• 24 اپریل, 2024

مشرقی افریقہ میں جماعت احمدیہ کا قیام اور جلسہ ہائے سالانہ کی مختصر تاریخ

مشرقی افریقہ

بنیادی طور پر مشرقی افریقہ تین بڑے ممالک پر مشتمل ہے جن میں کینیا، یوگنڈا اور تنزانیہ شامل ہیں۔ ان تینوں ممالک کے درمیان وکٹوریہ جھیل واقع ہےبرلن کانفرنس 1884ء کے بعد کینیا اور یوگنڈا برطانیہ کے تسلط میں اور ٹانگانیکا جرمنی کی کالونی بنا۔ ٹانگا نیکا پرجرمنوں کا راج 1919ء تک برقرار رہا۔ پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کی شکست کے بعد ٹانگانیکا بھی برٹش کالونی بن گیا۔ان ممالک کوساٹھ کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں برطانوی تسلط سے آزادی ملی۔

؎کبھی اس زمیں کا مقدر اندھیرے
تجارت غلاموں کی کرتے وڈیرے
یہاںBAGAMOY میں تھے ان کے ڈیرے
لُٹا حُ جب تو گئے سب لُٹیرے
مگر اب اُجالوں کے دن آگئے ہیں
مسیح کے غلاموں کے دن آگئے ہیں

مشرقی افریقہ میں جماعت احمدیہ کا قیام

1895ء میں برطانوی حکومت کی طرف سے یوگنڈا ریلوے کے عظیم منصوبے کا اعلان کیا گیا۔ اس کے تحت بحر ہند کے ساحل پر واقع کینیا کے شہر ممباسا سے لیکر یوگنڈا تک قریبا ایک ہزار کلو میٹرلمبی ریلوے لائن بچھا کر باقاعدہ ریل کا نظام جاری کرنا تھا۔ اس سلسلے میں ہُنر مند اور مزدور ذیادہ تر ہندوستان سے لائے گئے۔ قریبا 37000 ہندوستانی اس منصوبے کو شروع کرنے کے لئے کینیا لائے گئے۔ اس عظیم منصوبے کی نگرانی ایک تجربہ کار سول انجینئر George Whitehouse کے سپرد کی گئی جس نے 1896ء کے شروع میں اس پر کام کا آغاز کیا۔

کینیا

کینیا مشرقی افریقہ کا وہ خوش قسمت ملک ہے جہاں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام آپ کی زندگی میں ہی پہنچ گیا تھا اور متعدد جماعتیں قائم ہو گئیں۔ چنانچہ حضرت منشی محمد افضل صاحب، حضرت صوفی نبی بخش صاحب، حضرت میاں محمد عبداللہ صاحب رضی اللہ عنھم یوگنڈا ریلوے میں بھرتی ہو کر کینیا کی بندر گاہ ممباسا پہنچے۔ کچھ ہی عرصہ بعد حضرت ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحب گوڑیالوی (ملٹری میں) اور شیخ محمد بخش صاحب ساکن کڑیانوالہ، حضرت شیخ نور احمد صاحب جالندھری، حضرت شیخ حامدعلی صاحب، حضرت حافظ محمد اسحاق صاحب بھیروی اور ان کے بھائی حضرت میاں قطب الدین صاحب بھی یوگنڈا ریلوےکے ملازم کی حیثیت سے ممباسا وارد ہوئے اور اس طرح کینیا مشرقی افریقہ میں جماعت احمدیہ کی داغ بیل پڑی۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ ذَالِکَ۔

حضرت ڈاکٹر رحمت علی صاحب آف رنمل برٹش ملٹری میں کام کرتے تھے آپ مکرم ڈاکٹرمحمداسماعیل صاحب اور دیگر احمدیوں کی تبلیغ کے نتیجے میں احمدی ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُنہوں نے اپنے اندر ایسی پاک تبدیلی پیدا کی کہ اس سے متاثر ہو کر آپ کے سگے بھائی حافظ روشن علی صاحب بھی حلقہ بگوش احمدیت ہوگئے اور تاریخ میں حضرت علامہ حافظ روشن علی صاحب رضی اللہ عنہ کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ کے ذریعہ احمدیت قبول کرنے والوں میں حضرت پیر برکت علی صاحب بھی تھے۔

الحکم 10 اپریل 1901ء کے صفحہ 14 پر ممباسا کینیا کے مخلص احمدی احباب کی فہرست شائع ہوئی جس کے مطابق اس وقت جماعت ممباسا 50 احمدیوں پر مشتمل تھی۔

کینیا کا تعارف اور جلسہ سالانہ کی مختصر تاریخ

کینیا مشرقی افریقہ کا ایک اہم ملک ہے۔ اس کا کل رقبہ پانچ لاکھ اسی ہزار مربع کلو میٹر ہے۔ اس کے مشرق میں صومالیہ، مغرب میں یوگنڈا، جنوب میں تنزانیہ اور شمال میں ایتھوپیا واقع ہے اور جنوب مغرب میں 1500 میٹر بلند سطح مرتفع ہے۔ چونکہ خط استوا ملک کے وسط میں سے گزرتا ہے اس لئے سارا سال موسم خوشگوار رہتا ہے۔ اس وقت کینیا کی آبادی تقریبا ساڑھے چار کروڑ نفوس پرمشتمل ہے۔ کینیا کا بلند ترین پہاڑ ماؤنٹ کینیا ہے جس پر سارا سال برف جمی رہتی ہے۔ کینیا کا دارالحکومت نیروبی ہے۔

کینیا میں پہلے مرکزی مبلغ کا تقرر

تاریخ احمدیت میں 1934ء کا سال ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اس سال بدنام زمانہ دہشت گرد تنظیم مجلس احرار کی طرف سے جماعت احمدیہ کے خلاف ہندوستان کے طول و عرض میں فتنہ فساد کی ایک خطرناک لہر اُٹھی ہوئی تھی۔جماعت کو صفحہ ہستی کے مٹانےاورقادیان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے احمقانہ دعوے کئے جا رہے تھے۔ ان حالات میں جماعت احمدیہ کے دوسرے خلیفہ اولوالعزم امام نے اعلان کیا کہ دشمن ہمیں قادیان میں مارنا چاہتا ہے مگر میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ احمدیت کا پیغام دنیا کے کناروں تک پہنچا دیا جائے گا۔

؎ پھیلائیں گے صداقت اسلام کچھ بھی ہو
جائیں گے ہم جہاں بھی کہ جانا پڑے ہمیں
محمود کر کے چھوڑیں گے ہم حق کو آشکار
روئے زمیں کو خواہ ہلانا پڑے ہمیں

حضرت مصلح موعود ؓکی ولولہ انگیز قیادت اور دور اندیشی اور زبردست حکمت عملی کی وجہ سے احرار کی تحریک زمیں بوس ہوگئی اورجانثاران مسیح محمدی کا قافلہ برق رفتاری سے آگے بڑھنے لگا۔

؎ لُوٹنے نکلے تھے جو امن و سکُون بے کساں
خُود اُنہی کے لُٹ گئے حُسن و شباب زندگی

چنانچہ تحریک جدید کے نام سے ایک عظیم الشان عالمگیر تحریک کا آغاز کیا گیا۔ ان دنوں کینیا میں بھی جماعت کی مخالفت بڑی شدت سے جاری تھی۔ ہندوستان سے ایک بدزبان مولوی لال حسین اختر نے یہاں آکر ایک طوفان بدتمیزی برپا کیا ہوا تھا۔ اس صورت حال میں جماعت نیروبی نے حضرت مصلح موعودؓ سے مرکزی مبلغ کے تقرر کی درخواست کی۔ حضور نے مولانا شیخ مبارک احمد صاحب کا تقرر فرمایا۔ شیخ صاحب تعمیل ارشاد میں مؤرخہ 27 نومبر 1934ء کو پہلے مرکزی مبلغ کی حیثیت سے نیروبی پہنچے اور لال حسین اختر سے متعدد مناظرے کر کے اسے شکست فاش دی۔

؎یہ لعل و گہر احمدیت کے خادم
اُٹھا کر جو نکلے یہ ایماں کا پرچم
ہُوا لال اختر ذلیل اور نادم
مقابل پہ آیا نہ بلی گراہم
نگاہ طلب میں عجب بے بسی تھی
رُخ عجز پر آنسؤوں کی لڑی تھی

پس مشرقی افریقہ میں باقاعدہ تبلیغی مراکز کا قیام تحریک جدید کے ابتدائی پھلوں میں سے ایک پھل ہے۔

کینیا جماعت کا پہلا جلسہ سالانہ:

کینیا جماعت احمدیہ کا پہلا جلسہ سالانہ دسمبر 1957ء میں نیروبی میں منعقد ہوا۔ اس وقت مولانا عبدالکریم شرما صاحب امیر و مشنری انچارج تھے۔ اس جلسہ کی خاص بات یہ تھی کہ ممباسہ سے تعلق رکھنے والے ایک نو احمدی عرب حسین صالح بھی اس میں شامل ہوئے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی کینیا کے چالیسویں جلسہ سالانہ میں شرکت:

مؤرخہ27 اپریل تا 8 مئی 2005ء حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے کینیا کا دورہ فرمایا اوراس دوران کینیا کے دو روزہ چالیسوں جلسہ سالانہ میں بھی شرکت فرمائی۔ یہ جلسہ 28 اور 29 اپریل کو نیروبی میں منعقد ہوا۔ اس جلسہ کا انتظام مشن ہاؤس سے چندکلو میٹر پرواقع پارک لینڈ (PARK LAND) کے ایک سکول میں شامیانے لگا کر کیا گیا تھا۔ اس جلسہ کی کاروائی براہ راست ایم ٹی اے پر نشر کی گئی جو ایسٹ افریقہ کی تاریخ میں پہلا واقعہ تھا۔ اس جلسہ میں کینیا کے نائب صدر عزت مآب موڈی آووری نے بھی شرکت کی۔ اس جلسے کی حاضری سات ہزار کے قریب تھی۔ جلسے میں ایتھوپیا، بوٹسوانہ، کونگو، صومالیہ اور زمبابوے سے وفود نےبھی شرکت کی اور حضور انور سے ملاقات کا شرف حاصل کیا۔

جلسہ سالانہ میں حضور کا افتتاحی خطاب

حضور صبح گیارہ بجے جلسہ گاہ تشریف لائے۔ اس سے قبل حضور نے لوائے احمدیت لہرایا جبکہ امیر صاحب کینیا نے کینیا کا قومی پرچم لہرانے کی رسم ادا کی۔

تلاوت نظم اور نائب صدر کینیا کے خطاب کے بعد حضور انور نے خطاب فرمایا اور احباب جماعت کو حقوق اللہ اور حقوق العباد کی طرف توجہ دلائی۔ حضور نے نمازوں کی ادائیگی، ذکر الہٰی، والدین کا احترام، عزیز و اقارب اور رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنے کیطرف توجہ دلائی۔ حضور نے ملازمت پیشہ اور دوسرے کام کرنے والوں کو محنت اور دیانتداری سے اپنے فرائض کی ادائیگی کی تلقین کی۔ اسی طرح حضور نے خواتین کو بچوں کی تربیت کے سلسلہ میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے پر زور دیا۔ بچوں کی تعلیم کے سلسلہ میں حضور نے فرمایا کہ کوئی احمدی بچہ غربت کی وجہ سے تعلیم دے محروم نہیں رہے گا اور جماعت اس کا خیال رکھے گی۔

حضور انورکا اختتامی خطاب

حضور انور نے 29 اپریل کو نیروبی مسجد میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو جلسہ سالانہ کینیا کا اختتامی خطاب بھی تھا۔ خطبہ میں حضور نے سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 149 کی تلاوت فرمائی اور مسابقت الی الخیر کا مضمون نہایت دلکش انداز میں بیان فرمایا اور احباب جماعت کو نیکیوں سبقت لے جانے کی تلقین فرمائی خطبہ کے آخر پر حضور نے وفات پانے والے دو مرحومین مولانا محمد احمد جلیل صاحب اور اپنے بڑے بھائی مرزا ادریس احمد صاحب کا ذکر خیر فرمایا۔

کینیا کا آخری جلسہ سالانہ

کینیا کا آخری جلسہ جو منعقد ہوا وہ 2019ء کا ہے اور یہ جماعت کا 54 واں جلسہ سالانہ تھابعض سالوں میں ملکی حالات کی وجہ سےجلسے منعقد نہیں ہو سکے تھے اور کرونا وائرس کی عالمی وبا کے پیش نظر گزشتہ دو سال کے جلسوں کا انعقاد نہیں ہو سکا۔ ابتدا سے لے کر آخری جلسے تک کینیا کے تمام جلسے نیروبی میں ہوئے

یوگنڈا

؎ یہ رشک فلک ہے جمال آفریں ہے
یہ مہر درخشاں کی روشن جبیں ہے
اسے نہ کہو ظلمتوں کی زمیں ہے
اگر مجھ سے پوچھو تو خُلد بریں ہے
جو ظُلمت کے دن تھے بدلنے لگے ہیں
اندھیروں سے سورج اُبھرنے لگے ہیں

یوگنڈا مشرقی افریقہ کا ایک خوبصورت ملک ہے۔ اس کا کل رقبہ دو لاکھ اکتالیس ہزار مربع کلو میٹر ہے اور آبادی ساڑھے چار کروڑ افرادپر مشتمل ہے۔ اس کے مشرق میں کینیا، شمال میں سوڈان، جنوب میں تنزانیہ اور مغرب میں کونگو ہیں۔ یوگنڈا کا صدر مقام کمپالا ہے۔

یوگنڈا میں جماعت کا پیغام حضرت مسیح موعد علیہ السلام کے صحابہ کے ذریعہ 1896ء میں پہنچا جو یوگنڈا ریلوے کے منصوبے میں ملازمت کی غرض سے یہاں تعینات ہوئے۔ اس طرح جماعت کا قیام ان صحابہ کی تبلیغ کے نتیجے میں عمل میں آیا۔

جماعت کے پہلے باقاعدہ مبلغ کی آمد

مولانا شیخ مبارک احمد صاحب کو پورے مشرقی افریقہ کے مبلغ کے طور پر 1934ء میں نیروبی بھجوایا گیا تھا آپ نے کینیا کے ساتھ ساتھ یوگنڈا اور تنزانیہ کے بھی متعدد دورے کئے اور باقاعدہ جماعتیں قائم کیں۔ 1947ء میں مولانا نور الحق انور صاحب کی بطور مبلغ یوگنڈا آمد ہوئی آپ کی تبلیغ کے نتیجہ میں شیخ ابراہیم توفا صاحب نے بیعت کر کے یوگنڈا کے پہلے لوکل احمدی ہونے کا اعزازحاصل کیا۔ یوگنڈا میں جن مرکزی مبلغین نے کام کیا ان میں مولانا جلال الدین قمر صاحب، حافظ بشیرالدین عبید اللہ صاحب، صوفی محمد اسحاق صاحب، سعید احمد اظہر صاحب، سید منصور احمد بشیر صاحب، مولانا عبد العزیز وینس صاحب اور مولانا طاہر محمود چوہدری صاحب کے نام نمایاں ہیں۔

یوگنڈا میں جلسہ سالانہ کی مختصر تاریخ

پہلا جلسہ 1984ء میں کمپالا میں واقع جماعت کے سکول بشیر ہائی سکول کے کمپاؤنڈ میں منعقد ہوااس جلسہ میں کل 150 افراد نے شرکت کی۔ یہ جلسہ مکرم مولانا جلال الدین قمر کے دور امارت میں ہوا۔ افسر جلسہ سالانہ الحاج شعیب نسیراصاحب تھے۔

1985ء: محترم محمود بی ٹی صاحب کی امارت کے دوران اس سال جلسہ جنجہ شہر میں ہوا۔

1986ء اور 1987ء، 1988ء, 1989ء:ان چار سالوں میں بعض وجوہات کی بنا پر جلسہ نہیں ہوا۔

1990ء سے لیکر 2000ء تک کے تمام جلسہ ہائے سالانہ باقاعدگی سے کچھ کمپالا اور کچھ جنجہ میں منعقد ہوئے۔ خاکسار نے 1993ء سے لے کر 1998ء تک کا عرصہ امبالے یوگنڈا میں بطور ڈاکٹر انچارج احمدیہ میڈیکل ٹر میں گزارا اور اس دوران ہونے والے تمام جلسوں میں شرکت کی۔ یہ جلسے محترم عبد العزیز وینس صاحب مرحوم کی امارت میں اور بعد ازاں محترم طاہر محمود چوہدری صاحب کے دور امارت میں منعقد ہوئے۔ سالانہ جلسوں کا یہ سلسلہ اپنی تمام برکتوں اور فضل خداوندی کے ظہور کے نظارے لئے 2020ء تک جاری رہا۔ اس دوران 2005 میں وہ تاریخی جلسہ بھی منعقد ہوا جس میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس نے شرکت فرمائی۔

تاریخی جلسہ سالانہ یوگنڈا 2005

یوگنڈا کا یہ دو روزہ جلسہ سالانہ مؤرخہ 19 اور 20 مئی کو یوگنڈا کے خوبصورت شہر جنجہ میں منعقد ہوا۔ یہ شہر وکٹوریہ جھیل کے کنارےواقع ہے جہاں سے دریائے نیل کا آغاز ہوتا ہے جو یوگنڈا، سوڈان اور مصر سے ہوتا Mediterranean sea جا گرتا ہے

افتتاحی اجلاس سے حضور کا خطاب

حضور شام ساڑھے چار بجے جلسہ گاہ پہنچے۔ پرچم کشائی کی تقریب میں حضور انور نے لوائے احمدیت لہرایا اور یوگنڈا کا قومی پرچم امیریٰسین ربانی صاحب نے لہرایا۔ تلاوت اور نظم کے بعد حضورانور نے خطاب فرمایا اور سورۃ الزاریات کی آیت نمبر 57 کی تشریح کرتےہوئے انسانی پیدائش اور تخلیق کے مقصد کی پُر معادف تشریح حضورانور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت اور شکرگزاری کے لئے پیدا کیا ہے۔ اس ضمن میں حضورپُرنور نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات بھی پیش فرمائے۔ یہ خطاب ٹیلیفون کے ذریعہ براہ راست ایم ٹی اے پر نشر کیا گیا۔اس جلسہ میں ساڑھے چار ہزار احباب نے شرکت کی۔

جلسہ سے حضورانور کا اختتامی خطاب

مؤرخہ 20 مئی کو حضورانور نے جلسہ گاہ تشریف لا کر خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا اور ظہر اور عصر کی نمازیں جمع کر کے پڑھائیں

شام ساڑھے چار بجے حضورانور دوبارہ جلسہ گاہ تشریف لائے اور تلاوت ونظم کے بعد اختتامی خطاب فرمایا۔ اپنے خطاب میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے حقوق العباد اور نظام جماعت کی پابندی، اطاعت اور فرمانبرداری پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور آپس کے جھگڑوں سے بچنےکی تلقین کی۔خلافت اور نظام جماعت کی ہر حال میں پابندی کرنے اور جھوٹ سے بچنے کی نصیحت فرمائی۔

جلسہ سالانہ 2009ء (جلسہ گاہ کی تبدیلی)

جلسہ سالانہ میں شاملین کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر مکرم عنایت اللہ زاہد صاحب کے دور امارت میں فیصلہ کیا گیا کہ جلسہ کسی وسیع جگہ پر کیا جائے۔ چنانچہ کمپالا سے 15 کلو میٹر دور ایک چھوٹے سے شہر سیٹاکا انتخاب کیا گیا جہاں جماعت کے پاس ایک وسیع رقبہ موجود ہے اور اس جگہ جامعہ احمدیہ بھی قائم ہے۔ چنانچہ 2009ء سے لے کر 2020ء تک کے تمام جلسے سیٹا میں ہی منعقد ہوئے۔ عنایت اللہ زاہد صاحب کے بعد مکرم افضال احمد رؤوف صاحب امیر رہے اوران کے دور امارت کے تمام جلسے بھی سیٹامیں ہی ہوئے۔ 2016ء میں امارت جناب محمد علی کائرے صاحب کے سپرد ہوئی۔ آپ کے دور میں جلسہ سالانہ میں کافی وسعت پیداہوئی ہے۔ 2017ء میں جماعت احمدیہ یوگنڈا نے پندرہ میں سے تیرہ ریجنز میں اپنا جلسہ بڑی کامیابی سے منعقد کیا۔ اس نئے انتظامی فیصلے کی وجہ سے مرکزی جلسے میں حاضرین کی تعداد بھی یکدم بڑھ گئی اور 2018ء کے جلسہ میں شاملین کی تعداد 10,000 سے بھی تجاوزکر گئی۔ اس جلسہ میں 1083 غیر از جماعت مہمانوں نے بھی شرکت کی اور 103 افراد بیعت کر کے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں شامل ہوئے۔

یوگنڈا کا 32 واں جلسہ سالانہ 2020ء بمقام سیٹا

یہ جلسہ مؤرخہ 10 سے 12 جنوری بروز جمعہ، ہفتہ اور اتوار منعقد ہوا۔ اس جلسہ کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں امیر صاحب گھانا جناب محمد بن صالح صاحب، امیر صاحب تنزانیہ جناب طاہر محمود چوہدری صاحب اور امیر صاحب کینیا جناب طارق محمود ظفرصاحب نے بھی شرکت فرمائی اور جلسہ کے مختلف اجلاسوں کی صدارت بھی کی۔ تنزانیہ سے وفد کے ممبران کی تعداد 55 تھی۔ اس جلسہ میں شاملین کی تعداد12,315 ریکارڈ کی گئی۔ اپنے حسن انتظام کی وجہ سے یہ یوگنڈا جماعت کی تاریخ کے بہترین جلسوں میں شمارکیا جاتا ہے۔اس جلسہ میں 93 افراد بیعت کر کے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں شامل ہوئے۔

جلسہ گاہ کی تبدیلی کا نیا منصوبہ

جلسہ سالانہ کی بڑھتی ہوئی حاضری کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ آئندہ جلسے کمپالا سے 70 کلو میٹر دور جماعت کے ایک وسیع رقبےپر منعقد ہوں گے۔ یہ زرعی زمین جس کا نام ربوہ رکھا گیا ہے قریبا پچھلے تیس سال سے جماعت کے پاس ہے اور یہاں مختلف پراجیکٹس پر کام ہو رہا ہے۔

تنزانیہ

؎یہ تنزانیہ سبزہ زاروں کا مسکن
نگاہوں میں ٹھہری بہاروں کا مسکن
رہ عشق میں جانثاروں کا مسکن
یہ امری عبیدی سے تاروں کا مسکن
ہے دارالسلام اس کے ماتھے کا جُھومر
جسے دیکھنے کو ترستے ہیں اکثر

تنزانیہ کا پرانا نام ٹانگا نیکا تھا۔ مشرقی افریقہ کے دوسرے دو ممالک کینیا اور یوگنڈا کے ساتھ اسے 1961ء میں برطانوی تسلط سے آزادی ملی۔ دارالسلام سب سے بڑا اور تجارتی مرکز ہے۔ تنزانیہ کا دارلحکومت ڈوڈوما ہے۔ دارالسلام سے 120 کلو میٹر دور بحرہند میں واقع ایک مشہور جزیرہ زنجبار ہے۔ یہ جزیرہ 1963ء میں برطانیہ سے آزاد ہوا۔ 1964ء میں ٹانگا نیکا اور زنجبار کا الحاق ہوگیا اور اس نئے ملک کا نام تنزانیہ رکھا گیا۔ خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے اس ملک کا نام ایک احمدی طالب علم محمد اقبال ڈار صاحب نے رکھا۔

(TANGANYIKA) اور (ZANZIBAR) کے پہلے تین تین حروف لئےاپنے نام اقبال کا پہلا حرف ’’آئی‘‘ اور احمدیہ کا پہلا حرف ’’اے‘‘ لیا۔ اس طرح تنزانیہ کا نام بنا۔

تنزانیہ کا کل رقبہ 947,303 مربع کلو میٹر ہے۔ اس کے شمال میں یوگنڈا، شمال مشرق میں کینیا، مشرق میں بحر ہند، جنوب میں موزمبیق اور ملاوی جبکہ کونگو مغرب میں واقع ہے۔

تنزانیہ کی آبادی قریبا ساڑھے پانچ کروڑ ہے۔ عیسائی 60% جبکہ مسلمان 40% ہیں (گو کہ اس میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے) تنزانیہ میں دنیا کا سب سے بڑا نیشنل پارک (سیرنگیٹی) بھی ہے اور افریقہ کا بلند ترین پہاڑ (کیلمنجارو) ہے جس پر گلیشئر موجود ہے۔ دنیا بھر سے سیاحوں کی بڑی تعداد اسے دیکھنے آتی ہے۔

تنزانیہ میں جماعت احمدیہ کا قیام

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کی مشرقی افریقہ میں آمد کا سال 1896ء ہے۔ اگرچہ یہ صحابہ کینیا کے ساحلی شہر ممباسہ میں وارد ہوئے مگر ان کی تبلیغی مساعی کے نتیجے میں یوگنڈا اور ٹانگانیکا میں بھی احمدیت کا نفوذ ہوا۔ دارالسلام، ٹبورہ اور زنجبار میں احمدی جماعتیں بھی قائم ہو گئیں مگر یہ تمام احمدی ہندوستانی اوریجن تھے۔ مقامی افریقن باشندوں میں 1936ء تک جماعت کا پھیلاؤ نہ ہو سکاتھا۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چُکا ہے کہ کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں جماعت کی شدید مخالفت کے پیش نظر جماعت کینیا کی درخواست پر حضرت مصلح موعودؓ نے محترم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب کو مشرقی افریقہ کے پہلے مرکزی مبلغ کے طور پر نیروبی بھجوایا۔ غالباً 1935ء کے آخر یا 1936ء کے شروع میں آپ نیروبی سے ٹانگانیکا کے شہر ٹبورہ تشریف لائے اور کچھ ماہ قیام کیا۔ ٹبورہ میں شیخ صاحب کی تبلیغ کے نتیجے میں احمدیت مقامی افریقن باشندوں میں پھیلنا شروع ہوئی۔ مکرم سلیمان کاگونجو جن کا تعلق ’’بوکوبا‘‘ سے تھا احمدی ہونے والے پہلے فرد تھے۔ ابتدائی احمدیوں میں مکرم امری عبیدی صاحب کا نام بھی شامل ہے جو نومبر 1936ء میں احمدی ہوئے جب وہ ایک طالب علم تھے۔ بعد ازاں مزید مرکزی مبلغین کی آمد سے ٹانگا نیکا کے مختلف شہروں میں جماعتوں کا قیام عمل میں آیا۔ 1961ء میں ٹانگا نیکا کو آزادی ملی تو اس نئے آزاد ملک (تنزانیہ) کے لئے مولانا محمد منور صاحب کو امیر ومبلغ انچارج بنایا گیا۔ جغرافیائی اور انتظامی طور پر تنزانیہ کو اکتیس صوبوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰٰ کے فضل سے ان سب صوبوں میں مضبوط، مخلص اور فعال جماعتیں قائم ہیں۔ مولانا شیخ مبارک احمد صاحب کے ساتھ اور بعد میں جن مرکزی مبلغین نے کام کیا ان میں سے چند کے نام یہ ہیں: مولانا محمد منور صاحب، مولانا عنایت اللہ احمدی صاحب، مولانا عبدالکریم شرماصاحب، مولانا جلال الدین قمر صاحب۔ مولانا فضل الہٰی بشیر صاحب،مولانا جمیل الرحمٰن رفیق صاحب، وسیم احمد چیمہ صاحب۔

؎ٹبورہ، نیروبی، کمپالا صدا دیں
یہاں نقش ہیں شیخ صاحب کی یادیں
جلال و جمیل و منور کی باتیں
کہیں شیخ شرما کے دل کی مرادیں
ادھر تھے عنایت و فضل الہٰی
تو جنجہ میں منصور و اسحاق صوفی

تنزانیہ میں جلسہ سالانہ کی مختصر تاریخ

تنزانیہ کا پہلا جلسہ سالانہ مولانا محمد منور صاحب کی امارت میں 1969ء کو مسجد سلام دارالسلام میں ہوا۔ اس جلسہ میں پچاس افراد نےشمولیت کی۔ چونکہ تنزانیہ رقبے کے لحاظ سے بہت وسیع ملک ہے اور غربت کی وجہ سے دور دراز کے علاقوں سے دارالسلام آنا بہت مشکل ہے اس لئے فیصلہ کیا گیا کہ آئندہ جلسہ سالانہ مختلف صوبوں میں منعقد کیا جائے گا تا کہ جماعت کے تمام افراد جلسہ کی برکات سے فائدہ اُٹھا سکیں۔

جلسہ RUFIGI
(1974ء)

یہ جلسہ سالانہ تنزانیہ کے ریجن روفیجی میں منعقد ہوا۔ اس جلسہ میں ایک غیر از جماعت نے چاقو سے مولانا جمیل الرحمان رفیق امیر و مشنری انچارج پر قاتلانہ حملہ کرنے کی کوشش کی مگر احباب جماعت نے یہ کوشش ناکام بنا دی۔ اس کے بعد سے جلسہ کی سیکورٹی پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔

ٹبوراریجن کا جلسہ 1980ء۔ قبولیت دعا کے نتیجے میں بارش کا نشان

ٹبور اکو مشرقی افریقہ کی تاریخ احمدیت میں خاص اہمیت حاصل ہے۔ مکرم شیخ مبارک احمد صاحب رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ نے نیروبی سے ٹانگانیکا آکر یہاں مشن ہاؤس قائم کیا اور منظم تبلیغی کوششوں کے نتیجہ میں کثرت سے لوکل افریقنوں تک احمدیت کا پیغام پہنچایا اور جماعتیں قائم کیں۔ 1944ء میں یہاں بڑی خوبصورت مسجد تعمیر ہوئی (مسجد فضل)۔ جماعت کی طرف سے یہاں ایک سکول بھی کھولا گیا۔ مولانا عنایت اللہ احمدی صاحب نے بھی لمبا عرصہ یہاں خدمات سر انجام دیں۔ ٹبورا میں احمدیہ پرنٹنگ پریس بھی قائم کیا گیا جس میں جماعت کا مشہور سواحیلی اخبار ’’ماپینزی یا منگو‘‘ شائع ہونا شروع ہوا۔

1980ء کا جلسہ سالانہ ٹبورا میں منعقد ہوا۔ اس سال تنزانیہ میں بارش نہ ہونے کی وجہ سے قحط سالی تھی۔ شاملین جلسہ کو خوراک اور پانی کے حصول کے لئے سخت مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ پہلے روز پانی ایک غیر از جماعت کے کنویں سے لیا گیا مگر لوگوں کی کثرت دیکھ کر کنوئیں کے مالک نے پانی دینے سے انکار کر دیا۔ صورت حال بہت تشویشناک تھی۔ جلسہ سالانہ میں شامل مسیح موعودعلیہ السلام کے مہمان پانی کی تلاش میں ادھر ادھر پھرتے رہے مگر سب نے پانی دینے سے انکار کر دیا۔ اس نازک صورت حال میں امیر صاحب مکرم جمیل الرحمٰن رفیق صاحب نے احباب جماعت کو اکٹھا کیا اور بارش کے لئے اجتماعی دعا کروائی۔ یہ پرسوزدعا چالیس منٹ تک جاری رہی۔ رات کا وقت تھا یکدم بادل نمودار ہوئے اور اس شدت سے باران رحمت برسا کہ تمام کنوئیں پانی سے بھر گئے اور وہ لوگ جنہوں نے عشاقان مسیح موعود علیہ السلام کا پانی بند کیا تھا خود چل کر آئے کہ ان کے کنوئوں سے پانی لے لیا جائے۔ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ۔

اس کے بعد متعدد جلسہ ہائے سالانہ تنزانیہ مختلف ریجنز میں ہوتے رہے۔ خاکسار نے ستمبر 1999ء کے آخری ہفتے میں تنزانیہ پہنچ کر احمدیہ میڈیکل ٹر موروگورو کا چارج لیا تھا۔ چنانچہ پچھلے اکیس سال کے قریباً تمام جلسوں میں شرکت کا موقع ملا۔ سوائے 2003ء کے جلسےکے جو محترم فیض احمد زاہد صاحب کے دور امارت میں موروگورو میں ہوا باقی تمام جلسے دارالسلام میں ہی ہوئے۔

جلسہ سالانہ کے لئے مستقل جگہ کی خرید

جلسہ سالانہ میں شاملین کی تعداد بڑھنے کی وجہ سے جلسہ کا انعقاد مسجد سلام میں ہونا ممکن نہ رہا۔ اس کے لئے ہر سال موزوں جگہ کی تلاش کی جاتی اور بھاری رقوم دے کر چند روز کے لئے کرایہ پر جگہ حاصل کر کے جلسہ منعقد کیا جاتا۔ محترم مظفر احمد درانی صاحب کے دور امارت میں جلسے مسجد سے ملحقہ نازی موجا گراؤنڈ میں ہوتے رہے۔ 2002ء کے جلسہ سالانہ میں نائب صدر مملکت ڈاکٹر علی محمد شین نے شرکت کی۔ 2004ء کا جلسہ مکرم فیض احمدصاحب کے دور میں ’’سابا سابا‘‘ گراؤنڈ کے ہال میں ہوا جس میں تنزانیہ کے وزیر اعظم فریڈرک سمیا نے شرکت کی۔ ان جلسوں کے لئے جگہ کے حصول کے لئے ہر سال بہت مشکل پیش آتی۔ بعض دفعہ جلسہ سے چند روز قبل انکار کر دیا جاتا اور اجازت کے حصول کے لئے متعلقہ حکام کے دفاتر کے چکر لگانے پڑتے۔ یہ بہت تکلیف دہ صورت حال تھی۔ 2005ء میں محترم علی سعیدموسے (تنزانین) امیر مقرر کئے گئے۔۔ آپ کے دور میں مسجد سلام سے 35 کلو میٹر دور قریباً چالیس ایکڑ رقبہ خریدا گیا۔ اس علاقے کا نام ’’کیٹونگا‘‘ ہے 2007ء سے لے کر اب تک کے تمام جلسہ سالانہ اس جگہ منعقد ہوئے۔ اس طرح ہر سال کی شدید ذہنی اذیت اور بھاری رقوم جو کرایہ میں دی جاتی تھیں ان کی بچت ہوگئی۔

2005ء کا تاریخی جلسہ اور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی جلسہ میں شرکت

اگرچہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے 1988ء میں تنزانیہ کا دورہ فرمایا تھا اور یہ کسی بھی خلیفہ کا پہلا دورہ تھا جو سر زمین تنزانیہ کے لئے برکت کا موجب ہوا۔ لیکن حضورؒ کے اس دورہ میں سالانہ جلسہ کا انعقاد پروگرام میں شامل نہیں تھا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس اید ہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 8 مئی تا 17 مئی 2005ء تنزانیہ کا دورہ فرمایا اور جلسہ سالانہ میں تین خطابات فرمائے۔ یہ جماعت احمدیہ تنزانیہ کا 37 واں جلسہ سالانہ تھا۔ اس جلسہ کا انعقاد نازی موجا گراؤنڈ میں کیا گیا تھا اور مرد اورخواتین کےلیے دو علیحدہ علیحدہ مارکیاں لگائی گئیں تھیں۔

افتتاحی خطاب

حضورانور نے صبح دس بجے جلسہ گاہ سے باہر لوائے احمدیت اور امیر صاحب تنزانیہ نے قومی پرچم لہرایا۔

تلاوت اور نظم کے بعد حضورانور نے انگریزی میں خطاب فرمایا جس کا رواں ترجمہ علی سعید موسے صاحب نے کیا۔ حضورانور نے اپنےخطاب میں تقوٰی اختیار کرنے اور اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنے کی تلقین فرمائی۔ افراد جماعت کو آپس میں اتحاد اور محبت سے رہنے کی نصیحت فرمائی۔ اس ضمن میں حضورانور نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے چند اقتباسات بھی پڑھ سنائے۔

اس جلسہ میں ملاوی۔ برونڈی کے علاوہ زیمبیا سے 48 افراد کا قافلہ زیمبیا کے امیر مکرم طاہر محمود چوہدری صاحب کی قیادت میں جلسہ میں شریک ہوا۔

جلسہ کا دوسرا اور آخری روز

مؤرخہ 10 مئی کو صبح دس بجے حضورانور نے لجنہ اماء اللہ سے ان کی مارکی میں خطاب فرمایا۔ حضورانور نے سورۃ الممتحنہ کی آیت نمبر13 کی تلاوت فرمائی اور اس میں بہت اعلیٰ صفات کی حامل عورتوں کی خصوصیات بیان فرمائیں۔ نیز حضورانور نے عورتوں کو بچوں کی اچھی تربیت کرنے کی طرف خصوصی توجہ دلائی۔

خواتین کے اس جلسہ اور خطاب کی خاص بات یہ تھی کہ یہ خطاب شدید بارش میں ہوا جبکہ جلسہ گاہ پانی سے بھر گیا اور شامیانےٹپکنے لگے مگر عشق و فدائیت اور انہماک اور محبت خلافت کی وجہ سے ایک بھی عورت اپنی جگہ سے نہ ہلی۔ حضور انور نے بھی اس نظارے کو محسوس کیا اور بعد میں کئی مواقع پر اس کا بہت عمدہ رنگ میں ذکر فرمایا۔

اختتامی خطاب

جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ اس روز رات بھر اور صبح سے لگاتار شدید بارش کے باعث جلسہ گاہ پانی سے بھر گیا اور عملاً جلسہ کا انعقاد ناممکن ہوگیا۔ چنانچہ ہنگامی طور پر اسماعیلی کمیونٹی کا ہال کرایہ پر حاصل کیا گیا اور حضورانور کا اختتامی خطاب اس ہال میں ہوا۔ اس اختتامی اجلاس کی حاضری دس ہزار تھی۔ انتہائی خراب موسم کے باوجود جس جذبے اورشوق سے افراد جماعت نے اس اختتامی اجلاس میں شرکت کی وہ سب کے لئے حیران کن بات تھی

تلاوت اور نظم کے بعد حضرت اقدس نے احباب جماعت کو فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرَاتِ کے حوالے سے نیکیوں میں سبقت لے جانے کی تلقین فرمائی۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حدیث ’’اَلْحِکْمَۃُ ضَآلَّۃُ الْمُؤْمِنِ‘‘ کی پُر معارف تشریح فرمائی۔ حضورانور نے دعوت الی اللہ پر زور دیا اور حدیث ’’حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْاِیْمَانِ‘‘ کے مطابق تنزانیہ کے احمدیوں کو اپنے وطن سے محبت کرنے اور محنت سے کام کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ اس جلسہ میں 255 افراد بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے الحمد للّٰہ۔

تنزانیہ جماعت کا پچاسواں جلسہ سالانہ

جماعت احمدیہ تنزانیہ کا پچاسواں جلسہ سالانہ مؤرخہ 27 تا 29 ستمبر 2019ء کو جماعت کے اپنے ملکیتی رقبہ ’’کیٹونگا‘‘ میں محترم طاہر محمود چوہدری صاحب امیر و مبلغ انچارج کی قیادت میں منعقد ہوا۔ اس جلسہ میں شاملین کی تعداد سات ہزار تھی۔ کینیا، یوگنڈا اورپاکستان سے وفود نے شرکت کی۔ سابق امیر تنزانیہ مکرم مظفر احمد درانی صاحب نےمع اپنی اہلیہ صاحبہ نے اس جلسہ میں شرکت کی۔ اس جلسہ میں مجلس خدام الاحمدیہ نے خون کی 112 بوتلیں نیشنل بلڈ بنک کو مہیا کیں۔

کرونا کی عالمی وبا کی وجہ سے 2020ء میں جلسہ کا انعقاد نہیں ہو سکا تھا۔

خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے مشرقی افریقہ میں جماعت مضبوط بنیادوں پر قائم ہو چکی ہے اور تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ الحمد للہ

؎ جو اب آ کے دیکھیں کمال آگیا ہے
رُخ احمدی پر جمال آگیا ہے
محبت میں رنگ بلال آگیا ہے
عَدُوّ کی انا کو زوال آ گیا ہے
اُٹھایا گیا فرق سب من و تُو کا
حوالہ بدلنے لگا رنگ و بُو کا
نگاہوں میں رنگ آتے جاتے رہیں گے
مئے عشق پیتے پلاتے رہیں گے
محبت کے نغمات گاتے رہیں گے
سردار ہم مسکراتے رہیں گے
نگاہوں سے چلمن اُٹھا کر تو دیکھو
کبھی موروگورو میں آکر تو دیکھو

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے وہ مسیح موعود علیہ السلام کے عشاق اور خدمت گزاروں کی روح القدس سے مدد فرمائے اور اس سر زمین کواسلام اور احمدیت کے نور سے منور کرے آمین

(ڈاکٹر فضل الرحمٰن بشیر۔ تنزانیہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 اگست 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 اگست 2021