• 19 اپریل, 2024

سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ کی کرونا وائرس کے متعلق ہدایات از: خطبہ جمعہ 20 مارچ 2020ء

حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

اب میں آجکل جو وبا پھیلی ہوئی ہے اس کے بارے میں دنیا داروں کے جو تبصرے ہیں اور تجزیے ہیں وہ پیش کرنا چاہتا ہوں۔

فلپ جونسٹن ڈیلی ٹیلیگراف 18مارچ 2020ء میں یہ لکھتے ہیں کہ نیٹ فلکس اور اس طرح کے دیگر پلیٹ فارمز کی رپورٹ ہے کہ آجکل دکھائی جانے والی 2011ء کی ایک فلم بہت مقبول ہو رہی ہے جس کا نام کونٹیجن Contagion ہے اس کی کہانی میں ایک وارس کے پھیلاؤ طبی محققین اور صحت کے اداروں کی طرف اس بیماری کی شناخت اور اس پر قابو پانے کی شدید کوششوں معاشرتی نظم و ضبط ختم ہونے اور آخر میں اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے ویکسین متعارف کروانے کا ذکر ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ میں سوچتا ہوں کہ شاید ہمارا اس طرح دنیا کی تباہی کے موضوع پر بنی فلموں میں دلچسپی لینا ہمارے لمبا عرصہ رہنے والے استحکام اور ترقی کا نتیجہ ہے جو دنیا دار ترقی کر رہے ہیں اس کا نتیجہ ہے شاید جس کے بارے میں ہم میں سے اکثریت کا خیال ہے کہ یہ ترقی ہمیشہ رہے گی۔ یہ حیران کن ہے کہتا ہے کہ یہ حیران کن ہے کہ صرف دو ہفتوں کے دوران ہماری دنیا بالکل الٹ چکی ہے۔ لکھتا ہے آگے کہ ہمارے سارے منصوبے رک گئے ہیں اور مستقبل کے بارے میں ہماری امیدیں غیر یقینی ہیں۔ پھر آگے کہتا ہے کہ نہ تو سرد جنگ کے دوران ایٹمی جنگ کا خطرہ اور نہ ہی حالیہ پیش آنے والے مختلف معاشی بحرانوں کا ایسا اثر تھا جس طرح آج اس وبا سے ہو رہا ہے۔ یہاں تک کہ گذشتہ پھر لکھتا ہے آگے کہ یہاں تک کہ گذشتہ عالمی جن کے دوران بھی لوگ تھیئٹر اور سینما اور ریسٹورنٹ اور کیفے کلبوں اور پبز میں جاتے تھے۔ کم از کم یہ چیز تھی جو لوگوں کو میسر تھی لیکن ہم آجکل یہ بھی نہیں کر سکتے۔ پھر کہتا ہے کہ ہم میں سے بیشر جو دوسری جنگ عظیم کے بعد کے پلے بڑھے ہیں ہم لوگوں نے ہمیشہ خوشحالی استحکام اور اطمینان کی توقع کی ہے جس کا پہلی نسلوں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا اورنہ ہی وہ لوگ ایسے حالات میں تھے کہ اس بارے میں سوچتے۔ پھر آگے لکھتا ہے کہ امید ہے کہ سائنس اس بیماری کی ویکسین یا علاج لے کر ہمارے بچاؤ کے لئے آ جائے اور شاید ایسا ہو بھی جائے اور پھر کہتا ہے کہ سیئٹل میں امریکہ میں آج انسانی رضاکاروں پر یہ تجربہ کا آغاز ہوا ہے لیکن کہتا ہے کہ بری خبر یہ ہے کہ یہ جاننے میں بھی مہینوں لگیں گے کہ اس ویکسین کا کوئی فائدہ بھی ہو گا یا نہیں۔ پھر آگے وہ لکھتا ہے کہ پوری تاریخ میں لوگوں نے اس طرح کے حالات میں اپنے عقیدے کا سہارا لے کر اپنے آپ کو ان حالات سے گزارا ہے پرانی تاریخ جو ہے اگر ایسے حالات پیدا ہوئے خطرناک تو اپنے عقیدے کا سہارا لیا ہے انہوں نے اور اپنے حالات کو گزارا۔ اللہ کی طرف رجوع کیا تا کہ ان لوگوں اور ان کے پیاروں کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے اس کو کوئی مانیں اور مطلب دیں۔ لا مذہب پھر آگے یہ لکھتا ہے کہ لامذہب ایسے موقعوں پر ہمیشہ اپنے آپ کو تسلی دینے کے لئے ایک سیکولر انسانیت پسندانہ نظریہ اپناتے ہیں یہ بنیادی طور پر ایک روشن خیالی کا تصور ہے جو لامذہب اپناتے ہیں کہ انسانی کوششوں سے ان کا یہ نظریہ ہے کہ انسانی کوششوں سے قدرتی عمل کو ہمیشہ بہتر کیا جا سکتا ہے اور اسے تقدیر یا خدا کے قہر سے جوڑنا ضروری نہیں ہے۔ پھر کہتا ہے کہ ہم نے کتنی بار لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا کیونکہ سائنسدان کچھ حل نکال لیں گے چاہے وہ گلوبل وارمنگ کا مسئلہ ہو یا کوئی وبائی بیماری۔ ہمیں عنقریب یہ پتا چلنے والا ہے کہ آیا اس طرح امید رکھنا صحیح ہے یا نہیں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر کہتا ہے کہ میں پھر میں (دنیا دار ہے نہ خود) پھر میں شاید چرچ کی طرف واپس چلا جاؤں ابھی تو میں مذہب سے دور ہوں خدا سے دور ہوں اور جو بظاہر شواہد نظر آ رہے ہیں یہ ظاہر اس طرح کر رہے ہیں اور اگر یہ نہیں ہوتا جس طرح یہ سائنسدان کہہ رہے ہیں تو پھر ہمیں بھی سوچنا پڑے گا کہ چرچ کی طرف واپس جائیں مذہب کی طرف واپس جائیں۔ پس اس وائرس نے دنیا کو اس بات پر سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ خدا کی طرف رجوع کریں لیکن حقیقی خدا اور زندہ خدا تو صرف اسلام کا خدا ہے جس نے اپنی طرف آنے والوں کو راستہ دکھانے کا اعلان فرمایا ہے۔ ایک قدم بڑھانے والوں کو کئی قدم بڑھ کر ہاتھ پکڑنے کا اعلان فرمایا ہے اپنی پناہ میں لینے کا اعلان فرمایا ہے پس ان حالات میں ہمیں جہاں اپنے آپ کو سنوارنے کی ضرورت ہے اپنی تبلیغ کو مؤثر رنگ میں کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا کو اسلام کے بارے میں پہلے سے بڑھ کر متعارف کرانے کی ضرورت ہے اور پھر ہر احمدی کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ دنیا کو بتائے کہ اگر اپنی بقاء چاہتے ہو تو اپنے پیدا کرنے والے خدا کو پہچانو۔ اگر اپنے بہتر انجام چاہتے ہو تو اپنے پیدا کرنے والے خدا کو پہچانو کہ آخری زندگی کا انجام جو ہے وہی اصل انجام ہے۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور اس کی مخلوق کے حق ادا کرو۔

پس یہ ہمیشہ کوشش کرنی چاہئے اللہ تعالیٰ اس کی توفیق بھی ہر ایک کو عطا فرمائے۔ یہ آفات تو اب دنیادار بھی کہتے ہیں کہ اب بڑھتی چلی جانی ہیں اس لئے اپنے بہتر انجام کے لئے جیسا کہ میں نے کہا بہت ضرورت ہے کہ ہم بھی خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کریں اور دنیا کو بھی بتائیں کہ اصل انجام آخری زندگی کا انجام ہے جس کے لئے تمہیں اللہ تعالیٰ کی طرف بہرحال آنا ہو گا۔ اس کے بارے میں ایک ماہر کی تنبیہ یہ ہے The Times میں چھ مارچ میں یہ مضمون شائع ہوا تھا۔ ایک ماہر نے یہ متنبہ کیا ہے کہ خطرناک وائرس کی جینیاتی تبدیلیوں کے عام ہونے کا بہت امکان ہے اور اس کے ساتھ چند برسوں میں ایک نئے کرونا وائرس کے دنیامیں پھیل جانے کا بھی امکان ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ ہر اگلا شاید تین سال کے بعد کوئی اور نئی بیماری آ جائے۔

پھر بلومبرگ نے بھی ایک مضمون لکھا وہ کہتا ہے کہ سائنسدان کرونا وائرس پر قابو پا سکتے ہیں لیکن وبائی امراض کے خلاف انسانیت کی جنگ نہ ختم ہونے والی جنگ ہے۔ انسانیت اور جرثوموں کے مابین ارتقاء کے دور میں کیڑے دوبارہ آگے آ رہے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق 1970ء کے بعد سے اب تک پندرہ سو سے زیادہ نئے وائرس دریافت ہوئے ہیں اور اکیسویں صدی میں وبائی بیماریاں پہلے سے کئی زیادہ تیزی سے اور دور تک پھیل رہی ہیں۔ پھر کہتا ہے کہ اس سے پہلے جو محدود علاقوں میں رہنے والی وبائیں تھیں اب وہ بہت تیزی سے عالمی سطح پر بھی پھیل سکتی ہیں۔ بہرحال اس کی لمبی تفصیلات ہیں یہ تو ساری بیان نہیں ہو سکتیں لیکن اپنے انجام بخیر کے لئے جیسا کہ میں نے کہا ہمیں خدا تعالیٰ سے پہلے سے بڑھ کر تعلق پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی توفیق دے ہمیں۔ کرونا کی وباء کے بارے میں پہلے ہی میں ہدایت دے چکا ہوں یاددہانی بھی کروا دوں کیونکہ اب یہ تمام دنیا میں بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے اور یہاں بھی اس کا اثر بہت زیادہ ہو رہا ہے۔ اب حکومت بھی اس بات پے مجبور ہو گئی ہے کہ اقدامات اٹھائے اور زیادہ سخت اقدامات اٹھائے ۔ بڑے اقدامات اٹھائے۔ جب بیماریاں آتی ہیں وبائیں آتی ہیں تو ہر ایک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہیں اس لئے ہر ایک کو بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ حکومتی ہدایات پر عمل کریں۔ بڑی عمر کے لوگ بیمار لوگ یا ایسی بیماری میں مبتلا لوگ جن کا قوت مدافعت جسم کی کم ہو جاتی ہے ان کو بہت زیادہ احتیاط کرنے کی ضرورت ہے۔ بڑی عمر کے لوگ گھروں سے کم نکلیں اور یہی حکومت کا اعلان بھی ہے سوائے اس کے کہ بہت اچھی صحت ہو عموماً گھر میں رہنا چاہئے۔ مسجد میں آنے میں بھی احتیاط کریں یہاں۔ جمعہ بھی اپنے علاقے کی مسجد میں پڑھیں اور آج کی یہاں حاضری سے بھی لگ رہا ہے کہ اکثر لوگ جمعہ اپنے اپنے علاقوں میں ہی پڑھ رہے ہیں۔ سوائے اس کے کہ اس بات پر بھی حکومت کی طرف سے پابندی لگ جائے کہ جمعہ کے لئے gathering بھی نہ ہو۔ عورتیں عموماً مسجد میں آنے سے پرہیز کریں بچوں کے ساتھ آتی ہیں ان کو پرہیز کرنا چاہئے پھر عموماً ڈاکٹر بھی آجکل یہی کہہ رہے ہیں کہ اپنے جسم کی قوت مدافعت بڑھانے کے لئے اپنی آرام کو بھی پے بھی توجہ دینی چاہئے۔ اس کے لئے اپنی نیند کو پورا کرنا چاہئے اپنی نیند پوری کریں۔ خود بھی اور بچے بھی ایک بڑے آدمی کے لئے چھ سات گھنٹے کی نیند ہے بچے کے لئے آٹھ نو گھنٹے یا دس گھنٹے کی نیند ہے۔ اس طرف توجہ دینی چاہئے یہ نہیں کہ ساری رات بیٹھ کے ٹی وی دیکھتے رہے اور بارہ بجے تک اس کے بعد صبح اٹھ کے ایک تو نماز پے نہ اٹھ سکے پھر جلدی جلدی اٹھے چند گھنٹوں کے بعد کام پے جانا ہے اس کی مشکلات پھر سارا دن سستی پھر کمزوری پھر کام کی تھکاوٹ اور اسی وجہ سے پھر یہ بیماریاں جو ہیں حملہ بھی کرتی ہیں۔ اسی طرح بچوں کو بھی عادت ڈالیں جلدی سوئیں اور جلدی اٹھیں۔ آٹھ نو گھنٹے کی نیند پوری کر کے۔ پھر بازاری چیزیں کھانے سے بھی پرہیز کریں۔ ان سے بھی بیماریاں پھیلتی ہیں خاص طور پر یہ جو چپس وغیرہ کے پیکٹ ہیں یہ بچوں کو کھانے کے لئے لوگ دے دیتے ہیں یا ایسی چیزیںجو بنی ہوئی جس میں بعض پریزرو بھی ڈالے ہوتے ہیں یہ خطرناک ہیں صحت کے لئے ان سے پرہیز کرنا چاہئے یہ بھی انسانی جسم کو کمزور کرتے جاتے ہیں آہستہ آہستہ۔

پھر یہ بھی ڈاکٹر آجکل کہتے ہیں کہ پانی بار بار آجکل پینا چاہئے ضروری ہے کہ ایک گھنٹے بعد آدھے پونے گھنٹے بعد گھنٹے بعد ایک دو گھونٹ پی لیں یہ بھی بیماری سے بچنے کے لئے ایک ذریعہ ہے۔ ہاتھوں کو صاف رکھنا چاہئے اگر سینیٹائزر نہیں بھی ملتے تو ہاتھ دھوتے رہیں اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا کم از کم پانچ دفعہ وضو کرنے والے جو ہیں ان کو صفائی کا موقع مل جاتا ہے اس طرف توجہ کریں۔ چھینک کے بارے میں پہلے بھی میں کہہ چکا ہوں مسجدوں میں بھی اور عام طور پر بھی اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے بھی رومال آگے رکھ کے ناک پر رکھ کے یا اب ڈاکٹر کہتے ہیں بعض کہ بازو اپنا سامنے رکھ کے اس پے چھینکیں تا کہ ادھر ادھر چھینٹے نہ اڑیں۔ بہرحال صفائی بہت ضروری ہے اور اس کا خیال رکھنا چاہئے لیکن آخری حربہ دعا ہے اور یہ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کے شر سے بچائے۔ ان تمام احمدیوں کے لئے بھی خاص طور پر دعا کریں جو اس بیماری میں مبتلا ہو گئے ہیں کسی وجہ سے یا ڈاکٹروں کو شک ہے کہ ان کو بھی یہ وائرس ہے یا کسی بھی اور بیماری میں مبتلا ہیں سب کے لئے دعا کریں۔

پھر اسی طرح کسی بھی بیماری کی کمزوری کی وجہ سے جیسا کہ میں نے کہا وائرس حملہ آور ہو جاتا ہے ان کے لئے بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ انہیں بھی بچا کے رکھے۔ عمومی طور پر ہر ایک کے لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ دنیا کو اس وبا کے اثرات سے بچا کے رکھے جو بیمار ہیں انہیں شفائے کاملہ عطا فرمائے اور ہر احمدی کو شفاء عطا فرمانے کے ساتھ ساتھ ایمان اور ایقان میں بھی مضبوطی پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 اپریل 2020

اگلا پڑھیں

بدی اور گناہ سے پرہیز