• 23 اپریل, 2024

نماز میں خشوع وخضوع

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
’’ اُن اوصاف میں سے جن سے ایک مومن کو متصف ہونا چاہئے، پہلی خصوصیت یا حالت یہ ہے کہ وہ فِي صَلٰوتِهِمْ خَاشِعُوْنَ اپنی نمازوں میں خشوع دکھانے والے ہیں۔ ‘‘خاشع’’ کے عام معنی یہی کئے جاتے ہیں کہ نماز میں گریہ و زاری کرنے والے۔ لیکن اس کے اَور بھی معنی ہیں اور جب تک سب معنی پورے نہ ہوں ایک مومن کی حقیقی معیار کی حالت پیدانہیں ہوتی۔ اور لغات کے مطابق خشوع کے یہ معنی ہیں کہ انتہائی عاجزی اختیار کرنا۔ اپنے آپ کو بہت نیچے کرنا۔ اپنے نفس کو مٹا دینا۔ تذلل اختیار کرنا۔ اپنے آپ کو کمتر بنانے کے لئے کوشش کرنا۔ نظریں نیچی رکھنا۔ آواز کو دھیما اور نیچارکھنا۔پس دیکھیں اس ایک لفظ میں ایک حقیقی مومن کی نماز اور عبادت کا کیسا وسیع نقشہ کھینچا گیا ہے اور جو انسان خداتعالیٰ کے آگے اپنی عبادتوں کے یہ معیار حاصل کرنے کے لئے جھکے گا، اپنی عاجزی کو انتہا پر پہنچانے والا ہو گا، اپنے نفس کو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے مٹانے والا ہو گا اور جو دوسری خصوصیات بیان کی گئی ہیں ان کو اپنانے والا ہو گا تو پھر وہ جہاں خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والا ہو گا وہاں وہ اس طرف بھی توجہ دے گا کہ میںنے اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق مخلوق کا بھی حق ادا کرنا ہے اور پھر یہ نمازیں اس کے دنیاوی معاملات سلجھانے والی بھی بن جائیں گی…اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والے اور فلاح والے اپنی عاجزی انکساری کی انتہا کو پہنچنے کے باوجود، لغویات سے پرہیز کرنے کے باوجود، اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کے باوجود، اپنی عصمتوں کی حفاظت کرنے کے باوجود، اپنے عہدوں کو پورا کرنے کے باوجود، اپنی عبادتوں کے حق ادا کرنے کے باوجود، اپنی نمازوں کے حق ادا کرنے کے باوجود اور ان کی حفاظت کرنے کے باوجود پھر بھی یہی کہتے ہیں کہ اے اللہ! ہمیں اپنے فضلوں کی چادر میں ڈھانپ لے کہ اس کے بغیر ہم کچھ نہیں ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کا فضل ہی ہے جو انسان کی مسلسل کوشش کو جو وہ اس کی رحیمیت کو جذب کرنے کے لئے کرتا ہے قبولیت کا درجہ دیتا ہے۔ یعنی رحیمیت کو جذب کرنے کی کوشش جو ہے وہ مسلسل رہے تو اللہ تعالیٰ کے فضل حاصل ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وجہ سے انسان قبول کیا جاتا ہے اور انجام اس کا بہترین نکلتا ہے۔پس اس نکتے کو ایک حقیقی مومن کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے بیشک یہ فرما دیا کہ مومن فلاح پا گئے جو یہ یہ کام کرتے ہیں لیکن اس فلاح کو اپنی زندگی کا حصہ بنانے کے لئے ہر ترقی اور ہر فضل جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتے ہیں اسے اپنی کسی کوشش کا نتیجہ نہ سمجھیں بلکہ ہر ترقی کے بعد سمجھے کہ میں نے کچھ بھی نہیں کیا۔ اگر یہ مادہ پیدا ہو جائے تو ترقی ہوتی چلی جائے گی ورنہ اس نطفے کی طرح جو رِحم میں جا کر مکمل پرورش نہیں پاتا اور چند ہفتوں کے بعدنکل کر ضائع ہو جاتا ہے، ہمارا عمل بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کو عارضی طور پر جذب کرنے کے بعد اپنے کسی بد عمل سے ناکارہ ہو کر ضائع ہو سکتا ہے اور ہو جاتا ہے… تو اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کے لئے مسلسل عاجزی اور اللہ تعالیٰ کا خوف ہے جو ہر ایک کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ ہر حقیقی مومن کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس کے نماز شروع کرنے اور ختم کرنے میں ایک واضح فرق ہو۔ اگر نماز شروع کرنے سے پہلے اس میں کوئی اَنا یا تکبر کا حصہ تھا بھی تو نماز ختم کرتے وقت اس کا دل ان چیزوں سے پاک ہونا چاہئے۔ اسی طرح باقی عبادتیں ہیں۔ ہر عبادت کا خاتمہ اس کے تکبر کا خاتمہ اور تذلل کا اختیار کرنا ہو۔ اپنے روزمرہ معاملات میں ایک دوسرے سے سلوک اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے دل میں عاجزی کی حالت لئے ہوئے ہو۔ پس عبادتیں ہمیں جھکائے چلی جانے والی ہونی چاہئیں تا کہ خدا تعالیٰ کی رحیمیت اس کو ہر وقت تازہ اور صحت مند پھلنے پھولنے والے پھل لگاتی رہے۔ ہردن ہمیں اپنی کمزوریوں کی نشاندہی کرواتے ہوئے خدا تعالیٰ کے فضل کو بڑھانے والا بنائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ استغفار کرتے رہنے والا بنائے۔ ہماری ہر نیکی اگر خدا تعالیٰ کی نظر میں نیکی ہے تو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ ہو۔ ہم میں سے ہر ایک ان لوگوں میں شامل ہو جائے جو خدا تعالیٰ کی نظر میں فلاح پانے والے ہوں۔‘‘ (آمین)

(خطبہ جمعہ 10 اپریل 2015ء)

پچھلا پڑھیں

استنبول (قسطنطنیہ) کی سیر (قسط 3)

اگلا پڑھیں

مصروفیات حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مورخہ 28 دسمبر 2019ء تا مورخہ 03 جنوری 2020ء