• 18 اپریل, 2024

امتحانِ آخرت اور دنیا کے سالانہ امتحانات طالب علم کے فیل ہونے کے بعد پاس کرانے کی کوشش

سالانہ امتحانات ختم ہونے کے بعد نتائج شائع ہوتے ہیں۔ کوئی طالب علم فیل ہوتا ہے اور کوئی پاس۔ کوئی نالائق ثابت ہوتا ہے اور کسی کی لیاقت اور قابلیت ظاہر ہوتی ہے۔ اس موقع پر ایک بات مجھے بڑی شدت سے محسوس ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ جو لڑکے مدرسہ احمدیہ میں فیل ہو جاتے ہیں ان کے سرپرست ہمارے پاس آ کر کہتے ہیں کہ ہمارا لڑکا فیل ہو گیا ہے۔ آپ اسے پاس کر دیں۔ ہم اِن شاء اللہ اس سال خصوصیت سے اس کی پڑھائی کی طرف توجہ دیں گے۔ میں کہتا ہوں کہ آپ نے گزشتہ سال کیوں پوری توجہ نہ دی؟ وہ فرماتے ہیں پیچھے سستی ہو گئی اور غفلت کے ہم مرتکب ہوئے۔ لیکن اس دفعہ ہمارا پختہ ارادہ ہے کہ ہم پوری توجہ سے بچہ کی پڑھائی کا خیال رکھیں گے۔ کبھی کہتے ہیں ہم اس دفعہ ٹیوٹر رکھ کر کمی پوری کرا دیں گے۔ میں عرض کرتا ہوں کہ گزشتہ سال کیوں ٹیوٹر نہیں رکھا گیا؟ وہ فرماتے ہیں واقعہ میں ہم سے سخت فروگزاشت ہوئی۔ آئندہ ایسا نہ ہو گا۔ ہم غریب ہیں مگر آپ دیکھیں گے کہ اس دفعہ قرض اٹھا کر بھی ٹیوٹر کی فیس ادا کریں گے۔ بعض کہتے ہیں کہ گو ہم نادار ہیں مگر لڑکے کو آپ جماعت میں چڑھا دیں۔ ہم اسے اپنے گھر نہیں رکھتے بلکہ بورڈنگ کی فیس دے کر اسے بورڈنگ ہی میں رکھیں گے تاکہ وہ یکسوئی سے پڑھ سکے۔ میں عرض کرتا ہوں کہ آپ کا لڑکا ایک میں نہیں، دو میں نہیں، تین میں نہیں بلکہ چار چار مضامین میں فیل ہے۔ ایک سال اسے اور اسی جماعت میں رہنے دیں کمی پوری کر کے ترقی پانا زیادہ بہتر ہے۔ بہ نسبت اس کے کہ اگلی جماعت میں جا کر پھر بے علم کا بے علم ہی رہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ نہیں۔ خدا کے لئے اسے اگلی جماعت میں ترقی دے دو ورنہ اس کا سال ضائع ہو جائے گا۔ میں عرض کرتا ہوں کہ اب نتیجہ شائع ہو چکا ہے اور نظارت تعلیم و تربیت نے اسے منظور کر لیا ہے۔ اب ہمارے اختیار سے یہ امر باہر ہے کہ ہم کسی فیل شدہ لڑکے کو پاس کر دیں۔ یا اسے ترقی دے کر اوپر کی جماعت میں داخل کریں۔ بالآخر وہ فرماتے ہیں کہ ہمارے لڑکے کا نام مدرسہ سے خارج کر کے اسے اجازت دیں کہ وہ پرائیویٹ طور پر اگلی جماعت کے طلبہ کے ساتھ پڑھائی کے مضامین سن لیا کرے تاکہ وہ اگلے سال امتحان دے سکے۔

حشر کا نظارہ

غرض فیل ہونے والے طلبہ کے سرپرست سارا سال غفلت اور بے توجہی کا شکار رہتے ہیں۔ مگر جب ان کا لڑکا فیل ہو جاتا ہے تو ان کی آنکھیں کھلتی ہیں اور پھر سارا زور، پوری توجہ اور ساری درخواستیں یہاں پر آ جاتی ہیں کہ ہمارا لڑکا کسی طرح پاس ہو جائے۔ ان کے اصرار، ان کی زاریوں اور پھر ان کے رنج و غم میں ڈوبے ہونے کو دیکھ کر اور دوسری طرف اپنی بے بسی اور بے چارگیوں کو دیکھ کر خدا کی قسم! میرا دل دنیا سے بے زار ہو جاتا ہے اور میں عین الیقین سے اس وقت حشر کا نظارہ دیکھنے لگتا ہوں کہ یہی حال میرا بھی ہونے والا ہے۔

عالم ارواح میں سوالات

جب میں امتحان کے کمرہ میں اس دنیا سے خالی ہاتھ جاؤں گا۔ دوست احباب اگر کوئی ہوں گے تو میرے جسم کو قبر کے تنگ و تاریک گڑھے میں ڈال آئیں گے اور میری روح عالم ارواح میں پہنچے گی۔ وہاں اسے حواس اور احساسات کے لئے نیا جسم دیا جائے گا اور وہاں سب سے پہلا سوال یہ ہو گا کہ مَنْ رَبُّکَ یعنی سچ بتا۔ تُو دنیا میں کس کو اپنا رب سمجھتا تھا۔ میں سچ کہتا ہوں کہ میں اس پہلے سوال کے جواب میں ہی فیل ہو جاؤں گا کیونکہ منہ سے تو عمر بھر میں ہزاروں مرتبہ بلکہ ایک ایک دن میں پانچ پانچ مرتبہ کوٹھوں پر چڑھ کر کہا کرتا تھا کہ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا میرا کوئی خدا نہیں۔ مگر وہاں کس منہ سے کہوں گا کہ میرا رب اللہ ہے۔ کیونکہ وہ اس جواب کو سن کر زبان کو گدی سے نکال لیں گے اور کہیں گے کہ تمہیں شرم نہیں آتی۔ یہاں آ کر بھی جھوٹ بولتا ہے۔ اگر تو مجھے اپنا رب سمجھتا تھا تو تیرے دل میں اپنے اخراجات کے متعلق کیوں اطمینان نہ تھا۔ اور تیری زبان آئے دن ھَلْ مِنْ مَزِیْدٌ کا نعرہ کیوں بلند کرتی تھی اور اپنے افسروں اور انجمن کے خزانہ اور ریزولیوشنوں اور ترقی کی درخواستوں کے جوابوں میں کیوں گم رہتا تھا۔ کبھی تجھے پراویڈنٹ فنڈ کے حساب میں گم پایا۔ کبھی پنشن کے بڑھانے کی فکر میں غلطاں پایا۔ تیرا سارا وقت تو اپنے اخراجات کے مہیا کرنے کی ادھیڑ پن میں صرف ہوتا تھا۔ اگر تو ہمیں اپنا رب سمجھتا تو کیوں تیرا دل ہمارے وعدوں اور ہمارے انعامات پر اطمینان پذیر نہ ہوتا۔

دوسرا سوال

دوسرا سوال وہ یہ کریں گے مَنْ رَسُوْلُکَ یعنی تو کس رسول کی شریعت اور ضابطہ پر عمل پیرا تھا۔ گو میں دنیا میں تو ساری دنیا کو چیلنج کرتا رہا کہ اسلام مکمل مذہب ہے اور عبادت اس دین میں مختصر ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامل نبی ہیں۔ ان کی ا تباع نبی گر ہے۔ آپؐ ہی دنیا کے لئے کامل نمونہ ہیں۔ مگر وہاں کس منہ سے کہوں گا کہ رَسُوْلِیْ مُحَمَّدٌ وَ قَانُوْنِیْ قُرْاٰنٌ وَ اِمَامِیْ اَحْمَدٌ کیونکہ وہاں تو میرا سینہ چیر کے سامنے رکھ کر پوچھا جائے گا کہ بتا اگر تُو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو اپنا رسول سمجھتا تھا تو تو نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی صفات کیوں نہ اپنے اندر پیدا کیں۔ کیا تیرا اُٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا، آنا جانا محمدی طریق پر تھا۔ ہرگز نہیں۔ کیونکہ تو تو شادی بیاہ کے معاملات میں، بیع و شریٰ میں، تعلیم و تعلم میں، کاروبار میں ایک دنیادار کی طرح تھا اور اگر واقع میں قرآن تیرا قانون و ضابطہ تھا تو کیوں ہم نے تجھے زندگی بھر اس سے بیگانہ پایا اور اگر واقع میں احمد تیرا امام تھا تو تیرے اور احمد کے حالات میں کیوں فرق تھا۔ کیا تو احمدکی طرح توکل کی تصویر تھا۔ یا کیا احمد کی طرح تجھے ہر وقت دین حق کی فکر تھی۔ اور کیا تو سچ مچ کہہ سکتا ہے کہ میرا بھی احمد کی طرح یہ حال ہے کہ

ایں دو فکرِ دینِ احمد مغز جانِ ماگداخت
کثرتِ اعدائے ملت قلتِ انصارِ دیں

کیا تو احمد کی طرح دعاؤں میں مستغرق تھا۔ یا تیرا چال چلن احمدیت کا نمونہ تھا۔ یا کیا تیرا صبر، تیرا شکر، تیرا طریق زہد و تعبد احمد کی طرح تھا؟ جب ایسا نہیں تو کس منہ سے تو کہتا ہے کہ میرا رسول محمدؐ اور میرا امام احمد ہے۔

کیا کمایا اور کیا خرچ کیا

پھر مجھ سے سوال ہو گا کہ عمر بھر میں کیا کمایا اور کیا خرچ کیا۔ یہ سنتے ہی میری آ نکھوں کے سامنے دو فہرستیں پیش کی جائیں گی۔ ایک میں تفصیل وار ساری عمر کی آمد اور اس کے ذرائع۔ دوسری میں ساری عمر کے خرچ اور ان کے مصرف لکھے ہوں گے۔ خدا کی قسم انہیں پڑھ کر میں تو شرم سے غرق ہو جاؤں گا کیونکہ شروع ہی میں دیکھوں گا کہ پہلا اندراج یوں ہے کہ ایک فقیر ملتا ہے۔کہتا ہے خدا کے لئے ایک پیسہ دو میں نے روٹی کھانی ہے۔ میں کہتا ہوں جا بابا معاف کر۔ ایک اور فقیر ملتا ہے۔ اسے بھی یہی کہتا ہوں کہ معاف کر۔ اور ساتھ ہی یہ اضافہ کرتا ہوں کہ اس وقت میرے پاس کوئی پیسہ نہیں ورنہ تجھے دے دیتا۔ آگے لکھا ہوا پاتا ہوں کہ شام کو8 آنہ کا ٹکٹ لے کر سینما دیکھنے گیا یا 4 پیسے کا فالودہ پی لیا۔ یہ تو خیر ظاہر کرنے والی باتیں ہیں بہت سے اندراجات تو ایسے ہیں کہ ظاہر کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔

کچھ اور سوال

پھر سوال ہو گا کہ تجھ پر جوانی آئی۔ اس سے کیا کام لیا؟ بڑھاپا آیا اس میں خدا کے لئے کیا طریق اختیار کیا۔ روپیہ ملا تو کہاں خرچ کیا۔ نہ ملا تو صبر کا کیا نمونہ دکھایا؟ خوشی پہنچی تو شکریہ کس طریق سے ادا کیا۔ رنج پہنچا تو خدا کے حضور کس طرح جھکا۔ دوستوں کو کبھی امر بالمعروف کیا؟ اپنے بچوں کی تربیت کی؟ بیوی کے حقوق ادا کئے؟ بیوی کے رشتہ داروں کی کہاں تک عزت کی؟ اپنے والدین کی خدمت کس معیار تک پہنچائی۔

پھر دنیا میں جانے کی خواہش

غرض جو سوال بھی ہو گا خدا کی پناہ ایک اژدھا ہو گا کہ جو منہ کھول کر آ پڑے گا اور نگلنا چاہے گا۔ اس وقت اگر یہ کہوں گا کہااے میرے رب!۔ ھَلْ اِلٰی مَرَدٍّ مِّنْ سَبِیْلٍ (الشوریٰ:45) یعنی الٰہی! ایک دفعہ واپس بھیج دے تو جواب ملے گا کہ کَلَّا اِنَّھَا کَلِمَۃٌھُوَ قَائِلُھَا (المومنون:101) یعنی یہ دعا قابل قبولیت نہیں۔ ہزار یقین دلاؤں گا کہ اگر اب دنیا میں واپس کیا جاؤں تو ان شاء اللہ کبھی بدعملی نہ کرو ں گا کبھی نافرمانی کا طریق اختیار نہ کروں گا۔ ایک دفعہ ترقی دے دو کبھی فیل نہ ہوں گا۔ ایک دفعہ جماعت میں چڑھا دو خوب محنت کروں گا اور چلّا چلّا کر کہوں گا رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْھَا فَاِنْ عُدْنَا فَاِنَّا ظٰلِمُوْنَ (المومنون:108) یعنی ایک دفعہ اس عذاب سے نکال دے پھر اگر میں نے اپنی روش درست نہ کی تو پھر جو مرضی ہو مجھے سزا دینا نیز نَعْمَلْ صَالِحًا غَیْرَ الَّذِیْ کُنَّا نَعْمَلُ (فاطر:38) یعنی ایک دفعہ ترقی دے دو پھر یہ گزشتہ سستی نہ ہو گی۔ بس درخواستوں کا ایک ہی جواب ہو گا کہ اب واپسی نہیں اب موقع نہیں۔

اپنی اپنی فکر کرنی چاہئے

غرض امتحان سالانہ میں فیل ہونے والے طلباء کے سرپرستوں کی زاریوں کو سن سن کر مجھے اپنی فکر پڑ جاتی ہے کہ یہ میری طرح بلکہ مجھ سے اچھا اور نیک آدمی کس طرح مجھ سے زاری کر رہا ہے اور جو جواب میں دے رہا ہوں یہی مجھے ملنے والا ہے۔ اس لئے ہر سال جب مدرسہ احمدیہ کا نتیجہ نکلتا ہے خدا کی قسم! ایسے واقعات پیش آنے پر میری روح کانپ جاتی ہے۔ اس لئے میں سب سے پہلے اپنے آپ کو اور بعد میں تمام احمدی دوستوں کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ ہم فیل ہونے والے طلباء کو جس نظر سے دیکھتے ہیں اگر نظر انصاف سے دیکھا جائے تو ہم سب کو اپنی اپنی فکر کرنی چاہئے۔ کیونکہ امتحان سالانہ کا تو ایک وقت معلوم اور مقرر ہے۔ جب تک سال نہیں گزرتا امتحان نہیں ہوتا۔ مگر ہمارے امتحان کا خدا کے علم میں وقت مقرر ہے۔ مگر ہمیں کوئی علم نہیں۔ بلکہ جب ہم مریں گے تو ہمارا امتحان شروع ہو جائے گا۔ اس لئے ہمیں نالائق، کم ہمت، سست، کام چور لڑکے کا فکر چھوڑ کر اپنے اپنے انجام کا فکر کرنا چاہئے کہ ہم بھی خدا کے عدل کی تلوار کے نیچے ہیں۔ کورس بڑا مشکل اور ممتحن بڑا سخت اور شدید العقاب ہے۔ نقل وہاں نہ ہو سکے گی۔ رعایت کا وہاں واہمہ نہیں اور لَیْسَ لِلْاِنْسَانُ اِلَّا مَا سَعٰی (النجم:40) یعنی وہی کام آئے گا جو یہاں کیا ہو گا۔ جو بویا جائے گا وہی کاٹا جائے گا۔ رات دن کے گناہگار، خطاکار، بات بات پر غلطی کرنے والے، قدم قدم پر ٹھوکر کھانے والے، غافل، سست، آرام طلب، ایک منٹ کام کیا اور دس گھنٹہ آرام کے طالب ہوئے۔ ایک پیسہ خدا کے راستہ میں دیا تو منتظر کہ کب الفضل میں نام چھپے۔پس کیوں نہ ہم خدا سے دعا مانگیں کہ اے اللہ! یہاں معمولی سے معمولی امتحانوں میں فیل ہونے والوں کی حالت ہم سے دیکھی نہیں جاتی۔ ان کی زاری ہم سے سنی نہیں جا سکتی اور ان کے وارثوں کا واویلا ہم برداشت نہیں کر سکتے تو ہم اس بڑے امتحان کی ناکامی کس طرح برداشت کر سکیں گے۔ اس لئے اے خدا! اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ (الفاتحہ:7-6) یعنی تو ہمیں اپنے سیدھے راستہ پر چلا۔ یعنی راستہ ان لوگوں کا جن پر تیرے انعامات کی بارش ہوئی۔ نہ ان کا جن پر بعد میں غضب نازل ہوا اور نہ ان کا جو خود راستہ کو چھوڑ کر اِدھر اُدھر بھٹک گئے۔ آمِیْنَ یَا رَبَّ الْعَالَمِیْن

اللہ تعالیٰ سے التجا

جس وقت میں یہ سطور لکھ رہا تھا ایک فیل شدہ لڑکا آیا اور روتا ہوا مجھ سے کہنے لگا کہ میں ایک عرض کرتا ہوں۔ میں نے کہا کہ سناؤ۔ کہنے لگا کہ میں خوب محنت کروں گا۔ مجھے اس سال ترقی دے دی جائے۔ اور اتنا رویا کہ میں برداشت نہ کر سکا۔ مگر اسے تو میں نے رخصت کیا اور دفتر کے دروازے بند کر کے میں خود بھی خوب رویا کہ الٰہی! یہی حال مجھے درپیش ہے۔ کیونکہ یہ تو دو یا تین پرچوں میں فیل ہے مگر مجھے تو اپنے سب پرچے خراب نظر آتے ہیں۔ مال کا بھی، اولاد کا بھی، بیوی کا بھی، بزرگوں کا بھی، خوردوں کا بھی، اخلاق کا بھی، اعمال کا بھی اور عقائد کا بھی، پھر میرا کیا حال ہو گا۔ الٰہی! سوائے مایوسی کے اور کچھ نظر نہیں آتا۔ لیکن مایوسی خود حرام ہے۔ لَا یَایْئَسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْکٰفِرُوْنَ (یوسف:88) پس میں کیا کروں؟ اگر امید رکھتا ہوں تو وہ بے وجہ ہے اور بے وجہ امید بھی کفر ہے۔ فَلاَ یَاْمَنُ مَکْرَ اللّٰہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْخٰسِرُوْنَ (الاعراف:100) اس لئے اے خدا! تو ہی توفیق عطا فرما کہ میں سیدھا ہو جاؤں ٹھیک ہو جاؤں۔ میرے اعمال درست ہو جائیں۔ میرے اخلاق صحیح ہو جائیں۔ عقائد میں درستی ہو۔ خلاصہ یہ کہ میں ایسا ہو جاؤں کہ نالائق طالب علم کی طرح مجھے تیری جناب میں یہ کہنا نہ پڑے کہ رَبَّنَا اَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَیْرَ الَّذِیْ کُنَّا نَعْمَلُ (فاطر:38) یعنی اے اللہ! ایک دفعہ پھر مجھے دنیا میں واپس بھیج دے میں ضرور اچھے اچھے کام کروں گا اور کبھی بُرائی کے نزدیک نہ پھٹکوں گا۔ بلکہ اے میرے اللہ! مجھے اَلدُّنْیَا مَزْرَعْۃُ الْآخِرَۃِ کے مطابق اس امتحان کے کمرہ میں اچھے پرچے کرنے کا موقع دے تاکہ میں پاس ہو جاؤں اور تیرے حضور سرخرو ہو کر پیش ہوں۔ اے میرے اللہ! میری بیوی اور بچوں کو بھی ایسا بنا کہ ہم سب جب تیرے حضور پیش ہوں تو ایسا نہ ہو کہ میں کہیں جاؤں اور وہ کہیں جائیں۔ بلکہ اے میرے مولیٰ! باہمہ یاراں بہشت ہم سب تیرے آخری اور ہولناک دن میں تیرے امن کی گود میں ہوں اور میرا کوئی لختِ جگر بھی اس وقت میرے لئے باعث شرم اور ذلت نہ ہو۔ اے خدا تو ایسا ہی کر۔ آمِیْنَ یَا رَبَّ الْعَالَمِیْن

(روزنامہ الفضل 19جنوری 1941ء)

(حضرت سید میر محمد اسحاقؓ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 جنوری 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 جنوری 2020