• 23 اپریل, 2024

جلسہ سالانہ اور عالمی بیعت

جماعت احمدیہ میں جلسہ سالانہ کا آغاز بانی جماعت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دور میں 1891ء میں شروع ہوا تھا جس میں 75 افراد نے شرکت کی۔یہ سلسلہ آگے بڑھتا رہا اور 130 سالوں میں جو قوموں کی زندگی میں آنکھ جھپکنے کے برابر بھی نہیں ہوتا یہ سلسلہ بڑھتا اور پھیلتا ہوا اب 100 کے لگ بگ ممالک تک پھیل گیا ہے جہاں بڑی شان و شوکت کے ساتھ سالانہ جلسے منعقد ہوتے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں فدائیان شامل ہوتے ہیں۔

ابھی گزشتہ سال Covid-19 سے قبل جنوری میں خاکسار کو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی نمائندگی میں سیرالیون جلسہ سالانہ میں شمولیت کی توفیق ملی۔ وہاں 2020ء کے جلسہ سالانہ میں شاملین کی تعداد 24700 تھی۔ یہ جلسے بیعتوں کا ذریعہ بنتے رہے اور آج سینکڑوں کی تعداد میں لوگ ان جلسوں اور جماعت کی انسانیت کی خدمت سے متاثر ہو کر احمدیت میں شامل ہوتے ہیں۔

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے دور میں جلسہ سالانہ برطانیہ پر عالمی بیعت کا سلسلہ شروع ہوا۔ جس میں رواں سال کے دوران عالمی سطح پر بیعت کرنے والے اس مبارک تقریب میں شامل ہوتے ہیں۔ اس کے علاوه حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ اپنے دور وں میں جب کسی جلسہ میں شرکت فر ماتے ہیں تو وہاں بھی بیعت کی تقریب منعقد ہوتی ہے۔ اس مبارک طریق کی تقلید میں بعض ممالک میں بھی اپنے اپنے جلسہ سالانہ کے مواقع پر بیعت کی تقاریب منعقد ہوتی ہیں۔

بیعتوں کی جن تقاریب میں حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنفسِ نفیس شامل ہو کر برکت بخشتے ہیں۔ وہ تقاریب ایم ٹی اے کے ذریعہ ساری دنیا میں نشر ہوتی ہیں اور دُنیا بھر کے احمدی ان سے استفادہ کرتے ہیں با لخصوص جلسہ سالانہ برطانیہ کے موقع پر عالمی سطح پر انفرادی طور پرگھروں میں، مساجد اور بیوت میں بہت اہتمام سے احباب و خواتین اکٹھی ہوتیں اور براه راست خلیفۃ المسیح سے فیض پاتی ہیں۔ یہ تقریب اس قدر مبارک اور مقدس ہوتی ہیں که یوں لگتا هے جیسے ماحول میں روحانیت نے بسیرا کیا ہوا ہے۔ انسان چند لمحوں کے لئے اس دُنیا سے نکل کر ایک اور عالم میں پہنچ جاتا ہے۔ اپنے گناہوں، کمزوریوں اور لغزشوں کا جائزہ لے کر اور اُ نہیں نکال باہررکھ کر اپنے اللہ کے حضور جھکتا، دُعا کرتا اور آ ئندہ نیکیاں بجا لانے کے عزم صمیم باندھتا ہے۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور بعد میں آپ کے خلفاء کے بیان فرمودہ ہدایات اور نصائح کو حِرز جان بناتا ہے۔ اور خلیفۃ المسیح سے بھی عہد وپیمان باندھتا ہے۔

مجھے یاد ہے ایک وقت تھا کہ اگر کوئی دوست جماعت میں شامل ہوتے تو کسی کے گھر یا کوئی چھوٹی سی محفل کا انعقاد کر کے عہد بیعت اور شرائط کو دہرایا جاتا تھا۔ اور ہم میں سے کئی ایک کو سالہا سال شرائط بیعت اور بیعت کے الفاظ دہرانے کا موقع میسر نہ آتا تھا۔ مگر آج سلام ہو ایم ٹی اے کو جس کے ذریعہ ہم دُنیا بھر میں ہونے والی بیعتوں کی تقاریب میں شامل ہو کر اپنے آپ کو نور سے نہلاتے ہیں۔ سال میں ایک بار نہیں بلکہ کئی بار۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ ذَالِکَ۔

گو ان مبارک جلسوں کا آ غاز دسمبر کے مہینہ میں ہوا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فر مایا کہ جب بھی آپ کی زندگی میں دسمبر کی 27 تاریخ آئے تو مرکز چلے آئیں۔ لیکن بعد میں مختلف ممالک نے اپنے اپنے حالات اور موسم کے مطابق اپنے ہاں جلسوں کا انعقاد کرنا شروع کیا۔

اور اب شائد ہی سال میں کوئی مہینہ ایسا گزرتا ہو جس میں کسی نہ کسی ملک میں جلسہ نہ منعقد ہوتا ہو۔ جماعت احمدیہ یو کے جولائی یا اگست میں اپنا جلسہ سالانہ منعقد کرتی ہے۔ جس میں امام جماعت احمدیہ بنفسِ نفیس شامل ہوتے ہیں اور عالمی بیعت بھی ہوتی ہے۔

ضروری معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مبارک دور کی ایک بیعت کے احوال جانیں۔ اِسے ’’دُعائے بیعت توبہ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔

بیعت توبہ برائے حصول تقویٰ وطہارت

حضرت مسیح موعود ؑ نے جن الفاظ میں حضرت نور الدین اعظم خلیفۂ اوّل سے بیعت لی۔ اس بیعت کے الفاظ خود حضرت مسیح موعودؑ کے اپنے الفاظ میں یوں ہیں:

(ادعیۃالمہدی ازحافظ مظفر احمد صاحب)

بسم اللّٰه الرحمن الرحيم

نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم

’’آج مَیں احمد کے ہاتھ پر اپنے تمام گناہوں اور خراب عادتوں سے توبہ کرتا ہوں جن میں مبتلا تھا۔ اور سچے دل اور پکے ارادہ سے عہد کرتا ہوں کہ جہاں تک میری طاقت اور سمجھ ہے اپنی عمر کے آخری دن تک تمام گناہوں سے بچتا رہوں گا۔ اور دین کو دنیا کے آراموں اور نفس کے لذات پر مقدم رکھوں گا۔ اور 12جنوری کی دس شرطوں پر حتی الوسع کار بند رہوں گا۔ اور اب بھی اپنے گزشتہ گناہوں کی خدا تعالیٰ سے معافی چاہتا ہوں۔

اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ رَبِّیْ۔ اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ رَبِّیْ۔ اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّ اَ تُوْبُ اِ لَیْہِ۔ وَاَشْھَدُاَنْ لَّآ اِ لٰہَ اِ لَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحمَّدًاعَبْدُہٗ وَرَسُوْ لُہٗ۔ رَبِّ اِ نِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ وَ اعْتَرَفْتُ بِذَنْبِیْ۔ فَاغْفِرْلِیْ ذُنُوْ بِیْ فَاِ نَّہٗ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّآ اَنْتَ‘‘

(سیرت المہدی جلداوّل روایت98، صفحہ70تا71)

ترجمہ :۔ مَیں اللہ اپنے رب سے بخشش طلب کرتا ہوں۔ میں، اللہ اپنے رب سے بخشش طلب کرتا ہوں۔ مَیں،اللہ اپنے رب سے بخشش طلب کرتا ہوں۔ اور اسی کی طرف جھکتا ہوں۔ مَیں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدؐ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اے میرے رب! میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور اپنے گناہوں کا اعتراف کیا۔ پس میرے گناہ بخش دے۔ کیونکہ تیرے سوا کوئی گناہ نہیں بخش سکتا۔

میر شفیع احمد صاحب محقق دہلوی کی روایت ہے کہ حضور علیہ السلام جب الفاظِ بیعت دہراتے … تو تمام آدمی رونے لگ جاتے اور آنسو جاری ہو جاتے کیونکہ حضرت صاحب کی آواز میں اس قدر گداز ہوتا تھا کہ انسان ضرور رونے لگ جاتا تھا۔

(سیرة المہدی جلد اوّل ص675 روایت747)

امر واقعہ یہ ہے کہ نبی کریم ؐ کی دُعا (جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیعت توبہ میں شامل فرمایا) ایسی گہری تاثیر رکھتی ہے کہ اب بھی دہرائے جانے کے وقت یہی کیفیت سوز وگداز اکثر دیکھی گئی ہے۔ دعا یہ ہے :
’’اے میرے رب میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور میں اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہوں تو میرے گناہ بخش کہ تیرے سوا کوئی بخشنے والا نہیں۔‘‘

اس روایت کی مزید تائید حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان الفاظ سے بھی ہوئی ہے آپ نے فر مایا کہ ’’بیعت کے وقت توبہ کے اقرار میں ایک بر کت پیدا ہوتی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد چہارم ص174)

یہاں شرائط بیعت کا اِعادہ بھی بہت ضروری معلوم ہوتا ہے تا عالمی بیعت کو ہم اچھی طرح سے سمجھ سکیں:

شرائط بیعت

اوّل۔ بیعت کندہ سچے دل سے عہد اس بات کا کرے کہ آ ئندہ اس وقت تک کہ قبر میں داخل ہو جائے شرک سے مجتنب رہے گا۔

دوم۔ یہ کہ جھوٹ اور زنا اور بد نظری اور ہر ایک فسق و فجور اور ظلم اور خیانت اور فساد اور بغاوت کے طریقوں سے بچتا رہے گا اور نفسانی جوشوں کے وقت ان کا مغلوب نہیں ہوگا اگرچہ کیسا ہی جذبہ پیش آ وے۔

سوم۔ یہ کہ بلا ناغہ پنچ وقتہ نماز موافق حکم خدا اور رسول کے ادا کرتا رہے گا۔ اور حتی الوسع نماز تہجد کے پڑھنے اور نبی کریم ﷺ پر درود بھیجنے اور ہر روز اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور استغفار کرنے میں مداومت کرے گا۔ اور دلی محبت سے خدا تعالیٰ کے احسانوں کو یاد کر کے اس کی حمد اور تعریف کو اپنا ہر روز ورد بنائے گا۔

چہارم۔ یہ کہ عام خلق اللہ کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی نا جائز تکلیف نہیں دے گا۔ نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے۔

پنجم۔ یہ کہ ہر حال رنج اور راحت اور عُسراور یُسر اور نعمت اور بلا میں خدا تعالیٰ کے ساتھ وفا داری کرے گا اور بہر حالت راضی بقضاء ہوگا اور ہر ایک ذِلت اور دکھ کے قبول کرنے کے لئے اس کی راہ میں تیار رہے گا اور کسی مصیبت کے وارد ہونے پر اس سے منہ نہیں پھیرے گا بلکہ آ گے قدم بڑھائے گا۔

ششم۔ یہ کہ اتباعِ رسم اور متابعت ِہواوہوس سے باز آ جائے گا اور قرآن شریف کی حکومت کو بکلّی اپنے سر پر قبول کرے گا اور قَالَ اللّٰہ اور قَالَ الرسُول کو اپنے ہر یک راہ میں دستور العمل قرار دے گا۔

ہفتم۔ یہ کہ تکبر اور نخوت کو بکلی چھوڑ دے گا اور فروتنی اور عاجزی اور خوش خلقی اور حلیمی اور مسکینی سے زندگی بسر کرے گا۔

ہشتم۔ یہ کہ دین اور دین کی عزت اور ہمدردی اسلام کو اپنی جان اور اپنے مال اور اپنی عزت اور اپنی اولاد اور اپنے ہر یک عزیز سے زیادہ تر عزیز سمجھے گا۔

نہم۔ یہ کہ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض للہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خدادا طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا۔

دہم۔ یہ کہ اِس عاجز سے عقد اخوت محض لِلّٰه با قرار طاعت در معروف باندھ کر اس پر تا وقت مرگ قائم رہے گا اور اس عقد اخوت میں ایسا اعلیٰ درجہ کا ہوگا کہ اس کی نظیر دنیوی رشتوں اور تعلقوں اور تمام خادمانہ حالتوں میں پائی نه جاتی ہو۔

( اشتہار تکمیل تبلیغ 12 جنوری 1889ء)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو حقیقی معنوں میں اِن تمام نصائح پر عمل کرنے کی توفیق دے۔آمین

(ابوسعید)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 اگست 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 اگست 2021