• 25 اپریل, 2024

This week with Huzur (29 اکتوبر 2021ء)

This week with Huzur
29 اکتوبر 2021ء

اس ہفتے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 2 ورچوئل ملاقاتوں کی صدارت فرمائی۔ ان میں سے پہلی ملاقات بروز ہفتہ تھی۔ جس میں 150 خدام نےمسجد بیت النور کیلگری کینیڈاسے شرکت کی جبکہ اگلے دن دوسری ورچوئل ملاقات جماعت احمدیہ آئر لینڈ کی نیشنل مجلس عاملہ کے ساتھ تھی۔ جس کے لیے ممبرانِ عاملہ مسجد مریم Galway میں جمع ہوئے تھے۔

حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ سےمجلس خدام الاحمدیہ کینیڈا کی ورچوئل ملاقات

اس ہفتے مجلس خدام الاحمدیہ کینیڈا کو پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس اید ہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے آن لائن ملاقات کا شرف حاصل ہوا جس کے لیے تقریباَ 150 خدام مسجد بیت النور کیلگری میں جمع ہوئے جس میں خدام نے مختلف سوالات کے ذریعہ پیارے امام ایدہ اللہ سے جو رہنمائی حاصل کی اس کی تفصیل درج ذیل ہے۔

*ایک خادم نے سوال کیا کہ یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ وہ طلباء جو گریجویٹ کرتے ہیں وہ مقررہ شرح کے مطابق چندہ ادا نہیں کر رہے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا: کیا وہ جو گریجویٹ نہیں ہیں؟ کیا وہ اپنا چندہ شرح کے مطابق ادا کر رہے ہیں؟جس پر موصوف نے جواب دیاکہ بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ وہ گریجویشن کرنے کے بعد بھی جو چندہ طالب علم کے لیے مقرر ہوتا ہے وہی دیتے رہتے ہیں ۔حضور انور نے فرمایا کہ اگر وہ کام کر رہے ہیں یا ان کو کوئی وظیفہ یا کوئی سکالرشپ یا کوئی جیب خرچ مل رہاہے تو انہیں اس رقم کے مطابق ادائیگی کرنی چاہیے جو وہ باقاعدگی سے کما رہے ہیں لیکن وہ جن کی کوئی آمد نہیں ہے ، نا ہی والدین سے کوئی جیب خرچ ہے اور نا سکالر شپ ہے ۔ کچھ یونیورسٹی طلباء ہیں جو کہ ریسرچ کر رہے ہیں انہیں بھی کچھ معمولی سی رقم یا وظیفہ ملتا ہے تو ان سب کو اس کے مطابق چندہ ادا کرنا چاہیے۔ آپ ان سے پوچھ سکتے ہیں کہ اگر وہ کچھ کما رہے ہیں تو ان کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ شرح کے مطابق چندہ ادا کریں ۔کیونکہ نہ تو آپ اپنا چندہ صدر خدام الاحمدیہ کو اد اکر رہے ہیں اور نہ ہی جماعت کو دے رہے ہیں۔کیونکہ آپ خالصۃَ خدا تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کے لیے اپنا ممبر شپ کا چندہ ادا کر رہے ہیں۔ یہ ایک قرآنی حکم ہے جس کا قرآن کریم کے آغاز میں ہی حکم دیا گیا ہے۔اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ ہمارے روزمرہ کے اخراجات پر خرچہ ہو رہا ہے اور ہم مقررہ شرح کے مطابق چندہ ادا نہیں کر سکتے تو اگر یہ خدام الاحمدیہ کا چندہ ہے تو آپ صدر صاحب خدام الااحمدیہ سے رعایت لے سکتے ہیں یا اگر یہ جماعتی چندہ ہے تو نظام جماعت سے اجازت لے سکتے ہیں کہ اس وجہ سے میں شرح کے مطابق چندہ ادا نہیں کر سکتا۔ہم انہیں صرف کہہ سکتے ہیں یا نصیحت کر سکتے ہیں ۔ہم انہیں جبراَ نہیں کہہ سکتے ۔پس اگر وہ یہ بات سمجھ جائیں کہ وہ یہ چندہ خدا تعالیٰ کی خاطر اور خدا تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے کی خاطر ادا کر رہے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ وہ اپنی بہتری کے لیے اور جماعت کے روز مرہ کے اخراجات کو چلانے کے لیے چندہ دیں۔بات یہ ہے کہ اگر وہ سمجھ جائیں کہ ان کا چندہ ایک خاص اور نیک مقصد کے لیے استعمال ہو رہا ہے تو نتیجۃ َوہ ادائیگی کریں گے۔تو آپ کا کام ہے کہ ان کو سمجھائیں کہ چندہ کی رقم کو کہاں پر خرچ کیا جا رہا ہے؟جب میں تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کرتا ہوں تو میں بعض دفعہ بتا بھی دیتا ہوں کہ یہ رقم افریقہ میں اس مقصد کے لیے، قادیان میں اس مقصد کے لیے ،انڈیا میں اس مقصد کے لیے اور دنیا کے دیگر حصوں میں اس مقصد کے لیے خرچ ہو رہی ہے۔بہت سارے لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے مجھے بعد میں لکھا بھی ہے کہ آپ کا خطبہ سننے کے بعد ہمیں اس بات کا احساس ہو گیا ہے کہ ہمیں چندہ کیوں ادا کرنا چاہیے ؟اور اب ہم اپنی استطاعت کے مطابق چندہ ادا کریں گے اور مقررہ شرح کے مطابق ادئیگی کریں گےپس انہیں غلط رنگ میں ترغیب دلانے کی بجائے انہیں ان کی ذمہ داریوں سے آگاہ کرو کہ وہ چندہ کیوں اد کر رہے ہیں؟ ’’کیوں‘‘ کا سوال تو نئی نسل میں بہت عام ہے۔تو آپ نے اس ’’کیوں‘‘ کا جواب دینا ہے۔آپ نے اس ’’کیوں‘‘ کو حل کرنا ہے۔

*ایک خادم نے سوال کیا کہ حضور! بعض دفعہ ہم کچھ لوگوں کو نظام جماعت کے خلاف بات کرتے ہوئے سنتے ہیں پس ایسے موقع پر ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

حضور انور نے فرمایا: سب سے پہلے عہدیداروں کو اپنی اصلاح کرنی چاہیے تا کہ وہ اپنے جائزے لے سکیں کہ کیا جو کچھ بھی وہ کررہے ہیں وہ قرآن کریم، اللہ تعالیٰ اور آنحضرت ﷺ کی تعلیمات کے مطابق بھی ہیں یا نہیں۔ اگر عہدیداران عہدیداران درست ہیں اور خشیت الٰہی کے ساتھ اپنے کاموں کو ادا کرتے ہیں تو پھر ان سے صرف نظر کیا جاسکتا ہےاور الزام ان لوگوں پر آئے گا جو عہدیداران کے خلاف منفی باتیں کرتے ہیں۔بعض دفعہ چند عہدیداران کے رویوں کی وجہ سے بعض لوگوں کو ان عہدیداران کے خلاف کچھ شکایات ہوتی ہیں تو سب سے پہلی بات یہ ہے کہ عہدیداران اس بات کا خیال رکھیں کہ افراد جماعت سے کسی قسم کا منفی رویہ نہ دکھائیں۔ ان کو شکایات کیوں ہیں؟کیوں وہ عہدیداران کے خلاف بدگوئی کرتے ہیں؟ کیونکہ ان کے ذاتی تجربات اور اختلافات ہیں؟ پس ان کے یہی ذاتی اختلافات یا رنجشیں ہیں جو ان کو نظام ِجماعت کے خلاف بات کرنے پر آمادہ کرتے ہیں۔ اگر تو وہ آپ کے قریبی دوست ہیں تو آپ ان کو بتاسکتے ہیں کہ یہ بات درست نہیں ہے۔اگر آپ کا کسی عہدیدار کے ساتھ کوئی ذاتی اختلاف ہے یا کوئی شکایت ہے تو پھر بھی آپ کو نظام جماعت کے خلاف کوئی بری بات نہیں کہنی چاہیے اور نہ ہی کوئی منفی بات نظام جماعت کے خلاف کرنی چاہیے۔ آپ کے جو اپنے ذاتی اختلافات ہیں وہ حل کیے جا سکتے ہیں۔ آپ اس معاملہ کو بالا نظام تک یا خلیفہ وقت تک لے جا سکتے ہیں لیکن اگر اس کے باوجود وہ نہیں رکتے یا وہ اس بات پر مُصر رہتے ہیں کہ ہم اسی بات کے کرنے پر قائم رہیں گے توان کے لیے دعا کرو اور کچھ عرصہ کے لیے ان کی صحبت چھوڑ دو تا کہ ان کو احساس ہو جائے کہ جو وہ کر رہے تھے وہ غلط تھاجس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ان کے ایک قریبی دوست ان سے الگ ہو گئے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ آپ کو ان کے لیے دعا بھی کرنی چاہیے۔ اگر آپ سمجھتے ہو کہ یہ بات جماعت کو بدنام کر رہی ہے یا جماعت کو نقصان پہنچا سکتی ہے تو پھر آپ کو یہ بات بالائی نظام تک رپورٹ کرنی چاہیے کہ یہ لوگ نہ صرف عہدیداروں کے خلاف بلکہ جماعت کے خلاف بھی بات کررہے ہیں۔ یہ آپ کا فرض ہے لیکن پہلی چیز یہ ہے کہ ان کو نصیحت کرنے کی کوشش کرو اور اگر وہ آپ کے قریبی دوست ہیں تو نرمی کے ساتھ ان کو بتائیں کہ یہ درست رویہ نہیں ہے۔یہ بات کرنے کا درست طریق نہیں ہے۔ اور اس سے جماعت کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا بلکہ آپ کو پہنچے گا۔ اس لیے اس معاملہ کو چھوڑ دو۔ تو یہ ہے وہ طریقہ جس کے ذریعہ سے ہم ان کو نصیحت کر سکتے ہیں۔ اگر وہ توبہ کرنے کی کوشش نہیں کرتے تو ان کی صحبت کو چھوڑ دو۔ لیکن ان کو خالی نہ چھوڑ دینا بلکہ ان کے لیے دعا بھی کرنا کہ اللہ تعالیٰ انہیں گمراہی کی طرف جانے سے بچائے۔

*ایک خادم نے سوال کیا کہ حضور!میرا سوال ہے کہ اس وبا کے دوران ہماری زندگیوں میں ایک بہت بڑی تبدیلی آ چکی ہے۔ کچھ مثبت چیزیں بھی سامنے آئی ہیں۔ جیسا کہ کلاسوں میں حضور انور سے شرف ملاقات نصیب ہونا جیسا کہ اس وقت بھی ہم کر رہے ہیں۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کب سمجھتے ہیں کہ ہم دوبارہ انفرادی ملاقات کر سکیں گے؟

حضور انور نے فرمایا: بات یہ ہے کہ تم کیلگری میں یہاں سے 8000 کلو میٹر سے زائد دور بیٹھے ہو تو جب بھی آپ لندن آ ؤ تو آپ مجھ سے آ کر مل سکتے ہو۔ میں نے لوگوں سے انفرادی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے اور اس کے علاوہ ایک نیا رستہ ہے جو خدا تعالیٰ نے ہمارے لیے کھولا ہے اور ہم اس سے استفادہ کر رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ دروازہ بھی بند نہیں ہے وہ بھی کھلا ہے۔ اگر آپ یہ کہتے ہو کہ میں آپ سے ملنے کے لیے کب کینیڈا آؤں گا؟ تو یہ خدا تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ لیکن جہاں تک آپ کا تعلق ہے تو آپ مجھ سے ملنے یہاں اسلام آباد آ سکتے ہیں۔

*ایک خادم نے سوال کیا کہ حضور! بعض اوقات ہم دیکھتے ہیں کہ ایک عہدیدار کو ایک فیصلہ کے بارہ میں کچھ تحفظات ہوتے ہیں۔ جبکہ وہ فیصلہ اجتماعی طور پر طے ہو چکا ہوتا ہے مثلاَ عاملہ کے اجلاس میں۔ایسی صورت حال میں حضور انور کی کیا ہدایت ہے؟

حضور انور نے فرمایا: دیکھیں آج کی دنیا میں ہم جمہوریت کو تسلیم کرتے ہیں۔ جب عاملہ کی اکثریت کوئی فیصلہ کرتی ہے تو ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ اس پر عمل کریں اور اس پر کاربند ہوں لیکن اگر کوئی فیصلہ شوریٰ میں طے ہو تا ہے تو شوریٰ میں کیا گیا کوئی بھی فیصلہ خلیفۃ المسیح کی خدمت میں بطور تجویز پیش ہوتا ہے۔ اور آپ کی تمام تر تجاویز پھر میرے پاس یہاں آتی ہیں اور میری منظوری کے بعد وہ متعلقہ جماعت یا متعلقہ اتھارٹیز کو عمل درآمد کے لیے واپس بھجوائی جاتی ہیں۔ اگر وہ شوریٰ کے فیصلہ سے سخت اختلافِ رائے رکھتے ہیں تو اسکا مطلب یہ ہوا کہ وہ خلیفۃ المسیح کے فیصلہ کو ماننے سے انکار کر رہے ہیں۔ اگر وہ خلیفۃ المسیح کے فیصلے کو ماننے سے انکار کر رہے ہیں تو پھر ان کے احمدی ہونے کا کیا فائدہ؟ بعض دفعہ لوگ کہتے ہیں کہ فیصلہ معروف نہیں جبکہ معروف کے معنی ہیں کہ ہر وہ فیصلہ جو قرآن پر مبنی ہو، اسلامی تعلیمات پر مبنی ہو اور سنت پر مبنی ہو۔ معروف فیصلہ کی اصطلاح قرآن کریم میں بھی استعمال ہوئی ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ کیا ان لوگوں نے آنحضرت ﷺ کے معروف اور غیر معروف فیصلوں کی کوئی فہرست تیار کر رکھی ہے کہ آپ کے کون سے فیصلے اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق معروف تھے اور کون سے غیر معروف تھے؟ تو ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہوتا۔ ’’معروف‘‘ اصطلاح کو سمجھنے میں غلط فہمی پائی جاتی ہے۔ معروف کے معنی ہر اس بات کے ہیں جو قرآنی احکامات کے مطابق ہو، آنحضرت ﷺ کے مطابق ہو اور آج کے دور میں حضرت مسیح موعود ؑ کے مطابق ہو اور میں نہیں سمجھتا کہ کسی خلیفہ نے اس کے خلاف کوئی بات کہی ہو۔ وہ لوگ جو شوریٰ کے فیصلوں پر عمل نہیں کرتے یا ان فیصلوں کے خلاف بولتے ہیں یا ان فیصلوں سے سخت اختلافِ رائے رکھتے ہیں تو وہ فی الواقع خلیفۃ المسیح کے فیصلوں کا انکار کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ جن کو شوریٰ کے فیصلہ جات کے بارہ میں کسی بھی قسم کے تحفظات ہیں وہ درحقیقت خلیفۃ المسیح کے فیصلوں کا انکار کر رہے ہوتے ہیں۔ کیونکہ شوریٰ کے تمام تر فیصلہ جات کی منظوری خلیفۃالمسیح نے دی ہوتی ہے۔

*ایک خادم نے سوال کیا کہ حضور! عوام میں بھی اور ممبران جماعت میں بھی کووِڈ ویکسین کے بارے میں منفی رجحانات پائے جاتے ہیں۔ بعض افراد جماعت کو جو عہدیداران بھی ہیں ویکسین نہیں لگی ہوئی۔ پیارے حضور آپ کی ایسے لوگوں کے بارہ میں کیا ہدایت ہے اور ہم ان کو حکومتی تدا بیر کی پیروی کے بارہ میں کیسے ترغیب دلا سکتے ہیں؟

حضور انور نے فرمایا: حکومت جو کچھ بھی کر رہی ہے وہ ہمارے فائده کے لیے ہے۔ ہمیں اس کی قدر کرتے ہوئے ویکسین لگوانی چاہیے۔ اگر عہدیداران ایسا نہیں کر رہے تو وہ غلط کر رہے ہیں۔ اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود ؑ کے دور میں طاعون پھیلی تھی تو وہ ایک نشان تھا جو حضرت مسیح موعودؑ کو دکھایا گیا تھا ۔قادیان میں رہنے والوں کو حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا تھا کہ اگر آپ کو ٹیکا نہیں بھی لگتا تو بھی اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت فرمائے گا۔لیکن آپ نے کبھی بھی مجمو عی طور پر جماعت کو یہ نہیں فرمایا کہ کوئی بھی ویکسین نہ لگوائے یا طاعون کے خلاف ٹیکہ نہ لگوائے۔پس ان کی یہ دلیل غلط ہے۔میری رہنمائی یہ ہے کہ انہیں ویکسین لگوانی چاہیے اور جہاں تک ماسک کا تعلق ہے انہیں ماسک پہننے چاہیے۔انہیں اپنا منہ اور ناک ڈھانپ کر رکھنا چاہیے۔پس یہ وہ لوازمات ہیں کہ جب آپ پبلک جگہ پر ہوں تو ان کا خیال رکھنا چاہیے لیکن وہ لوگ جو ان باتوں پر عمل نہیں کر رہے تو وہ حقیقت میں خواہ وہ پڑھے لکھے ہوں تب بھی وہ جہالت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اس لیے میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ وہ پڑھے لکھے ignorant ہیں۔دیکھو یہاں اسلام آباد میں جو شخص بھی داخل ہوتا ہے تو اُسے گیٹ پر ہی ثبوت دکھانا ہوتا ہے کہ اسے دونوں ویکسین لگ چکی ہیں اس کے بعد اس کا دوبارہ کووِڈٹیسٹ کیا جاتاہے تب کہیں جا کر وہ اسلام آباد میں داخل ہو سکتا ہے اور اس سب کے با وجود اسے تلقین کی جاتی ہے کہ وہ اپنے چہرے کو ماسک سے ڈھانپے ۔یہاں تک کہ مسجد میں جمعہ کی نماز کے وقت آپ نے دیکھا ہو گا کہ جو لوگ میرے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں ان سب نے ماسک پہنے ہوئے ہوتے ہیں۔پس اگر یہ لوگ اس پر عمل نہیں کرتے تو وہ نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی نقصان پہنچا نے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ایسے لوگ لاپرواہ ہوتے ہیں اور پس اگر ان کے پاس کوئی عہدہ ہے تو انہیں عہدیدار نہیں رہنا چاہیے۔

*ایک خادم نے سوال کیا کہ حضور!ایک پیشگوئی ہے کہ سورج مغرب سے طلوع ہو گا پیارے حضور میرا سوال یہ ہے کہ یہ واقعہ کس دور میں پوار اہونا ہے؟ اور اس ضمن میں بطور احمدی ہماری کیا ذمہ داری ہے؟

حضور انور نے فرمایا: ہم آپ کو معین وقت تو نہیں بتا سکتے۔ یہ ایک پیشگوئی ہے جو اپنے وقت پر پوری ہوگی لیکن ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی دعاؤں ،اپنے اعمال اور اپنے علم کے ذریعہ کوشش کریں کہ یہ ہدف جلد از جلد پورا ہو بلکہ ہمارے دور میں ہی پورا ہو۔عین ممکن ہے کہ ہم اس پیشگوئی کو اپنے دور میں پوار ہوتا ہوا دیکھیں۔اگر آپ اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکیں گے اور پانچوں نمازیں رقت سے یہ دعا کرتے ہوئے پڑھیں گے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو یہ موقعہ دے کہ آپ اس پیشگوئی کو پوارا ہوتے ہوئے دیکھ سکیں اور اس کے ساتھ ساتھ جب آپ کا ہر عمل اسلام اور قرآن کی تعلیم کے مطابق ہو گا اور احمدیوں کی اکثر یت اسی طرح عمل کرے گی تو پھر آپ اس پیشگوئی کو ہمارے دور میں ہی پورا ہوتا ہوا دیکھ سکیں گے لیکن اگر ایسا نہیں ،تو اللہ تعالیٰ بعد میں کسی وقت پورا کرے گا۔ہمیں اپنی اصلاح کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

دوسری ملاقات

نیشنل مجلس عاملہ آئرلینڈ کی حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ سے ورچوئل ملاقات

اگلے دن جماعت احمدیہ آئر لینڈ کی نیشنل مجلس عاملہ کو حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ سے ورچوئل ملاقات کی سعادت نصیب ہوئی جس کے لے یہ لوگ مسجد مریم Galway میں جمع ہوئے تھے۔جس میں ممبرانِ عاملہ نے مختلف سوالات کے ذریعہ رہنمائی حاصل کی جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔

*ایک ممبر نے یہ سوال کیا کہ حضور! کیا اس موجودہ وبا سے دنیا نے کوئی سبق سیکھا ہے؟

حضور انور نے فرمایا: کیا آئر لینڈ میں کوئی سبق سیکھا ہوا نظر آرہا ہے؟ اُسی طرح ’’ہا ہا، ہو ہو‘‘ ہے۔ اُسی طرح دنیا داری ہے۔ جس طرح ان کا نظام چل رہا ہے اُسی طرح چلائی جا رہے ہیں انہوں نے خدا کی طرف تو رجوع نہیں کیا اور نہ ہی کرنا چاہتے ہیں۔ صرف باتیں ہی ہیں۔ اب جو سیلاب آئے یا آ رہے ہیں ۔جرمنی میں اتنے سیلاب آئے ہیں کیا انہوں نے سبق سیکھا؟ تھوڑی دیر کے لیے ان کو اللہ یاد آیا اور کھانے کی لائنوں میں لگے اور رونا شروع کیا اور جب دوبارہ حالت ٹھیک ہوگئی تو بھول گئے۔ جیسے کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جب وہ کسی مصیبت میں پڑتے ہیں تو میری طرف جھکتے ہیں۔ اور جب پانی میں گر جاتے ہیں تو میری مدد مانگتے ہیں اور جب خشکی پر پہنچتے ہیں تو پھر انہی برائیوں میں پڑ جاتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ اللہ کون؟ اور دنیا کون؟ اور تم کون؟

*ایک ممبر نے حضور انور ایدہ اللہ کو سلام عرض کیا اور کہا کہ حضور! میرا ایک چھوٹا سا سوال ہے لیکن اس سے پہلے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ حضور سے ملاقات کا موقعہ ہر احمدی کو نصیب نہیں ہوتا اور میں حضور سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں خدا تعالیٰ کی خاطر دل کی گہرائیوں سے حضور سے محبت کرتا ہوں۔

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ یہ تو سوال نہیں ہے۔ اس پر موصوف نے جواب دیا کہ حضور میرا سوال یہ ہے کہ میرا تبلیغ اسٹال پر یہ تجربہ رہا ہے کہ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ انہیں اسلام کی روحانی تعلیمات تو پسند ہیں لیکن انہیں شریعت کی پابندی اور اس کے اوامر و نواہی کی پابندی کرنا مشکل لگتا ہے۔ اس سلسلہ میں میرا حضور سے سوال ہے کہ آیا کسی کو یہ کہنے کی اجازت ہے کہ اسلام قبول کر لو اور بعد میں ناجائز امور کو ترک کرنے کی کوشش کرو یا ہمیں یہ کہنا چاہیے کہ اگر آپ نے اسلام قبول کرنا ہے تو شروع سے ہی نا جائز امور کو ترک کرنا ہو گا۔

اس پر حضور انور نے فرمایا: ہم صرف اپنی تعداد بڑھانے کے لیے تبلیغ نہیں کرتے۔ کسی کو اسلام احمدیت قبول کرنے کی دعوت دینے میں کیا فا ئدہ اگر اس میں اپنی اصلاح کی قوت ارادہ نہ ہو؟ اسلام اور دین کیا ہے؟ دین چاہتا ہے کہ ہم اپنی اصلاح کریں ۔اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکیں اور اس کے حقوق ادا کریں۔اس کے علاوہ بعض اخلاقی فرائض بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے تعلق رکھتے ہیں تو آپ ان سے یہ کہہ دیں کہ یہ اسلام کی تعلیمات ہیں۔اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ اگر آپ نے اپنی زندگی کی حفاظت کرنی ہے تو صرف یہ سوچ نہ رکھیں کہ دنیاوی زندگی ہی اصل زندگی ہے ۔ایک اور زندگی کا بھی سامنا کرنا پڑے گا جو کہ ابدی زندگی ہے۔وہاں اپنے تمام اعمال کے لیے اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہوں گے۔اگر تو آپ نے اچھے کام کئے ہیں تو جزا ملے گی اور اگر بُرے کام کیے ہیں تو سزا ملے گی۔آپ کو یہ سمجھنا ہو گا کہ یہ زندگی ابدی زندگی نہیں ہے ۔ آپ کو ہمیشہ آنے والی زندگی کو اپنے سامنے رکھنا ہو گا جو کہ آخرت کی زندگی ہے اور وہاں آپ اپنے تمام اعمال کے لیے جوابدہ ہوں گے۔اگر وہ اس بات کو سمجھ لیں گے تو انہیں اسلام احمدیت ضرور قبول کرنی چاہیے اور انہیں اپنی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے اور اگر ایسا نہیں ہے تو مزید لوگوں کو اسلام احمدیت میں شامل کرنے کا کیا فائدہ اگر تو وہ کسی کام کے نہیں ہیں۔ ورنہ وہ آپ کے ہی نظام کو خراب کریں گے، وہ جو چاہیں گے کریں گے۔ وہ کلب اور کسینو جائیں گے۔ شراب پئیں گے اور زنا کریں گے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سارے گناہ ہیں جو ان کی زندگی کا حصہ ہیں لیکن ان کے اخلاق کے مطابق وہ گناہ نہیں ہیں لیکن اسلام میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان تمام برائیوں کو چھوڑنا ہو گا۔ خدا تعالیٰ کے اخلاقی ضوابط انسانوں کے بنائے ہوئے اخلاقی ضوابط سے مختلف ہیں۔آپ ان کو بتا دیں کہ انہیں اس بات کو سمجھنا ہو گا کہ ایک اور زندگی ہے جوا ٓخرت کی زندگی ہے اور ابدی زندگی ہےاگر وہ اس بات کو سمجھ لیں گے تو ٹھیک ہے ورنہ تعداد بڑھانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

(ترجمہ و کمپوزنگ: ابو اثمار اٹھوال)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 دسمبر 2021

اگلا پڑھیں

چھوٹی مگر سبق آموز بات