• 25 اپریل, 2024

حاصل مطالعہ

وفاتِ مسیحؑ کے متعلق
حضرت مسیح موعودؑ کے چند اچھوتے نکات

فرشتے اور انسان ایک دوسرے کی جگہ آباد نہیں ہوسکتے:
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں دومرتبہ یہ حقیقت بیان فرمائی ہے کہ فرشتوں اور انسانوں کا الگ الگ مستقر ہے اور وہ ایک دوسرے کی جگہ پر آباد نہیں ہوسکتے۔سورۃ الانعام میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ اگر انسانوں کے پاس کوئی فرشتہ بطور رسول آتا تو وہ بھی انسان کا ہی وجود اختیار کرکے آتا۔ وَلَوْ جَعَلْنٰہُ مَلَکًا لَّجَعَلْنٰہُ رَجُلًا وَّ لَلَبَسْنَا عَلَیْھِمْ مَّا یَلْبِسُوْنَ (الانعام: 10)

ترجمہ: اور اگر ہم اُس (رسول) کو فرشتہ بناتے تو ہم اسے پھر بھی انسان (کی صورت میں) بناتے اور ہم ان پر وہ (معاملہ) مشتبہ رکھتے جسے وہ (اب) مشتبہ سمجھ رہے ہیں۔

اسی طرح سورہ بنی اسرائیل میں فرمایا کہ اگر زمین میں فرشتے آباد ہوتے تو ان پر رسول بھی فرشتہ ہی آتا۔چونکہ زمین پر انسان بستے ہیں اور ان میں مبعوث ہونے والے رسول کو ان کے درمیان ہی بسنا ہے لہٰذا ان میں فرشتہ بطور رسول مبعوث نہیں ہوسکتا کیوں کہ فرشتے زمین پر آباد نہیں ہوسکتے۔

قُلْ لَّوْ کَانَ فِی الْاَرْضِ مَلٰٓئِکَۃٌ یَّمْشُوْنَ مُطْمَئِنِّیْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَلَکًا رَّسُوْلًا

(بنی اسرائیل: 96)

ترجمہ : تُو کہہ دے کہ اگر زمین میں اطمینان سے چلنے پھرنے والے فرشتے ہوتے تو یقینًا ہم ان پر آسمان سے فرشتہ ہی بطور رسول اُتارتے۔

قرآنِ کریم کی اس دلیل اور اللہ تعالیٰ کی بیان کردہ اس سُنّت کی روشنی میں سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’انسان کا آسمان پر جا کر مع جسم عنصری آباد ہونا ایسا ہی سنّت اللہ کے خلاف ہے جیسے کہ فرشتے مجسم ہوکر زمین پر آباد ہوجائیں۔ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا۔‘‘

(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد20 صفحہ24)

رفع عیسیٰ علیہ السلام – خدا کی طرف
یا دوسرے آسمان کی طرف؟

’’پھر آیت میں تو یہ صاف لکھا ہے کہ عیسیٰ کا رفع خدا کی طرف ہوا۔ یہ تو نہیں لکھا کہ دوسرے آسمان کی طرف رفع ہوا۔ کیا خدائے عزّ وجلّ دوسرے آسمان پر بیٹھا ہوا ہے؟‘‘

(لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد20 صفحہ217)

آمدِ مسیحؑ موعود – نزول یا رجوع؟

دنیا کی تمام زبانوں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے والے کے لئے جو لفظ استعمال کیا جاتا ہے وہ اس لفظ سے مختلف ہوتا ہے جو اُس دوسری جگہ جاکر دوبارہ پہلی جگہ آنے والے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔اگر ایک شخص نقطہ الف سے نقطہ ب تک سفر کرے تواُردو زبان میں اسے ایک مقام سے دوسرے مقام تک جانے والا کہتے ہیں۔لیکن اگر وہی شخص نقطہ الف سے نقطہ ب تک پہنچ کر دوبارہ نقطہ الف تک آئے تو اسے ایک مقام سے دوسرے مقام تک جانے والا نہیں بلکہ واپس آنے والا کہتے ہیں۔ اسی طرح عربی زبان میں ایک مقام سے دوسرے مقام تک جانے کو ’’نزول‘‘ جبکہ دوسرے مقام سے لوٹ کر پہلے مقام تک آنے کو ’’رجوع‘‘ کہتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق یہ عقیدہ رکھا جاتا ہے کہ وہ زمین سے آسمان پر تشریف لے گئے ہیں اور اب قُربِ قیامت میں آسمان سے زمین پر تشریف لائیں گے۔ زبان و بیان کے مذکورہ بالا قواعد کی رُو سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آسمان سے زمین پر آمد کو اُردو زبان میں ’’واپسی‘‘ اور عربی زبان میں ’’رجوع‘‘ کے لفظ سے ظاہر کیا جانا چاہئےتھا۔ لیکن اس کے برعکس احادیثِ نبوی میں جس جگہ بھی مسیؑح ابن مریمؑ کی قربِ قیامت میں آمد کی خبر دی گئی ہے وہاں ’’رجوع‘‘ کی بجائے ’’نزول‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے حالانکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے زمین پر محض آ نہیں رہے بلکہ واپس آرہے ہیں کیونکہ وہ آسمان پر زمین سے ہی گئے تھے۔ نزول اور رجوع میں فرق کی روشنی میں سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کو اس طرح ثابت فرمایا ہے:
’’حضرت مسیؑح کی آمد کے واسطے جو لفظ آیا ہے وہ نزول ہے اور رجُوع نہیں ہے۔ اوّل تو واپس آنے والے کی نسبت جو لفظ آتا ہے وہ رجُوع ہے اور رجُوع کا لفظ حضرت عیسٰیؑ کی نسبت کہیں نہیں بولا گیا۔دوم نزول کے معنے آسمان سے آنے کے نہیں ہیں۔ نزیل مسافر کو کہتے ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ5 تاریخ اشاعت 20اگست 1960ء)

’’أتظنون أنَّ المسیح ابن مریم سیرجع الی الأرض مِن السّماء ولا تجدون لفظ الرجوع فی کَلِمِ سیّد الرسل و أفضل الأنبیاء۔ أَأُلْھِمْتم بھذا أو تنحِتون لفظ الرجوع مِن عند أنفسِکم کَالخَائنین؟ وَمِنَ الْمَعلُوم أن ھٰذا ھُو اللفظ الخَاص الذی یُستعمل لرَجُل یأتی بَعْد الذَّھاب۔ و یتوجّہ من السَّفر الی الایاب، فھذا أبعدُ مِن أبلَغِ الْخَلقِ و امام الأنبیاء أن یترک ھٰھنا لفظ الرجوع و یَسْتَعْمل لفظ النزول ولا یتکلم کالفصحاء والبلغاء‘‘

(مکتوب احمد، روحانی خزائن جلد11 صفحہ150-151)

ترجمہ: ’’کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ مسیح ؑ ابن مریم آسمان سے زمین پر واپس آئیں گے؟ حالانکہ سیّدالرسل ؐ اور افضل الانبیاء ؐ کے کلام میں رجوع کا لفظ پایا ہی نہیں جاتا۔ کیا تمہیں یہ الہام ہوا ہے یا خیانت کرنے والوں کی طرح تم نے اس لفظ رجوع کو اپنے نفس سے گھڑ لیا ہے؟ اور معلوم ہونا چاہئے کہ یہ لفظ خاص طور پر اُس شخص کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جو سفر کے بعد واپس آئے۔ پس یہ تمام مخلوقات میں سب سے فصیح و بلیغ شخص اور امام الانبیاء ؐ سے بعید ترین ہے کہ وہ رجوع کا لفظ ترک کرکے نزول کا لفظ استعمال کریں اور فصیح و بلیغ لوگوں کی طرح کلام نہ کریں۔‘‘

حضرت عمرؓ کے مندرجہ ذیل بیان سے بھی ظاہر ہے کہ وہ رسول اللہﷺ کی وفات پر یہ نہیں کہہ رہے کہ رسول اللہﷺ موسیٰؑ کی طرح اپنے رب سے ملنے گئے ہیں اور پھر نازل ہوں گے بلکہ یہ کہہ رہے ہیں کہ رسول اللہﷺ اُسی طرح واپس آئیں گے جس طرح حضرت موسیٰؑ واپس آئے تھے:

’’ان رجالا من المنافقین یزعمون أن رسول اللّٰہؐ قد توفي، و ان رسول اللّٰہ ما مات، ولکنہ ذھب الی ربہ کما ذھب موسی بن عمران، فقد غاب عن قومہ أربعین لیلۃ، ثم رجع الیھم بعد أن قیل مات، وواللّٰہ لیرجعن رسول اللّٰہؐ کما رجع موسی، فلیقطعن أیدي رجال و أرجلھم زعموا أن رسول اللّٰہؐ مات۔‘‘

(السیرۃ النبویۃ لأبن أسحٰق جلد1-2 صفحہ713، السیرۃ النبویہ لأبن ہشّام جلد4 صفحہ306)

ترجمہ: منافقوں میں سے کچھ لوگ یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ رسول اللہﷺ فوت ہوگئے ہیں۔حالانکہ وہ مرے نہیں بلکہ وہ اپنے رب کی طرف گئے ہیں جیسا کہ موسیٰ بن عمران گئے تھے۔پس وہ اپنی قوم سے چالیس راتیں غائب رہے تھے پھر ان کی طرف واپس آگئے تھے پھر اس کے بعد مرے تھے۔ اللہ کی قسم رسول اللہﷺ بھی ضرور واپس آئیں گے جس طرح موسیٰ واپس آئے تھے۔اور ضرور ان لوگوں کے ہاتھ پاؤں کاٹیں گے جو یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ مرگئے ہیں۔‘‘

حضرت عیسیٰؑ کے مصلوب ہونے کا اقرار

’’چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بالاتفاق عبرانی النسل تھے اپنے زمانے کی قوم کے مطابق عبرانی زبان رکھتے تھے چنانچہ مصلوب ہونے کے وقت بھی بلند آواز سے عبری زبان میں رائج اس کلمہ کو ’’ایلی ایلی لما شبقتانی‘‘ اے میرے خدا اے میرے خدا تو نے کس وجہ سے مجھے چھوڑ دیا ہے زبان پر لائے۔‘‘

(ازالۃ الاوہام جلد اول صفحہ113-114 از مولانا رحمت اللہ کیرانوی)

حیات و وفاتِ مسیحؑ کا اقرار یا انکار
کفر تو کیا گمراہی بھی نہیں!

’’قادیانی صدہا وجہ سے منکر ضروریاتِ دین تھا اور اس کے پس ماندے حیات و وفات سیدنا عیسیٰ رسول اللہ علی نبینا الکریم و علیہ صلوات اللہ و تسلیمات اللہ کی بحث چھیڑتے ہیں، جو خود ایک فرعی سہل خود مسلمانوں میں ایک نوع کا اختلافی مسئلہ ہے جس کا اقرار یا انکار کفر تو درکنار ضلال بھی نہیں۔‘‘

(الجراز الدیانی علی المرتد القادیانی مصنف احمد رضا خان بریلوی صفحہ5 سن تصنیف 1340ھ)

بڑے بڑے علماء کا
وفاتِ مسیحؑ کے قائل ہونے کا اقرار

’’آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیں وہ بڑا ہی پُرفتن دور ہے، نسل انسانیت عمومًا اور مسلمان خصوصًا قسم قسم کے فتنوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ مسلمان بحیثیت مسلمان آج جتنے خطرناک حالات سے دوچار ہیں شاید ماضی کی تاریخ ایسی مثالوں سے خالی ہو، ہر سمت سے قصر اسلام پر فتنوں کی ایسی یلغار ہے کہ الامان و الحفیظ! طرح طرح کے فتنے ظاہر ہورہے ہیں، اعتقادی، عملی ظاہری اور باطنی، ہر ایک دوسرے سے بڑھتا جارہا ہے، مگر سب سے خطرناک فتنے وہ ہیں جن کا تعلق اعتقاد سے ہو، ان اعتقادی فتنوں میں سے ایک فتنہ عقیدۂ نزولِ مسیح علیہ السلام سے یکسر انکار کرنا یا کم از کم اس کی اساسی حیثیت تسلیم کرنے سے اعراض کرنا اور اس کو غیر ضروری ماننا بھی ہے حتیٰ کہ بعض ایسے اہل علم و قلم بھی جن کی رفعت شان کی طرف اگر ہم نگاہ اٹھا کر دیکھتے ہیں تو ان کے علم و عمل، فضل و کمال اور ان کی عظمت کو اپنی بے پناہ بلندی کی وجہ سے ہماری نگاہیں سر نہیں کرسکتیں وہ بھی اس رو میں بہہ گئے ہیں۔۔۔مولوی ابوالکلام آزاد صاحب، مولوی جاراللہ صاحب، مولانا عبیداللہ صاحب سندھی وغیرہ کی تحریرات میں یہ چیز آئی اور مولانا آزاد نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ: ’’اگر یہ عقیدہ نجات کے لیے ضروری ہوتا تو قرآن میں کم از کم (واقیموالصلاۃ) جیسی تصریح ضروری تھی اور ہمارا اعتقاد ہے کہ کوئی مسیح اب آنے والا نہیں‘‘

(مقدمہ از سلیمان یوسف بنوری۔ عقیدہ نزولِ مسیح علیہ السلام قرآن، حدیث اور اجماع امت کی روشنی میں۔ مصنف یوسف بنوری)

دیوبندی عالم کا اقرار
’’توفی‘‘ کا مطلب روح کو پورا پورا واپس لے لینا

’’اس سلسلے میں یہ نکتہ یاد رکھنے کے لائق ہے کہ ہم اپنی بول چال میں موت کے لئے جو ’’وفات‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں وہ قرآن کریم کے ایک لفظ ’’توفی‘‘ سے ماخوذ ہے۔ قرآن کریم سے پہلے عربی زبان میں یہ لفظ ’’موت‘‘ کے معنی میں استعمال نہیں ہوتا تھا۔عربی زبان میں موت کے مفہوم کو ادا کرنے کے لئے تقریبًا چوبیس الفاظ استعمال ہوتے تھے لیکن ’’وفاۃ‘‘ یا ’’توفی‘‘ کا اس معنی میں کوئی وجود نہ تھا۔ قرآن کریم نے پہلی بار یہ لفظ موت کے لئے استعمال کیا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ زمانہ جاہلیت کے عربوں نے موت کے لئے جو الفاظ وضع کئے تھے وہ سب ان کے اس عقیدے پر مبنی تھے کہ موت کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے۔ قرآن کریم نے ’’توفی‘‘ کا لفظ استعمال کرکے لطیف انداز میں ان کے اس عقیدے کی تردید کی کہ ’’توفی‘‘ کے معنی ہیں کسی چیز کو پورا پورا وصول کرلینا اور موت کے لئے اس لفظ کو استعمال کرنے سے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ موت کے وقت انسان کی روح کو اس کے جسم سے علیحدہ کرکے واپس بلالیا جاتا ہے۔اسی حقیقت کو واضح الفاظ میں بیان کرتے ہوئے ’’سورۃ زمر‘‘ میں قرآن کریم نے ارشاد فرمایا۔ ’’اللہ تعالیٰ انسانوں کی موت کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے اور جو لوگ مرے نہیں ہوتے ان کی روحیں ان کی نیند کی حالت میں واپس لے لیتا ہے وہ پھر جن کی موت کا فیصلہ کرلیتا ہے ان کی روحیں روک لیتا ہے اور دوسری روحوں کو ایک معین وقت تک چھوڑ دیتا ہے، بیشک اس میں ان لوگوں کے لئے بڑی نشانیاں ہیں جو غوروفکر کرتے ہیں‘‘ (الزمر: 42)‘‘

(دنیا کے اس پار صفحہ25-26 از مفتی محمد تقی عثمانی ناشر ادارہ اسلامیات)

بشارت کے لئے مفصل
اور بالکل واضح ہونا ضروری نہیں

’’اکثر لوگوں کے رسالوں میں حضرت خاتم النبیین علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نسبت یہ اعتراض لکھا دیکھا ہے کہ حضرت کا ذکر اگلے انبیاؤں نے نہیں کیا۔ سو پہلے میں پوچھتا ہوں کہ حضرت موسیٰ کا ذکر کس کتاب میں ہے جو اُن سے پہلے کی ہو۔ آپ ہی لوگوں کے اظہار سے ثابت ہے کہ موسیٰ سے پہلے کی کوئی کتاب دنیا میں نہیں ہے۔ پھر یہ کہتا ہوں کہ دوسرے نبی کی نبوت کے ثبوت کے لیے پہلے نبی کا کہہ جانا کس برہان عقلی کی رو سے ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اگر کوئی اس کی ضرورت کی دلیل ہو تو بیان کیجئے۔ بلکہ برہان تطبیق اس امکان کو باطل ٹھہراتی ہے۔اس لیے کہ اس میں تسلسل لازم آتا ہے۔ بعد اس کے میں کہتا ہوں کہ پہلے نبی کو دوسرے نبی کی خبر دینا کس طرح سے چاہئے۔ آیا اس طرح کہ تمام خصوصیات دوسرے نبی کی بیان کرے جس طرح قبالجات وغٰرہ اور چہرہ نویسی میں لوگوں کے لکھا جاتا ہے یا اس طرح کہ فہمیدہ آدمی اپنی اِلف اور عادت سے کنارے ہوکر جب غور کرے تو مطابق پاوے۔پس اگر پہلی طرح کا خبر دینا مراد ہے تو ہمارا سوال یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ وغیرہ انبیاء کے لیے ایسی خبریں اگر کہیں سے نکلتی ہوں تو ہمیں بتادیجئے۔ اور اگر دوسری طرح کی خبر مراد ہے تو ہم سے لیجئے۔‘‘

(کتاب الاستفسارتالیف سیّد آل حسن مُہانی صفحہ323ناشر دارالمعارف اردو بازار لاہور)

’’اگر کوئی سابقہ پیغمبر آنے والے نبی کے متعلق کوئی خبر اور پیشینگوئی کر بھی دے تو اس میں آنے والے نبی کے جملہ عادات و شمائل بیان نہیں کرتا تاکہ خواص و عوام کو کوئی اشتباہ باقی نہ رہے اور علامیِ مذکورہ کی بناء پر سب لوگ اس کو پہچان لیں۔ بلکہ اگر وہ یہ دعویٰ کرے کہ میں وہی نبی ہوں جس کی نبی سابق نے خبر دی اور وہ خود بھی اپنے ہم عصر یا بعد میں آنے والے نبی کی پیشینگوئی کرے تو عوام کا تو کیا ذکر خواص بھی اس کو جلدی سے نہیں پہچانتے۔‘‘

(ازالۃ الاوہام جلد دوم صفحہ185تالیف مولانا رحمت اللہ کیرانوی، اردو ترجمہ و تقدیم شرح و تحقیق مولانا ڈاکٹر محمد اسماعیل عارفی ناشر مکتبہ دارالعلوم کراچی)

1884ء میں تحریر کردہ سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک بات جسے آج ہم پورا ہوتا دیکھ رہے ہیں۔
’’آج کل ہمارے دینی بھائیوں مسلمانوں نے دینی فرائض کے ادا کرنے اور اخوت اسلامی کے بجا لانے اور ہمدردی قومی کے پورا کرنے میں اس قدر سستی اور لاپروائی اور غفلت کررکھی ہے کہ کسی قوم میں اس کی نظیر نہیں پائی جاتی۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ان میں ہمدردی قومی اور دینی کا مادہ ہی نہیں رہا۔ اندرونی فسادوں اور عنادوں اور اختلافوں نے قریب قریب ہلاکت کے ان کو پہنچادیا ہے اور افراط تفریط کی بے جا حرکات نے اصل مقصود سے ان کو بہت دور ڈال دیا ہے جس نفسانی طرز سے ان کی باہمی خصومتیں برپا ہورہی ہیں۔ اس سے نہ صرف یہی اندیشہ ہے کہ ان کا بے اصل کینہ دن بدن ترقی کرتا جائے گا اور کیڑوں کی طرح بعض کو بعض کھائیں گے اور اپنے ہاتھ سے اپنے استیصال کے موجب ہوں گے بلکہ یہ بھی یقینًا خیال کیا جاتا ہے کہ اگر کوئی دن ایسا ہی ان کا حال رہا۔تو ان کے ہاتھ سے سخت ضرر اسلام کو پہنچے گا۔اور ان کے ذریعہ سے بیرونی مفسد مخالف بہت سا موقعہ نکتہ چینی اور فساد انگیزی کا پائیں گے۔‘‘

(براہین احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلد 1صفحہ315)

قرآن کی طرف توجہ کریں

’’یہ تباہی جو عملی اور اعتقادی لحاظ سے مسلمانوں پر آئی اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ انہوں نے قرآن کریم کو چھوڑ دیا اور اس پر عمل کرنا ترک کردیا۔ اگر وہ قرآن کریم پر عمل کرتے تو جس طرح صحابہؓ ساری دنیا پر غالب آگئے تھے اسی طرح وہ بھی غالب آجاتے اور کفر اور شیطنیت کا نشان تک دنیا سے مٹ جاتا۔ میں نے اپنی جماعت کے دوستوں کو بھی بارہا توجہ دلائی ہے کہ وہ اپنی اپنی جماعتوں میں قرآن کریم کے درس کا باقاعدہ انتظام کریں۔ لیکن مجھے افسوس ہے کہ ابھی تک جماعتوں نے اس طرف پوری توجہ نہیں کی حالانکہ قرآن کریم اپنے اندر اتنی برکات رکھتا ہے کہ قیامت کے دن رسول کریمﷺ خدا تعالیٰ کے حضور کھڑے ہوکر کہیں گے کہ اے میرے خدا مجھے اپنی قوم کے افراد پر انتہائی افسوس ہے کہ میں نے تیرا محبت بھرا پیغام ان تک پہنچایا مگر بجائے اس کے کہ وہ تیرے پیغام کو سُن کر شادی مرگ ہوجاتے، بجائے اس کے کہ وہ اسے سن کر ممنون ہوتے، بجائے اس کے کہ اسے سن کر ان کے جسم کا ہر ذرّہ اور ان کے دل کی ہر تار کانپنے لگ جاتی، بجائے اس کے کہ وہ اس مژدۂ جانفزا کو سن کر عقیدت اور اخلاص سے اپنے سر جھکادیتے اِتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُراٰنَ مَھْجُوْرًا انہوں نے تیرے پیغام کو اپنی پیٹھوں کے پیچھے پھینک دیا اور کہا کہ جاؤ ہم اس کی پرواہ نہیں کرتے۔ بیشک اندھی دنیا خدا تعالیٰ کے پیغام کے ساتھ یہی سلوک کرتی چلی آئی ہے مگر وہ دنیا جو یہ جانتی نہیں کہ خدا تعالیٰ کیا ہے اور اس کا رسول کتنی بڑی شان رکھتا ہے وہ جو کچھ کرتی ہے اسے کرنے دو۔ میں اس مومن سے پوچھتا ہوں جو کہتا ہے کہ خدا ہے، جو جانتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے کلام کی کیا عظمت ہے، جو سمجھتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا بندے کو مخاطب کرنا خواہ وہ بالواسطہ ہو یا بلا واسطہ ایک عظیم الشان انعام ہے کہ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے کلام کو سُنتا اور پھر اس کا جواب نہیں دیتا اور اس پر عمل کرنے لئے اس کے دل میں کوئی ولولہ پیدا نہیں ہوتا۔ حالانکہ بسم اللہ کی ب سے لے کر والنّاس کے س تک قرآن کریم کا ایک ایک کلمہ، اس کا ایک ایک لفظ اور اس کا ایک ایک حرف خدا تعالیٰ کی طرف سے بندے کے لئے سلام کا پیغام لے کر آیا ہے اور اپنے اندر اتنی طاقت رکھتا ہے کہ اگر اب بھی مسلمان خدا تعالیٰ کے پیغام کے جواب کے لئے تیار ہوجائیں اور اس کی اطاعت کے لئے اپنے دلوں کے دروازے کھول دیں تو یقینًا اُن کی دنیا بدل سکتی ہے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد6 صفحہ484-485)

ایک ہی آیت میں پانچوں نمازوں کے اوقات کا ذکر

’’اس آیت میں پانچوں نمازوں کے اوقات بتائے گئے ہیں۔ دلوک کے تین معنی ہیں۔ اور ہر ایک معنی کی رو سے ایک ایک نماز کا وقت ظاہر کردیا گیا۔ (1) مالت و زالت عن کبد السماء یعنی زوال کو دلوک کہتے ہیں۔ اس میں ظہر کی نماز آگئی (2) صفرَت۔ جب سورج زرد پڑجائے تو اس کو بھی دلوک کہتے ہیں۔ اس میں نماز عصر کا وقت بتادیا گیا۔ (3) تیسرے معنی غرَبت یعنی غروب شمس کے ہیں اس میں نماز مغرب کا وقت بتایا گیا ہے (4) غسق اللیل کے معنی ظلمۃ اول اللیل کے ہیں یعنی رات کے ابتدائی حصہ کی تاریکی۔ اس میں نماز عشاء کا وقت مقرر کردیا گیا۔ (5) قرآن الفجر کہہ کر صبح کی نماز کا ارشاد فرمایا۔ اس کے سوا کوئی اور تلاوت صبح کے وقت فرض نہیں ہے۔‘‘

(تفسیر کبیر تفسیر آیت79)

’’قرآنِ کریم میں ہے اَقِمِ الصَّلوٰۃَ لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ اِلیٰ غَسَقِ اللَّیْلِ وَ قُرْآنَ الْفَجْرِ (بنی اسرائیل: 78) اس کا عام ترجمہ یہ ہوگا ’’صلوٰۃ قائم کرو دلوک شمس سے غسق لیل تک۔ اور فجر کا قرآن‘‘۔ یہاں اگر دُلُوْکٌ کے معنی عام حرکت کے لئے جائیں تو اس میں طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کا سارا وقت آجاتا ہے۔ اور قُرْآنَ الْفَجْرِ طلوع آفتاب سے پہلے، اور غَسَقِ اللَّیْلِ غروب آفتاب کے بعد۔ یعنی اس طرح اس آیت میں سونے کا وقت نکال کر باقی دن رات کا سارا وقت آجاتا ہے۔ مفہوم ظاہر ہے کہ صلوٰۃ کے لیے یہ سارا وقت تمہارے لئے کھلا رکھاہے۔ اور اگر دُلُوْکٌ کو زوالِ آفتاب سے غروب تک مقید کردیا جائے تو پھر (اوپر کے مفہوم کی رو سے) طلوع آفتاب سے لے کر اس کے نصف النہار تک پہنچنے کا وقت خارج ہو جائے گا۔ دوسری جگہ صلوٰۃٌ کے لئے طَرَفَیِ النَّہَارِ وَ زُلْفًا مِّنَ اللَّیْلِ (ہود: 115) کے الفاظ آئے ہیں۔ یعنی دن کے دونوں کناروں اور رات کے (ابتدائی) حصوں میں۔ دن کے دونوں کنارے فجر اور مغرب ہیں اور رات کے ابتداء حصے غَسَقِ اللَّیْلِ سورۃ نور میں صَلوٰۃُ الْفَجْرِ اور صَلوٰۃُ الْعِشَاءِ (النور: 59) کا خصوصیت سے نام لیا گیا ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ نزول قرآن کریم (رسول ؐاللہ) کے زمانے میں ان دونوں اوقات میں اجتماعات صلوٰۃ ہوتے تھے۔‘‘

(لغات القرآن زیر لفظ د ل ک از غلام احمد پرویز)

تبلیغ میں کوتاہی شرک کا رنگ رکھتی ہے

’’اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ آیاتِ الٰہیہ کا انکار اور تبلیغ میں کوتاہی بھی اپنے اندر شرک کا ہی ایک رنگ رکھتی ہے۔ کیونکہ آیاتِ الٰہیہ کا انکار وہی شخص کرتا ہے جو ڈرتا ہے کہ اگر میں نے اپنے ایمان کا اظہار کیا تو لوگ میری مخالفت کے لیے کھڑے ہوجائیں گے۔ اسی طرح تبلیغ سے وہی شخص بھاگتا ہے جو لوگوں کی مخالفت اور ان کی ایذا رسانی سے گھبراتا ہے اور یہ دونوں چیزیں اپنے اندر شرک کا ایک رنگ رکھتی ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے نصیحت فرمائی کہ تم مشرکوں میں سے مت بنو۔ دلیری سے آیاتِ الٰہیہ پر ایمان لاؤ۔ اور پھر دلیری سے اُن کی دنیا میں اشاعت کرو۔ اور اپنی نگاہیں ہمیشہ آسمان کی طرف بلند رکھو۔ زمینی لوگوں سے مت ڈرو کہ یہ بھی ایک مخفی شرک ہے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ565 زیر تفسیر سورۃ القصص آیت88)

مرزا غلام احمدؑ نے ختم نبوت کا انکار نہیں کیا!

’’مرزا غلام احمد قادیانی نے ختم نبوت کے عنوان سے انکار نہیں کیا نہ کہیں یہ کہا کہ وہ اور اس کی جماعت حضور ؐ کو خاتم النبیین نہیں مانتے۔ اس نے ختم نبوۃ کا یہ معنی بیان کیا کہ حضور ؐ نبوت کا مرکز ہیں جن سے آگے نبوت پھیلتی ہے اور جو بھی نبوت پائے گا اس پر آپؐ کی نبوت کی مہر ہوگی۔ مرزا غلام احمد اپنی تشریح میں ختم نبوت مرتبی کا عقیدہ رکھتا تھا اور ختم نبوت مرتبی کو ختم نبوت زمانی کے متوازی سمجھتے ہوئے ختم نبوت مرتبی کا اقرار اور ختم نبوت زمانی کا انکار کرتا تھا۔ اس کے ذہن کے مطابق یہ دو متقابل نظریات تھے۔ چنانچہ مرزا غلام احمد کے پیروختم نبوت مرتبی کا اقرار اور ختم نبوت زمانی کے منکر ہیں۔‘‘

(مقدمہ تحذیر الناس از علامہ ڈاکٹر خالد محمود صفحہ16 ناشر ادارہ العزیز گوجرانوالہ جنوری 2001ء)

ختم نبوت مرتبی میں
ختم نبوت زمانی سے عقیدت زیادہ ہے

’’مسلم عوام حضور اکرمﷺ کے مرتبہ و شان سے والہانہ عقیدت رکھتے ہیں۔ جب وہ قادیانی مبلغین سے سنتے ہیں کہ ختم نبوت کا اصل مفہوم یہ ہے کہ حضور اکرمﷺ پر سارے کمالات ختم مانے جائیں اور یہی حضور ؐ کی ختم نبوت ہے تو کئی عوام جوشِ عقیدت میں قادیانیوں کے پنجۂ الحاد میں آجاتے ہیں۔ ختم نبوت زمانی کتنا پختہ عقیدہ کیوں نہ ہو ختم نبوت مرتبی میں عقیدت بہرحال زیادہ ہے اور وہ ظاہر میں لوگوں کو زیادہ کھینچتی ہے۔‘‘

(ایضًا صفحہ17)

سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا
ختم نبوت زمانی کا اقرار

’’چونکہ آنحضرتﷺ کی نبوت کا زمانہ قیامت تک ممتد ہے اور آپ خاتم الانبیاء ہیں اس لیے خدا نے یہ نہ چاہا کہ وحدت اقوامی آنحضرتﷺ کی زندگی میں ہی کمال تک پہنچ جائے کیونکہ یہ صورت آپؐ کے زمانے کے خاتمہ پر دلالت کرتی تھی۔ یعنی شبہ گزرتا تھا کہ آپؐ کا زمانہ وہیں تک ختم ہوگیا۔ کیونکہ جو آخری کام تھا وہ اس زمانہ میں انجام تک پہنچ گیا۔ اس لیے خدا نے تکمیل اس فعل کی جو تمام قومیں ایک قوم کی طرح بن جائیں اور ایک ہی مذہب پر ہوجائیں زمانہ محمدی کے آخری حصہ پر ڈال دی جو قرب قیامت کا زمانہ ہے۔اور اس کی تکمیل کے لئے اسی امت میں سے ایک نائب مقرر کیا جو مسیح موعود کے نام سے موسوم ہے اور اس کا نام خاتم الخلفاء ہے۔ پس زمانہ محمدی کے سر پر آنحضرتﷺ ہیں اور اس کے آخر میں مسیح موعود ہے۔‘‘

(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد23 صفحہ90-91)

مولانا قاسم نانوتویؒ صاحب کی ختم نبوت زمانی سے مراد

’’غرض خاتمیت زمانی سے یہ ہے کہ دینِ محمدیؐ بعد ظہور منسوخ نہ ہو۔علوم نبوت اپنی انتہاء کو پہونچ جائیں۔کسی اور نبیؑ کے دین یا علم کی طرف پھر بنی آدم کو احتیاج باقی نہ رہے۔‘‘

(مناظرہ عجیبہ صفحہ58 ناشر مکتبہ قاسم العلوم کراچی)

سوادِ اعظم سے مراد بیاضِ اعظم

’’ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ مدرسہ میں ممبران کی کمیٹی قائم ہے اور کثرت رائے سے فیصلہ ہوتا ہے اور اس کو سوادِ اعظم سے تعبیر کرتے ہیں اس ہی معنی کو بنا جمہوریت قرار دیا گیا ہے۔ فرمایا سوادِ اعظم سے مراد تو بیاضِ اعظم ہے یعنی نور شریعت جس جماعت میں ہو (اگرچہ وہ قلیل ہو) مگر لوگوں کو ایسی ہی باتوں میں سواد (مزہ) آتا ہے۔‘‘

(ملفوظات حکیم الامت اشرف علی تھانوی صفحہ70 ناشر ادارہ تالیفات اشرفیہ ملتان سن اشاعت جمادی الاولیٰ1423ھ)

دوچار متبع سنت ہی مقبول ہوں گے ہزاروں بدعتی نہیں

’’مؤلف نے الفاظ ہی یاد کرلئے ہیں معنی تو کسی سے پڑھے ہی نہیں یہ سمجھ لیا کہ جس کام میں بہت سے مسلمان جمع ہوگئے تو وہ امر جائز ہوگیا حالانکہ مبتدعین فسق متبعین سنت سے زائد ہیں اس زمانہ میں ہزار گنا کی نسبت ہوگئی اور حدیث لا یزال طائفۃمن امتی جو ابھی لکھی گئی ہے اور حدیث بدء الاسلام غریبا و سیعود کما بدء فطوبی للغرباء اور مثل اس کی سب کو پس پشت ڈال دیا ہے کہ ان احادیث میں طائفہ اور غرباء کی مدح ہورہی ہے۔اب اپنے حسب بدعت ان کو رد کردے تو اس سے عجب نہیں سو سنو کہ ان احادیث سے تو یہ مراد ہے کہ جسوقت میں تمام دنیا میں حب دنیا و جاہ و اتباع ہویٰ ہوجاویگا اس وقت میں وہی دوچار متبع سنت مقبول ہوویں گے ان کو طوبیٰ ہو۔‘‘

(براہین قاطعہ صفحہ170 از خلیل احمد سہارنپوری ناشر دارالاشاعت کراچی اشاعت اول مارچ 1987ء)

حضرت عیسیٰؑ جہاں فوت ہوں گے
وہاں دفن نہیں ہوں گے

’’بعض روایات میں ہے کہ حضرت عیسیٰؑ اس دنیا میں اپنی عمر کے آخری حصے میں پہنچیں گے تو حج بیت اللہ کے لئے مکہ معظمہ تشریف لے جائیں گے۔ وہاں سے واپس آرہے ہوں گے کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان انتقال فرما جائیں گے۔ چنانچہ ان کی نعش مبارک مدینہ منورہ لائی جائے گی اور روضۂ اقدس میں حضرت عمرؓ کے پہلو میں دفن کئے جائیں گے۔‘‘

(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح از علامہ شیخ القاری علی بن سلطان محمد القاری۔ اردو ترجمہ از مولانا راؤ محمد ندیم جلد دہم۔ حاشیہ صفحہ 709باب فضائل سیّد المرسلینﷺ)

لازم نہیں کہ نبی وہیں دفن ہو جہاں فوت ہو

’’پھر دفن میں کلام ہوا تو حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا: میں نے رسول الل ہﷺ سے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ انبیاء کی روح اسی جگہ قبض کرتے ہیں جہاں انبیاء دفن ہونا پسند کرتے ہیں، آپ ﷺ کو اس جگہ دفن کرو جہاں آپ ﷺ کا بستر تھا۔ (ترمذی)۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہر نبی کا مدفن ان کی وفات کی جگہ ہی ہو بلکہ صرف وفات کی جگہ میں دفن کی جگہ پسندیدہ ہونا ثابت ہوتا ہے اگر دوسرے لوگ اپنے ارادہ یا کسی عذر کی وجہ سے دوسری جگہ دفن کردیں تو اور بات ہے۔‘‘

(نشرالطیب فی ذکر النبی الحبیبﷺ۔ تالیف مولانا اشرف علی تھانوی صفحہ263۔ 264۔ ناشر زمزم پبلشرز کراچی، اکتوبر 2003ء)

(انصر رضا۔ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

دعا کی تحریک 03 جون 2022ء

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ