• 24 اپریل, 2024

پس آپؑ کا یہ جو مقام ہے صرف مجددیت کا نہیں ہے بلکہ مہدویت اور مسیحیت کا مقام بھی ہے اور اس کی وجہ سے نبوت کا مقام بھی ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
27مئی کے خطبے میں مَیں نے قرآنِ کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات کے حوالے سے جماعت میں خلافت کے جاری نظام کی بات کی تھی۔ اس سلسلے میں اُس وقت میں مجددین کے حوالے سے بھی کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن چونکہ مضمون تھوڑی سی تفصیل چاہتا تھا اس لئے بھی اور کچھ مَیں مزید حوالے دیکھنا چاہتا تھا، اس لئے میں نے اُس دن بیان نہیں کیا، اِس بارے میں آج کچھ بیان کروں گا۔

کچھ عرصہ ہوا وقفِ نو کلاس میں ایک بچے نے سوال کیا کہ کیا آئندہ مجدد آ سکتے ہیں؟ اس سے مجھے خیال آیا کہ یہ سوال یا تو بعض گھروں میں پیدا ہوتا ہے کیونکہ بچوں کے ذہنوں میں اس طرح سوال نہیں اُٹھ سکتے۔ یا بعض وہ لوگ جو جماعت کے بچوں اور نوجوانوں میں بے چینی پیدا کرنا چاہتے ہیں سوال پیدا کرواتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق آپؐ نے ہر صدی کے سر پر مجدد آنے کا فرمایا، اور جماعت میں مختلف وقتوں میں یہ سوال اُٹھتے رہے ہیں، جماعت کے مخلصین میں نہیں، بلکہ ایسے لوگ جو جماعت میں رخنہ ڈالنے والے ہوں اُن لوگوں کی طرف سے یہ سوال اُٹھائے جاتے رہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اس بارے میں مختلف موقعوں پر وضاحت فرمائی ہے۔ پھر خلافتِ ثالثہ میں یہ سوال بڑے زور و شور سے اُٹھایا گیا، اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے مختلف موقعوں پر اور خطبات میں اس پر بڑی سیر حاصل بحث کی ہے۔ پھر خلافتِ رابعہ میں بھی حضرت خلیفۃ المسیح الرابع سے بھی یہ سوال کیا گیا۔ بہر حال یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کو وقتاً فوقتاً اُٹھایا جاتا ہے یا ذہنوں میں پیدا ہوتا ہے، یا پیدا ہوتا رہا ہے۔ اور منافق طبع لوگ جو ہیں اُن کی یہ نیت رہی ہے کہ کسی طرح جماعت میں بے چینی پیدا کی جائے کہ خلافت اور مجددیت میں کیا فرق ہے؟ اس بارے میں عموماً بڑی ہوشیاری سے علم حاصل کرنے کے بہانے سے بات کی جاتی ہے یا اُس حوالے سے بات کی جاتی ہے۔ لیکن بعد میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ نیت کچھ اور تھی۔ خاص طور پر خلافتِ ثالثہ میں یہ ثابت ہوا کہ اس کے پیچھے ایک فتنہ تھا۔ لیکن بہر حال اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے یہ وعدہ ہے کہ آپ کے بعد آپ کی جاری خلافت کے لئے بھی وہ زبردست قدرت کا ہاتھ دکھائے گا۔

(ماخوذ از رسالہ الوصیت روحانی خزائن جلد20 صفحہ304)

اس لئے ایسے فتنے جب بھی اُٹھے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ختم کر دئیے کیونکہ جماعت کی اکثریت اُن کا ساتھ دینے والی نہیں تھی۔ گو آج یہ فتنہ اُس طرح تو نہیں ہے جو تکلیف دِہ صورتحال حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کے لئے پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی، لیکن بہر حال کیونکہ سوال اِکّا دُکّا اُٹھتے رہتے ہیں اس لئے اس کی تھوڑی سی وضاحت کر دیتا ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ ہر صدی میں تجدیدِ دین کے لئے مجدد کھڑے ہوں گے۔ (سنن أبی داؤد کتاب الملاحم باب ما یذکر فی قرن المئۃ حدیث 4291) اور وہاں جو الفاظ ہیں اُس میں صرف واحد کا صیغہ نہیں ہے بلکہ اُس کے معنی جمع کے بھی ہو سکتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسے اپنے دعوے کی صداقت کے طور پر بھی پیش فرمایا ہے۔ اس وقت مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کچھ حوالے آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ اس بارہ میں آپ کے ارشادات اور تحریرات تو بے شمار ہیں جن کو بیان کرنا ممکن نہیں ہے، تا ہم چند حوالے جیسا کہ میں نے کہا کہ مَیں پیش کرتا ہوں۔ اگر اِن کو غور سے دیکھا جائے تو آئندہ آنے والے مجددین کے بارہ میں بھی بات واضح ہو جاتی ہے۔ آپ علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’خدا نے اسلام کے ساتھ ایسا نہ کیا اور چونکہ وہ چاہتا تھا کہ یہ باغ ہمیشہ سرسبز رہے اس لئے اُس نے ہر یک صدی پر اس باغ کی نئے سرے آبپاشی کی اور اس کو خشک ہونے سے بچایا۔ اگرچہ ہر صدی کے سر پر جب کبھی کوئی بندہٴ خدا اصلاح کیلئے قائم ہوا جاہل لوگ اُس کا مقابلہ کرتے رہے اور اُن کو سخت ناگوار گزرا کہ کسی ایسی غلطی کی اصلاح ہو جو اُن کی رسم اور عادت میں داخل ہو چکی ہے‘‘۔ یہ شور مچانے والے پہلے شور بھی مچاتے ہیں پھر مخالفت بھی کرتے ہیں تو بہر حال فرماتے ہیں ’’لیکن خدا تعالیٰ نے اپنی سنت کو نہ چھوڑا یہاں تک کہ آخری زمانہ میں جو ہدایت اور ضلالت کا آخری جنگ ہے خدا نے چودھویں صدی اور اَلْفِ آخر کے سر پر مسلمانوں کو غفلت میں پاکر پھر اپنے عہد کو یاد کیا۔ اور دین اسلام کی تجدید فرمائی۔ مگر دوسرے دینوں کو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ تجدید کبھی نصیب نہیں ہوئی۔ اس لئے وہ سب مذہب مرگئے۔ ان میں روحانیت باقی نہ رہی اور بہت سی غلطیاں اُن میں ایسی جم گئیں کہ جیسے بہت مستعمل کپڑہ پر جو کبھی دھویا نہ جائے میل جم جاتی ہے۔ اور ایسے انسانوں نے جن کو روحانیت سے کچھ بہرہ نہ تھا اور جن کے نفسِ امارّہ سفلی زندگی کی آلائشوں سے پاک نہ تھے اپنی نفسانی خواہشوں کے مطابق ان مذاہب کے اندر بے جا دخل دے کر ایسی صورت اُن کی بگاڑ دی کہ اب وہ کچھ اور ہی چیز ہیں‘‘۔

(لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد20 صفحہ203-204)

تو آپ واضح یہ فرما رہے ہیں کہ اسلام میں اللہ تعالیٰ نے اُس روشنی کو قائم کرنے کے لئے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے مختلف موقعوں پر مختلف اولیاء اور مجددین پیدا کئے جو اپنے اپنے دائرے میں دین کی روشنی کو پھیلاتے رہے، کیونکہ اس دین کو اللہ تعالیٰ قائم رکھنا چاہتا تھا جبکہ باقی دینوں کے ساتھ ایسی کوئی ضمانت نہیں تھی اور اسی لئے اُن میں ایسی آلائشیں شامل ہو گئیں جن سے وہ دین بگڑ گئے۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ:
’’تمام زمانے کا یہ حال ہو رہا ہے کہ ہر جگہ اصلاح کی ضرورت ہے اسی واسطے خدا تعالیٰ نے اس زمانے میں وہ مجدد بھیجا ہے جس کا نام مسیح موعود رکھا گیا ہے اور جس کا انتظار مدت سے ہو رہا تھا اور تمام نبیوں نے اس کے متعلق پیشگوئیاں کی تھیں اور اس سے پہلے زمانے کے بزرگ خواہش رکھتے تھے کہ وہ اُس کے وقت کو پائیں‘‘۔

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ82۔ ایڈیشن 2003ء)

اب یہاں جو مجدد جس کے لئے آپؑ فرما رہے ہیں وہ وہ مجدد ہے جو مسیح موعود ہے جس کا انتظار کیا جا رہا تھا۔ کوئی ایسا مجددنہیں جس کے بارے میں پیشگوئی کی گئی ہو کہ اُس کا انتظار ہے سوائے مسیح موعود کے۔ جس کی پرانے نبیوں نے بھی خبر دی اور پیش خبری فرمائی، کیونکہ اس کا زمانہ وہ آخری زمانہ ہے جس میں دین کی اشاعت ہونی ہے اور اللہ تعالیٰ کا نام دنیامیں پھیلنا ہے، پیغام دنیا میں پھیلنا ہے۔ پھر آپ فرماتے ہیں:
’’جب خدا تعالیٰ نے زمانہ کی موجودہ حالت کو دیکھ کر اور زمین کو طرح طرح کے فسق اور معصیت اور گمراہی سے بھرا ہوا پا کر مجھے تبلیغِ حق اور اصلاح کے لئے مامور فرمایا‘‘۔ اب یہاں الفاظ پر غور کریں کہ تبلیغِ حق اور اصلاح کے لئے مامور فرمایا۔ ’’اور یہ زمانہ بھی ایسا تھا کہ … اس دنیا کے لوگ تیرھویں صدی ہجری کو ختم کر کے چودھویں صدی کے سر پر پہنچ گئے تھے۔ تب مَیں نے اُس حکم کی پابندی سے عام لوگوں میں بذریعہ تحریری اشتہارات اور تقریروں کے یہ ندا کرنی شروع کی کہ اس صدی کے سر پر جو خدا کی طرف سے تجدیدِ دین کے لئے آنے والا تھا وہ مَیں ہی ہوں تا وہ ایمان جو زمین پر سے اُٹھ گیا ہے اُس کو دوبارہ قائم کروں‘‘۔

(تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد20 صفحہ3)

یہ مجدد کا کام ہے، تبلیغِ حق اور اصلاح اِس کاپہلے ذکر فرمایا۔ ایمان جو اُٹھ گیا تھا اُس کو دوبارہ قائم کرنا۔ اور اس ایمان اُٹھنے کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی تھی کہ اگر ایمان ثریا پر بھی چلا گیا تو ایک رجلِ فارس پیدا ہو گا جو اُس کو زمین پر لے کر آئے گا۔ پھر آپ فرماتے ہیں:
’’اور خدا سے قوت پا کر اُسی کے ہاتھ کی کشش سے دنیا کی اصلاح اور تقویٰ اور راست بازی کی طرف کھینچوں‘‘، دنیا کو اصلاح اور تقویٰ اور راست بازی کی طرف کھینچوں ’’اور اُن کی اعتقادی اور عملی غلطیوں کو دور کروں اور پھر جب اس پر چند سال گزرے تو بذریعہ وحی الٰہی میرے پر بتصریح کھولاگیا کہ وہ مسیح جو اس اُمت کے لئے ابتدا سے موعود تھا اور وہ آخری مہدی جو تنزل اسلام کے وقت اور گمراہی کے پھیلنے کے زمانے میں براہِ راست خدا سے ہدایت پانے والا اور اُس آسمانی مائدہ کو نئے سرے انسانوں کے آگے پیش کرنے والا تقدیرِ الٰہی میں مقرر کیا گیا تھا جس کی بشارت آج سے تیرہ سو برس پہلے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی وہ مَیں ہی ہوں‘‘۔

(تذکرۃالشہادتین، روحانی خزائن جلد20 صفحہ3-4)

پس آپ کا یہ جو مقام ہے صرف مجددیت کا نہیں ہے بلکہ مہدویت اور مسیحیت کا مقام بھی ہے اور اس کی وجہ سے نبوت کا مقام بھی ہے۔

(خطبۂ جمعہ 10؍ جون 2011ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 جون 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 جون 2021