• 25 اپریل, 2024

الفرقان آیت 78 کی لطیف تفسیر

قُلۡ مَا یَعۡبَؤُا بِکُمۡ رَبِّیۡ لَوۡ لَا دُعَآؤُکُمۡ کی لطیف تفسیر (الفرقان آیت 78)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام

یہ آیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی 1874ء اور 1906ء میں الہام ہوئی۔ اس کی لطیف تفسیر کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں:
’’چونکہ خدا کے قانون میں یہی انتظام ہے کہ رحمت خاصہ انہیں کے شامل حال ہوتی ہے کہ جو رحمت کے طریق کو یعنی دعا اور توحید کو اختیار کرتے ہیں اس باعث سے جو لوگ اس طریق کو چھوڑ دیتے ہیں وہ طرح طرح کی آفات میں گرفتار ہو جاتے ہیں اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے قُلۡ مَا یَعۡبَؤُا بِکُمۡ رَبِّیۡ لَوۡ لَا دُعَآؤُکُمۡ یعنی ان کو کہہ دے کہ میرا خدا تمہاری پرواہ کیا رکھتا ہے اگر تم دعا نہ کرو اور اس کے فیضان کے خواہان نہ ہو خدا کو کسی کی زندگی اور وجود کی حاجت نہیں وہ تو بے نیاز مطلق ہے۔‘‘

(براہین احمدیہ بحوالہ تفسیر مسیح موعود جلد 6 صفحہ 357)

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ

مجلس مشاورت جماعت احمدیہ 1969ء سے خطاب کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا:

’’دعا کے بغیر تو ہماری زندگی کوئی نہیں۔ دعا کے بغیر تو ہم خدا کے پیار کو حاصل نہیں کر سکتے

قُلۡ مَا یَعۡبَؤُا بِکُمۡ رَبِّیۡ لَوۡ لَا دُعَآؤُکُمۡ (الفرقان آیت 78)

اللہ جو غنی ذات ہے اس کو ہماری پرواہ ہی کیا ہے؟دعا ہے وہ ایک جذبہ ہے دل میں اس کے قریب جانے کاجواس کی محبت میں ایک حرکت پیدا کرتا ہے اور چونکہ ہم غریبوں کی، عاجزوں کی حرکت بھی بڑی عاجزانہ ہوتی ہے ہم آہستگی کے ساتھ اس کی طرف بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ تمام قدرتوں کا مالک ہے جب کسی حرکت کی طرف وہ رجوع کرتا ہے تو ان قدرتوں کے ساتھ بڑی تیزی کے ساتھ وہ آگے بڑھتا ہے ہم نے دو قدم اٹھائے ہوتےہیں وہ میلوں کا فاصلہ تمثیلی زبان میں طے کرتا ہواہمارے پاس پہنچتا ہے پس ہر آن اور ہر وقت دعائیں کرتے رہو۔

خدا تعالیٰ نے ہمیں دعا پر قائم رکھنے کے لئے لازمی نمازوں پر قائم کر دیا ہے کہ دن میں پانچ وقت یہ یاد دہانی ہوتی رہے کہ دعا کے بغیر تمہاری زندگی نہیں ۔خدا تعالیٰ نے اس جذبہ میں شدت پیدا کرنے کے لئے ہمیں مقام محمود کا نظارہ دکھایا اور کہا اگر مقام محمود حاصل کرنا چاہتے ہو، نوافل کی طرف توجہ کرو اور اللہ تعالیٰ نے اس مقام محمود میں پہنچ کر اس کے حسن اور احسان کو اور زیادہ حسین بنانے کے لئے ہمیں ذکر کی طرف متوجہ کیا جو ہر وقت ہو سکتا ہے۔ یہاں بیٹھے بیٹھے بھی آپ سن بھی رہے ہیں اور زبان یا خیالات سے خدا تعالیٰ کے ذکر میں بھی مشغول رہ سکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے مثلاً اب میں بول بھی رہا ہوں کوئی کہے گا میں اس وقت دعا سے محروم رہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ نہیں تدبیر بھی دعا ہے؟ میری ایک تدبیر ہے کہ میں اپنے خیالات کا اپنے دوستوں کے سامنے اس رنگ میں اظہار کروں کہ وہ اپنی ذمہ واریوں کو سمجھیں ۔یہ ایک تدبیر ہے جو کچھ میں کہہ رہا ہوں میں اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں ،تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے فرمایا ہےکہ جو اس نیت کے ساتھ تدبیر کرتا ہے وہ بھی دعا ہے ۔آپ نے فرمایا دعا تدبیر ہے اور تدبیر دعا ہے یہ ایک بڑا گہرا فلسفیانہ مضمون ہے اس کی تفصیل میں میں نہیں جا سکتا لیکن اس سے ہمیں یہ پتہ لگا کہ اگر ہر تدبیر دعا ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے فرمایا ہے تو ہماری زندگی کا ہر لحظہ دعا میں گزر سکتا ہے اور گزرنا چاہیئے ۔اگر میں اس نیت سے سوتا ہوں کہ میں refresh ہو کر اٹھوں گا، مجھ میں تازگی پیدا ہو گی تو میرا سونا ایک تدبیر ہے ۔پانچ گھنٹے جو میں غفلت کی نیند سویا رہتا ہوں یہ ایک تدبیر ہے اس غرض کے لئے کی گئی ہے کہ میں زیادہ طاقت کے ساتھ اگلے دن کا کام کر سکوں اور چونکہ ہر تدبیر دعا ہے ہر لحظہ جو میرا سونے میں گزرا اس نیت کے ساتھ میرا دعا میں گزرا تو چوبیس گھنے کے چوبیس گھنٹے ہمارے دعا میں گزر سکتے ہیں اگر ہماری نیتیں درست رہیں اگر ہمیں احساس ہو اس بات کا کہ ہماری زندگی کا ایک لمحہ بھی دعا کے بغیر نہیں رہے گا اور یہی سچ ہے کیونکہ اگر یہ سچ ہے اور یقینا سچ ہے کہ

قُلۡ مَا یَعۡبَؤُا بِکُمۡ رَبِّیۡ لَوۡ لَا دُعَآؤُکُمۡ

تو ہر وہ لحظہ جو دعا کے بغیرہمارا گزرا خواہ وہ غفلت کا ہو یا نیند کا اس میں خدا تعالیٰ کو ہماری پرواہ نہیں رہی اور ایک لحظہ کے لئے بھی انسان زندہ نہیں رہ سکتا،قائم نہیں رہ سکتا روحانی طور پر، اخلاقی طور پر، جسمانی طور پر اگر خدا تعالیٰ کا سہارا نہ ہو۔ یہ صحیح ہے کہ جو جسمانی سہارے ہیں وہ خدا تعالیٰ دوسروں کو بھی دیتا ہے یہ اس کا ایک دوسرا قانون ہے لیکن پرواہ کوئی نہیں ہوتی ۔سہارا دیتا ہے دنیوی لحاظ سے آسمان تک لے جاتا ہے اور یہ بتانے کے لئے کہ میں نے ایک دوسرے قانون کے مطابق تمہیں سہارا دیا تھا یہ نہیں تھا کہ تم اس گروہ میں آگئے ہو جو قُلۡ مَا یَعۡبَؤُا بِکُمۡ رَبِّیۡ والا گروہ ہے یعنی جن کی پرواہ ہوتی ہے اس گروہ میں نہیں تھے تو وہ اپنا سہارا نیچے سےہٹا لیتا ہے اور وہ سات آسمانوں سے گرتے اور چکنا چور ہو جاتے ہیں۔ جتنا اس کو بلند کرتا ہے اتنا اس کا قیمہ کر دیتا ہے لیکن جو ہر آن ہر وقت خدا کے حضور عاجزانہ دعاؤں میں لگے رہتے ہیں یہ سہارا ان سے کبھی چھینا نہیں جاتا۔

جب ان کو اللہ کے فضل اور اس کی نعمت سے کوئی رفعت حاصل ہوتی ہے تو خدا کا فضل اور اس کی نعمت ان نعمتوں سے اسےمحروم نہیں کیا کرتی۔ شرط یہ ہے کہ کوئی لحظہ بھی زندگی کا اس خیال کے ماتحت نہ گزارا جائے کہ ہم اپنی قوت اور طاقت اور علم اور مال اور وجاہت کے اور یہ اور وہ ۔جو ہمیں ملا ہوا ہے دنیا میں، خدا کے سہارے کے بغیر ان کے سہارے سے زندہ رہ سکتے ہیں۔جس وقت وہ خیال آیا ہلاکت کے دروازے کھل گئے۔ ہزار ہلاکتیں آکر اس کے سامنے کھڑی ہو جائیں گی ۔یہ خدا ہی کا سہارا ہے جس نے ring کیا ہوا ہے ایک حلقہ بنا ہوا ہے ہمارے گردشیطان کبھی ادھر سے وسوسے پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور کبھی ادھر سے دل کے نور کو، دل کے وسوسے سے پنکچر کرکے وہاں سے نکالنے کی کوشش کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے یہ حلقہ بنایا ہوا ہے ۔اس میں سے وہ گزر نہیں سکتا۔ اس حلقہ کا قیام دعا کے ذریعہ ہے ۔دعا کرتے رہوگے ہر وقت، تو اللہ تعالیٰ کا سہارا بھی تمہارے ساتھ رہے گا ۔اس کی قدرتوں کے جلوے بھی تم ہر وقت دیکھو گے ۔

نیند کی میں ایک موٹی مثال دیتا ہوں۔ ممکن ہے بعض لوگوں کو سمجھ نہ آئی ہو۔نیند بھی دعا ہے ایسے آدمی کی نیند سے بھی اللہ تعالیٰ پیار کرتا ہے تب ہی تو وہ سچی خوابیں نیند کے وقت دکھا دیتا ہے۔ اگر نیند کی حالت کو خدا ایک کامل غفلت کی حالت پاتا تو اتنے پیار اور محبت کا سلوک اس غفلت کی حالت میں انسان سے کیسے کر سکتا تھا؟ کتنی عظیم بشارت اس انسان کو دی جاتی ہے جو خلوص نیت سے نیند کے اوقات کو گزارتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی نیند کی اس حالت سے بھی پیار کرتا ہے دل کی اس حالت سے بھی پیار کرتا ہے اور اس حالت میں بھی اپنی نعمتوں سے اسے نوازتا اور محبت کا سلوک اس سے کرتا ہے۔

پس دعا کو اپنی عادت بناؤ۔ دعا کو اپنی غذا بناؤ۔ دعا کو اپنا لباس بناؤ۔دعا کو اپنی ہوا بناؤ۔دعا ہی کو اپنی نیند بناؤ ہر چیز دعا کو بناؤ اور دعا کے ذریعہ سے اپنے رب کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرو۔

پھر جتنی دنیا آج اسلام کی مخالفت کر رہی ہے ہر قسم کے دجل جو ہیں وہ کئے جا رہے ہیں ،افریقہ میں بھی ،امریکہ میں بھی ،یورپ میں بھی ،جزائر میں بھی، بڑی مالی طاقت ان دجالی منصوبوں کے پیچھے ہے اور سلطنتین ان کا ساتھ دے رہی ہیں۔ وہ سلطنتیں جن کا مقابلہ دوسری سلطنتیں آج نہیں کر سکتیں کوئی خدا سے دور لے جا رہا ہے کوئی شرک میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ انسان کو خدائے واحد و یگانہ سے دور لے جانے کی دائیں طرف سے بھی کوشش ہو رہی ہے اور بائیں طرف سے بھی کوشش ہو رہی ہے۔ ان تمام کوششوں کے باوجود، ان تمام اندھیروں کے باوجود، ان تمام ظلمتوں کے باوجود، ان تمام دنیوی مادی سامانوں کےباوجود اور طاقتوں کے باوجود ہمارے دل میں جو یہ یقین پیدا کیا گیا ہے کہ اسلام آخرکار غالب ہوگا اور فتح پائے گا وہ اسی بناء پر کیا گیا ہے کہ خدا نے کہا میری اطاعت میں گم اور فنا ہو جاؤ میں تمہارےگرد اپنےنور کا، میں تمہارے گرد اپنی قدرت کا، میں تمہارے گرد اپنی حیات کا، میں تمہارےگرداپنی قیومیت کا، میں تمہارے گرد اپنے احسان کا ایک ایسا حلقہ بناؤں گا کہ یہ تمام مادی طاقتیں تمہارا کچھ نہ بگاڑ سکیں گی اور آخر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیامیں فتح ہو گی۔

خدا کرے کہ ایسا ہو اور خدا کرے کہ ہم اپنی ذمہ واریوں کو سمجھنے والے ہوں۔خدا کرے کہ ہم اپنی ناطاقتی اور عاجزی کو پہچاننے والے ہوں ۔خدا کرے شرک کا کوئی اثربھی ہمارے دلوں اور ہمارے دماغوں اور ہماری روح میں باقی نہ رہے۔خدا کرے کہ ہمارے ذرہ ذرہ میں اور ہماری روح اور ہمارے اخلاق کے ہر پہلو میں خدا کی توحید ہی جلوہ گر ہو اور موجزن رہے ۔خدا کرے کہ دعا کے اس مقام سے ہم کبھی نہ ہٹیں تا کہ شیطان کا کوئی وار کبھی ہم پر کامیاب نہ ہو سکے۔‘‘

(رپورٹ مجلس مشاورت جماعت احمدیہ 1969ء صفحہ 276 تا 280)

٭…٭…٭

(مرسلہ: انجینئر محمود مجیب اصغر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 نومبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 نومبر 2020