• 25 اپریل, 2024

نماز میں سُرور کے لئے باقاعدگی اختیار کریں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’حضرت مسیح موعودؑ نے نماز کی ادائیگی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہ کس طرح یہ سُرور حاصل ہو سکتا ہے۔ آپ نے مثال دی فرمایا کہ ’’میں دیکھتا ہوں کہ ایک شرابی اور نشہ باز انسان کو جب سُرور نہیں آتا تو وہ پَے در پَے پیتا جاتا ہے۔‘‘ (نشہ حاصل کرنے کے لئے شراب پیتا چلا جاتا ہے) ’’یہاں تک کہ اس کو ایک قسم کا نشہ آجاتا ہے۔‘‘ فرمایا کہ’’ دانشمند اور زِیرک انسان اِس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔‘‘ (یعنی اس مثال سے اگر کوئی عقلمند انسان ہے تو وہ فائدہ اٹھا سکتا ہے) ’’اور وہ یہ‘‘ (کس طرح فائدہ اٹھانا ہے اپنی روحانیت کو تیز کرنے کے لئے نمازوں کی طرف توجہ دینے کے لئے) ’’کہ نماز پر دوام کرے۔‘‘ (نماز میں باقاعدگی اختیار کرے اور کبھی نہ چھوڑے۔) فرمایا ’’اور پڑھتا جاوے یہاں تک کہ اس کو سُرور آ جائے۔ اور جیسے شرابی کے ذہن میں ایک لذت ہوتی ہے جس کا حاصل کرنا اُس کا مقصود بالذات ہوتا ہے۔‘‘ شرابی جب شراب پیتا ہے تو اس نے ذہن میں اپنا کوئی ایک معیار مقرر کیا ہوتا ہے کہ میں نے یہ لذت حاصل کرنی ہے۔ فرمایا کہ جو معیار وہ اپنے نشے کے لئے حاصل کرتا ہے تو ایک روحانی شخص کو، ایک مومن کو بھی اپنا کوئی مقصود بنانا چاہئے جس کو اس نے نماز کے لئے حاصل کرنا ہے اور اسی طرح بار بار مستقل مزاجی سے کوشش ہو گی تو تبھی سرور حاصل ہو سکتا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’اسی طرح سے ذہن میں اور ساری طاقتوں کا رجحان نماز میں اسی سُرور کو حاصل کرنا ہو۔‘‘ ایک نمازی جب نماز پڑھے تو ذہن میں یہ بات رکھے اور اپنی جو بھی توجہ ہے اور جتنی طاقتیں ہیں ان کو نماز پڑھتے ہوئے استعمال کرے کہ میں نے یہ سرور حاصل کرنا ہے اور اس کے لئے قوت ارادی کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اگر قوت ارادی ہوگی تو پھر ہی مستقل مزاجی بھی رہ سکے گی۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’اور پھر ایک خلوص اور جوش کے ساتھ کم از کم اس نشہ باز کے اضطراب اور قلق اور کرب کی مانند ہی ایک دعا پیدا ہو کر وہ لذت حاصل ہو تو میں کہتا ہوں اور سچ کہتا ہوں … کہ یقیناًیقیناًوہ لذت حاصل ہو جائے گی’’۔ پھر ایک درد اور فکر ہو گی۔ ایک کرب ہو گا۔ ایک بے چینی ہو گی کہ کاش مجھے نماز میں سرور حاصل ہو۔ نماز پڑھتے ہوئے اس بے چینی کا بار بار اللہ تعالیٰ کے آگے اظہار ہو تو آپؑ فرماتے ہیں کہ یقیناً پھر وہ سرور حاصل ہو جائے گا، لذت حاصل ہو جائے گی۔

پس مستقل مزاجی کے ساتھ نماز میں اس کا مزہ لینے کی کوشش آخر ایک وقت میں دل کو پگھلا کر وہ مزہ دے دیتی ہے۔ آپؑ نے اس بات کی بھی تاکید فرمائی اور وضاحت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نماز فواحش اور برائیوں سے بچاتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں، لوگ سوال بھی کرتے ہیں کہ باوجود نماز پڑھنے کے لوگ بدیاںکرتے ہیں، برائیاں کرتے ہیں۔ تو آپ فرماتے ہیں کہ اس کا جواب یہ ہے کہ روح اور سچائی کے ساتھ نمازیں نہیں پڑھتے بلکہ صرف رسم اور عادت کے طور پر ٹکریں مارتے ہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ مورخہ 20جنوری 2017ء)

پچھلا پڑھیں

جامعہ احمدیہ جرمنی میں مقابلہ نظم و مقابلہ اذان

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 فروری 2020