• 16 اپریل, 2024

مہمان نوازی، خدمت کا جذبہ اور جوش اس وقت پیدا ہو گا جب تم دلوں میں محبت پیدا کرو گے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
قرآن کریم نے ہمیں یہ سنہری اصول بتا دیا کہ یہ مہمان نوازی، خدمت کا جذبہ اور جوش اس وقت پیدا ہو گا جب تم دلوں میں محبت پیدا کرو گے۔ اور جب یہ محبت تمہارے دلوں میں پیدا ہو جائے گی تو پھر تم اپنے آرام پر، اپنی ضروریات پر، اپنی خواہشات پر، ان دور سے آنے والوں کی ضروریات کو مقدم کرو گے اور ان کو فوقیت دو گے۔ اور اگر اس جذبے کے تحت خدمت کرو گے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم فلاح پا گئے، تم کامیاب ہو گئے۔ اور خاص طور پر ان مہمانوں کے لئے اپنے ان اعلیٰ جذبات کا اظہار کرو گے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمان ہیں تو پھر تم یقینا اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مستحق ٹھہرو گے۔ مہمان نوازی تو نبیوں اور نبیوں کے ماننے والوں کا ایک خاص شیوہ ہے۔ دیکھیں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی مہمان نوازی کو دیکھتے ہوئے فوراً اس وقت آنے والوں سے یہ نہیں پوچھا کہ تم کھانا کھاؤ گے کہ نہیں، ایک بچھڑا ذبح کر دیا اور حضرت خدیجہ ؓ نے بھی پہلی وحی کے بعد جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گھبراہٹ ہوئی تواور بہت سی باتوں کے علاوہ یہ بھی حضرت خدیجہ ؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عرض کیا کہ فکر نہ کریں خداتعالیٰ آپ ؐ کو ہرگز ضائع نہیں کرے گا کیونکہ آپؐ میں مہمان نوازی کا وصف بھی انتہا کو پہنچا ہوا ہے۔ پس ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا دعویٰ کرتے ہیں آپؐ کے اس اعلیٰ خلق کو اختیار کریں اور آپؐ کے عاشق صادق کے مہمانوں کی خدمت میں جلسے کے ان دنوں میں خاص طور پر کمر بستہ ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ کے پیار کے وارث بنیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ایمان کی یہ نشانی بتائی ہے کہ سچا مومن وہی ہے جو اپنے مہمان کی مہمان نوازی کا حق ادا کرتا ہے۔ ایک روایت میں ہے، حضرت ابوہریرہؓ سے یہ روایت ہے کہ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے چاہئے کہ وہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے۔ اور جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے وہ اپنے مہمان کا احترام کرے۔

(صحیح مسلم کتاب الایمان باب الحث علی اکرام الجار)

تو اعلیٰ اخلاق بھی ایمان کی نشانی ہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ اخلاق کی قسم کھائی ہے۔ ہم جو آپؐ کی امت میں شمار ہوتے ہیں ہم نے بھی انہیں قدموں کی پیروی کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ کیونکہ ہمیں اللہ تعالیٰ کا بڑا واضح حکم ہے کہ تم اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم، جو میرا پیارا رسول ہے، اس کے اُسوۂ حسنہ پر چلو۔ اور آپؐ نے ہمیں فرمایا کہ اگر میری پیروی کرنے والے شمار ہونا ہے تو ہمیشہ تمہارے منہ سے عزیزوں، رشتہ داروں، قریبیوں، تعلق داروں اور ہر ایک کے بارے میں خیر کے کلمات نکلنے چاہئیں۔ پھر پڑوسی کے ساتھ بھی عزت اور احترام کا سلوک ہے۔ صحابہ ؓ کہتے ہیں کہ بعض دفعہ ہمیں شک پڑتا تھا کہ جس طرح پڑوسی کے حقوق کے متعلق اللہ تعالیٰ کے احکامات ہیں اور ہمیں بتایا جاتا ہے کہ کہیں وہ ہمارے وارث ہی نہ ٹھہر جائیں، وراثت میں بھی ان کا حصہ نہ ہو۔ پھر اس میں مہمان کا احترام کرنا بھی بتایا ہے اور پھر جو مہمان ہیں وہ تو تمہارے قریب آ کر جب ساتھ رہنے لگ گئے تو ہمسائے بھی بن گئے اس لئے مہمان کا تو دوہرا حق ہو گیا کہ ایک مہمان اور دوسرے جب تک یہاں ہیں تمہارے ہمسائے بھی ہیں۔ اور ان کے بارے میں تمہارے منہ سے کوئی بھی ایسی بات نہیں نکلنی چاہئے جو ان لوگوں کی دل آزاری کا باعث بنے، کسی تکلیف کا باعث بنے۔

ایک روایت میں آتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جو وفود آتے تھے آپؐ ان کی مہمان نوازی کا فرض صحابہ ؓ کے سپرد کر دیتے۔ ایک مرتبہ قبیلہ عبدالقیس کے مسلمانوں کا وفد حاضر ہوا تو آپؐ نے انصار کو ان کی مہمان نوازی کا ارشاد فرمایا۔ چنانچہ انصار ان لوگوں کو لے گئے۔ صبح کے وقت وہ لوگ حاضر ہوئے تو آپؐ نے دریافت فرمایا کہ تمہارے میز بانوں نے تمہاری مدارات کیسی کی۔ انہوں نے کہایا رسول اللہ! بڑے اچھے لوگ ہیں ہمارے لئے نرم بستر بچھائے، عمدہ کھانے کھلائے اور پھر رات بھر کتاب و سنت کی تعلیم دیتے رہے۔

(مسند احمد بن حنبل جلد 3صفحہ 431)

الحمدللہ کہ ہمارے ہاں جماعت میں بھی یہ نظارے دیکھنے میں آتے ہیں اور یہ محض اور محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے کی وجہ سے یہ اعلیٰ معیار قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ ربوہ میں بھی ہم نے یہی دیکھا بلکہ خود بھی اسی طرح کرتے رہے کہ مہمان جن سے کوئی خونی رشتہ بھی نہیں ہوتا بلکہ اکثر دفعہ سال کے سال ملاقات ہوتی ہے اور بعض دفعہ کئی سال کے بعد کیونکہ جماعتی نظام کے تحت جس کو جس گھر میں ٹھہرایا جائے اس نے وہیں ٹھہرنا ہوتا ہے اور اس لئے ضروری نہیں ہوتا کہ ہر مرتبہ ہر مہمان وہیں ٹھہرے، بعض دفعہ مہمان بدل بھی جاتے ہیں تو صرف اس لئے ان جلسے پہ آنے والے مہمانوں کو مہمان بنا کر گھروں میں رکھا جاتا ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمان ہیں اور اسی لئے اپنے آرام کو ان کی خاطر قربان کیا جاتا ہے۔ مجھے امید ہے یہاں بھی آپ لوگ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کے لئے اسی طرح حوصلہ دکھاتے رہے ہیں اور انشاء اللہ دکھاتے رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ توفیق دے کہ پہلے سے بھی بڑھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کی خدمت کریں۔ اس دفعہ جب میں کینیڈا گیا ہوں تو بعض احمدی گھروں میں یہ دیکھ کر ربوہ کے جلسوں کی یاد تازہ ہو جاتی تھی کہ گھر والے نیچے ایک کمرے میں یا بیس منٹ (Basement) میں محدود ہو گئے ہیں اور گھر کے کمرے مہمانوں کو دے دئیے، ان مہمانوں کو جن کو جانتے بھی نہیں، کوئی خون کا رشتہ بھی نہیں لیکن ایک مضبوط رشتہ ہے، احمدیت کا رشتہ، اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہی اس رشتے کو قائم کیا ہوا ہے اور اس مضبوط رسی کو پکڑا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ دنیا کے ہر ملک میں ہمیں یہ نظارے دکھائے۔

(خطبہ جمعہ 23؍ جولائی 2004ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 مارچ 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 مارچ 2021