• 25 اپریل, 2024

میرے پیارے ابو جان

تین برس بیت گئےمیرے ابوجان مرحوم کو گئے ہوئے۔ ان تین سالوں میں مجھے ان سب باتوں پر غور کرنے کا موقع ملا جو میں نےان کی زندگی میں نہیں کی ہوں گی۔ ان کا ہنستا مسکراتا چہرہ، باتوں میں چاشنی اور حکمت بھری ہوتی تھی۔ بچپن سے ہی ان کو دیکھا کہ اچھی باتوں پر حوصلہ افزائی کرتے اور شرارتوں پر سرزنش بھی ہوتی لیکن اس میں بھی ایک پیار کا انداز ہوتا ۔ سکول سے لے کر جامعہ کی پڑھائی تک ہر لمحہ نصیحت اور پڑھنے لکھنے کی طرف ہی لے جانے والی باتیں ہوتیں۔

ابوجان کے جانے کےبعد زندگی اب بھی رواں دواں ہے کچھ رُکا نہیں۔ لیکن دو ایسی جگہیں ہیں جہاں جاتے ہی سب کچھ نظروں کے سامنے آنے لگتا ہے ایک ہمارا لاہور والا گھر جہاں میں جامعہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد میدانِ عمل سے ایک ماہ خدمت کر کے جب واپس آیا تو انہوں نے گلے لگا کر کہا تھا کہ ’’بیٹا مبارک ہو‘‘ اور دوسری جگہ وہ ہسپتال جہاں 26 مارچ کو مجھے کہنے لگے کہ میری قمر سے بات کرواؤ (قمر بھائی ہم سب بہن بھائیوں میں بڑے ہیں اور امریکہ میں مقیم ہیں) میں نے فون ملا کر دیا ۔ حال احوال جاننے کے بعد آپ نے بھائی سے کہا۔قمر! دیکھو تم بڑے ہو۔کل کو کچھ بھی ہو سکتا ہے گھبرانا نہیں “اپنے پین پراواں نو کُنج کے رکھیں”(اپنے بہن بھائیوں کو اکٹھا کرکےرکھنا)۔ یہ بات میرے کانوں میں آج بھی گونج رہی ہے اور بھائی بھی اس بات کا حق ادا کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔

ابو جان کی عادت تھی کہ رات کو سونے سے پہلے سارے بہن بھائیوں سے بات کرتے یا پھر ان کے بچوں سے دن میں ایک بار بات ضرور کرتے تھے۔ اس بات کا اظہار میرے بھائی نے بھی کیا جو پچھلے دنوں پاکستان آئے ہوئے تھےان کے بچےبھائی کو ڈیڈی کہہ کر پکار رہے تھےتو میرے بیٹے نے بھی ان کو ڈیڈی کہا۔ بھائی کو بھی اچھا لگا۔ بھائی کہنے لگے کہ ابوجان نے وفات سے پہلے مجھ سے بہت سی باتیں کی تھیں اسی لئے مجھے اپنے اندر وہی نظر آتے ہیں کہ سارے بہن بھائیوں اور ان کے بچوں کے ساتھ جس طرح ابو جان کا تعلق تھا میرا بھی ہو گیا ہے۔

سو باتوں کی ایک بات کہ ابوجان کے جانے کے بعد ایک شدید قسم کا احساس ہوتا ہے کہ یہ جوخلا پیدا ہو گیا ہے یہ کبھی نہ پُر ہونے والاخلا ہے۔ اللہ تعالیٰ میرے والد مرحوم کی مغفرت فرمائے اور جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین

(رانا مسرور مبارک)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 اپریل 2020

اگلا پڑھیں

بدی اور گناہ سے پرہیز