• 25 اپریل, 2024

جلسہ سالانہ ربوہ کی یاد میں

آج کل جلسہ سالانہ انگلستان کی تیاریاں ہورہی ہیں۔خدام وانصار آئے روز حدیقۃ المہدی میں وقار عمل کے لئے آتے جاتے نظر آتے ہیں۔ ہر احمدی گھرانے میں جلسہ سالانہ ہی موضوع سخن ہے۔ کسی چیز کی محرومی اس کی اہمیت میں اضافہ کردیتی ہے۔ کیونکہ گذشتہ سال کرونا کے باعث جلسہ منعقد نہ ہوسکا۔ اس لئے امسال کے جلسہ سالانہ کے لئے ہر کوئی پُرجوش ہے۔

جلسہ سالانہ ربوہ

انگلستان کے جلسوں سے قبل ربوہ پاکستان میں جلسے دیکھا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جلسہ سالانہ کا نام سنتے ہی جلسہ سالانہ ربوہ کی روح پرور یادوں کے دریچے وا ہوجاتے ہیں۔ موجودہ فرعونی دور میں ربوہ میں جلسہ سالانہ منعقد کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہماری سوچوں پر پابندی ان کے اختیار میں نہیں ہے۔

آج سوچا کیوں نہ کچھ ربوہ کے جلسہ سالانہ دور کی باتیں کی جائیں۔ تاکہ ان حسین یادوں کے پُرکیف تخیلاتی نظاروں سے کسی حد تک تسکین خاطر اور راحت جان کا سامان پیدا ہو۔ سوچا جلسہ سالانہ ربوہ کی حسین یادوں کا ایک مختصر سا خاکہ پیش کیا جائے۔ جس سے ہر صاحب تجربہ لطف اندوز ہو سکے۔

؎گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے

جلسہ سالانہ کی آمد

ہر سال ماہ دسمبر میں جلسہ سالانہ مرکزاحمدیت ربوہ میں ہوا کرتا تھا۔جس کا انتظار ہر احمدی گھرانہ میں سال بھر جاری رہتا تھا۔ انصاراللہ کے ہال کے ساتھ ملحقہ میدان میں دفتر جلسہ سالانہ ہوا کرتا تھا۔جو سارا سال جلسے کی تیاری میں باقاعدگی کے ساتھ کھلا رہتا تھا اور بڑی ہی خاموشی کے ساتھ کارکنان اتنے بڑے جلسے کے اسقدر وسیع انتظامات کرنے میں مگن رہتے تھے۔ جو اپنی ذات میں ایک عظیم الشان نشان ہے۔

ربوہ میں جلسہ سالانہ کی تیاری

جوں جوں جلسہ سالانہ کے ایام قریب آتے۔ ایسے احساس ہوتا جیسے عید یا شادی کا سماں ہے۔ ربوہ کا ہر فرد بہت زیادہ پُرجوش اور مصروف نظر آتا۔ گھروں کی سفیدیاں ہورہی ہیں، مہمان نوازی کے لئے خرید وفروخت، خوردوکلاں کے لئے حسب توفیق، موسم کی مناسبت سے کپڑوں کی خریداری جاری ہے۔

جہاں ایک طرف اس بستی کا ہرمکین اپنے گھر کو سجانے میں مصروف ہے۔ دوسری طرف ربوہ شہر کی گلیوں، کوچوں اور بازاروں کی تزئین کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ شعبہ تربیت کی جانب سے مرکزی مقامات قرآنی آیات، احادیث مبارکہ، ملفوظات اور دیگر تربیتی اقوال لکھ کرآویزاں کر دئے جاتے ہیں۔

تزئین گلستان چاہیے

اگر ہم چند دہائیاں پیچھے مڑ کر دیکھیں تو اس دور میں ہمارا معیار زندگی بہت سادہ ہوتا تھا۔ کیونکہ آج کی طرح مشینی دور کا آغاز نہیں ہوا تھا۔ زیادہ تر ہاتھوں سے مزدوری کی جاتی تھی۔ وقار عمل کے لئے مختصر سا سامان کَسی اور کڑاھی ہی ہوتا تھا۔ جلسہ سالانہ کی تیاری کے سلسلے میں ہر محلہ میں وقار عمل کئے جاتے تھے۔ کبھی کسی محلہ کی صفائی، کبھی کسی لنگر خانے میں کام کیا جا رہا ہے۔ مجھے یاد ہے ایک سال جامعہ احمدیہ کے طلبہ کئی دن، رات گئے تک لنگر خانہ نمبر ایک میں وقار عمل کرتے رہے۔

ربوہ کا ایک نیا روپ

عام حالات میں ربوہ ایک بہت ہی خاموش اورپُرسکون شہر ہوتا ہے۔لیکن جلسہ کے دنوں میں بہت ہی بارونق شہر کا روپ اختیار کرلیتا ہے۔ہر طرف لوگوں کی آمدورفت ہے،سائیکلوں اور تانگوں کا شہر اب گاڑیوں،کاروں اور دیگر سواریوں سے بھر جاتا ہے۔ ادھر ٹریکٹر کی ٹرالیاں پرالی لے کر آرہی ہیں۔ادھرجلسے کی تیاری کے سلسلہ میں قریبی شہروں سے سامان کے ٹرک آرہے ہیں۔ربوہ کے معروف گول بازار کے سامنے کا میدان مختلف دوکانوں،کھوکھوں اور سٹالز سے سج جاتا ہے۔جہاں کی گہما گہمی کون بھو ل سکتا ہے۔

سفید پوشوں کی جماعت

بَدَءَ الْأِسْلَامُ غَرِیْباً وَّ سَیَعُوْدُ غَرِیْباً کَمَا بَدَءَ فَطُوْبیٰ لِلْغُرَبَآءِ۔ والی حدیث کے موافق عام طور پر جماعت کے ممبران کی مالی حالت متوسط درجہ کی ہے اور ہونی بھی چاہیے۔کیونکہ جس نے کسب ِ حلال ہی کمانا ہے پھر اس میں مالی قربانی بھی کرنی ہے۔اس کے لئے ناز ونعم والی زندگی کب ممکن ہے۔ اس لئے جلسہ کے ایام میں ربوہ کی سڑکوں پر پرانے کپڑوں کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔جنہیں ہم لنڈے کا مال کہتے ہیں۔لنڈا شاید لندن کا ہی مخفف ہے۔ ان پرانے کپڑوں کے ڈھیروں کے ارد گرد اہل ربوہ کا خاصہ ہجوم ہوتا ہے۔یہ لنڈے کا مال سفید پوشوں کے لئے ایک نعمت غیر مترقبہ ہے۔

اس سادگی پرکون نہ مرجائے اے خدا

(مکرم شیخ منیر احمد صاحب شہید امیر جماعت لاہور)

1982میں جماعتِ احمدیہ کے جلسہ سالانہ کے دن تھے۔ ربوہ میں احمدیت کے دیوانوں کا ایک ایسا ہجوم تھاکہ کھوّے سے کھوّا چھلتا تھا۔ سخت سردی کے ایّام تھے۔ بازار میں مختلف قسم کی دوکانیں اور ٹھیلے لگے ہوئے تھے۔بعض لوگوں نے سرِ بازار زمین پر ہی پرانے کپڑوں کے ڈھیر لگائے ہوئے تھے۔ بہت سارے لوگ مالی وسعت نہ ہونے کی وجہ سے ان پرانے کپڑوں کی خریداری کرکے اپنے آپ کو سردی سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔

ایک روز میں بازار سے گزر رہا تھا۔ ایک جگہ پر بہت سے لوگ اپنی پسند اور ضرورت کے مطابق پرانے کپڑے خریدنے کے لئے انتخاب کررہے تھے۔ میں نے دیکھا کہ مکرم شیخ منیر احمد صاحب جو کہ ایک بہت ہی اعلیٰ عہدہ پر فائز تھے۔ وہ بھی اس کپڑوں کے ڈھیر کے پاس کھڑے خریداری فرمارہے تھے۔ میں ایک جانب سے گزر گیا۔ لیکن آج تک وہ نظارہ میری نگاہوں کے سامنے ہے۔ میرے دل میں، اس واقعہ نے ان کے مقام کو اور رفعت اور عظمت بخش دی۔ پاکستان میں توان کے شعبہ سے وابستہ چھوٹے چھوٹے کارکن بھی پُر تعیّش زندگیاں بسر کرتے ہیں۔ جبکہ احمدی افسران بڑی ایمانداری کے ساتھ اپنے فرائض ادا کرتے ہیں اور کسی طرح بھی کسی ناجائز ہتھکنڈے سے کسی کی حق تلفی نہیں کرتے۔

ڈیوٹی چارٹ

ایک چیز جسے دیکھنے کے لئے ہم سب بڑے بے چین ہوتے تھے۔یہ جلسہ سالانہ کا ڈیوٹی چارٹ ہوتا تھا۔جس میں جملہ کارکنان کے نام ان کے شعبوں کے تحت لکھے ہوتے تھے۔اس چارٹ کو چند ایک مرکزی مقامات پر چسپاں کردیا جاتا تھا۔ان دنوں میں ہر کوئی ایک دوسرے کو اپنی اپنی ڈیوٹی کے بارے میں بتایا کرتا تھا۔

میری جلسہ سالانہ پر پہلی بار ڈیوٹی لنگر خانہ نمبر دومیں روٹیاں اکٹھے کرنے میں لگی تھی۔ہمارا کام تندوروں سے نکلنے والی گرماگر م روٹیاں اٹھا کرلانا پھر مخصوص کمروں میں،بیس بیس کی ڈھیریاں بناکر ترتیب کے ساتھ مقررہ شیلفوں میں لگانا ہوتاتھا۔یہ خاصا مشکل کام تھا۔سردی میں باہر نکلنا،پھر گرم تندور ں کے پاس جاکر بہت ساری روٹیاں اکھٹی کرکے پیٹ کے ساتھ لگا کر واپس کمرے میں لانا،دلچسپ ہونے کے علاوہ ایک مشکل امر بھی تھا۔

مہمانان کی آمد

ملک بھر سے احمدی احباب اس روحانی جلسہ میں شرکت کے لئے تیاری میں لگ جاتے ہیں۔سفر کی تیاری کرتے ہیں۔دور دراز والے ٹرین جبکہ قریبی شہر وں میں بسنے والے بسوں پر عازم ربوہ ہوجاتے ہیں۔

دوران سفر، ایسے شہرجہاں سے بسیں بدلنی ہوتی ہیں وہاں پر مقامی جماعت کے خدام و اطفال نے شامیانے لگا رکھے ہیں۔ جس میں جلسہ کے مہمانوں کا استقبال، رہنمائی اور مہمان نوازی کی جاتی ہے۔ یہ عمل اپنی ذات میں نظام جماعت کی خوبصورتی، خدمت خلق کے علاوہ ایک خاموش اور مؤثر تبلیغ کا کردار ادا کر رہا ہوتا ہے۔ احمدیوں کے علاوہ دیگر مسافر بھی اس خدمت خلق سے مستفید ہوتے ہیں۔

شعبہ استقبال

جیسے ہی مہمانوں کی بسیں لاری اڈہ کے قریب پہنچتی ہیں۔ شعبہ استقبال کی جانب سے لاؤڈ سپیکر پر اھلاً وسھلاً ومرحبا کی آوازیں بلند ہوتی ہیں۔ مہمانوں کادعائیہ کلمات اورپُرجوش نعروں کے ذریعہ سے استقبال کیا جاتا ہے۔شعبہ استقبال کے کارکنان کندھوں پر بیج سجائے، مسکراتے چہروں کے ساتھ انہیں خوش آمدید کہتے ہیں۔مہمانوں کا سامان بسوں سے اتارتے ہیں، ٹرانسپورٹ کے لئے ان کی مناسب رہنمائی کرتے ہیں۔ پھر یہ سلسلہ کئی دن تک جاری رہتا ہے۔ بس سٹاپ کا یہ ماحول ہزارہا غیر احمدی مسافروں کے لئے جماعت احمدیہ کا پُرمغز پیغام پہچانے میں ایک بہت ہی خاموش اور بااثر ذریعہ بن جاتا ہے۔ربوہ کی حدود گزرنے کے بعد بھی کافی دیر تک مسافروں کے مابین جماعت کے بارے میں ہی باتیں ہوتی ہیں۔

اسی قسم کا نظارہ ریلوے سٹیشن پر ہوتا ہے۔ کراچی حیدرآباد اور سیالکوٹ جیسے شہروں کی جانب سے تو سپیشل ٹرینیں جلسہ کے لئے روانہ ہوتی ہیں۔پورے سفر میں ان کا جوش وخروش دیدنی ہوتا ہے۔کہیں دعوت الی اللہ کی مجالس چل رہی ہیں،کہیں نمازیں ادا کی جاری ہیں،کہیں دیگر دلچسپی کے امور پر گفتگو کے سلسلے جاری ہیں۔ ٹرینوں کے ربوہ سٹیشن پہنچنے پر ایک عجیب ہی روح پرور نظارہ ہوتا ہے۔ اھلاً و سھلاً و مرحبا، خوش آمدیدا ور دیگر معلوماتی اعلانات، ہو رہے ہیں، مقامی عزیز واقارب بھی اپنے اپنے مہمانوں کے استقبال کے لئے سٹیشن پر موجود ہیں۔جو بہت ہی خوشی اور مسرت کے ساتھ مہمانوں کو مرحبا کہتے ہوئےان کے گلے مل رہے ہیں۔ایک بہت ہی دلکش اورروح پرور منظر ہوتا ہے۔

عقل کے اندھوں کو الٹا نظر آتا ہے

آج کل مالی کشائش اور سفری سہولیات کی وجہ سے سفرکرنا بہت آسان ہوگیا ہے۔اس دور میں بیرون ملک سے جلسہ میں شرکت کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا تھا۔اس کے باوجود بھی کئی غیر ملکی احمدی فدائین سفری صعوبتیں اور مشکلات برداشت کرکے جلسہ کی برکات سے مستفیض ہوتے تھے۔ایک دفعہ ایک گھانین احمدی دوست جلسہ میں شرکت کے لئے ربوہ تشریف لائے۔جب یہ دوست کراچی ائرپورٹ پر امیگریشن والوں کے ڈیسک پر پہنچے تو موجود اہل کار نے پاسپورٹ دیکھا۔ کچھ سوالات پوچھے۔ کہاں جارہے ہو۔احمدی دوست نے بتایا کہ ربوہ جلسہ پر جارہاہوں۔ امیگریشن آفیسر نے کہا۔ کیا تم قادیانی ہو۔ اس نے جواب دیا۔کیا آپ کا دماغ کام نہیں کرتا۔ تمہارے ہاتھوں میں میرا پاسپورٹ ہے۔ اس پر لکھا ہوا ہے کہ میں گھانین ہوں۔تم پھر بھی مجھے قادیانی کہہ رہے ہو۔

قیام گاہیں۔جنات کی بستی

ایک غیر از جماعت دوست اپنے ایک احمدی عزیز کے ہمراہ جلسہ پر تشریف لائے ہوئے تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ ربوہ میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ ہیں۔ ازدھام کی وجہ سےبازاروں میں چلنا مشکل تھا۔ لیکن جیسے ہی رات کی ظلمت نے چادر تانی سب لوگ ہی غائب ہوگئے ہیں۔ کہاں چلے گئے۔ لگتا ہے یہ کوئی جنات کی بستی ہے۔

جلسہ سالانہ پر تشریف لانے والے مہمانوں کی رہائش کا کام خاصا دشوار امر تھا۔کیونکہ ربوہ اپنی ذات میں ایک چھوٹا اور پھر نسبتاً ایک غریب شہر تھا۔لیکن اس میں خلافت کی برکت اور نظام کی وجہ سے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی کو روحانی مائدہ کے علاوہ باعزت طور پر روٹی، کپڑا اور مکان کے حصول میں مشکل درپیش آئی ہو۔

انتظامیہ نے مختلف اضلاع کے لئے شرکاء جلسہ کی تعداد کے مطابق متعدد مقامات متعین فرما رکھے تھے۔

جیسے محمود ہال، انصاراللہ ہال، تعلیم الاسلام ہائی سکول، جامعہ احمدیہ، طبیہ کالج، یونیورسٹی،جامعہ احمدیہ گراؤنڈز، دارالضیافت کے سامنے گراؤنڈز کئی دیگر چھوٹے بڑے مقامات کے دروازے اس کارخیر کے لئے کھلے ہیں۔

یاد رہے ان ایام میں ربوہ کا ہر شہری اپنے گھر کے دروازے اپنے دل کی طرح مہمانوں کے لئے خوش دلی کے ساتھ کھول دیتا ہے۔بعض گھروں میں ا س قدر مہمان آجاتے ہیں کہ دوست اپنے گھروں میں خیمے بھی لگا لیتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ مہمان نوازی کی توفیق مل جائے۔ بسااوقات لوگ جگہ کی کمی کے باعث اپنے گھر کی راہ داریوں اور کچن میں بھی سو جاتے ہیں۔الغرض جسے جہاں پاؤں سمائے سو گئے۔

ہاں ایک بات قابل ستائش ہے۔ کہ میزبان اور مہمان ایک دوسرے کی مجبوریوں اوراحساسات کا احترام کرتے تھے۔اس موقعہ پرمہمانوں کے لئے بستر اور چارپائی کا اہتمام نا ممکن عمل تھا۔ اس لئے زمین پر پرالی بچھادی جاتی تھی۔جس پر ہر کوئی بخوشی رات بسر کرلیتا۔اس کا اپنا ہی ایک مزہ تھا۔

لنگر خانے

ربوہ میں تین لنگر خانے تھے۔ جو مختلف ناموں سے معروف تھے۔

لنگرخانہ نمبر ایک: دارالصدرربوہ ریلوے سٹیشن کے سامنے۔
لنگرخانہ نمبر دو: دارالرحمت۔ رحمت بازار کے قریب۔
لنگرخانہ نمبر تین: دارالنصر پہاڑی کے قریب

طعام اور طعام گاہیں

جلسہ سالانہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دور مبارک سے ہی صبح اورشام کے لئے مخصوص کھانے پکتے تھے۔صبح ایک مخصوص دال اور پھر شام کے وقت آلو گوشت،شام کو تیار ہونے والے سالن میں آلو خاصے بڑے ہوتے تھے۔مہمانوں میں کھانا تقسیم کرنے کے بڑے بڑے چمچے(کڑچھے) ہوا کرتے تھے۔جن کے ذریعہ سے مٹی کی تیار کردہ پلیٹوں میں کارکنان سالن ڈال دیا کرتے تھے۔پانی پینے کے لئے مٹی کے بنے ہوئے آب خورے ہوا کرتے تھے۔یہاں تک کہ مٹی کے ہی لوٹے ہوا کرتے تھے۔

کیا محبت او ر الفت کے دن تھے۔اس دور میں جلسہ کے ایام میں اکثر لوگ زمین پر آمنے سامنے صفیں بنا کر بیٹھ جاتے۔پھر وہیں کھانا کھالیا کرتے تھے۔ سردی کی شدت سے سالن ٹھنڈا ہوجاتا تھا۔کھانے کے بعد پانی بھی یخ ٹھنڈا ہی ملتا تھا۔لیکن اس کے باوجود اس کا مزہ اور افادیت قائم ودائم رہتی تھی۔

جان کی حفاظت کرنا فرض ہے

ڈیوٹی پر موجود کارکنان کے لئے مختلف مقامات پر شامیانے نصب کئے جاتے تھے۔ جن میں کھانے کا اجتماعی انتظام ہوتا تھا۔ جہاں کارکنان حسب فرصت کھانا کھا لیا کرتے تھے۔ حسب دستور کارکنان ہی پلیٹوں میں ایک مخصوص چمچے سے ہر کسی کی پلیٹ میں سالن ڈال دیا کرتے تھے۔ ایک روز مولانا محمد اعظم اکسیر صاحب مرحوم کی پلیٹ میں کچھ سالن بچ گیا۔ اس پر ان کے ایک دوست نے کہا مولانا پلیٹ صاف کرنا سنت رسول ہے۔ مولانا صاحب کہنے لگے۔ میاں بات تو آپ کی درست ہے۔ لیکن جان کی حفاظت کرنا بھی فرض ہے۔

ظرافت و ملاحت

جلسہ سالانہ کے مصروف شب وروز میں جہاں پر ہر کوئی انتھک کام کر رہا ہے۔ وہاں انسانی فطرت کے تقاضوں کے مطابق حس ظرافت بھی قائم ودائم رہتی تھی۔جلسہ سالانہ کے بہت سارے شعبہ جات ہوتے تھے۔ایک شعبہ گوشت سپلائی کا ہوتاتھا۔ مجھے بھی دوسال اس شعبہ میں خدمت کی توفیق ملی۔ ہمارے ذمہ قریبی منڈیوں سے جانور خرید کر بھی لانا ہوتا تھا۔ ان جانوروں کو لا کر مذبح خانہ کے قریب ایک مارکی میں رکھا جاتا تھا۔ ایک شام مکرم سید میر داؤد احمد صاحب افسر جلسہ سالانہ ان جانوروں کو دیکھنے کے لئے تشریف لائے۔ انہیں گیٹ کے قریب ایک کمزور سی گائے نظرآئی۔ آپ نے پوچھا یہ گائے تو بہت کمزور ہے۔ ایک منچلے دوست نے کہا۔ یہ گائے تو سب سے صحت مند ہے۔ جو چل کر یہاں تک آگئی ہے۔ باقیوں کے بارے میں آپ خود ہی اندازہ کرسکتے ہیں۔

کھانے کی تقسیم کا بے مثل انتظام

اس قدر وسیع پیمانے پر ہر فرد کے لئے کھانا تیار کرنا،پھر کھانے کی شہر بھر میں تقسیم ایک معجزہ سے کم نہ تھا۔ربوہ کے ہر محلہ میں صدر جماعت کے پاس ہر صاحب خانہ حاضر ہو کر بتاتا کہ ہمارے گھر میں مہمان ہیں۔ہمیں اتنے کَس کی پرچی دےدیں۔ پرچی کے حصول کے بعد وہ صاحب خانہ یا گھر کا کوئی فرد وہ پرچی لیکر قریبی لنگر خانہ کی بیرونی سائڈ کے کمروں کے باہر لائن میں کھڑا ہوجاتا پھر اپنی باری آنے پر اپنے افراد خانہ کی تعداد کے مطابق روٹیاں اور سالن لے لیتا۔اس امر کے لئے بسا اوقات دور دور تک جانا پڑتا تھا۔ سردی اس شدت کی ہوتی تھی کہ رستہ میں گرم سالن پر تیل یا ڈالڈا گھی کی موٹی تہہ جم جاتی تھی۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک معجزہ

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بےشما رمعجزات ہیں۔ان میں سے ایک عظیم الشان معجزہ ایک پاک اور منظم جماعت کا قیام ہے۔جو اپنے آقا کے ایک اشارہ پر حرکت میں آجاتی ہے۔جس کا ہر فرد بوقت ضرورت جان ومال وآبرو حاضر ہیں تیری راہ میں،کی عملی تصویر بن جاتا ہے۔

ایک حکایت ہے کہ پاکستان میں ایک ٹٹیری نام کا، بگلہ نما پرندہ ہوتا ہے۔کہتے ہیں وہ رات کو الٹا سویا کرتا ہے۔یعنی ٹانگیں آسمان کی طرف کرلیتا ہے۔ دروغ بر گردن راوی۔وہ سوچتا ہے اگر رات کو کہیں آسمان گر گیا تو میری ٹانگیں دنیا کو تباہی سے بچالیں گی۔

ہر احمدی بھی اپنے مفوضہ خدمات کی ادائیگی میں یہی سمجھتا ہے بلکہ عملاً کرکے دکھاتا ہے۔کہ اگر میں نے اپنا فریضہ کما حقہ سرانجام نہ دیا۔ تو کہیں ایسا نہ ہو کہ میری وجہ سے کوئی جماعتی نقصان نہ ہوجائے۔ ہر کارکن نہایت فرض شناسی کے ساتھ اپنی اپنی ڈیوٹی سر انجام دیتا ہوا نظر آتا ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ فرمایا کرتے تھے۔ کہ نظام کی مثال ایک مشین کی طرح ہونی چاہیے۔ جب ہم آن آف کا بٹن دباتے ہیں تو مشین کے سارے پُرزے اپنا اپنا کام بغیر کسی تاخیر کےکرنا شروع کر دیتے ہیں۔

بس ایک روٹی کھانی ہے۔ لَبَّیْکَ یَآ اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ!

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ جلسہ کے موقعہ پر نان بائیوں نے کسی وجہ سے ہڑتال کردی۔جس کی وجہ سے بظاہر خاصی مشکل پیش آسکتی تھی۔لیکن الہی نظام کے ساتھ کون مقابلہ کرسکتا ہے۔خلیفۃ المسیح کی بس ایک ہی آواز نے ان کے منصوبے کو خاک میں ملادیا۔ حضور نے فرمایا۔ جلسہ میں شامل ہرفرد بس ایک ہی روٹی کھائے گا۔جس پر ہر کسی نے اس پر لبیک کہہ کر اطاعت خلافت کی اور تاریخ رقم کردی۔بلکہ ہماری ماؤں اور بہنوں نے اپنے گھروں میں روٹیاں پکاکر مراکز میں بھجوادیں۔

مُردوں کی ترتیب

ایک دفعہ کاذکر ہے کہ ایک غیر ملکی کسی احمدی دوست کی درخواست پرربوہ کی زیارت کے لئے ربوہ پہنچا۔اسے ربوہ کے مختلف مقامات کی سیر کرائی گئی۔ اسے بہشتی مقبرہ بھی دکھایا گیا۔بہشتی مقبرہ کی تزئین وترتیب دیکھ وہ بہت متأثر ہوا اور کہنے لگا۔جس قوم کے مردے اس ترتیب سے ہیں۔ اس کے زندہ کتنے منظم اور سلیقہ شعار ہونگے۔

خلافت مھبط انوار ہے

اللہ تعالی اپنے پیاروں کے لئے محبت اور ان کے ساتھ عشق خود انسانوں کے دلوں میں ڈال دیتا ہے۔یہ محبت کسی بازار سے کسی بھی قیمت میں نہیں مل سکتی۔جس طرح ممتا کی محبت اللہ تعالی کی اپنی ہی عطا ہے۔

جماعت احمدیہ کا ہر فردخلافت سے عشق کا رشتہ رکھتا ہے۔جس کی مثالیں ہم روز وشب اپنے گھر،ماحول اور احباب جماعت کےعملی کردار میں مشاہدہ کرتے ہیں۔

جلسہ کے ایام میں جلسہ کامحورخلیفۃ المسیح کی ذات اقدس ہی ہوتی ہے۔لوگ اپنے آقا کی ایک جھلک کو دیکھنے کے لئے ترستے رہتے ہیں۔ان کی گاڑی کے گزرنے کے انتظار میں محو انتطار ہیں،حضور کے سٹیج پر نمودار ہونے پر حاضرین کا جوش وخروش دیدنی ہے۔عام مقررین کے خطابات کے دوران بسا اوقات حاضرین کی توجہ آگے پیچھے جاسکتی ہے لیکن جب حضرت خلیفۃ المسیح کا خطاب شروع ہوجاتا ہے۔ پھر ہر سُو ہُو کا عالم ہوجاتا ہے۔

جلسہ کے ایام میں روزانہ حضرت خلیفۃ المسیح کے دربار میں عشاق اپنے اپنے اضلاع کے ساتھ ملاقات کا شرف پاتے ہیں۔لیکن یہ راز حقیقت سے نابلد لوگوں کی سمجھ سے بالا وبرترہے کہ وہ کونسی طاقت ہے جو تاجدار خلافت کو ایسی طاقت بخشتی ہے کہ جلسہ کے ایام میں، ان کا ایک ایک لمحہ یکساں مصروف ہوتا ہے مگر اس سب کچھ کے باوجود ان کارخ انور ہمیشہ مسکراہٹ بھرا اور گلاب گلاب رہتا ہے۔

جلسہ گاہ

مسجد اقصٰی کے سامنے وسیع وعریض میدان ہے۔جس میں جلسہ سالانہ منعقد ہوتا۔جلسہ کے ایام میں یہ میدان ایک سٹیڈیم کا روپ اختیار کرلیتا ہے۔دنیا کے باقی سٹیڈیمز سے مختلف اس میں محض پرالی بچھا دی جاتی ہے۔جس پر لاکھوں لوگ سخت سردی میں،کھلے آسمان کے تلے چوکڑیاں مار کر بیٹھ جاتے ہیں پھر سارا دن اسی حالت میں گزاردیتے ہیں۔کون سی قوت ہے جو انہیں یہ سب کچھ برداشت کرنے کی طاقت وہمت عطا کرتی ہے۔ اس کا ایک ہی جواب ہے۔ ان کی حرارت ایمانی ہے۔ کہتے ہیں۔بڑے مقصد کے سامنے چھوٹی چیزیں اپنی اہمیت کھودیتی ہیں۔

جلسہ کا دن کیسے گزرتا ہے

جلسہ کے ایام میں ہر طرف ایک روحانی ماحول ہے۔نماز تہجد ادا کی، نماز فجر، درس وتدریس کے بعد برنچ (ناشتہ اور دوپہر کا کھانا) کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد جلسہ کی تیاری کی اورجلسہ کے پروگرام سننے کے لئے نکل پڑتے ہیں۔ اکثر دوستوں یا عزیزوں نے جلسہ کی کاروائی سننے کے لئے اپنی اپنی مخصوص جگہ مقرر کی ہوتی ہے۔ جہاں سب عزیزپہنچ جاتے ہیں۔ سب دوست پرالی پر چوکڑی مار کر بیٹھ جاتے ہیں۔ سا تھ مونگ پھلی اور ریوڑیاں اور مالٹے وغیرہ بھی ساتھ رکھ لیتے ہیں سٹیج سے علماء کرام کی علمی اور پُرمغز تقاریر شروع ہوجاتی ہیں۔ گاہ بگاہ سٹیج پر نعروں کی آوازیں فضا میں گونجتی ہیں۔ جو ہر کسی کے دل میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا کردیتی ہیں، نماز ظہر وعصر کی ادائیگی کے بعد دوبارہ جلسہ کا پروگرام شروع ہوجاتا تھا۔ اس کے بعد سب لوگ اپنی اپنی قیام گاہوں کا رخ کرلیتے، شام کے کھانے اور نمازوں سے فارغ ہو کر۔ تبلیغی مجالس، سوال وجواب اور دیگر علمی اور تربیتی مجالس جم جاتی ہیں۔

جلسہ کے پروگرامز ختم ہوتے ہیں۔وقفہ کے دوران کئی شعراء کرام سر بازار کھڑے بڑے ہی دلکش انداز میں پنجابی نظمیں پڑھتے ہیں۔جنہیں کتابی صورت میں فروخت بھی کرتے ہیں۔جو ہمارے بزرگ خرید کر گھر لے آتے ہیں۔ پھر سارا سال ہماری مائیں یہ نظمیں لوری کی صورت میں بچوں کو سنایا کرتی ہیں۔ ان کتابچوں میں خوبصورت ایمان افروز واقعات اور تبلیغی واقعات اور دلائل کی عکاسی ہوتی تھی۔ جیسے:

؎چن ساڈا ساہڈے کولوں مکھڑا چھپا گیا
داغ جدائی والا سینے ساہڈے لا
جے کوئی ہور مہدی آیا تے دسو

مساجد میں شبینہ اجلاس

جلسہ کے مبارک ایام کا ایک ایک لمحہ خلافت کی رہنمائی اور برکت سے تربیتی اور تبلیغی کاموں میں صرف ہوتا ہے۔دن بھر کی مصروفیات کے بعد سونے سے قبل مسجد مبارک اور مسجداقصیٰ میں شبینہ اجلاس منعقد ہورہا ہے۔جہاں مختلف زبانوں میں تقاریر کی جارہی ہیں۔جو عملی طور پر میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا،کی عملی تصویر پیش کرتی ہیں۔

پولیس آفیسر کا اعتراف حقیقت

جلسہ سالانہ پر حفاظتی نقطہ نگاہ سے کچھ پولیس اہل کار بھی ربوہ آجاتے تھے۔اقصٰی چوک میں ہماری ڈیوٹی تھی۔اکثر پولیس والے ہمارے پاس آجاتے۔چائے وغیرہ پیتے۔ان کے ربوہ کے ماحول کے بارے میں عجیب تأثرات ہوتے تھے۔کہتے تھے کہ اس شہر سے زیادہ پُرامن شہر ہم نے کبھی نہیں دیکھا۔انہوں نے بتایا کہ ہمارا کام نظم وضبط اور ٹریفک کنٹرول کرنا ہے۔لیکن یہاں سڑک پر ایک جانب تو خواتین چل رہی ہیں اور دوسری جانب مرد حضرات چل رہے ہیں۔ہر چوک اور اشارہ پر چھوٹے چھوٹے بچے اس طرح ٹریفک کنٹرول کرتے ہیں جس طرح کوئی ماہر پولیس آفیسر ہوں۔پھر کمال اس عجیب و غریب عوام الناس کا ہے کہ وہ باوجود عمر،رتبہ اور زندگی کے تجربات میں فوقیت کے وہ آنکھیں باندھے بلا چوں و چراں اطاعت کر رہے ہیں۔یہ وہ جماعت ہے جس کی تربیت حضرت امام مہدی علیہ السلام کے مبار ک ہاتھوں سے ہوئی ہے۔

یہ نان تیرے لئے اور تیرے ساتھ درویشوں کے لئے ہے۔

یہ وہ دور تھا۔جس میں باوجود جماعتی مخالفت کے شرافت کسی حد تک زندہ تھی۔جب ہمارے بزرگ جلسہ پر تشریف لاتے۔جلسہ کی ظاہری وباطنی برکات سمیٹنے کے بعد اپنے ساتھ مختلف روح پرور یادیں اور تبرکات واپس ساتھ لے کر جاتے تھے۔جن میں کتب، ربوہ کی چند مشہور ادویات اور ٹوپیاں وغیرہ خرید کر لے جاتے تھے۔

ایک چیز جو خاص ہوا کرتی تھی۔وہ لنگرخانے کی روٹیاںتھیں۔مجھے یاد ہے ہماری والدہ محترمہ جب بھی جلسہ پر تشریف لاتیں۔واپسی پر کافی ساری روٹیاں ساتھ لے کر جاتیں۔پھر اپنے سارے محلے میں احمدی اور غیر احمدی ہمسایوں میں تقسیم کرتیں اور سب لوگ اسے بخوشی قبول بھی کرلیتے تھے۔

جلسہ سالانہ کے بعد اداسی

غالباً 1982کی بات ہےحضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے جلسہ سالانہ سے قبل خطبہ جمعہ میں جلسہ سالانہ کی آمد کی مسرت اور پھر اس کے چلےجانے کے دکھ کی کیفیت کے بارے میں مکرم قمر سلیمان کے بارے میں ایک دلچسپ واقعہ بیان فرمایا۔ فرمایا کہ ہمارے بھانجے کو انڈا کھانے کا بہت شوق ہے۔جب بھی اسے انڈا کھانے کو دیا جائے جیسے ہی وہ آدھا انڈا کھالیتا ہے تورونا شروع کردیتا ہے۔جب وجہ پوچھی جائے تو کہتا ہے۔اب انڈا ختم ہوجائے گا۔فرمایا یہی کچھ حال ہم ا حمدیوں کا ہوتا ہے۔سارا سال جلسہ کی آمد کا انتظار کرتے ہیں۔پھر یہ جلسہ ہمیں چند دن کی رونقیں،خوشیاں اور مسرتیں بانٹ کر چلا جاتا ہے۔جس سے ہمارے دل اداس ہوجاتے ہیں۔

؎آعندلیب مل کر کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار میں چلاؤں ہائے دل

بہت کچھ کہنے کو دل چارہا ہے۔ لیکن بعض مجبوریوں کے تحت اسی پر اکتفا کرتا ہوں۔ وَالْبَاقِیْ عِنْدَ التَّلَاقِیْ۔

اللہ تعالیٰ ان جملہ کارکنان کی خدمات اور جانفشانیوں کو شرف مقبولیت بخشے، جن کی خاموش قربانیوں کے صدقے آج ہم دنیا بھر میں اس قدر عظیم الشان جلسے منعقد کرنے کی توفیق پارہے ہیں۔

(منور احمد خورشید۔ مربی سلسلہ انگلستان)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 اگست 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 اگست 2021