• 25 اپریل, 2024

میری والدہ محترمہ مبارکہ طیبہ

میری والدہ محترمہ مبارکہ طیبہ بنت محترم مولانا محمد ابراہیم فاضل قادیانی درویش مرحوم سابق ہیڈماسٹر مدرسہ احمدیہ قادیان و نائب ناظر تالیف و تصنیف مؤرخہ 14 جنوری 2018ء کوبقضائے الٰہی وفات پاگئیں۔ آپ اس خوش قسمت باپ کی بیٹی تھیں جن کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود ؓکے چار صاحبزادگان کو پڑھانے کا شرف حاصل ہوا تھا اور ان چار صاحبزادگان میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ بھی شامل تھے۔ آپ کے والد کو حضور کی ایسی سچی تدریس کا شرف حاصل ہوا جس کو حضور نے یاد رکھا اور 1991ء میں حضور نے اپنی قادیان آمد پر فیملی ملاقات میں میری والدہ صاحبہ کے سر پر انتہائی شفقت کے ساتھ ہاتھ پھیرتے ہوئے یہ فرمایا تھا کہ ’’ماشاء اللہ یہ تو میرے استاد کی بیٹی ہیں۔‘‘ آپ اس خوش قسمت باپ کی بیٹی تھیں جن کو مدرسہ احمدیہ میں اپنے طالب علمی کے زمانہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کے کلاس فیلو ہونے کا شرف حاصل ہوا۔
میری والدہ محترمہ بہت سی خوبیوں کی مالک تھیں۔ آپ شروع سے ہی والدین کی فرمانبردار بیٹی تھیں۔جب بھی آپ کے والد صاحب آپ کو آواز دے کر بلاتے آپ ‘‘جی ابّا’’ کہہ کر فوراً حا ضر ہو جایا کرتی تھیں۔نماز کی پابند اور ہمیشہ باوضو رہنے والی وجود تھیں۔ چندوں کی ادائیگی میں کبھی سستی نہیں دکھائی اورہمیشہ اپنی استطاعت کے مطابق وقت پر چندہ ادا کرنے کی کوشش کیا کرتی تھیں۔نماز جمعہ اپنے آخری وقت تک بیت الذکر جا کرادا کیا۔ ہمیشہ جمعہ کے روز پہلی اذان کے ساتھ ہی مسجد کے لئے نکل جاتی تھیں۔ اکثر اس بات کا اظہار کیا کرتی تھیں کہ جمعہ کی نماز کے لئے مسجد مبارک میں خواتین کے لئے انتظام کیا جاتا ہے۔بیشک عورتوں کا مسجد جانا فرض نہیں لیکن جب جماعتی طور پر انتظام کیا جاتا ہے تو پھر ثواب سے کیوں محروم رہا جائے۔
جماعتی پروگرامز میں ذوق و شوق کے ساتھ شامل ہوا کرتی تھیں۔ اجتماعات و اجلاسات میں جہاں تک ممکن ہوتاجانے کی کوشش کیا کرتی تھیں۔ جس دن نماز جمعہ میں نہ جاپاتی تھیں اس دن ہم سے پوچھا کرتی تھیں کہ آج جمعہ کی نماز کس نے پڑھائی۔ لجنہ کی طرف سے کسی اجلاس ہونے کا اعلان ہوا یا نہیں۔
آپ کو خلافت کے ساتھ بے انتہاء محبت تھی۔ آئے دن یاد دلا دیا کرتی تھیں کہ میری طرف سے پیارے حضور کو دعا کا خط لکھ دو۔ایم ٹی اے شوق کے ساتھ دیکھا کرتی تھیں۔حضور انور کا خطبہ باقاعدگی سے سنا کرتی تھیں۔گھر میں جو ٹی وی تھا اس کی سکرین کچھ خاص بڑی نہیں تھی۔والدہ صاحبہ نے اس نیت سے پیسے جوڑنے شروع کئے کہ کسی وقت بڑی سکرین والاٹی وی خریدیں گی۔بڑی سکرین ہوگی جس کی وجہ سے حضورانور کا چہرہ واضح نظر آئے گا۔اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کے دل میں خلافت کے لئے بہت محبت تھی۔
آپ کے دل میں دوسروں کی تکالیف کا بہت درد تھا۔جب بھی کسی کو کوئی تکلیف پہنچتی تو اس کا درد کے ساتھ ذکر کیا کرتی تھیں۔ قادیان میں جب بھی کسی کی وفات ہوتی آپ ان کے گھر افسوس کے لئے ضرور جایا کرتی تھیں۔
گھر کا کام کاج پوری ذمہ داری کے ساتھ ادا کیاکرتی تھیں۔صفائی کاخاص خیال رکھتی تھیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہم نے آپ کو صفائی نصف ایمان ہے کا چلتا پھر تا نمونہ پایا اور اس بات کا اظہار ہمارے قریبی رشتہ داروں نے بھی کیا۔ جب اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک پوتی سے نوازا تو خدا کے فضل سے بچی کی پرورش میں اپنا پورا کردار ادا کیا۔
آپ کوکسی بھی قسم کی کوئی لالچ نہیں تھی۔ جماعت کی طرف سے گزارے کے لئے جو وظیفہ ملتا تھا اسی سے گھر کے اخراجات چلاتی تھیں اور انہی پیسوں سے چند ے اور صدقات دینے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا تھا۔ ضرورت پڑنے پر جب بھی کسی سے یا مجھ سے کوئی رقم لی تو فوراً لی ہوئی رقم مکمل واپس کردیا کرتی تھیں۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کا حافظہ بہت اچھا تھا۔ ہر بات اور ہر واقعہ خصوصاً ہر قریبی کی وفات کا دن معین تاریخ کے ساتھ یاد رہتا تھا۔آپ نے زندگی میں بہت مشکلات دیکھیں لیکن صبر اور ہمت کے ساتھ سب کچھ برداشت کیا۔ بہت بہادر اور باہمت اور دعا گو وجود تھیں۔ خاکسار کو بھی یہی تلقین کیا کرتی تھیں کہ وقت ضائع نہ کیا کرو بلکہ دعا کیا کرو۔مرحومہ نے اپنے پیچھے دوبیٹے ایک بہو اور ایک چھوٹی پوتی چھوڑے ہیں۔اللہ تعالیٰ سبھی کو مقبول خدمت دینیہ بجا لانے کی تو فیق عطا فرمائے۔آمین
احباب سے درخواست دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ میری والدہ کو اپنی مغفرت کی چادر میں لپیٹتے ہوئے درجات بلند فرمائے اور اپنا دیدار نصیب فرماتے ہوئے اپنے پیاروں کے قدموں میں جگہ دے ۔ آمین ۔

(شکیل احمد غوری)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 جنوری 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 جنوری 2020