• 25 اپریل, 2024

مولوی محمد عبداللہ پیر کوٹی مرحوم

سابق مینیجر کریم نگر فارم سندھ
مولوی محمد عبداللہ پیر کوٹی مرحوم واقف زندگی کا ذکر خیر

سابق مینیجر تحریک جدید زرعی فارم کریم نگر سندھ محترم مولوی محمد عبداللہ صاحب پیر کوٹی واقف زندگی کی پیدائش 1915ء میں پیر کوٹ ثانی ضلع گوجرانوالہ (موجودہ ضلع حافظ آباد) میں ہوئی۔ آپ 28 ستمبر 1990ء کو 75سال کی عمر میں وفات پا کر بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو غیر معمولی انتظامی صلاحیتوں سے نوازا۔ آپ ایک بارعب اور عالم با عمل شخصیت کے حامل تھے۔

خاندانی تعارف اور احمدیت

محترم نانا جان مولوی محمد عبداللہ صاحب نے صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان میں آنکھ کھولی اور صحابہ کی نیک صحبت میں ہی پروان چڑھے۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ کے والد محترم حضرت میاں پیر محمد صاحب پیرکوٹی اور دادا حضرت میاں امام الدین صاحب پیر کوٹی نے پیر کوٹ سے قادیان جانے والے پہلے وفد 1898ء میں بیعت کی سعادت حاصل کی۔ اس کے بعد 1903ء میں آپ کے تایا حضرت میاں نور محمد صاحب اور چچا حضرت حافظ محمد اسحاق صاحب بھی بیعت حضرت مسیح موعودؑ سے مشرف ہوئے تھے۔ (یاد رہے کہ پیر کوٹ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیمی دوست حضرت مولوی محمد جلال الدین صاحب نے 1890ء میں بیعت کی سعادت حاصل کر لی تھی اور یہ حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحب کے سسر تھے۔)

مولوی محمد عبداللہ صاحب کے والد محترم حضرت میاں پیر محمد صاحب پیر کوٹی (وفات 1972ء مدفون بہشتی مقبرہ ربوہ) صاحب کشف و رؤیا بزرگ تھے۔ آپ پیر کوٹ میں امام الصلوٰۃ بھی تھے۔ آپ نے اپنے چھوٹے بھائی حضرت حافظ محمد اسحاق صاحب اور تینوں بیٹوں کو تعلیم کے لئے قادیان بھیجا۔ آپ کی بہت خواہش تھی کہ آپ کی اولاد خدمت دین میں لگ جائے۔ چنانچہ آپ کے دو بیٹوں (1) مولوی محمد عبداللہ صاحب اور(2)مولانا سلطان احمد پیر کوٹی صاحب کو وقف کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔

ابتدائی تعلیم

مولوی محمد عبداللہ صاحب نے پرائمری تک تعلیم قریبی گاؤں مانگٹ اونچے سے حاصل کی۔ مانگٹ اونچے پرائمری سکول میں داخلہ کے بارہ میں آپ کے بڑے بھائی میاں محمد اسماعیل صاحب پیر کوٹی مرحوم کی روایت ان کے پوتے مکرم اسلام احمد شمس صاحب مربی سلسلہ بیان کرتے ہیں کہ جب وہ محمد عبداللہ صاحب کو داخل کروانے مانگٹ اونچے گئے تو استاد نے الگ لے جا کر انہیں کہا میں اس لڑکے کو داخل نہیں کر سکتا کیوں کہ اس کی عمر زیادہ ہے اور قد میں بھی مجھ سے بڑا ہے اگر میں اسے کوئی سزا دوں تو کہیں رد عمل نہ دکھائے۔ میاں اسماعیل صاحب نے کہا آپ اس کی فکر نہ کریں۔ میرا بھائی آپ کا ہمیشہ تابعدار رہے گا۔ چنانچہ آپ نے تابعداری اور سنجیدگی کے ساتھ اپنی تعلیم حاصل کی اور استاد کا ادب و احترام کرتے رہے۔

آپ کے گھر کا ماحول دینی اور علمی تھا۔ آپ کے والد محترم قادیان سے اخبارات اور کتب سلسلہ منگوایا کرتے تھے۔ چنانچہ بچپن ہی سے آپ کو جماعتی لٹریچر کے مطالعہ کی عادت پڑ گئی جس کے نتیجہ میں آپ کا علمی معیار بلند ہو گیا۔ عیسائیت کا اس علاقے پر بہت اثر تھا۔ آپ کا عیسائیت کے بارے میں مطالعہ وسیع تھا اور آپ عیسائی منادوں کے ساتھ حکیم عبدالعزیز صاحب آف چک چٹھہ کے ہمراہ مناظرے بھی کیا کرتے تھے۔

آپ کے والد محترم نے آپ کو دینی تعلیم کے حصول کے لئے مدرسہ احمدیہ قادیان میں داخل کروا دیا۔ آپ نے مدرسہ احمدیہ میں چھٹی تک تعلیم حاصل کی۔ دوران تعلیم آپ کی شادی ہو گئی اور پھر بچوں کی پیدائش اور ان کی پرورش کی وجہ سے مالی مشکلات کے پیش نظر تعلیم جاری نہ رکھ سکے اور گاؤں آکر کھیتی باڑی شروع کردی۔ آپ کو تبلیغ کا شوق تھا۔ مناظرے بھی کیا کرتے اور چونکہ مدرسہ احمدیہ قادیان سے بھی چند سال پڑھے ہوئے تھے اس لئے آپ مولوی محمد عبداللہ کے نام سے جانے جاتے تھے۔

آپ کے چھوٹے بھائی مولانا سلطان احمد پیر کوٹی صاحب اپنی کتاب ’’رفقاء پیر کوٹ ثانی‘‘ میں آپ کے بارہ میں تحریر کرتے ہیں۔
’’میرے منجھلے بھائی مکرم مولوی محمد عبداللہ صاحب واقف زندگی مرحوم گو دینی تعلیم تو مکمل نہ کر سکے لیکن دینی خدمت کی توفیق ملی۔ پہلے کئی سال تک مقامی جماعت کے سیکرٹری مال رہے۔ دعوت الی اللہ کا نہیں بہت شوق تھا۔ پادریوں اور علماء کا مقابلہ بڑی جرأت سے کرتے اور بڑی کامیابی سے ان سے دینی گفتگو کرتے۔ بعض مناظرے بھی آپ نے کئے۔ بعد میں دین کی خاطر اپنی زندگی وقف کی اور سندھ میں سلسلہ کی زمینوں پر پہلے منشی اور پھر مینیجر کی حیثیت سے 35 سال تک کام کیا۔‘‘

(رفقاء پیر کوٹ ثانی صفحہ39-40)

وقف کی سعادت

حضرت مصلح موعود ؓ نے 1944ء میں جب وقف کی تحریک فرمائی تو آپ نے اس پر لبیک کہتے ہوئے وقف کر دیا۔ 1944ء میں آپ نے معاہدہ وقف پر کیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے آپ کا تقرر سندھ کے لئے تجویز فرمایا۔ آپ 9نومبر 1944ء کو قادیان دفتر میں حاضر ہوئےاور سندھ کی زمینوں پر آپ کو بھجوانے کے احکامات ملے۔ کچھ نجی مجبوریوں کی وجہ سے آپ نے کچھ مہلت کی درخواست کی چنانچہ 3فروری 1945ء کو آپ مرکز حاضر ہو گئے اور آپ کو محمد آباد اسٹیٹ میں بطور منشی بھجوا دیا گیا۔

آپ کے وقف کے حوالے سے اسلام احمد شمس صاحب مربی سلسلہ نے ایک روایت حکیم عبدالرشید ارشد صاحب (سابق مربی انڈونیشیا) آف علی پور ضلع مظفر گڑھ کی بیان کی ہے۔ جس میں انہوں نے بتایا کہ جس وقت حضرت مصلح موعودؓ نے سندھ میں جماعت کی زمینوں پر خدمت کے لئے وقف کی تحریک فرمائی تھی اس وقت وہ بھی مسجد اقصیٰ قادیان میں موجود تھے۔ تحریک فرمانے کے بعد مولوی محمد عبداللہ صاحب کے والد حضرت میاں پیر محمد صاحب پیر کوٹی نے اپنے بیٹے محمد عبداللہ کا ہاتھ پکڑا اور حضور کی خدمت میں وقف کے لئے پیش کر دیا۔

مولوی محمد عبداللہ صاحب نے تحریک جدید کے تحت 1945ء سے 1981ء تک پہلے بطور منشی اور پھر بطور مینیجر کریم نگر فارم خدمت کی۔ 1950ء سے 1954ء تک احمد آباد،1954ء تا 1964ء بشیر آباد، 1965ء تک نورنگر اور 1965ء تا 1980ء کریم نگر فارم پر خدمات بجا لاتے رہے۔ آخری ایک ڈیڑھ سال آپ لطیف نگر اور محمد آباد میں بھی خدمت پر مامور رہے۔ اور پھر خرابی صحت کی بناپر آپ ریٹارمنٹ کے بعد ربوہ آگئے۔

اسیری کی سعادت

ایک جماعتی مقدمہ میں 1947ء سے 1949ء کے دوران آپ تقریباً دو سال اسیر رہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ 21 جون 1947ء کو نور نگر کے نواحی علاقے میں مقامی مزارعین سے الجھاؤ میں بختاور نامی ایک معمر خاتون ہلاک ہو گئیں۔ جس کے نتیجہ میں جماعتی کارکنان کے خلاف مقدمہ دائر ہو گیا اور گیارہ احمدی گرفتار ہو گئے۔ ان میں مولوی محمد عبداللہ صاحب بھی شامل تھے۔ بھٹو دور کی زرعی اصلاحات کے بعد جب ہاریوں میں زمینیں الاٹ ہوئیں تب سے نور نگر اور صادق پور کے قریب ایک گوٹھ ’’مائی بختاور شہید‘‘ کے نام سے اسی متوفیہ خاتون کے نام سے آباد ہے۔ اسیروں کی قربانی رنگ لائی اور اللہ تعالیٰ نے انہی مخالفین میں سے قطرات محبت ٹپکادئیے اور مائی بختاور کے ایک پوتے خان محمد لاشاری صاحب کو 1984ء میں آغوش احمدیت میں ڈال دیا۔ الحمد للّٰہ وہ مخلص احمدی ہیں اور ان کی نسل احمدیت کے نور سے منور ہے۔ خان محمد لاشاری صاحب گورنمنٹ ٹیچر ریٹائرڈ ہیں اور ان کے بیٹے ذیشان لاشاری صاحب اللہ تعالیٰ کے فضل سے مربی سلسلہ ہیں۔

ان اسیران کی قسمت اس وقت جاگ اٹھی جب ان کا آقا ان سے ملاقات کے لئے جیل پہنچ گیا۔ 1948ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ دورہ سندھ پر تشریف لائےاور 15 فروری 1948ء کو آپ اسیران کی ملاقات کے لئے میر پور خاص جیل تشریف لے گئے۔ اس ملاقات کا احوال اور حضرت صاحب کی نصائح روزنامہ الفضل نے ان الفاظ میں درج کی ہیں۔

’’چھ بجے شام کے قریب حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز میر پور خاص کے بعض محبوس احمدیوں کو دیکھنے کے لئے تشریف لے گئے۔ یہ احمدی دوست جن میں سے اکثر واقف زندگی ہیں عرصہ چھ سات ماہ سے محمد آباد اسٹیٹ کی زمین میں ایک فساد کے سلسلہ میں زیر الزام ہیں۔ حضور کے تشریف لے جانے پر افسر صاحب کے حکم کے مطابق سب ماخوذین کو برآمدہ میں لائے جانے کی اجازت دی گئی۔ اس جگہ پر سب دوستوں نے یکے بعد دیگرے حضور سے مصافحہ کیا۔سب دوست اچھی صحت کی حالت میں پائے گئے سوائے خالد صاحب کے جو کچھ نحیف معلوم ہوتے تھے۔

مصافحہ کرنے کے بعد حضور نے ان سے مخاطب کرتے ہوئے اول دریافت فرمایا کہ آپ لوگوں کو نماز پڑھنے میں سہولت ہے یعنی وضو وغیرہ کے لئے پانی مل جاتا ہے۔ انہوں نے بتلایا کہ نماز کی سہولت ہے۔ہم نماز ادا کر لیتے ہیں۔ وضو کے لئے قریب کی جگہ سے پانی لے آتے ہیں۔ پھر حضور نے فرمایا ماہ رمضان میں بھی آپ اس جگہ تھے۔روزے رکھ سکے تھے یا نہیں۔انہوں نے بتلایا کہ ہم نے رمضان کے روزے رکھے تھے۔ ہم شام کو ہی دونوں وقت کا کھانا پکالیا کرتے تھے کیونکہ سحری کے وقت آگ وغیرہ جلانے کی اجازت نہ تھی۔پھر کچھ سکوت کے بعد حضور نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے ایک مختصر تقریر فرمائی جس کا ملخص اپنے الفاظ میں پیش کیا جاتا ہے۔ حضور نے فرمایا۔ آپ لوگوں کو استغفار اور دعا کرتے رہنا چاہئے اور یہ کبھی خیال نہیں آنا چاہئے کہ ہم بے قصور ہیں خواہ موجودہ الزام غلط ہی ہو۔۔۔ آپ اس وقت جس حالت میں ہیں وہ بیشک تکلیف دہ ہے کیونکہ قید میں ہونے کی وجہ سے ہر قسم کی آزادی سے محروم ہیں لیکن آپ لوگوں کو راضی برضا رہنا چاہئے۔ اور اس حالت کو خوشی سے برداشت کرنا چاہئے۔ دنیا میں کئی لوگ ایسے بھی ہیں جو بہرے گونگے اور اندھے ہیں۔ وہ نہ سن سکتے ہیں اور نہ بول سکتے ہیں اور نہ دیکھ سکتے ہیں۔ اور ہر قسم کی قید ان پر وارد ہے۔ وہ آپ لوگوں کی نسبت بدرجہا سخت قیدمیں ہیں مگر پھر بھی وہ اپنی زندگی کو بسر کر رہے ہیں۔ اور نہیں چاہتے کہ ان کی زندگی ختم کر دی جائے۔

آپ لوگوں پر جو یہ حالت آئی ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کی بھیجی ہوئی آئی ہے۔ آپ کو اس کا فائدہ اٹھانا چاہئے تاکہ جب اس حالت سے آپ لوگ باہر آئیں تو آپ کی حالت وہ نہ ہو جو داخل ہونے کے وقت تھی۔ بلکہ اپنے نفس کی اصلاح کی اعلیٰ درجہ کی حالت میں آپ لوگ باہر آئیں۔ اور ایسے پاک اور صاف ہو کر نکلیں کہ جس سے دنیا کو روحانی نفع پہنچے۔‘‘

(روزنامہ الفضل 27؍فروری 1948ء)

حضرت مصلح موعود ؓ نے جہاں اپنے اسیران کی حوصلہ افزائی کے لئے جیل میں تشریف لا کر ملاقات کی وہاں ان کی تربیت کا بھی جائزہ لیا اور موقع محل کے مطابق قیمتی نصائح سے بھی نوازا۔

مولوی محمد عبداللہ صاحب کو قید با مشقت کی سزا تھی۔ تاہم آپ سے جسمانی مشقت نہیں لی گئی بلکہ آپ کی مشقت یہ تھی کہ آپ کی ڈیوٹی قیدیوں کو نماز اور قرآن کریم پڑھانے پر لگ گئی یوں آپ کو اسیری میں بھی ثواب کمانے کے مواقع اللہ تعالیٰ نے عطا کر دئیے۔ یہ تین سال کی قید تھی مگر دو سال سے کچھ زائد عرصہ آپ قید رہے اور اگست 1949ء میں رہا ہو گئے۔ اسیری کے زمانے میں آپ کے بزرگ والد حضرت میاں پیر محمد صاحب پیر کوٹی ؓ بھی چند ماہ کے لئے آپ کے بچوں کے پاس سندھ آکر قیام پذیر رہے۔

(رفقاء پیر کوٹ ثانی صفحہ42)

احمدی اسیران قید و بند کے دوران بلند احمدی کردار کے ذریعہ دوسروں کو متاثر کرنے کا موجب بنے۔ اس کیس میں مخالف فریق کے ایک وکیل جناب عبدالشکور ایڈووکیٹ آف حیدر آباد علیگڑھ سے فارغ التحصیل تھے۔وہ جماعتی کیریکٹر سے اس قدر متاثر ہوئے کہ ہیڈ ماسٹر محمد صدیق صاحب بیان کرتے ہیں کہ سن پچاس کی دہائی میں مذکورہ بالا وکیل نے اپنی بچیوں کو ٹیوشن پڑھانے کے لئے ایک احمدی ہیڈ ماسٹر رحمت اللہ صاحب سابق امیر جماعت حیدر آباد شہر سے درخواست کی کہ انہیں اپنی بچیوں کے لئے استاد کی ضرورت ہے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ احمدی ہو۔ چنانچہ ماسٹر رحمت اللہ صاحب نے ہیڈ ماسٹر محمد صدیق صاحب کا نام تجویز کیا اور انہوں نے ان کی بچیوں کو ٹیوشن پڑھائی۔

مولوی محمد عبداللہ صاحب اپنی جماعتی ڈیوٹی کے ساتھ ساتھ امام الصلوٰۃ کی ذمہ داری بھی ادا کرتے رہے۔ آپ کی قرأت بہت اچھی تھی اور آواز رعب دار اور بلند تھی۔ علمی ذوق اور مطالعہ کرتے تھے جس سے آپ خطبات و تقاریر کے ذریعہ احباب جماعت کو بھی مستفیض کرتے رہے۔ ذیلی تنظیم انصار اللہ میں بھی خدمت کی توفیق ملی۔ چنانچہ 1979ء میں آپ ناظم انصار اللہ ضلع تھر پارکر کے طور پر بھی خدمات بجا لاتے رہے۔

(تاریخ انصار اللہ جلد دوم صفحہ334)

پیشہ وارانہ مہارت

وقف سے قبل آپ اپنے گاؤں میں شعبہ زراعت سے وابستہ تھے یوں آپ کو کھیتی باڑی کا وسیع تجربہ تھا اور پھر آپ وقف کے بعد تو باقاعدہ زراعت کی نگرانی پر متعین ہوگئے۔ آپ نے اپنے تجربہ اور انتظامی صلاحیتوں سے جماعتی زرعی فارمز کو شاہراہ ترقی پر گامزن کرتے ہوئے پیداوار میں خوب اضافہ کیا اور متعدد بار آپ نے زائد پیداوار ہونے کے انعامات بھی اپنے افسران بالا سے حاصل کئے۔

آپ کے بیٹے مکرم ڈاکٹر صفی اللہ صاحب سابق امیر ضلع میانوالی بیان کرتے ہیں کہ آپ جب بشیرآباد فارم پر متعین تھے تو وہاں کپاس کاشت کروائی تھی۔ کپاس کی بہت عمدہ فصل ہوئی۔ اس دوران مرکز سے متعلقہ افسر نے دورہ کیا تو انہوں نے دیکھا کہ کپاس کے بعض پودے کھیت کے بنّوں (یعنی باڈر لائن) پر بھی اُگے ہوتے ہیں اور آپ نے ان کو نہیں نکلوایا کیونکہ فصل کے ڈوڈے آچکے تھے۔ بہرحال افسر معائنہ نے اس پر آپ کو جرمانہ کیا لیکن جب فصل تیار ہوئی تو ریکارڈ پیداوار ہوئی اور اس پر آپ کو جرمانہ سے کئی گنا انعام مل گیا۔ اچھی کارکردگی دکھانے پر آپ کو کئی بار انعامات ملے۔ جماعتی اموال کی خوب حفاظت کی اور جماعتی اشیاء کو اپنے مصرف میں قطعاً نہ لاتے تھے۔ تنگی کے حالات دیکھے لیکن کے اموال و املاک کی حفاظت کا حق ادا کیا۔

جماعت کے لئے غیرت

آپ ایک رعب دار شخصیت کے حامل تھے اوجماعت کے لئے غیر معمولی غیرت رکھتے تھے۔ جماعتی غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسیر ی بھی کاٹی۔ 65-1964 کے الیکشن کے دوران جب باپردہ احمدی خواتین ووٹ ڈال رہی تھیں تو مخالف پولنگ ایجنٹ نے الزام تراشی کی کہ خواتین برقعے میں دو دو ووٹ ڈال رہی ہیں۔ انہیں چیک کریں۔ آپ وہاں ان کے سامنے سینہ تان کے کھڑے ہوگئے کہ آپ نے ہماری خواتین کا ایسے نام کیوں لیا ہے۔ جھگڑے کی کیفیت بن گئی لیکن آپ نے بہادری اور غیرت دکھائی۔ جماعت کے لئےغیرت اور محبت کا مظاہرہ آپ نے یوں بھی کیا کہ جب زرعی اصلاحات کے نتیجہ میں زمینیں ٹوٹ گئیں اور ہاریوں میں تقسیم ہوئیں تو آپ کو بھی پیغام ملا کہ آپ کے چار جوان بیٹے اور خود ہیں۔ پانچوں کے نام زمین الاٹ کروالیں آپ نے کہا میں جماعتی زمین خود یا بچوں کے نام پر نہیں لونگا۔ چنانچہ آپ نے زمین الاٹ نہیں کروائی کیونکہ آپ جماعت کی محبت میں یہ یقین رکھتے تھے کہ یہ زمینیں جماعت کو واپس مل جائیں گی۔

جرأت و بہادری اور فرض شناسی

اللہ تعالیٰ نے آپ کو فطرتی طور پر رعب عطا کیا تھا اور اس رعب کا آپ نے جماعتی وقار بلند کرنے کے لئے استعمال کیا۔ علمی میدان ہو یا عملی میدان آپ بہادری کے ساتھ مخالفین کا مقابلہ کیا کرتے تھے۔ آپ کی جرأت بہادری اور فرض شناسی کا ایک واقعہ آپ کی سب سے چھوٹی بیٹی محترمہ شاہدہ حیات صاحبہ اہلیہ حافظ محمد حیات صاحب امیر ضلع چنیوٹ بیان کرتی ہیں کہ یہ 1973ء کی بات ہے۔ ان دنوں آپ گردے میں پتھری کی تکلیف کی وجہ سے زیر علاج تھے اور آپ کو ڈرپس بھی لگ رہیں تھیں۔ آپ اس وقت مینیجر کریم نگر فارم تھے۔ بیماری کے ان ایام میں کریم نگر فارم کی گھوڑیاں چوری ہوگئیں۔ آپ کو جب اطلاع ملی تو آپ ان کی بازیابی کے لئے نکل کھڑے ہوئے۔ آپ کو منع بھی کیا گیا کہ آپ بیمار ہیں اور تکلیف مزید بڑھ جائے گی لیکن آپ نے کہا کہ یہ میری ذمہ داری ہے اور میں ان کے بارہ میں جوابدہ ہوں ان کی بازیابی تک کیسے بیٹھ سکتا ہوں۔ چنانچہ معروف طریق کے مطابق آپ نے کھوجی وغیرہ کا انتظام کیا اور خود بھی ان کے ساتھ گھوڑی پر نکل پڑے۔ درد گردہ والے جانتے ہیں کہ اس حالت میں گھوڑ سواری کریں تو کیا کیفیت ہوگی۔ لیکن آپ دو دن تک کھوجی کے ساتھ کھوج میں رہے اور بالآخر مسروقہ گھوڑیوں تک پہنچ گئے۔ یہ واقعہ آپ کی جرأت و بہادری، جماعتی اموال کی حفاظت اور فرض شناسی پر گواہ ہے کہ اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال دیا لیکن جماعتی امانتوں کی حفاظت کی ذمہ داری کو خوب نبھایا۔

دینی و دنیاوی محاسن کے مرکب

مولوی محمد عبداللہ صاحب دینی و دنیاوی محاسن کے مرکب تھے۔ مکرم چوہدری جاوید احمد صاحب سابق مینیجر محمدآباد حال مقیم کینیڈا مجھ سے بیان کرتے ہیں کہ سندھ کے جماعتی زرعی فارمز میں میں نے مولوی محمد عبداللہ صاحب جیسا دلیر اور بہادر نہیں دیکھا۔ آپ بارعب اور ملنسار تھے اور آپ کے تعلقاتِ عامہ کا دائرہ بہت وسیع تھا۔

برادرم محمد ساجد قمر صدر جماعت سینٹرل کرائیڈن یو۔کے مولوی محمد عبداللہ صاحب کے سب سے بڑے نواسے ہیں۔ اس لحاظ سے آپ کو اپنے ننھیال کو سب سے زیادہ دیکھنے کا موقع ملا۔ نانا جان اور والد محترم چونکہ دونوں بطور واقفِ زندگی تحریک جدید کے زرعی فارمز سندھ میں خدمت بجالارہے تھے اس لئے یہ قربت اور بھی زیادہ رہی۔ آپ کو اپنے نانا جان مولوی محمد عبداللہ صاحب کی شخصیت کو لمبا عرصہ بہت قریب سے مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ مولوی محمد عبداللہ صاحب دینی و دنیاوی محاسن سے مرکب عالم باعمل تھے۔ آپ نڈر اور اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں کے مالک تھے۔ آپ علاقے میں قابل احترام وجود، صائب الرائے اور اثر انگیز شخصیت تھے۔ جہاں نڈر تھے وہاں انتہائی شفیق انسان تھے۔میرے ساتھ بہت ہی شفقت کا سلوک روا رکھا۔ باجود چھوٹا ہونے کے آپ ہمیشہ احترام کے ساتھ پیش آتے اور کئی معاملات میں مجھے مشورہ میں شریک کرتے جو میرے لئے باعث عزت ہوتا۔ بسا اوقات اپنے بچوں کے معاملات کا مجھ سے تذکرہ کرتے اور اپنی اپنائیت کا اظہار کرتے۔ باجماعت نمازوں کی پابندی میں جہاں آپ کا خاص التزام اور اعلیٰ معیار تھا وہاں بچوں کو بھی نماز کی پابندی کی تلقین اور نگرانی کرتے۔ مجھے آپ سے صرف ایک بار ڈانٹ پڑنا یاد ہے اس کی وجہ نماز عصر میں میری اور میرے ماموں کی غیر حاضری تھی۔

صلہ رحمی

اپنے عزیزوں اور اقرباء کے ساتھ حُسن سلوک کا معاملہ رکھا اور ہمیشہ ان سے محبت سے پیش آتے۔ میرے والد محترم چوہدری محمد صادق صاحب کے ساتھ آپ کا بہت قریبی اور احترام کا تعلق تھا۔ آپ انہیں ہمیشہ اپنا بڑا بیٹا سمجھتے تھے۔ آپ والد محترم کو ہر معاملہ میں شریک رکھتے اور مشورہ لیتے اور بھرپور اعتمادکرتے۔ والد محترم بھی آپ کے ساتھ کمال ادب اور احترام کا تعلق رکھتے تھے۔ یہ احترام اور اعتماد تادم واپسی برقرار رہا۔ ہماری نانی جان آمنہ بیگم صاحبہ بھی ہمارے والد صاحب کا بہت احترام کرتیں اور خاندانی معاملات میں آپ سے مشورہ اور اعتماد کرتی تھیں۔

ریٹائرمنٹ کے بعد جب ربوہ آگئے تو آخری بیماری سے پہلے جب تک صحت نے ساتھ دیا آپ اپنی اولاد اور عزیزوں کے گھروں میں باقاعدہ ملاقات کے لئے جاتے تھے۔ آپ کا مسکراتے چہرے کے ساتھ ہمارے گھرآنا اور شفقت و محبت کے ساتھ ’’پتر‘‘ کہہ کر پکارنا مجھے ہمیشہ یاد رہتا ہے۔

اسلام احمد شمس صاحب مربی سلسلہ بیان کرتے ہیں کہ مولوی محمد عبداللہ صاحب میرے والد غلام احمد صاحب کے ساتھ جو کہ ان کے بڑے بھتیجے بھی تھے بہت پیار اور محبت کا سلوک کرتے تھے۔ میرے والد کو مولوی عبداللہ صاحب نے جماعتی زمینوں پر ملازم کروایا۔ کسی جھگڑے کی وجہ سےانہوں نے ملازمت ترک کر دی تو مولوی محمد عبداللہ صاحب نے ان کو دوسری جگہ ملازم کروا دیا اور یہ سلسلہ کئی سال تک چلتا رہااور والد صاحب کے بہتر مستقبل کے لئے ہمیشہ اقدام کرتے رہے۔

مولوی محمد عبداللہ صاحب بچوں کے لئے بہت شفیق وجود تھے۔ اپنی اگلی نسل کے بچوں سے بھی بہت پیار اور محبت کرتے اور ہمیشہ مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ ملتے۔ بچوں سے پیار اور شفقت ان کو آپ کا گرویدہ بنا لیتا تھا جس کی وجہ سے وہ آپ کی ملاقات اور بیماری میں تیمارداری و خدمت کے لئے حاضر رہتے تھے۔

مہمان نوازی

مہمان نوازی آپ کا نمایاں خلق تھا۔ مہمان نوازی کا حق تبھی ادا ہو سکتا ہے جب شوہر کے ساتھ اس کی بیوی بھی شامل ہو۔ الحمد للہ کہ دونوں میاں بیوی مہمان نوازتھے۔ چوہدری مبارک احمد صاحب آف چنیوٹ بیان کرتے ہیں کہ ساٹھ اور ستر کی دہائی میں زمانہ طالب علمی کے دوران ہم گرمیوں کی چھٹیوں میں اپنی پھوپھو طالعہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم احسان اللہ صاحب کے ہاں نبی سر روڈ سندھ جایا کرتے تھے۔ ہمارے علاوہ ہمارے دوسرے کزن بھی آ جاتے اور خوب رونق ہوجاتی تھی۔ مولوی محمد عبداللہ صاحب احسان اللہ صاحب کے منہ بولے بھائی بنے ہوئے تھے اور ان دونوں کا آپس میں پیار محبت اور اخلاص کا تعلق تھا جو اخیر تک قائم رہا۔ہم اسی تعلق کی وجہ سے انہیں تایا جی عبداللہ کے نام سے پکارتے تھے اور آپ کی اہلیہ آمنہ بیگم صاحب کو تائی جان کہتے تھے۔ قیام سندھ کے دوران ہمارے پھوپھا احسان اللہ صاحب ہمیں تایا جی عبداللہ کے ہاں دو تین روز کے لئے ضرور لے جاتے تھے۔اس سے کم قیام پر مولوی عبداللہ صاحب راضی ہی نہ ہوتے تھے۔ ان کی مہمان نوازی کا کوئی ثانی نہ تھا۔ وہ دیسی مرغیاں، مچھلی، سویاں، حلوہ اورپھر آموں کی ٹوکریوں سے کھلے دل کے ساتھ ہماری تواضع کرتے اور بار بار کہنا کہ اور لیں۔ آپ کے چہرے سے اس وقت اپنائیت اور محبت ٹپکتی تھی۔ آپ کی محبت سے آپ کی تواضع کا مزہ دو چند ہو جاتا تھا۔ تایا عبداللہ اور تائی آمنہ کی محبت و شفقت اور مہمان نوازی کی یادیں اب بھی تازہ ہیں اور اکثر اپنے عزیزوں سے ملاقات کے وقت ان کا ذکر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ دونوں کو غریق رحمت کرے۔ آمین۔

بچوں کی تربیت کے انداز

اللہ تعالیٰ نے آپ کو اچھی آواز دی جس کی وجہ سے خوش الحانی سے تلاوت کرتے اور نمازوں میں بھی امامت کے دوران خوبصورت آواز میں بلند قرأت کرتے۔ کتب سلسلہ اور الفضل کا باقاعدہ مطالعہ کیا کرتے تھے۔ آپ کے بیٹے ڈاکٹر صفی اللہ صاحب بچوں کی تربیت کرنے کے انداز کا تذکرہ کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے اپنے سب بچوں کو قرآن کریم خود پڑھایا۔ آپ رات کو بچپن میں ہمیں اپنے پاس بٹھا کر سونے سے پہلے رسول اللہ ﷺ کی باتیں،حضرت مسیح موعود ؑ کی باتیں کہانی کے انداز میں سکھاتے تھے۔ جب ہم کچھ بڑے ہوئے تو آپ نے ہمیں قرآنی دعائیں، مسنون دعائیں، حضرت مسیح موعودؑ کی دعائیں اور اختلافی مسائل سکھائے۔ مجھے سکول بعد میں بھیجا پہلے قرآن کریم پڑھایا اور پھر قرآن کریم ترجمہ کے ساتھ پڑھایا۔ مجھے علم کی لو آپ نے لگائی اور میں کہہ سکتا ہوں کہ میں نے 80 فیصد علم آپ کو گود میں ہی حاصل کیا۔ آپ فجر کی نماز پر جانے سےپہلے جگاتے اور ساتھ لیکر جاتے۔ نمازوں کے معاملہ میں آپ سختی بھی کرتے تھے۔ آپ ہمیں حقیقی احمدی بنانے کے لئے کوشاں رہے۔ جماعتی علوم،ترجمہ و تفسیر آپ نے بچوں کو سکھایا۔ بچوں کے ساتھ بہت پیار اور شفقت کرتے تھے اگر کبھی سختی ہوئی تو وہ نماز کے لئے۔ آپ کی گود ہمارے لئے ایک درسگاہ تھی اور آج جو میرے پاس علم ہے اس کا بیشتر حصہ بچپن میں آپ سے ہی حاصل کیا۔

شادی و اولاد

1933ء میں آپ کی شادی محترمہ آمنہ بیگم صاحبہ بنت حضرت میاں دین محمد صاحب صحابی حضرت مسیح موعود ؑ سے ہوئی۔ محترمہ آمنہ بیگم صاحبہ خدا تعالیٰ کے فضل سے موصیہ تھیں اور 2008ء میں وفات پا کر بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئیں۔ انہوں نے اپنے واقف زندگی خاوند کا خوب ساتھ نبھایا۔ آپ معروف شاعر،صحافی و ناول نگار جناب قمر اجنالوی صاحب کی بڑی ہمشیرہ اور محترم میاں غلام محمد اختر صاحب سابق ناظر اعلیٰ ثانی و ناظر دیوان کی بھتیجی تھیں۔

اللہ تعالیٰ نے آپ کو پانچ بیٹیاں اور چار بیٹے عطا کئے۔ آپ کی دوبیٹیاں واقفین زندگی سے بیاہی گئیں۔ ان کی تفصیل حسب ذیل ہے۔

  1. محترمہ صادقہ ثریا بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری محمد صادق صاحب واقف زندگی سابق اکاؤنٹنٹ وکالت تبشیر
  2. محترمہ امۃ الرشید بیگم صاحبہ اہلیہ ہیڈ ماسٹر محمد صدیق صاحب
  3. محترمہ مبارکہ خانم صاحبہ اہلیہ عبدالشکور شاد صاحب
  4. محترمہ امۃ القیوم صاحبہ اہلیہ سلطان احمد شاہد صاحب
  5. محترمہ شاہدہ حیات صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر حافظ محمد حیات صاحب
  6. چوہدری عطاء اللہ منور صاحب مرحوم
  7. نعیم اللہ صاحب
  8. سمیع اللہ انجم صاحب مرحوم
  9. ڈاکٹر صفی اللہ صاحب

مولوی محمد عبداللہ صاحب کی نسل میں الحمد للہ وقف اور خدمت دین کا سلسلہ جاری ہے۔ آپ کے دو داماد واقف زندگی، ایک بیٹے لمبا عرصہ امیر ضلع میانوالی رہےاور ایک داماد امیر ضلع چنیوٹ ہیں۔ آپ کے تین نواسے مربیان سلسلہ ہیں۔ ایک نواسے واقف زندگی ڈاکٹر غانا میں خدمت کر رہے ہیں۔ ایک نواسے وائس پرنسپل نصرت جہاں کالج ہیں(انہیں اسیر راہ موالیٰ کی سعادت بھی ملی ہے)۔ آپ کی نسل جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے پانچوں بر اعظموں میں موجود ہے اور اگلی نسل میں کثیر تعداد جماعتی خدمت دین کی توفیق پا رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے اور آپ کی نیکیاں آپ کی نسل کو جاری رکھنے کی توفیق دے۔ آمین۔

(ایم۔ایم۔طاہر)

پچھلا پڑھیں

انڈیکس مضامین اپریل 2022ء الفضل آن لائن لندن

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ