• 19 اپریل, 2024

فاتحہ خوانی اور قُل اور چہلم اور ختم قرآن کی رسوم سے ہماری جماعت کو اجتناب کرنا چاہئے

تبرکات

حضرت مرزا بشیر احمدؓ

کچھ عرصہ سے بلکہ غالباً چند صدیوں سے مسلمانوں میں بعض غیر مسنون رسوم راہ پا گئی ہیں جنہیں عام مسلمان اور خصوصاً اہل سنت و الجماعت سے تعلق رکھنے والے مسلمان اپنے بزرگوں اور عزیزوں اور دوستوں کی موت فوت کے مواقع پر ایسے رنگ میں اور اس پابندی کے ساتھ اختیار کرتے ہیں کہ گویا وہ اسلامی تعلیم اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا حصہ ہیں۔ حالانکہ قرآن مجید اور حدیثِ رسولِ مقبول اور سنتِ خلفائے راشدین بلکہ بعد کے جلیل القدر آئمہ کے مبارک اسوہ میں ان کا نام و نشان تک نہیں ملتا۔ ان رسوم میں خصوصیت کے ساتھ مرنے والوں پر فاتحہ خوانی اور قُل اور چہلم اور حلقہ باندھ کر ختمِ قرآن کی رسوم خاص طور پر بڑے اہتمام کے ساتھ ادا کی جاتی ہیں اور انہیں نہ صرف موجبِ ثواب بلکہ ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ اور مجھے بعض خطوط سے معلوم ہوا ہے کہ شاذ کے طور پر بعض ایسے کمزور اور ناواقف احمدی بھی (خصوصاً مستورات) جنہیں روحانیت اور علمِ دین کے لحاظ سے گویا بادیہ نشین کہنا چاہئے کبھی کبھی ماحول کے اثر کے ماتحت ایسی غیر مسنون رسوم میں مبتلا ہونے کی طرف جھک جاتے ہیں۔ حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی اغراض میں سے ایک اہم غرض حضور کے الہاموں میں یہ بیان کی گئی ہے کہ:

یُحْیِ الدِّیْنَ وَ یُقِیْمُ الشَّرِیْعَۃَ

یعنی حضرت مسیح موعودؑ اسلام کے مٹتے ہوئے نقوش کو دوبارہ زندہ کرے گا اور شریعت کو اپنی اصل صورت میں نئے سرے سے قائم کرے گا۔

پس احمدی بھائیوں اور بہنوں کو اس قسم کی تمام غیرمسنون رسوم سے قطعی پرہیز کرنا چاہئے ورنہ ہم پر نعوذباللہ وہ مثل صادق آئے گی کہ “چوں کفر از کعبہ بر خیزد کجا ماند مسلمانی۔‘‘

گو میں اس قسم کی غیر اسلامی رسوم میں کبھی شامل نہیں ہوا (اور میری دعا ہے کہ خدا تعالیٰ میری نسل بلکہ حضرت مسیح موعودؑ کی ساری نسل کو بھی ایسی غیر مسنون رسوم سے بچا کر رکھے اور ہمیشہ حقیقی اور پاک و صاف اسلام پر قائم رکھے) مگر جو کچھ دوسروں سے ان رسوم کے متعلق سننے میں آیا ہے وہ یہ ہے کہ فاتحہ خوانی کی رسم تو یہ ہے کہ جب کوئی شخص فوت ہو جاتا ہے تو اس کے جنازہ اور تدفین وغیرہ کے بعد اس کے عزیز و اقارب اور دوست و آشنا اور دور و نزدیک کے ملاقاتی مرنے والے کے مقام پر ہمدردی کے خیال سے وقتاًفوقتاً جاتے ہیں اور ہاتھ اٹھا کر ایک آدھ منٹ ہی میںہاتھ نیچے کر کے یہ رسم ختم کر دیتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اس موقع پر سورۃ فاتحہ کی تلاوت کی جاتی ہے جسے فاتحہ خوانی کا نام دیا جاتا ہے۔ یا کسی فوت شدہ عزیز یا بزرگ یا قومی لیڈر یا مذہبی رہنما کی قبر پر جاکر اس قسم کی رسمی فاتحہ خوانی کی جاتی ہے۔ لیکن سارے قرآن کو دیکھ جاؤ اور ساری حدیثوں کو چھان مارو اور عہد نبویؐ اور زمانہ خلافتِ راشدہ کی ساری تاریخ کی ورق گردانی کر کے دیکھ لو اس قسم کی فاتحہ خوانی کا کوئی ثبوت بلکہ شائبہ تک نہیں ملتا۔ بےشک مرنے والوں کے لئے مغفرت اور درجات کی بلندی کی دعا کرنامسنون ہے خواہ یہ دعا گھر پر کی جائے یا قبر پر جاکر کی جائے لیکن سورۃ فاتحہ میں تو اپنے لئے دعا ہوتی ہے نہ کہ مرنے والے کے لئے۔ اور پھر اسے اس قسم کی بےجان رسم کا رنگ دینا تو سراسر بدعت ہے جس کی ہماری شریعت میں کوئی سند نہیں ملتی۔ کوئی شخص خیال کر سکتا ہے کہ جنازہ کی نماز میں بھی تو سورۃ فاتحہ پڑھی جاتی ہے لیکن اول تو وہ ایک باقاعدہ مسنون نماز کا حصہ ہے دوسرے اس میں یہ سبق دینا مقصود ہے کہ خدایا! ہم اس صدمہ میں بھی تیرے شکرگزار رہتے ہوئے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کہتے ہیں اور اپنے نیک انجام کے لئے تجھ سے دعا کرتے ہیں۔ اس لئے جہاں سورۃ فاتحہ کی تلاوت نماز جنازہ میں پہلی تکبیر کے بعدرکھی گئی ہے وہاں مرنے والے کے لئے دعا نماز جنازہ کی تیسری تکبیر کے بعد آتی ہے۔ فاتحہ خوانی کے متعلق حضرت مسیحموعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

’’رسمی فاتحہ خوانی درست نہیں یہ بدعت ہے۔ آنحضرت ﷺ سے ثابت نہیں کہ اس طرح صف بچھا کر بیٹھتے اور فاتحہ خوانی کرتے تھے۔‘‘

(اخبار بدر 16 مارچ 1960ء)

اور دوسری جگہ فرماتے ہیں:

’’سوال یہ ہے کہ کیا نبی کریمؐ،صحابہ کرام یا آئمہ عظام میں سے کسی نے یوں کیا؟ جب نہیں تو پھر کیا ضرورت ہے خوامخواہ بدعات کا دروازہ کھولنے کی؟ ہمارا مذہب تو یہ ہے کہ اس رسم کی کچھ ضرورت نہیں۔ جو لوگ جنازہ میں شامل نہ ہو سکیں وہ اپنے طور پر دعا کریں یا جنازہ غائب پڑھیں۔‘‘

(اخبار بدر 9 مئی 1960ء)

موت فوت کے متعلق دوسری عام رسم قُل کی ہے۔ مگر یہ بھی ایک سراسر بدعت ہے جس کی آنحضرت ﷺ یا خلفاء راشدین یا صحابہ کرامؓ یا ابتدائی اولیاء و صلحاء عظام کے زمانہ میں قطعاً کوئی سند نہیں ملتی۔ بلکہ یہ رسم یقیناً ایک بدعت ہے جو بعد میں مُلاّں لوگوں نے اپنے فائدہ کے لئے ایجاد کر لی ہے۔ اس کی تائید میں کوئی قرآنی آیت یا کوئی حدیث یا کسی صحابی یا کسی مستند مسلّمہ امام کا قول نہیں ملتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’قل خوانی (جو مرنے والے کی وفات کے بعد تیسرے دن کی جاتی ہے) کی کوئی اصل شریعت میں نہیں ہے ….ہمیں تعجب ہے کہ یہ لوگ ایسی باتوں پر امید کیسے باندھ لیتے ہیں۔ دین تو ہم کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا ہے اس میں ان باتوں کانام تک نہیں۔ صحابہ کرام بھی فوت ہوئے کیا کسی کے قُل پڑھے گئے؟ صدہا سال کے بعد اَور بدعتوں کی طرح یہ بھی ایک بدعت نکل آئی ہوئی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد3صفحہ605)

الغرض قُل کی رسم جو آج کل اتنی عام ہے کہ غیر از جماعت لوگوں میں مرنے والے کی وفات کے بعد اس کے وارثوں کی طرف سے لازماً مجلس قُل کا اعلان ہو جاتا ہے۔ یقیناً یہ ایک بدعت سے زیادہ نہیں جس کی کوئی سند اسلامی شریعت میں نہیں ملتی۔ اس لئے جماعت احمدیہ کے مردوں اور عورتوں کو اس سے قطعی پرہیز کرنا چاہئے۔ ورنہ وہ اس سیدھے اور سادے اور پیارے مسلک کو کھو بیٹھیں گے جو ہمیں رسول پاکؐ کے لائے ہوئے اسلام نے سکھایا ہے۔

تیسری رسم چہلم کی ہے۔ جس میں کسی عزیز یا دوست یا بزرگ کی وفات کے چالیسویں دن مجلس جمائی جاتی ہے اور کھانا پکاکر مرنے والے کے نام پر لوگوں میں تقسیم کیا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس رسم کی بھی قرآن و حدیث اور صحابہ کرامؓ اور اولیاء عظام کے اقوال میں کوئی سند نہیںملتی۔ محض ایک رسم ہے جو اسلام کے سادہ اور دلکش چہرہ کو بگاڑ کر قائم کر لی گئی ہے جس سے مرنے والے کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ مرنے والے کو صرف ان نیک اعمال کا اجر پہنچتا ہے جو اس نے اپنی زندگی میں خود کئے ہوتے ہیں یا ایسے اعمال کا ثواب پہنچتاہے جو وہ دنیا میں کیا کرتا تھا یا کم از کم ان کے کرنے کی نیت اور خواہش رکھتا تھا۔ مگر اپنی وفات کی وجہ سے ان کے جاری رکھنے یا انہیں بجا لانے سے معذور ہوگیا۔ اس صورت میں اگر مرنے والے کی طرف سے اس کا کوئی عزیز یا دوست یا وارث یہ عمل بجا لائے اور نیت یہ رکھے کہ اس کا ثواب مرنے والے کو پہنچے تو آنحضرت ﷺ کے فرمان کے مطابق ایسے عمل کا ثواب مرنے والے کو پہنچ جاتا ہے۔ مگر شرط بہرحال یہی ہے کہ مرنے والا خود بھی اس عمل کی نیت یا خواہش رکھتا ہو۔ یا اسے اپنی زندگی میں بجا لایا کرتا ہو۔ ورنہ ایسا ہرگز نہیں کہ کسی بے دین اور بد عمل شخص کی وفات کے بعد اس کی طرف سے نیک عمل بجا لا کر یہ امید رکھی جائے کہ اسے اس کا ثواب پہنچ جائے گا۔ یہ ایک امید خام ہے جس کی شریعت میں کوئی سند نہیں۔ حدیث میں صاف آتا ہے کہ موت کے ساتھ مرنے والے کا عمل ختم ہو جاتا ہے اور صرف ایسی نیت کا اثر چلتا ہے جس سے کوئی نیک انسان مجبوری کی صورت میں محروم ہو گیا ہو۔ اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام چہلم کی رسم کے متعلق فرماتے ہیں کہ: ’’یہ رسم (نبی کریم ؐ اور صحابہ کرامؓ کی) سنت سے باہر ہے۔‘‘

(بدر 14 فروری 1907ء)

یہی اصول نیاز والی رسم پر چسپاں ہوتا ہے جس کی کوئی سند آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا خلفاء راشدین یا صحابہ کرامؓ یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام یا آپ کے خلفاء کے زمانہ میں نہیں ملتی۔ البتہ کبھی کبھی کسی ایسے بزرگ کی طرف سے کھانا پکا کر ہمسایوں اور غرباء کو کھلانا جو خود اپنی زندگی میں غرباء کی امداد پر عامل رہا ہو جائز ہے۔ بشرطیکہ اسے رسم کا رنگ نہ دیا جائے اور نہ ہی اس کے لئے کوئی خاص دن مقرر کیا جائے۔ جس کے نتیجہ میں لازماً آہستہ آہستہ رسم کا رنگ پیدا ہو جاتا ہے جسے اسلام ہرگز پسند نہیں کرتا ہے۔ موجودہ مسلمانوں کی عملی حالت کو انہیں رسوم نے تباہ کیا ہے اور ایک سادہ اور پاک مذہب کی صوت بگاڑ کر رکھ دی ہے۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر حضرت سرورِ کائنات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ نفسی) زندہ ہوکر اس دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں تو آپ نہ تو موجودہ مسلمانوں کے اسلام کو اپنے لائے ہوئے دین کی صورت میں پہچان سکیں گے اور نہ ہی موجودہ زمانہ کے عام مسلمانوںکو اپنی امت کے افراد یقین کرسکیں گے۔ افسوس صد افسوس کہ بدعتوں کے بے پناہ داغوں نے اسلام کی پیاری صورت کو کس طرح بگاڑ رکھا ہے۔!!!

چوتھی رسم ختم قرآن کی ہے۔ اس جگہ قرآن خوانی سے گھروں میں یا نماز کے اوقات میں یا مسجدوںمیں کلام پاک کی تلاوت مراد نہیں۔ وہ تو سراسر رحمت ہے۔ بلکہ حقیقتاً مومن کی روح کے اطمینان کی کنجی ہے۔ بلکہ میری مراد اس جگہ ختمِ قرآن سے وہ رسمی قرآن خوانی ہے جو کسی فوت ہو نے والے کے ثواب کی خاطر حلقہ باندھ کر مکانوںمیں یا قبروں پر کی جاتی ہے۔ اس قسم کی رسمی تلاوت قرآن و حدیث یا صحابہ کرامؓ کے اقوال و افعال میں قطعاً کوئی سند نہیں ملتی۔ یہ باتیں یقیناً بعد کی ایجا د کی ہوئی بدعتیںہیں جو لوگوں نے زمانہ نبوی سے دوری کے نتیجہ میں از خود اختراع کر لی ہیں۔ اس کے متعلق حضرت مسیح موعودؑفرماتے ہیں:

’’مُردہ پر قرآن ختم کرانے کا کوئی ثبوت نہیں۔ صرف دعا اور صدقہ میت کو پہنچتا ہے‘‘

(بدر 16 مارچ 1904ء)

دوسری جگہ فرماتے ہیں:

’’قرآن شریف جس طرز سے حلقہ باندھ کر پڑھتے ہیں یہ سنت سے ثابت نہیں۔ ملاّں لوگوں نے اپنی آمد کے لئے یہ رسمیں جاری کی ہیں۔‘‘

(الحکم 10 نومبر 1907ء)

الغرض یہ اور اسی قسم کی دوسری باتیں جن کا کوئی ثبوت قرآن مجید یا حدیث یا صحابہ کرامؓ کے اقوال و افعال میں نہیں ملتا اور نہ ہی کسی مامور مجدد کے طریق میں نظر آتا ہے۔ یہ سب خلافِ سنت رسوم اور فیجِ اعوج کے زمانہ کی بدعتیں ہیں جن سے جماعت احمدیہ کے افراد کو کلیتہً بچ کر رہنا چاہئے۔ ایسی باتوں میں پڑنے سے انسان آہستہ آہستہ دین کے مرکزی نقطہ سے اکھڑ جاتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں آخری زمانہ میں اپنی امت کے فساد کا ذکر فرمایا ہے وہاں صراحت کے ساتھ فرمایا ہے کہ میری امت بہت سے فرقوں میں بٹ جائے گی اور جب صحابہؓ نے آنحضورؐ سے پوچھا کہ اس وقت حق پرکون ہو گا تو آپ نے فرمایا کہ:

مَا أَنَا عَلَیْہِ وَ اَصْحَابِیْ

یعنی حق پر وہ لوگ ہو ں گے جو میری اور میرے صحابہ کی سنت اور مسلک پر قائم ہوں گے۔

پس جماعت احمدیہ کو اس مبارک مسلک پرمضبوطی کے ساتھ قائم رہنا چاہئے اور اس سے سرِمو انحراف نہیں کرنا چاہئے۔ اور خدا کے فضل سے ایسا ہی ہے۔ والشاذ کالمعدوم۔ دوستوںکو یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام بڑا پیارا اور عمل کے غرض سے بڑا سادہ مذہب ہے۔ اسی لئے قرآن مجید میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ:

وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ

(القمر:18)

یعنی ہم نے قرآنی تعلیم کو عمل کرنے کی غرض سے بہت آسان صورت دی ہے تو کیا اب بھی اے انسان! تو اس سے نصیحت حاصل کرنے کے لئے تیار نہیں؟

اسلام یعنی حقیقی اسلام کا خلاصہ یہ ہے (اور یہی وہ کھونٹا ہے جس کے ساتھ وابستہ رہ کر انسان یقینی طور پر نجات پا سکتا ہے) کہ انسان سب سے اول نمبر پر قرآن کو سامنے رکھے اور اس پر مضبوطی سے قائم ہو اور پھر تفصیل کے لئے سنت اور صحیح احادیث سے راہنمائی حاصل کرے۔ (جس کی تشریح کے لئے حضرت امام ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ کے فتاویٰ بھی بڑی قابل قدر چیز ہیں) اور اس زمانہ کے مسائل یا گزشتہ اختلافات کی گتھیوں کو سلجھانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کو مشعلِ راہ بنائے۔ جنہیں سرورِ کائنات فخرِ موجودات سیدِ ولد آدم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت مسلمہ کے لئے حکم و عدل قرار دیا ہے۔ اس محفوظ قلعہ سے باہر جانے والے انسان کے لئے بالعموم ان معاملات میں اندھیرے میں بھٹکنے اور خلافِ شرع رسوم میں الجھنے کے سوا ور کچھ نہیں۔

وَاٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔

میں آج کل بیمار ہوں ان مسائل پر سیر کن بحث زیادہ تفصیل چاہتا ہے۔ اس لئے مجبوراً صرف اسی مختصر نوٹ پر اکتفا کرتا ہوں۔ جماعت کے مقامی امراء اور ضلع وار امراء کو چاہئے کہ اپنے اپنے حلقہ میں اس بات کی کڑی نگرانی رکھیں کہ کوئی احمدی مرد یا احمدی عورت خلافِ سنت رسوم میں پڑ کر احمدیت کے منور چہرے کو داغ دار کرنے کا رستہ اختیار نہ کرے اور مَا أَنَا عَلَیْہِ وَ اَصْحَابِیْ کی حقیقت پر قائم رہے بلکہ نرمی اور محبت اور ہمدردی کے رنگ میں غیر از جماعت اصحاب کو بھی ان خلافِ اسلام رسوم کی دلدل سے باہر نکالنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اگر وہ مان لیں تو ان کے لئے یقیناً بہتر ہے۔

ورنہ وَمَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلَاغُ۔

(روزنامہ الفضل 2 مئی 1960ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 اپریل 2020

اگلا پڑھیں

بدی اور گناہ سے پرہیز