• 24 اپریل, 2024

تعارف سورۃ ق (50 ویں سورۃ)

(تعارف سورۃ ق (50ویں سورۃ))
(مکی سورۃ، تسمیہ سمیت اس سورۃ کی 46آیات ہیں)
(ترجمہ از انگریزی ترجمہ قرآن(حضرت ملک غلام فرید صاحب) ایڈیشن 2003)

وقت نزول اور سیاق و سباق

جمہورمستند علماء نے اس سورت کا نزول ابتدائی مکی دور بتایا ہے۔ اس سورۃ کی وضع اور مضامین اس خیال کی تائید کرتے ہیں۔ گزشتہ دو سورتوں میں اسلام کے شاندار اور روشن مستقبل کا ذکر ہوا ہے اور معاشرتی اور سیاسی مسائل کا جبکہ طاقت اور دولت ایک قوم کے ہاتھ آتے ہیں۔ موجودہ سورت کا آغاز حروف مقطعات میں سے ق سے کیا گیا ہے جس میں اس حقیقت کا بیان ہے کہ خدائے قادر یہ طاقت رکھتا ہے کہ وہ کمزور اور غیر منظم عربوں کو ایک طاقتور قوم بنا دے اور یہ کہ وہ یقینی طور پر ایسا ہی کرے گا اور قرآن کریم کے ذریعہ اس مقصد کی تکمیل کرے گا۔

مضامین کا خلاصہ

یہ سورت ان سات سورتوں والے گروپ کی پہلی سورت ہے جو سورۃ الواقعہ پر ختم ہوتی ہیں۔ جملہ مکی سورتوں کی طرح اس میں خاص طور پر اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ قرآن کریم وحی الہٰی ہے اور (سر زمین عرب کی) احیاء نو ایک یقینی سچائی ہے اور یہ کہ اسلام حتمی طور پر لازماً کامیاب ہوگا۔ یہ سورۃ قانون فطرت کی طرف اشارہ کرتی ہے اور سابقہ انبیاء کی تاریخ بیان کرتی ہے جو اس حتمی نتیجہ (فتح اسلام) پر منتج ہوگا۔ یہ نہایت اہم موضوع احیاء نو سے شروع ہوتی ہے تاکہ اس نہایت اہم سچائی کو ثابت کیا جا سکے اور اس تجدید کے مضمون کو اس دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے کہ ایسی قوم جو صدیوں روحانی طور پر مردہ رہی اب وقت آگیا ہے کہ وہ قرآن کریم جو کلام الٰہی ہے، کے ذریعے سے ایک نئی زندگی حاصل کرے۔

اس سورت میں مزید بتایا گیا ہے کہ کفار اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے قاصر ہیں کہ ایک نذیر ان میں رونما ہو، جو انہیں یہ بتائے کہ وہ مرنے کے بعد جبکہ وہ مٹی ہو جائیں گے پھر دوبارہ زندہ کئےجائیں گے۔ انہیں بتایا گیا ہے کہ نظام کائنات پر غور کریں اور ستاروں اور سیاروں کی خوبصورتی پر کہ کس طرح سے وہ مزین ہیں اور یہ کہ کس باقاعدگی اور ترتیب سے یہ سب نظام بغیر کسی سقم کے چل رہا ہے۔ اور زمین کی وسعت پر بھی غور کریں جواپنے مکینوں کے لئے اضافی پھل اور خوراک مہیا کرتی ہے۔ اسی گہری غور وفکر کے بعد ہی وہ اس حقیقت کو جان سکتے ہیں کہ اس قدر پیچیدہ نظام کائنات کا خالق اور مالک ایسی طاقت اور حکمت رکھتا ہے کہ وہ انسان کی جسمانی موت کے بعد دوبارہ زندگی بخش سکتا ہے۔

پھر یہ سورت انسان کی وجہ تخلیق بیان کرتی ہے جو خدا کی بہترین تخلیق اور مخلوق ہے اور پھر انسان کا اپنے اعمال کے لئےجوابدہ ہونا اور اس کی ذمہ داریوں پر روشنی ڈالتی ہے۔ اس سورت کا اختتام اس بیان پر ہوا ہے کہ کائنات اور انسان کی تخلیق جو اپنے نقطہ عروج پر ہے وہ خودظاہر کرتی ہے کہ ایک حکیم خالق نے ایسی پیچیدہ کائنات کو بے مقصد پیدا نہیں کیا اور ضرور اس کے پیچھے ایک بڑا مقصد ہے۔ اس بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مرنے کے بعد ضرور زندگی ملے گی (اور انسان کو اپنے اعمال کےلئے جوابدہ ہونا پڑے گا)۔

(ابو سلطان)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 مارچ 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 مارچ 2021