• 24 اپریل, 2024

واقفین سے خدا کا سلوک

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ہمارے ایک مبلغ تھے حضرت سید شاہ محمد صاحب۔ انہوں نے اپنا واقعہ یہ بیان کیا ہے کہ میں متواتر اٹھارہ سال انڈونیشیا میں کام کرتا رہا اور اللہ کے فضل سے میں نے کبھی کسی کے آگے دستِ سوال دراز نہیں کیا۔ اپنا پورا وقار رکھا۔ بہت معمولی الاؤنس پر گزارہ ہوتا تھا۔ مشکل سے شاید دو وقت کی روٹی چلتی ہو۔ اپنی ہر حاجت کے لئے اپنے ربّ کا دروازہ کھٹکھٹاتا رہا اور وہ میری حاجت روائی کرتا رہا۔ کہتے ہیں جب اٹھارہ سال بعد میری واپسی ہوئی تو میں بڑا خوش تھا۔ بحری جہاز کے ذریعے سے پاکستان کے لئے روانہ ہوا۔ اور کہتے ہیں میرے پاس ایک پرانی اچکن تھی اور دو ایک شلوار قمیص کے دھلے ہوئے جوڑے تھے۔ اور کچھ نہیں تھا۔ کہتے ہیں مَیں بحری جہاز پرسفر کر رہا تھا۔ ہوائی جہاز کا تواس وقت تصور ہی نہیں تھا۔ راستے میں مجھے خیال آیا کہ میں اتنے عرصے کے بعد ملک واپس جا رہا ہوں اور میرے پاس نئے کپڑے بھی نہیں ہیں جنہیں پہن کرمیں ربوہ کے ریلوے سٹیشن پر اتروں گا۔ اس وقت مبلغین کراچی آیا کرتے تھے پھر وہاں سے ٹرین پر ربوہ پہنچتے تھے۔ تو کہتے ہیں کہ میں انہی خیالات میں تھا اور دعاؤں میں لگا ہوا تھا کہ میرے دل میں خیال آیا کہ مجھے دل میں بھی اس قسم کی خواہش نہیں کرنی چاہئے تھی۔ یہ وقف کی روح کے خلاف ہے۔ کہتے ہیں مین نے اس پر بڑی توبہ استغفار کی۔ اور پھر چند دن بعد جہاز سنگا پور میں پورٹ پر رکا۔ کہتے ہیں میں جہاز کے عرشے پہ کھڑا، ڈیک پہ کھڑا نظارہ کر رہا تھا کہ میں نے ایک شخص کو ایک گٹھڑی اٹھائے ہوئے جہاز پر چڑھتے دیکھا۔ وہ سیدھا جہاز کے کپتان کے پاس آیا اور اس سے کچھ پوچھنے لگا۔ کپتان نے اسے میرے پاس بھیج دیا۔ وہ مجھ سے گلے ملا۔ بغل گیر ہو گیا اور کہا کہ وہ احمدی ہے اور درزی کا کام کرتا ہے۔ اس نے بتایا کہ جب الفضل میں میں نے پڑھا کہ آپ آ رہے ہیں اور رستے میں سنگا پور رکیں گے تو مجھے خواہش پیدا ہوئی کہ میں آپ کے لئے کوئی تحفہ پیش کروں۔ اور آپ کی تصویریں میں نے دیکھی ہوئی تھیں۔ قد کاٹھ کا اندازہ تھا۔ میں نے آپ کے لئے کپڑوں کے دوجوڑے سیے ہیں اور ایک اچکن اور ایک پگڑی تیار کی ہے۔ درزی ہوں اور یہی کچھ پیش کر سکتا ہوں۔ آپ اسے قبول کریں۔ تو حضرت شاہ صاحب کہتے ہیں کہ یہ سن کر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے کہ کس طرح میرے خدا نے میری خواہش کو پورا کرنے کے لئے ایک احمدی کے دل میں تحریک کی جسے مَیں نہیں جانتا تھا اور نہ وہ مجھے جانتا تھا۔ وہ مبلغین کو، مربیان کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر مبلغ صرف آستانہ الٰہی پر جھکا رہے اور کسی کے سامنے دستِ سوال دراز نہ کرے تو اللہ تعالیٰ غیب سے اس کے لئے سامان مہیا کر دیتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ واقفینِ زندگی سے، صرف مبلغین نہیں، ہر واقفِ زندگی سے یہ سلوک کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے میدانِ عمل میں آج بھی یہ نظارے دیکھتے ہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ مورخہ 22 اکتوبر 2010ء)

پچھلا پڑھیں

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبہ جمعہ مورخہ 28 فروری 2020ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 مارچ 2020