• 25 اپریل, 2024

منجانب اللہ ہونے کی خاص علامت

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’آنحضرت ﷺ ایسے وقت میں دنیا سے اپنے مولیٰ کی طرف بلائے گئے جبکہ وہ اپنے کام کو پورے طور پر انجام دے چکے اور یہ امر قرآن شریف سے بخوبی ثابت ہے جیسا کہ اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا ؕ فَمَنِ اضۡطُرَّ فِیۡ مَخۡمَصَۃٍ غَیۡرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثۡمٍ ۙ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ (المآئدۃ:4) یعنی آج میں نے قرآن کے اتارنے اور تکمیل نفوس سے تمہارا دین تمہارے لئے کامل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی اور تمہارے لئے دین اسلام پسندکر لیا۔حاصل مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید جس قدر نازل ہونا تھا نازل ہو چکا اور مستعد دلوں میں نہایت عجیب اور حیرت انگیز تبدیلیاں پیدا کرچکا اور تربیت کو کمال تک پہنچا دیا اور اپنی نعمت کو ان پر پورا کر دیا اور یہی دو رکن ضروری ہیںجو ایک نبی کے آنے کی علّت غائی ہوتے ہیں۔ اب دیکھو یہ آیت کس زور شور سے بتلا رہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرگز اس دنیا سے کوچ نہ کیا جب تک کہ دین اسلام کوتنزیل قرآن اور تکمیل نفوس سے کامل نہ کیا گیا۔اور یہی ایک خاص علامت منجانب اللہ ہونے کی ہے جو کاذب کو ہرگز نہیں دی جاتی بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کسی صادق نبی نے بھی اس اعلیٰ شان کے کمال کا نمونہ نہیں دکھلایا کہ ایک طرف کتاب اللہ بھی آرام اور امن کے ساتھ پوری ہو جائے۔ اور دوسری طرف تکمیل نفوس بھی ہو اور بایں ہمہ کفر کو ہریک پہلو سے شکست اور اسلام کو ہریک پہلو سے فتح ہو۔

اور پھر دوسری جگہ فرمایا کہ اِذَا جَآءَ نَصۡرُ اللّٰہِ وَ الۡفَتۡحُ ﴿﴾ وَ رَاَیۡتَ النَّاسَ یَدۡخُلُوۡنَ فِیۡ دِیۡنِ اللّٰہِ اَفۡوَاجًا فَسَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّکَ وَ اسۡتَغۡفِرۡہُ ؕؔ اِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًا (النصر: 2 تا 4) یعنی جبکہ آنے والی مدد اور فتح آگئی جس کا وعدہ دیا گیا تھا اور تو نے دیکھ لیا کہ لوگ فوج در فوج دین اسلام میں داخل ہوتے جاتے ہیں۔ پس خدا کی حمد اور تسبیح کر یعنی یہ کہہ کہ یہ جو ہوا وہ مجھ سے نہیں بلکہ اس کے فضل اور کرم اور تائید سے ہے اور الوداعی استغفار کر کیونکہ وہ رحمت کے ساتھ بہت ہی رجوع کرنے والا ہے۔ استغفار کی تعلیم جو نبیوں کو دی جاتی ہے اس کو عام لوگوں کے گناہ میں داخل کرنا عین حماقت ہے۔ بلکہ دوسرے لفظوں میں یہ لفظ اپنی نیستی اور تذلّل اور کمزوری کا اقرار اور مدد طلب کرنے کا متواضعانہ طریق ہے۔‘‘

(نورالقرآن نمبر1،روحانی خزائن جلد9صفحہ 342تا355)

پچھلا پڑھیں

جامعہ احمدیہ جرمنی میں مقابلہ نظم و مقابلہ اذان

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 فروری 2020