• 20 اپریل, 2024

ریاض احمد زاہد مرحوم

میرے ایک عزیز مکرم ریاض احمد زاہد صاحب آف چک سکندر ضلع گجرات نےزندگی کی باسٹھ بہاریں دیکھیں۔منزل آگئی اور پھر دار آخرت میں جا بسے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ

موت وحیات کا سفر روز ازل سےرواں دواں ہے۔ ہماری زندگی کی گاڑی تیز رفتاری سے چلتی جارہی ہے۔ہر کوئی اپنی اپنی منزل پر اتر جاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ کئی نئے مسافر اس میں سوار ہوتے جاتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے۔ایک بزرگ جو اپنی کھیتی کو باڑ لگا رہا تھا۔اسے ایک راہگیرنے پوچھا۔ بزرگو! یہ باڑی(کھیتی) آپ کی ہے؟ اس بابےنے کہا۔ یہ باڑی میری نہیں ہے۔ اب باری میری ہے۔یعنی یہ پہلے میرے دادے کی تھی۔وہ مرگیا۔زمین ادھر ہی رہ گئی۔اس کے بعد میرا باپ کہتا رہا۔ یہ کھیتی میری ہے میری ہے۔پھر وہ بھی اللہ کو پیارا ہوگیا۔زمین ادھر ہی رہی۔ اس لئے اب میری باری ہے۔

موصوف میرے پھوپھو زاد بھائی تھے۔ان کے والد محترم کا اسم گرامی صوفی عنایت اللہ صاحب تھے جو پاکستان نیوی میں ملازم تھے۔آپ کے دادا جان اپنے دور کے قدرےپڑھے لکھے لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ ان کو بھی پاکستان آرمی میں خدمات سرانجام دینے کی توفیق ملی۔ بعد از ریٹائرمنٹ بھی اپنے علاقہ میں سرکاری محکمہ جات میں خدمت کی توفیق ملی جس کی وجہ سے باؤ عبد اللہ کے نام سے معروف تھے۔

ننہال کی طرف سے مرحوم حضرت منشی عبدالکریمؓ ( آف فتح پور ضلع گجرات) صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نواسے تھے۔

حضرت منشی صاحب کو اللہ تعالی نے چار بچوں سے نوازا۔دو بیٹے، جن میں میرے والد محترم مکرم بشارت احمد صاحب اور دوسرے مکرم منظوراحمد شاد صاحب۔بیٹیوں میں سے ایک محترمہ سلام بی بی اہلیہ چوہدری حسن محمد وڑائچ آف چکریاں ضلع گجرات اور دوسری صاحبزادی سکینہ بی بی صاحبہ (والدہ ریاض احمد زاہد صاحب)اہلیہ صوفی عنایت اللہ صاحب آف چک سکندر تھیں۔

چک سکندر کا تعارف

یہ ایک گاؤں ہے جو کھاریاں سے چند میل کی مسافت پر واقع ہے۔یہاں پر اللہ کے فضل سے ایک بڑی اور معروف جماعت ہے۔اس گاؤں میں شجراحمدیت کی تخم ریزی مکرم حافظ احمد دین صاحب، صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھوں ہوئی۔

کھاریاں ضلع گجرات کی ایک تحصیل ہے۔کھاریاں اور اس کے مضافات میں کافی جماعتیں ہیں۔ کھاریاں اور جہلم کے علاقہ میں زیادہ تر جماعتیں اس وقت وجود میں آئیں، جب کرم دیں بھیں والے کی جانب سے آپ علیہ السلام کے خلاف ایک مقدمہ دائر کیا گیا تھا۔اس سلسلہ میں آپ جہلم تشریف لائے تھے۔جہاں پر آپ علیہ السلام کےدور حیات میں سب سے زیادہ بیعتیں ہوئی تھیں۔

چک سکندر جمات سے خدمت دین کی
توفیق پانے والے چند نمایاں خوش نصیب

چک سکندر کی جماعت کو اللہ کے فضل سے بہت سے میدانوں میں خدمت کی توفیق ملی ہے۔

  • مکرم مولانا عبدالخالق مربی سلسلہ
  • مکرم محمود احمد ثاقب مربی سلسلہ
  • مکرم عطاء العلیم مربی سلسلہ
  • مکرم رفیع احمد مربی سلسلہ

کافی دوستوں کو بطور معلم بھی خدمت کی توفیق ملی ہے۔

چک سکندر ایک عالمی منظر نامہ پر

ہر چیز کی شہرت کے پس پردہ کسی اچھے یا برے پہلو کا ہاتھ پوشیدہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس کی شہرت اکناف عالم میں پھیل جاتی ہے۔

چک سکندر بھی ایک عام سا، غیر معروف دیہہ تھا۔لیکن اس میں چند ظالم اور سفاک درندوں نے مذہب کے نام پر ایک ایسی ظلم وستم کی خون آلود داستان رقم کی جس نے اس دیہہ کو شہرہ آفاق بنادیا۔

یہ ایک پُرامن دیہہ تھا۔جس میں صدیوں سے لوگ باہم شیروشکر زندگی بسر کررہے تھے۔یہاں تک کہ ایک صدی سے احمدی اور غیراحمدی احباب ایک ہی مسجد میں نماز ادا کیا کرتے تھے۔میں نے خود بھی کئی بار وہاں نماز ادا کی ہے۔پہلے احمدی نماز ادا کرلیتے تھے، بعد ازاں دوسرے فرقہ کےلوگ اپنی نمازیں ادا کرلیا کرتے تھے۔

فتنہ وفساد کا آغاز

ملک بھر میں ملاں اور ان کے چیلوں نے طوفان بدتمیزی برپا کرنا شروع کردیا۔جس کی تند وتیز زہریلی ہوائیں یہاں بھی پہنچنا شروع ہو گئیں۔پھر دیکھتے ہی دیکھتے اپنے، غیر اوربیگانے بننا شروع ہوگئے۔

پھر آہستہ آہستہ نفرت و عداوت کی چنگاری نے خوفناک شعلہ کی صورت اختیار کرلی۔جس نے پیار، محبت، اخوت اور انسانیت کے سب مقدس رشتوں کو پامال کردیا۔

  • پھر ایک روز اس شیطان صفت گروہ نے باقاعدہ شیطانی منصوبہ تیار کیا اور یہ عہد کیا کہ اب ہم اپنے گاؤں میں کسی احمدی کو زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ فرعونی طریق کے مطابق ہم اپنے شہر کو ان کے وجود سے پاک کردیں گے۔حسب پروگرام انہوں نے احمدی گھرانوں کو نذر آتش کرنا شروع کردیا۔اسلام کےٹھیکیداروں نے احمدی گھرانوں سے قیمتی سامان مال غنیمت جان کر لوٹ لیا اور پھراس کو شیر مادر کی طرح حلال جان کر اپنے گھروں کی زینت بنا لیا۔
  • ستر سے زائد مکانات جلا کر خاکستر کردئے گئے۔
  • بے شمار جانوروں کو بھی نذر آتش کردیا گیا۔
  • سب احمدیوں کو اپنے ہی گاؤں سے در بدر کردیا گیا۔
  • مظلوم احمدیوں کی داد رسی کرنے کی بجائے انہیں پس زنداں کردیا گیا۔
  • احمدیوں پر قاتلانہ حملے کئے گئے۔
  • مظلوم احمدیوں پر آتشین حملہ کیا گیا۔اس خون کی ہولی میں تین احمدی جان کی بازی ہار گئے، جبکہ چند مرداور خواتین زخمی بھی ہوئے۔ سب کچھ ارباب اختیار کی ناک تلے ہوا۔بلکہ ان کے ایماء پر ہی ہوا۔صوبہ بھر کی انتظامیہ اس ظالمانہ کھیل پر اپنی سیاست چمکانے کی تگ ودو میں مصروف کاررہی۔

جان ومال وآبرو حاضر ہیں تیری راہ میں

چک سکندر کی زمین نے اللہ کی راہ میں بہنے والا، ان معصوم احمدیوں کا خون چکھا۔رنگ لائے گا شہیدوں کا خون۔اللہ تعالیٰ ان شہداء کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔آمین

جام شہادت نوش کرنے والے خوش نصیب

  • مکرم رفیق احمد ثاقب صاحب
  • مکرم نذیر احمد ساقی صاحب
  • عزیزہ نبیلہ مشتاق صاحبہ( بعمر آٹھ سال)

اس دلخراش واقعہ کی چشم دید گواہ عزیزہ سائرہ نزہت بتاتی ہیں:
جن دنوں یہ دلخراش واقعہ پیش آیا۔ان دنوں میں اور میرا بھائی طاہر احمد والدہ صاحبہ کے ہمراہ کراچی سے اپنےعزیزان کو ملنے چک سکندر آئے ہوئے تھے۔ہم دونوں بہن بھائی ابھی بہت کمسن تھے۔ اس روزہم سب لوگ ایک بڑے کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک گولی دیوار چیرتی ہوئی ہمارے سر کےاوپر سے گزر گئی۔برادرم ریاض احمد صاحب نے فوراً ہمارے سروں پر اپنےہاتھوں سے سایہ کردیا۔ ہمیں نیچے بیٹھنے کو کہا۔جلدہمیں ایک جانب چھوٹے سے کمرے میں لے گئے۔اس کے بعد ملحقہ سیڑھیوں پر لے گئے جو کہ مسقف تھیں۔ ہم وہاں سیڑھیوں پر کافی دیر تک سہمے بیٹھے رہے۔ گاؤں میں شوروغل تھا اور بندوقیں چلنے کی خوفناک آوازیں آرہی تھیں۔ کچھ دیر بعد ایک ہمسائی غیراحمدی نیک دل خاتون ہمیں اپنے گھر لے گئی اور اس نے ہمیں اپنے گھر میں ایک سٹور میں لے جاکر چھپا دیا۔ ہم کئی گھنٹے تک وہاں دبک کر بیٹھے رہے۔پھر رات کی تاریکی میں اس عورت نے ہمیں وہاں سے نکال کر گاؤں سے بہت دور ایک مقام تک پہنچایا۔جس کے بعد ہم اپنے گاؤں فتح پورپہنچے۔

حضرت خلیفہ المسیح الرابع ؒ نے خطبہ جمعہ فرمودہ 21؍ جولائی 1989ء میں چک سکندر کے اس واقعہ کا تفصیل سےذکر کرتے ہوئے فرمایا:
احمدی شہداء کا خون ضائع ہونے والا نہیں ہے۔ اس کے ایک ایک قطرے کا ظالموں سے حساب لیا جائے گا اور اس کا ایک ایک قطرہ جماعت احمدیہ کے لئے نئی بہاریں لے کر آئے گا اور نئے چمن کھلائے گا اور نئی بستیوں کی آبیاری کرے گااور تما م دنیا میں جماعت احمدیہ کی نشوونما کے لئے یہ قطرہ باران رحمت کے قطروں سے بڑھ کر ثابت ہوگا۔؎

خون شہیدان امت کا اے کم نظر رائیگاں کب گیا تھا کہ اب جائے گا

ہر شہادت تیرے دیکھتے دیکھتے، پھول پھل لائے گی، پھول پھل جائے گی

دینی خدمات
مکرم محمد ادریس بینک مینیجر کا بیان

میرے قیام کھاریاں کے ایام میں، ادریس صاحب بنک مینیجر ہوا کرتے تھے۔انہوں نے بتایا کہ مجھے اللہ کے فضل سے جماعت میں بطور نائب قائد ضلع گجرات اور کئی دیگر حیثیتوں میں جماعتی خدمت کی توفیق ملی ہے۔مکرم ریاض صاحب ہماری ضلعی عاملہ میں ہوتے تھے۔مجھے ان کو بہت قریب سے مشاہدہ کرنے کا موقع ملا ہے۔ان کو میں نے ایک بہت ہی مخلص اور فدائی احمدی پایا ہے۔ہر لمحہ جماعتی خدمت کے لئے تیار رہتے تھے۔

اگر چہ وہ واقف زندگی تو نہ تھے۔لیکن میں بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ اپنی عملی زندگی میں کسی بھی واقف زندگی سے کم نہ تھے۔

اللہ تعالیٰ نے انہیں غیر معمولی انتظامی صلاحیتوں سے نواز رکھا تھا۔وہ بسا اوقات اکیلے ہی اجتماعات کے جملہ انتظامات بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ سرانجام دے دیا کرتے تھے۔سابق امیر ضلع گجرات کے خصوصی معاون تھے۔بلکہ ان کے دست راست تھے۔

قائد خدام الاحمدیہ

مکرم ریاض احمد صاحب کو ایک لمبا عرصہ تک بطور قائد مجلس خدام الاحمدیہ، خدمت کی توفیق ملی۔میرے خیال میں تحصیل کھاریاں کی سب سے زیادہ فعال اور مستعد جماعت انہی کی مجلس ہوا کرتی تھی۔ضلع بھر میں علمی اور جسمانی مقابلہ جات میں ان کا کردار نمایاں ہوتا تھا۔

سائیکل سفر

خدام الا حمدیہ کے سالانہ اجتماع پر ان کے خدام سائیکلوں پر ربوہ جایا کرتے تھے۔

کبڈی اور فٹبال

ان کی کبڈی کی ٹیم بہت اچھی تھی۔ہمیشہ ہی ان کی ٹیم ضلع بھر کے مقابلہ جات میں نمایاں کامیابی حاصل کرتی۔

بیت بازی

یہ اس دور کی بات ہے جب جماعت میں بیت بازی کے مقابلہ جات بہت ہوا کرتے تھے۔جس کے لئے لوگ اشعارحفظ کیا کرتے تھے۔چک سکندر کے خدام کی ایک بات میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ان خدام کو درثمین، کلام محمود اور دیگر جماعتی شعراء کا کلام زبانی یاد تھا۔ شاید ہی کوئی اور جماعت ایسی ہو جنہیں اس قدر اشعار حفظ ہوں۔بیت بازی کے مقابلہ جات میں ہمیشہ ہی کامیابی کا سہرا انہی کے سر سجتا تھا۔

ماسٹر مظفر احمد صاحب سابق صدر جماعت چک سکندر

مکرم ماسٹر صاحب بتاتے ہیں۔اگر چہ برادرم ریاض احمد صاحب نےچار، پانچ دفعہ ہماری مجلس کی بطور قائد خدمت کی توفیق پائی۔مگر جس محنت اور جانفشانی سے انہوں نے یہ خدمت سرانجام دی۔وہ ناقابل فراموش ہے۔اگرچہ وہ ہم سے عمر میں چھوٹے تھے۔ہم نے انہیں کبھی بھی ان کے نام سے نہیں پکارا بلکہ ہم سب احباب جماعت ہمیشہ انہیں قائد صاحب کےنام سے ہی پکارا کرتے تھے۔

مقامی قیادت کے علاوہ انہیں پھر ریجنل عاملہ میں بھی خدمت کی توفیق ملی۔یہ ریجن چند قریبی اضلاع پر مشتمل تھا۔جن میں گجرات، گجرانوالہ اور سیالکوٹ وغیرہ شامل تھے۔

تصرف الٰہی

مکرم ماسٹر صاحب نے بتایا کہ ریاض احمد صاحب کا نام مقدمہ میں نہیں تھا۔حالانکہ چک سکندر جماعت میں ان کا کردار بہت نمایاں تھا۔دراصل پولیس نے ان کی بجائے غلطی سے ان کے بھائی کو گرفتار کر لیا تھا جس کا ہمیں بہت فائدہ ہو گیا۔کیونکہ یہ واحد شخص تھے۔جو جیل سے باہررہ کر بہت سارے کام سرانجام دے رہے تھے۔جن میں پولیس سے رابطہ، مرکز ی احکامات اور ہدایات کو احباب جماعت تک پہنچانا، ربوہ میں جملہ مہاجرین کے قیام و طعام اور ان کی جملہ ضروریات کا خیال رکھنا۔مہاجرین کی بحالی، مقدمات کی پیروی اور دیگر بہت سارے کام تھے جو ریاض صاحب اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر سرانجام دیتے رہے۔ان کا نام مقدمے میں نہ آنا، میرے نزدیک یہ بھی ایک الٰہی تصرف ہی تھا۔

مہاجرین کی بحالی

حالات سازگار ہونے پر مہاجرین واپس چک سکند ر آگئے۔اس نازک موقعہ پر مکرم چوہدری رشیدالدین صاحب سابق امیر ضلع گجرات اور مکرم ریاض احمد صاحب نے بہت نمایاں کردار سرانجام دیا۔

شعبہ آڈیو ویڈیو میں خدمات

مکرم ریاض احمد صاحب کواس شعبہ میں کافی مہارت تھی۔اس لئے پوری ریجن کے لئے آڈیو وڈیو کیسٹس کی تیاری پھر ان کی ترسیل میں ان کا کردار بہت ہی قابل تعریف ہے۔یہ کا م بہت ہی دلجمعی سے کیا کرتے تھے۔

گاؤں کو پاک نہیں ہونے دیا
بھائی ریاض احمد واحد رابطہ تھے

محترمہ شمیم اختر صاحبہ اہلیہ ماسٹر مظفر احمد صاحب نے بتایا۔

جب سب مظلوم اور بےبس احمدی چک سکندر سے ہجرت کرکے ربوہ چلے گئے۔پورے گاؤں میں صرف چار خواتین باقی رہ گئی تھیں۔جن میں محترمہ شمیم اختر صاحبہ بھی تھیں۔اب ان کا گھر ہی جماعت کا رابطہ اور مرکز تھا۔ان کے میاں جیل میں تھے۔یہ بڑی بہادری سے اپنے بچوں کے ساتھ اس خوفناک ماحول میں رہ رہی تھیں۔ایک روز مرکز سے مولانا سلطان محمود انور صاحب، میاں خورشید احمد صاحب اور چوہدری رشید الدین صاحب امیر ضلع گجرات، بھائی ریاض احمد کے ساتھ میرے گھر تشریف لائے۔ بھائی ریاض صاحب ہی ہمارا مرکز اور بیرون چک سے ہرقسم کے لئے رابطے کا واحد ذریعہ تھے۔ریاض احمد صاحب نے مہمانوں کو بتایا۔یہ ہماری بہن ہے۔جس نے بقول مخالفین جماعت، اس گاؤں کو احمدیوں سےپاک ہونے سے بچایا ہوا ہے۔کہتی ہیں۔ ان مہمانوں کی آمد سے میری دلجوئی، حوصلہ افزائی اور ان کےکلمات نے میرے جذبہ، جوش اور ہمت کو ایک نئی زندگی عطا کردی۔فجزاھم اللّٰہ

جماعت احمدیہ امریکہ میں چند خدمات بارزہ

• زعیم انصاراللہ
• سیکرٹری سمعی و بصری
• سیکرٹری امور عامہ
• مسلمز فار لائف

جماعت احمدیہ امریکہ نے نائن الیون کے سانحہ کے بعد اس حادثہ میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر ان کےاعزاز میں ایک پروگرام کا آغاز کیا۔جس میں بلڈ ڈرائیو کا اہتمام کیا گیا۔یہ پروگرام تین سال تک جاری رہا۔مکرم ریاض احمد صاحب اس پروگرام کے سرخیل تھے۔ آپ نےبے پوائنٹ جماعت کیلیفورنیا میں اس پروگرام کے انچارج کے طور پر اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر بہت جانفشانی سے کام کیا۔ان کی سر کردگی میں ان کی ٹیم ملک بھر میں پہلے نمبر پر آنے کی وجہ سے ایوارڈ کی مستحق قراردی گئی۔

حسن کارکردگی اور اعزازات
امریکن ریڈ کراس ولنٹیرز ایوارڈ

اس نمایاں کارکردگی پر، امریکن ریڈ کراس نے بھی اس کا اعتراف کیا اور ایک تقریب کا اہتمام کیا۔جس میں مکرم ریاض حمد صاحب کو ایوارڈ سے نوازا گیا۔یہ خدمت انہوں نے بطور سیکرٹری امور عامہ سرانجام دی۔

امریکن صدر باراک اوبامہ کی جانب سے
اعزازی سرٹیفکیٹ

اس ملی خدمت کے اعتراف میں آپ کو وولنٹیئر زسروس ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔جس میں ایک سرٹیفکیٹ بھی تھا۔جس پر اس وقت کے امریکن صدر براک اوبامہ کے دستخط تھے۔

سیکرٹری آڈیو ویڈیو

انہیں آڈیو اور وڈیو کے شعبہ میں خاصی مہارت تھی۔اس لئے شعبہ سمعی بصری کے لئے ان کی خدمات ہمیشہ ہی جاری وساری رہیں۔ بجلی، آڈیو وڈیوز وغیرہ سےمتعلقہ جملہ امور انہی کے ہاتھوں میں ہوتے تھے۔ بلکہ انہوں نے کئی دیگر خدام کو بھی اس کی تربیت دی۔

خدام الاحمدیہ و اطفال الاحمدیہ

پاکستان میں انہیں خدام الاحمدیہ و اطفال الاحمدیہ کے تحت ایک لمبا عرصہ خدمت کی توفیق ملی۔جس کی وجہ سے ان کا تجربہ قابل رشک تھا۔خدمت دینیہ کا یہ جذبہ و جوش یہاں بھی خدام الاحمدیہ سے قائم و دائم رہا۔ باوجود انصار اللہ میں ہونے کے پھر بھی خدام کے جملہ اجتماعات میں شریک ہوتے اور خدام واطفال کی تربیت کا کام سرانجام دیتے۔ ان کی فطرت میں ایک خوبصورت پہلو یہ تھا کہ وہ ہر عمر کے بچے اور بڑےکے ساتھ خوب نباہ کرلیتے تھے اور ان کے مزاج کے مطابق ہی ان سے بات چیت کرتے۔بزرگوں کا احترام اور بچوں سے شفقت کا سلوک ان کا نمایاں کردارتھا جس کی وجہ سے وہ ہر کسی کے دل کے قریب تھے۔

سالانہ افطار ڈنر

جماعت احمدیہ امریکہ ہر سال مختلف مقامات پر سالانہ افطار ڈنر کا اہتمام کرتی ہے۔ جس میں احمدیوں کے علاوہ غیراز جماعت معززین کو بھی دعوت دی جاتی ہے۔ہماری جماعت میں یہ پروگرام باقاعدگی کے ساتھ منعقد کیا جاتا ہے۔اس پروگرام کے انعقاد میں مکرم ریاض احمد صاحب کا کردار بہت کلیدی ہوتا تھا۔جو کمال مہارت اور خوش اسلوبی سے اس کو سرانجام دیا کرتے تھے۔

غرباء اور مستحقین کی داد رسی

موصوف کا ایک وصف یہ بھی تھا کہ وہ اپنےماحول میں کسی بھی ضرورت مند کا سنتے، فوری طور پر ان کے پاس جاکر حسب استطاعت خدمت کرتے۔

نومبائع دوست کی دستگیری

ہماری جماعت میں ایک نومبائع، میکسیکن دوست جو کہ خاصے بیمار تھے۔ دیگر متفرق عوارض کے علاوہ ان کے گردے بھی ناکارہ ہوچکے تھے جس کی وجہ سے ان کے ڈیالیسز ہوتے تھے۔مکرم ریاض صاحب باقاعدگی کے ساتھ ان کے لئے کھانے کا اہتمام کرتے۔نیز ان کی مالی ضروریات کا بھی بہت خیال رکھتے تھے۔

انفاق فی سبیل اللہ

مرحوم ریاض صاحب مالی قربانی میں ہمیشہ پیش پیش رہتے۔ہر تحریک پر لبیک کہتے اور فوری ادائیگی کے لئے کوشش کرتے۔نظام وصیت میں شامل تھے۔ان کے جملہ حسابات ہمیشہ ہی صاف وشفاف ہوتے۔

نظم خوانی

اللہ تعالیٰ نے انہیں لحن داؤدی سے نوازرکھا تھا۔امریکہ میں جلسہ سالانہ کے مبارک موقعہ پر بڑی خوش الحانی سے نظمیں پڑھا کرتے تھے۔

التماس دعا

آخر میں، میں عزیزہ فرحت زاہد صاحبہ، اہلیہ مکرم ریاض احمد زاہد صاحب مرحوم کے لئے دعا کی درخواست کرنا چاہتا ہوں۔جنہوں نے کینسر جیسی موذی اوراذیت ناک طویل علالت میں شب وروز مرحوم ریاض احمد صاحب کی دیکھ بھال کی۔اپنے آرام اور سکون کو ان کے لئے قربان کیا۔انہوں نے ہر ممکن کوشش کی، بہرحال اللہ کی رضا غالب آئی۔اللہ تعالیٰ انہیں صبر جمیل عطا فرمائے اور بقیہ سفر حیات میں ان کا حامی وناصر ہو۔آمین

باتیں تو بہت سی لکھی جاسکتی ہیں۔طوالت کے پیش نظر حضرت مولانا سعدی ؒ کے اس خوبصورت اور پُرحکمت شعر پر درخواست دعا کے ساتھ اپنے مضمون کو ختم کرتا ہوں۔یار زندہ صحبت باقی۔

خیری کن ای فلان و غنیمت شمار عمر زآں پیشتر کہ کہ بانگ برآید فلان نماند

ترجمہ: اے شخص اپنی اس عمر کو غنیمت سمجھ کر بھلائی کر، اس سے پہلے کہ آواز آئے کہ آج فلان نہیں رہا۔

(منوراحمد خورشید۔ مربی سلسلہ انگلستان)

پچھلا پڑھیں

مسجدنورمیں خلافت ثانیہ کے انتخاب کی روئیداد

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ