• 19 اپریل, 2024

نازِ محبت

دنیا میں حاکموں کو حکومت پہ ناز ہے
جو ہیں شریف ان کو شرافت پہ ناز ہے
عابد کو اپنے زہدوعبادت پہ ناز ہے
اور عالموں کو علم کی دولت پہ ناز ہے
حُسنِ رقم پہ ناز ہے مضموں نگار کو
پھر کاتبوں کو حُسنِ کتابت پہ ناز ہے
ماہر کو ہے یہ ناز کہ حاصل ہے تجربہ
عاقل کو اپنے فہم و فراست پہ ناز ہے
جن کی بہادری کی بندھی دھاک ہر طرف
تن تن کے چل رہے ہیں شجاعت پہ ناز ہے
صنعت پہ اپنی ناز ہے ّصناع کو اگر
موجِد کو اپنی طبع کی جودَت پہ ناز ہے
ماہر ہے سرجری میں تو ہے ڈاکٹر کو ناز
حاذِق ہے گر طبیب، طبابت پہ ناز ہے
بیمار کو ہے ناز کہ نازک مزاج ہوں
جو تندرست ہیں انہیں صحت پہ ناز ہے
منعم کو ہے یہ ناز کہ قبضہ میں مال ہے
عزت خدا نے دی ہے تو عزت پہ ناز ہے
’’ہیں مال مست امیر تو ہم کھال مست ہیں‘‘
اس رنگ میں غریب کو غربت پہ ناز ہے
مانا کہ انکسار بھی داخل ہے خُلق میں
پر کچھ نہ کچھ خلیق کو سیرت پہ ناز ہے
گوشہ نشیں کو ناز ہے یہ بے ریا ہوں میں
جو نامور ہوئے انہیں شہرت پہ ناز ہے
نازاں ہے اس پہ جس کو فصاحت عطا ہوئی
جادو بیاں کو اپنی طلاقت پہ ناز ہے
پایا جنہوں نے حسن وہ اس مے سے مست ہیں
ہر اک سے بے نیاز ہیں صورت پہ ناز ہے
اُڑ کر کہاں کہاں نہ گیا طائرِ خیال
شاعر کو اپنے زورِ طبیعت پہ ناز ہے
دیکھو جسے غرض کہ وہی مستِ ناز ہے
وحشی بھی ہے اگر اسے وحشت پہ ناز ہے
فانی تمام ناز ہیں باقی ہے اس کا ناز
جس کو بقا پہ ناز ہے وحدت پہ ناز ہے
جانِ جہاں! تجھی پہ تو زیبا ہے ناز بھی
یہ کیا کہ چند روز کی حالت پہ ناز ہے
کیونکر کہوں کہ ناز سے خالی ہے میرا دل
پیارے مجھے بھی تیری محبت پہ ناز ہے

(حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی یہ نظم اخبار الفضل 21 اکتوبر 1924ء میں
’’مستورہ‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ درعدن ایڈیشن 2008صفحہ7۔9)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 جولائی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 3 جولائی 2020ء