم کی حکمت کی باتیں بابل اور یونان اور اسی طرح حضرت سلیمان علیہ السلام کے کلام میں بھی ملتی ہیں۔

حضرت سلیمان علیہ السلام نے بھی اس بزرگ کی امثال سے استفادہ کیا۔ کتاب امثال اور صحیفہ فتاح ہوتپ کے اقوال حکمت میں بہت سی مشابہتیں ہیں۔ بالخصوص دونوں کتابوں کے مقدمہ میں مشابہت بہت قابل توجہ ہے۔

شیخ صاحب کے نزدیک عرب میں ایک حبشی الاصل حکیم لقمان اصل میں لقمان ثانی ہیں۔ چنانچہ بیان کرتے ہیں :
’’عرب میں ایک حبشی الاصل حکیم کو بھی لقمان کا نام دیا گیا۔ یہ لقمان عاد نہیں بلکہ بہت بعد میں ہوئے ۔انہیں ہم لقمان ثانی کہہ سکتے ہیں۔ یہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانہ میں ہوئے۔ ان کا نام لقمان بن عنقاہے۔ کتاب امثال میں جس حکیم کا کلام درج ہے اس کانام اجور بن یاقہ ہے۔ وہ ماسا کے تھے یعنی ایک اسماعیلی قبیلہ میں رہنے والے۔ ماسا حضرت اسماعیلؑ کے بیٹے اور شمالی حجاز کے ایک مقام کا نام ہے۔ اجور بن یاقہ اور لقمان بن عنقام اغلباً ایک ہی ہیں۔ عنقا بگڑ کر یاقہ بن گیا۔ واللہ اعلم‘‘

(الفرقان ربوہ نومبر 1965ء ص 32)

ان ساری باتو ں سے مندرجہ ذیل خلاصہ ہمارے پاس آتا ہے :
(1) دنیا ئےتاریخ میں ایک بہت بڑی ہستی گزری ہے جو اپنی حکمت و دانائی کی وجہ سے بہت سی قوموں میں مشہور تھی۔ اوراللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک مکمل سورت اس موضوع پر اتار کر ثابت کردیا کہ وہ شخصیت کوئی فرضی کہانی نہیں تھی بلکہ فی الحقیقت ایسی ہستی گزری ہے۔
(2) زمانہ جاہلیت میں بھی صحیفہ لقمان کے نام سے ایک کتاب موجود تھی جسے عرب لوگ عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور اپنی محفلوں میں اس کا تذکرہ کرتے تھے۔
(3) بعض کے نزدیک یہ ہستی عربی النسل تھی اور عاد قوم میں بادشاہ گزری ہے۔
(4) بعض کے نزدیک یہ عظیم ہستی افریقی نسل تھی اور مصر سوڈا ن کے رہنے والی تھی جو غلام بنا کر عرب لائی گئی۔
(5) حضرت مسیح موعودؑ نے انہیں حبشی النسل قرار دیا ہے۔
(6) حضرت مصلح موعودؓ کے نزدیک بھی یہ حبشی غلام تھے۔
(7) حضرت خلیفۃ المسیح االثانیؓ اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے نزدیک یہ نبی نہیں تھے۔
(8) بہت کم لوگوں کے نزدیک یہ نبی تھے۔
(9) شیخ عبد القادرصاحب کے نزدیک بھی یہ ایک عاد قوم میں بادشاہ گزرے ہیں اور ان کے حکمت ودانائی کے اقوال مختلف اقوام میںاورمختلف زمانوں میں رائج رہے ہیں۔

ان ساری باتوں کو دیکھتے ہوئے پتہ چلتا ہے کہ حضرت لقمان علیہ السلام کی شخصیت کے بارہ میں کوئی ایک رائے نہیں ملتی بلکہ اتنی مشہور شخصیت ہونے کے باوجود ان کا حسب نسب کے بارے میں واضح بات سامنے نہیں آتی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ عاد قوم میں بھی ایک بادشاہ گزرا ہوجو انتہائی نیک دل ہو اور حکمت ودانائی میں بھی اپنی مثال آپ ہوں۔ لیکن اصل میں جیساکہ حضرت مسیح موعودؑ اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے فرمایا ہے کہ حضرت لقمان علیہ السلامؑ افریقی النسل اور غلام تھے اور بعد میں عرب میں آئے۔بعد ازاں اپنی حکمت و دانائی کی وجہ سے مشہور ہوگئے۔ لیکن وقت کے گزرنے کے ساتھ دونوں شخصیتو ں کوملا دیا گیا۔ واللہ اعلم۔ بہرحال ایک بات ثابت ہے کہ قرآن کریم نے اس عظیم شخصیت کا نام لقمان بتا یا ہے اوراس بات سے انکار کیا ہے کہ یہ کوئی افسانوی شخصیت تھی ۔کیونکہ مغرب و مشرق میں کسی افسانوی شخصیت کا اتنا مقبول ہونا قرین قیاس نہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ فرماتے ہیں :
’’حضرت لقمانؑ کو جو حکمت عطاء ہوئی اس کا مرکزی نکتہ ہی شکر الہٰی ہے جس سے ان کی نصیحت کا آغاز ہوتا ہے۔‘‘

(ترجمہ القرآن خلیفۃ االمسیح الرابعؒ ص710)

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے حقائق الفرقان میں حضرت لقمان علیہ السلام کی دس نصائح جو انہوں نے اپنے بیٹے کو کیں اور قرآن کریم نے ان کا ذکر کیا ہے، بیان فرمائی ہیں چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
’’حضرت لقمان علیہ السلام کی نصیحت بیٹے کیلئے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں درج فرمایا ہے۔ تاکہ لوگ اس پر عمل کریں۔ اس میں دس احکام ہیں۔

(1) شرک سے مجتنب رہو۔
(2) والدین سے حسن سلوک کرو سوائے حکم شرک کے ان کے سب حکم مانو۔
(3) نماز قائم رکھو۔
(4) علم الٰہی پر ایمان رکھو کہ وہ تمہاری ہر حرکت سے واقف ہے۔
(5) بھلی بات کا حکم دو۔
(6) بری باتوں سے منع کرتے رہو ۔
(7) لوگوں کے ساتھ تکبر سے پیش نہ آؤ۔
(8) زمین پر اکڑ کر نہ چلو۔
(9) ہر ایک معاملہ میں میانہ روی اختیار کرو ۔
(10) اپنی آواز کو دھیما رکھو۔‘‘

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن کریم میں موجود حضرت لقمان علیہ السلام کی اپنے بیٹے کو کی گئی نصیحتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین

٭…٭…٭

(مبارک احمد منیر مربی سلسلہ برکینا فاسو)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 اکتوبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 اکتوبر 2020