• 20 اپریل, 2024

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبہ جمعہ مورخہ31 جنوری 2020ء بمقام مسجدمبارک ٹلفورڈ یوکے کا خلاصہ

ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے جانثار بدری صحابی حضرت ابو طلحٰہ انصاریؓ کی سیرت و سوانح کا دلکش تذکر

احد کی جنگ میں حضرت ابو طلحٰہ ؓ نبی کریم ﷺ کے سامنے آپؐ کو اپنی ڈھال سے آڑ میں لئے کھڑے رہے

یہ حضرت ابو طلحٰہؓ ہی تھے جن کی رات کے اندھیرے میں مہمانوں کی مہمان نوازی سے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ آج رات اللہ تعالیٰ بھی ہنس پڑا اور تمہارے اس کام سے بہت خوش ہوا

جب آیت لَنْ تَنَالُوْا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْناُتری تو حضرت ابوطلحہؓ نے عرض کیا یارسول اللہؐ میری جائیداد میں سے سب سے پیارا کھجوروں کا باغ بیرحا میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ کرتا ہوں۔ آنحضورؐ نے فرمایا اسے اپنے قریبیوں میں تقسیم کردو۔چنانچہ آپؓ نے ایسا ہی کیا

جماعت احمدیہ کے دیرینہ خادم مکرم باؤمحمد لطیف شمس امرتسری ابن حضرت میاں نور محمدؓ صحابی مسیح موعودؑ کی وفات پر ذکر خیر اور جماعتی خدمات کا تذکرہ

خلاصہ خطبہ جمعہ

سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےمورخہ 31 جنوری 2020ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد ٹلفورڈ یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو کہ مختلف زبانوں میں تراجم کے ساتھ ایم ٹی اےانٹر نیشنل پر براہ راست ٹیلی کاسٹ کیا گیا۔ حضور انور نے فرمایا: آج جن صحابیؓ کا ذکر ہے ان کا نام ہے حضرت ابو طلحٰہ انصاریؓ۔ آپؓ کا اصل نام زید تھا ۔ ان کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج سے تھا اور یہ قبیلے کے رئیس تھے۔ آپ اپنی کنیت ابو طحٰہ کے نام سے زیادہ مشہور تھے۔ آپؓ کے والد کا نام سہل بن اسوداور والدہ کا نام عبادہ بنت مالک تھا۔ حضرت ابو طلحہ نے بیعت عقبہ ثانیہ میں آنحضرت ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی توفیق پائی۔ آپؓ غزوہ بدر اور دیگر تمام غزوات میں بھی آنحضرت ﷺ کے ہمراہ شریک ہوئے۔ جب حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کی حضرت ابو طلحٰہ ؓ کے ساتھ مواخات قائم فرمائی۔ حضرت ابو طلحٰہ ؓ کا رنگ گندمی اور قد متوسط تھا۔ آپؓ نے کبھی سر اور داڑھی کے بالوں پر خزاب نہیں لگایا۔حضرت انسؓ حضرت ابو طلحٰہ ؓ کے ربیب تھے۔

حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ جب احد کی جنگ ہوئی تو لوگ شکست کھا کر نبی کریم ﷺ سے جُدا ہو گئے اور حضرت ابو طلحٰہ ؓ نبی کریم ﷺ کے سامنے آپؐ کو اپنی ڈھال سے آڑ میں لئے کھڑے رہے اور حضرت ابو طلحٰہ ؓ ایسے تیر انداز تھے کہ زور سے کمان کھینچا کرتے تھے۔ انہوں نے اس دن دو یا تین کمانیں توڑیں اور جو کوئی آدمی تیروں کا ترکش اپنے ساتھ لئے گزرتا تو آنحضرتﷺ اُسےفرماتے کہ اپنا تیروں کا ترکش انہیں دے دو ۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ سراُٹھا کر لوگوں کو دیکھتےتو حضرت ابو طلحٰہ ؓ کہتے کہ میرے ماں باپ آپؐ پر قربان سر اُٹھا کر نہ دیکھیں مبادا ان لوگوں کے تیروں میں سے کوئی تیر آپؐ کو لگے ، میرا سینہ آپؐ کے سینے کے سامنے ہے ۔ حضرت انس بن مالک ؓبیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو طلحٰہ ؓ ایک ہی ڈھال سے نبی ﷺ کی حفاظت کرتے تھے اور حضرت ابو طلحٰہ ؓ اچھے تیر انداز تھے، جب وہ تیر چلاتے تو نبیﷺ جھانکتے اور ان کے تیر پڑنے کی جگہ کو دیکھتے۔

غزوہ احد میں حضرت ابو طلحٰہ ؓ کے ایک شعر پڑھنے کا بھی ذکر آتا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ میرا چہرہ آپؐ کے چہرے کو بچانے کے لئے ہے اور میری جان آپؐ کی جان پر قربان ہے ۔ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے ابو طلحٰہ ؓ سے فرمایا: اپنے لڑکوں میں سے کوئی لڑکا تلاش کرو جو میری خدمت کرے تا میں خیبر کا سفر کروں ۔ حضرت ابو طلحٰہ ؓ مجھے سواری پر پیچھے بٹھا کر لے گئے۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ میں اس وقت لڑکا تھا اور بلوغت کے قریب پہنچ چکا تھا ۔ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا ۔ جب آپؐ اترتے،میں اکثرآپؐ کو یہ دُعا کرتے ہوئے سنا کرتا تھا کہ اے میرے اللہ ! میں تیری پناہ لیتا ہوں درماندگی اور سستی سے اور بُخل اور بزدلی سے اور قرض داری کے بوجھ سے اور لوگوں کی سختی سے۔ حضرت انس ؓ کہتے تھے چنانچہ میں نے سفر میں بھی آپؐ کی خدمت کی اور حضر میں بھی۔ جو کام بھی میں کرتا، آپؐ مجھے کبھی نہ فرماتے تم نے یہ کام اس طرح کیوں کیا اور جو کام میں نے نہ کیا ہوتا اس کی نسبت آپؐ مجھے کبھی نہ فرماتےکہ تم نے اس کو اس طرح کیوں نہیں کیا ۔ یعنی کبھی کوئی روک ٹوک نہیں کی۔

فرمایا: حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے۔ جب آپؐ عسفان مقام سے لوٹے۔ رسول اللہ ﷺ اس وقت اپنی اُونٹنی پر سوار تھے اور آپؐ نے حضرت صفیہ بنت حُیّ کو پیچھے بٹھایا ہوا تھا۔ آپؐ کی اُنٹنی نے ٹھوکر کھائی اور دونوں گر پڑے حضرت ابو طلحٰہ ؓ یہ دیکھ کر فوراً اُنٹ سے کُودے اور بولے یا رسول اللہ ﷺ ! میں آپؐ پر قربان ۔آپؐ نے فرمایا: پہلے عورت کی خبر لو۔ حضرت ابو طلحٰہ ؓ نے اپنے منہ پر کپڑا ڈال لیا، حضرت صفیہؓ کے پاس آئے اور کپڑا ان پر ڈالا ، یعنی پردے کا لحاظ تھا ان کو۔ اور ان دونوں کی سواری درست کی جس پر وہ سوار ہو گئےاور ہم نے رسول اللہ ﷺ کے گرد حلقہ بنا لیا جب ہم مدینہ کی بلندی پر پہنچےتو آپؐ نے فرمایا: ہم لوٹ کر آنے والے ہیں۔ اپنے رب کے حضور توبہ کرنے والے ہیں، اپنے رب کی عبادت کرنے والے اور اپنے رب کی ستائش کرنے والے ہیں۔ آپؐ اس وقت تک کہ مدینہ میں داخل ہوئے یہی کلمات فرماتے رہے۔ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: لشکر میں تنہا ابو طلحٰہ کی آواز ایک جماعت پر بھاری ہوتی ہے۔ یعنی بڑی بلند آواز تھی ان کی ۔حضرت ابو طلحٰہ ؓ 34 ہجری میں مدینہ میں فوت ہوئے اور حضرت عثمانؓ نے آپؓ کی نماز جنازہ پڑھائی ۔ اس وقت آپؓ کی عمر 70 سال تھی۔ جبکہ اہل بصرہ کے نزدیک آپؓ کی وفات ایک سمندری سفر کے دوران ہوئی اور ایک جزیرے میں آپؓ کو دفن کیا گیا۔

حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو طلحٰہ ؓ نبی ﷺ کے زمانہ میں جہاد کی وجہ سے نفلی روزہ نہیں رکھا کرتے تھے تاکہ طاقت کم نہ ہو جائے ۔ جب نبی ﷺ کی وفات ہوئی تو میں نے سوائے عید الاضحیٰ کے دن کے کبھی ان کو بے روزہ نہیں دیکھا ۔فرمایا : اس کے بعد سے پھر باقاعدگی سے روزہ رکھنے لگ گئے۔ حضور انور نے حضرت ابو طلحٰہؓ کی مہمان نوازی کاتاریخی واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اگلے دن صبح کے وقت جب ابو طلحٰہ ؓ نبی کریم ﷺ کے پاس گئے تو آپؐ نے فرمایا: آج رات اللہ ہنس پڑا یا فرمایا: تمہارے دونوں کے کام سے بہت خوش ہوا اور اللہ نے یہ وحی نازل کی کہ وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلیٰ اَنْفُسِھِمْ وَلَوْ کَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃ………اور وہ خود اپنی جانوں پر دوسروں کو ترجیح دیتے تھے باوجود اس کے کہ انہیں خودتنگی درپیش تھی۔پس جو کوئی بھی نفس کی خصاصت سے بچایا جائے تو یہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں ۔حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ جب بال اُتروائے تو حضرت ابو طلحٰہؓ پہلے شخص تھےجنہوں نے آپؐ کے بالوں میں سے کچھ بال لئے۔ حضور انور نے حضرت ابو طلحٰہؓ کے گھر سے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں بھجوائے جانے والے کھانےاور پھر نبی کریمﷺ کا اس کھانے کو لے کر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ واپس ابو طلحٰہ ؓ کے ہاں جا کر اس کھانے پر دعا کرنے اورکھانے میں برکت پڑنے کے نتیجہ میں 70 یا 80 آدمیوں کے سیر ہو کر کھانا کھانے والا بیان فرمایا۔ یہ آنحضرت ﷺ کی دُعا کی برکت تھی۔

حضور انور نے فرمایا: حضرت انس ؓ بن مالک بیان کرتے ہیں کہ ابو طلحٰہ ؓ مدینہ میں تمام انصاریوں میں کھجوروں کا زیادہ باغ رکھتے تھے اور ان کو سب سے زیادہ پیاری جائیداد بیرحا کا باغ تھا جو مسجد کے سامنے تھا اور نبیﷺ اس میں آیا کرتے تھے اور وہاں کا صاف ستھرا پانی پیا کرتے تھے حضرت انس کہتے تھے کہ جب یہ آیت اتری کہ لَنْ تَنَالُوْا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْن ’’تم ہر گز حقیقی نیکی کو پا نہیں سکو گے یہاں تک کہ تم ان چیزوں میں سے خرچ کرو جن سے تم محبت کرتے ہو۔‘‘ حضرت ابو طلحٰہ ؓ کھڑے ہو گئے اور کہا یا رسول اللہ ﷺ ! میری جائیداد میں سے جو سب سے پیا را باغ بیرحا ہے میں اسے اللہ کی راہ میں صدقہ کرتا ہوں ۔میں امید کرتا ہوں کہ اللہ کے ہاں مقبول نیکی ہو گی اور بطور ذخیرے کے ہو گی ۔ا س لئے جہاں اللہ تعالیٰ آپؐ کو سمجھائے وہاں آپؐ اسے خرچ کریں ۔ آپؐ نے فرمایا: شاباش، یہ فائدہ دینے والا مال ہے یا فرمایا :ہمیشہ رہنے والا مال ہے ۔آپؐ نے فرمایا:کہ تم نے کہا ہے اور میں نے سن لیا ۔ میں مناسب سمجھتا ہوں کہ تم اسے اپنے قریبیوں میں تقسیم کر دو ۔ ابو طلحٰہ ؓ نے کہا یا رسول اللہ ﷺ ! حضور کے ارشاد کی تعمیل میں ایسے ہی کئے دیتا ہوں چنانچہ ابو طلحٰہ ؓ نے اس باغ کو اپنے قریبیوں اور اپنے چچا کے بیٹوں میں تقسیم کر دیا۔

فرمایا: حضرت ابو طلحٰہ ؓ کو یہ اعزاز اور سعادت بھی حاصل ہے کہ وہ آنحضور ؐ کی ایک بیٹی کی وفات پر آپؐ کے ارشاد پر اس کی قبر میں اُترے اور حضور ﷺ کی بیٹی کی نعش مبارک کو قبر میں اُتارا۔ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ مدینہ میں نبی ﷺ حضرت ابو طلحٰہ ؓ کے گھوڑے پر سوار ہوئے جو آہستہ چلتا تھا یا یہ کہا جس کی رفتار سست تھی، جب آپؐ لوٹے تو آپؐ نے ابو طلحٰہ ؓ کو فرمایا کہ ہم نے تو تمہارے گھوڑے کو ایک دریا پایا ہے۔ بہت تیز چلتا ہے اس کے بعد اس گھوڑے کے چلنے میں کوئی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا ۔حضرت انس ؓ بن مالک بیان کرتے ہیں کہ جب نبی کریم ﷺ کی وفات ہوئی تو مدینہ میں ایک شخص تھا جو لحد بناتا تھا اور ایک اور تھا جو سیدھی قبر بناتا تھا۔ صحابہؓ نے کہا ہم اپنے رب سے استخارہ کرتے ہیں اور دونوں کو بلا بھیجتے ہیں۔ دونوں میں سے جو بعد میں آئے گا اس کو ہم چھوڑ دیں گے یعنی جو پہلے آئے گا اس سے ہم کام کروا لیں گے۔ چنانچہ دونوں کی طرف پیغام بھیجا گیا تو لحد والا پہلے آیا۔ اس پر صحابہؓ نے نبی کریم ﷺ کی لحد بنائی ۔ اس کی شرح میں علامہ ابن سیرین نے لکھا ہے کہ لحد والی قبر بنانے والے حضرت ابو طلحٰہ ؓ تھے اور سیدھی قبر بنانے والے ابو عبیدہ بن جراحؓ تھے۔

حضور انور نے آخر پر جماعت احمدیہ کے دیرینہ خادم مکرم بابو محمد لطیف شمس امرتسری ابن حضرت میاں نور محمدؓ صحابی حضرت مسیح موعودؑربوہ کی وفات پر مرحوم کا ذکر خیر کیا اور جماعتی خدمات کا تذکرہ فرمایا۔آپ سلسلہ کے معروف مبلغ مکرم مولانا محمد صدیق امرتسری کے چھوٹے بھائی تھے۔فرمایا: آپ کا کل عرصہ خدمت 62 سال پر محیط ہے جس میں سے تقریباً 53 سا ل دفتر پرائیویٹ سیکریٹری ربوہ میں مختلف حیثیتوں سے ان کو خد مت کی تو فیق ملی۔یہ اپنے کام کے بہت ماہر تھے۔بڑے سلیقہ اور انہماک سے کام کیا کرتے تھے اور ساتھ ساتھ دینی کتب کے مطالعہ کا بھی شوق تھا ۔ سلسلہ کی کتب کا گہرا مطالعہ تھا ۔خلافِت ثالثہ کے دَور میں بھی اور بعد میں بھی شوریٰ کے انتظامات میں خاص طور پر ان کو بہت خدمت کی تو فیق ملی۔ حضور انور نے نماز جمعہ کے بعد مرحوم کی نماز جنازہ غائب پڑھانے کا بھی اعلان فرمایا۔

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 فروری 2020

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ