• 26 اپریل, 2024

جلسہ سالانہ کے ثمرات

؎ آؤ لوگو کہ یہیں نورِ خُدا پاؤ گے
لو تمہیں طور تسلّی کا بتایا ہم نے

اَلَّذِیۡنَ یَذۡکُرُوۡنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّ قُعُوۡدًا وَّ عَلٰی جُنُوۡبِہِمۡ وَ یَتَفَکَّرُوۡنَ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقۡتَ ہٰذَا بَاطِلًا ۚ سُبۡحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ﴿۱۹۲﴾

(اٰلِ عمران : 192)

(ترجمہ) وہ (عقل مند) جو کھڑے اور بیٹھے اور اپنے پہلوؤں پر اللہ کو یاد کرتے (رہتے) ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش کے بارے میں غور و فکر سے کام لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب تو نے اس (عالم) کو بے فائدہ نہیں پیدا کیا تو (ایسے بے مقصد کام کرنے سے) پاک ہے ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے۔

اجتماعی شکل میں قیام و قعود جو محض للّٰہی رضا جوئی کے لئے ہو وقت کا بہترین مصرف اور عذاب ِالٰہی سے ڈھال ہے۔ جلسہ سالانہ اجتماعی ذکرِ الٰہی کا ایک روح پرور اور وجد آ فریں نمونہ پیش کرتا ہے۔ رات کے پچھلے پہر کی رحمت بار فضاؤں میں دسمبر کی شدید سردی میں فر زانے اپنے گرم بستر چھوڑ کر کم عمر بچوں کو ساتھ لے کر نماز تہجد کے لئے مساجد اور جلسہ گاہ کی طرف رواں ہو جاتے ہیں۔ قرآنی دعاؤں اور درود و سلام کی دھیمی دھیمی آ وازیں تیز تیز اُ ٹھتے ہوئے قدموں کی چاپ کے ساتھ مل کر عجیب سماں پیدا کرتی ہیں فر شتے نور کی بارش بر ساتے ہیں۔ ساری بستی اذانوں کی دلکش آ وازوں سے گونجنے لگتی ہے۔ آسمان کی وسعتو ں تک فضاؤں میں تموج پیدا ہوتا ہے۔ خلیفۂ وقت کی اقتداء میں باجماعت نمازیں ادا ہوتی ہیں۔ درس القرآن کا دور چلتا ہے۔ دن رات ذکر الٰہی اور ذکر ِ رسول حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ سے منور ہوتے ہیں۔ تین دن کا روحانی ریفر یشر کورس لقائے الٰہی کے حصول کی راہوں کو روشن کرتا ہے۔

حضرت مُصلح موعودؓ کا ارشادِگرامی ہے:
’’انفرادی طور پر اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے اور اس کے ذِکر کو بلند کرنے کی مثالیں تو ہر جگہ مل جاتی ہیں مگر اتنی کثرت کے ساتھ جماعتی رنگ میں اللہ تعالیٰ کی خاطر اور اسلام کے نام کو بلند کرنے کے لئے جمع ہونے کی مثال اور کہیں نہیں مل سکتی‘‘

(المصلح یکم جنوری 1955ء)

حضرت اقدس محمد ﷺ کی درجِ ذیل حدیث ہمارے لئے ’بفضلِ الہٰی‘ بڑی خوشخبری ہے کہا جا سکتا ہے کہ اس حدیث مبارکہ کے مصداق جماعت احمدیہ کے جلسے اور اجتماعات ہی ہیں۔

لَایَقْعُدُ قَوْمٌ یَّذْ کُرُوْنَ اللّٰہَ اِلَّا حَفَّتْھُمُ الْمَلٰٓئِکَةُ وَغَشِیَتْھُمُ الرَّحْمَةُ وَ نَزَلَتْ عَلَیْھِمُ السَّکِیْنَةُ وَذَکَرَ ھُمُ اللّٰہُ فِیْمَنْ عِنْدَہٗ۔

(صحیح مسلم)

(ترجمہ) جو جماعت ذکر الٰہی کے لئے جمع ہوتی ہے ان پر فر شتے آسمان سے نازل ہو کران کو اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں او ر اس میں شرکت کرنے والے (خوش نصیبوں) کے گرد ا گرد آ جاتے ہیں۔ اللہ کی رحمت اُن (خوش نصیبوں) پر چھا جاتی ہے اور سکینت ان پر نازل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ خوش ہو کر ان کا ذکر اپنے فرشتوں سے کرتا ہے۔

جماعتی طور پر روحانیت اور تقوی ٰکے معیار میں بلندی کے حصول کے لئے جلسہ سالانہ اَنْ گنت بر کات کا حامل ہے سب سے بڑا ثمر مامور من اللہ کی دعائیں ہیں۔ مامور خدائی حکم کے تحت مانگتا ہے اور جو دعائیں خدائی حکم کے تحت مانگی جائیں وہ پہلے سے ہی مقبول ہوتی ہیں اور دائمی اثرات کی حامل ہوتی ہیں۔ وہ انقلاب آ فریں ہوتی ہیں اور متبعین کو فائزالمرام کر دیتی ہیں۔ نسلاً بعد نسلٍ اپنی آنکھوں سے دعاؤں کی قبولیت دیکھتے ہوئے فدائیان ِ احمدیت اپنے ایمان میں تازگی محسوس کرتے ہیں جو بیج امام آ خر زماں کے ہاتھوں بوئے گئے آج سدا بہار باغ کی طرح ثمر دار ہیں۔ جماعت کی بتدریج ترقی اُ سی فانی فی اللہ کی دعاؤں کا معجزہ ہے۔

جلسہ سالانہ کے موقع پر افتتاحی اور اختتامی دعا کے علاوہ بھی بہت سے مواقع مل کر دعا کرنے کے میسّر آتے ہیں۔ لاکھوں کے مجمع میں کوئی دین کی ترقی،کوئی عاقبت کی خیر،کوئی بچوں کی کامیابی، کوئی بیماروں کی صحت، کوئی اولاد، کوئی دیگر مشکلات کےحل کے لئے دعا مانگ رہا ہوتا ہے۔ یہ ساری دعائیں مل کر عرش پر جاتی ہیں تو دعائیں سننے والا خدا قبولیت کے در کھول دیتا ہے پھر ان مانگنے والوں کی الگ الگ دعا ہر ایک کے حق میں قبول ہو جاتی ہے۔

اِن دعاؤں سے زندہ احباب ہی فائدہ نہیں اٹھاتے بلکہ فیضان کی یہ جاری و ساری نہر وفات یافتگان کو بھی سیراب کرتی اور اُن کی بلندی درجات کا باعث بنتی ہے۔ جلسوں میں معمولاً دورانِ سال وفات پانے والوں کے لئے دعا ہوتی ہے۔ بہشتی مقبرہ میں غیر معمولی د عاؤں کے سیلاب کا بہاؤ رہتا ہے۔ افراد روزانہ ان مقابر کی زیارت اور دعا کے لئے جوق در جوق آتے ہیں۔ اُن کے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَآ اَہْلَ الْقُبُوْرِ میں ہر وفات یافتہ بلا تخصیص شامل ہوتا ہے۔ آنحضور ؐ کا قبرستانوں میں جاتے رہنے کا ارشاد صحیح معنوں میں یہیں تعمیل پذیر ہوتا ہے۔ بہشتی مقبرہ قادیان اور ربوہ پُر درد دعاؤں سے مہکتا رہتا ہے۔ فضائیں کسی اور ہی پُرسکون جہاں کا نظارہ پیش کرتی ہیں۔ یہی کشش کشاں کشاں زائرین کا ہجوم مجمتع رکھتی ہے۔ لوگ دوران سال وفات پانے والوں کے اعزاء سے مل کر اُن کا دُکھ بانٹتے ہیں اور دیگر مسائل کے حل میں مدد دیتے ہیں۔

باہمی تعارف، میل ملاقات، خلا ملا، علیک سلیک اور دیدوادید سے للّهی محبت کے نظاروں کا ایک نیا جہاں آباد ہوجاتا ہے جس کی بنیادیں ٹھیٹھ دینی اقدار و روایات پر استوار ہیں۔ تفرقوں عناد اور نفرتوں کے بواعث اپنی موت آپ مرنے لگتے ہیں۔ احمدیت کی چھاپ زمین کے ہر حصے،کنارے میں بسنے والوں پر ایک سی ہوتی ہے۔

مرکز میں مشرق مغرب شمال جنوب سے آنے والے ایک خاندان کی طرح رہتے ہیں۔ رنگ و نسل کے امتیازات مسیحِ وقت کی چھتری کے نیچے آنے سے کم ہوتے ہوئے معدوم ہو گئے۔ سب کا رُخ تقویٰ کی طرف مُڑ گیا ہے۔ چشمِ تصور آنے والے یک رنگ دینی معاشرے کی جھلک جلسہ ہائے سالانہ پر دیکھی جا سکتی ہے۔ مرکز سے تربیت یافتہ مربیان زمین کے کناروں تک پہنچتے ہیں مگر وہ اتنی تعداد میں نہیں ہوتے کہ ہر ملک میں پہنچ کر اُن کو اسلامی معاشرے کا اصل نمونہ دکھا سکیں۔ جلسہ سالانہ کی شکل میں ایسا انتظام ہو گیا ہے کہ مختلف نسلوں، رنگوں، قومیتوں اور تہذیبوں سے تعلق رکھنے والے احباب اپنے اپنے ملکی لباس، بولیوں اور شکل و شباہت کے ساتھ مرکز میں آئیں اور بچشم خود دیکھیں کہ الٰہی جماعتیں کیسی ہوتی ہیں پھر یہ طیور اُڑ کر واپس اپنے مساکن میں جائیں تو ایسی خو شبو ساتھ لے جائیں جو اُن کا ماحول معطر کرتی رہے۔ خدا تعالیٰ کی محبت میں اس طرح یکجا ہونے سے یکرنگ،یک رُخ اوریک جہت معاشرہ جنم لیتا ہے۔ پُرانے تربیت یافتہ افراد کی تر بیت اور صحبت سے نو واردان شعوری اور غیر شعوری طور پر بہت کچھ سیکھ لیتے ہیں۔ اُن بزرگوں سے ملتے ہیں جن کے کارناموں کے متعلق کبھی سُنا یا پڑھا ہوتا ہے۔ آغوش احمدیت میں ایک سی اقدار نمو پاتی ہیں اور جماعت روحانی لحاظ سے سیسہ پلائی دیوار کی طرح مضبوط و مستحکم ہوتی ہے۔ نئے سماجی تعلقات جنم لیتے ہیں، نئے رشتے ناتے استوار ہوتے ہیں۔ جلسہ سالانہ کے موقع پر کثیر تعداد میں نکاح شادیاں برکات کا نیا باب کھولتی ہیں۔

سالانہ جلسوں میں مستقبل میں جہاں بانی کی تربیت ملتی ہے، نو نہالانِ جماعت پختہ عمر تنظیموں کے ساتھ مل کر فراہمی آب و دانہ کا کام کرتے ہوئے نئے نئے تجربات سے گزرتے ہیں۔ مہمانوں کی خدمت کا شوق پیدا ہوتا ہے یہ چھوٹی چھوٹی خدمات مستقبل کے معماروں کی تر بیت میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ننھے فر شتے پانی کے گلاس لے کر پیاسوں کو پانی پلا کر خوش ہوتے ہیں اور بہت دعائیں لیتے ہیں۔

مرا کز سلسلہ کی ترقی اور اہل مراکز کی تربیت میں جلسے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ درِ دل وا کئے مقدور بھر درودیوارسجائے جاتے ہیں۔ شوق اور اہتمام کے ساتھ مہمانا نِ جلسہ کی خاطر مدارات کے لیے چشمِ براہ رہتے ہیں۔ بستر،لحاف،چادر، تکیہ، تولیہ کی تیاری ہو یا چائے کی پتی، چینی،دالیں،مسالے جمع کئے جارہے ہوں کمروں میں گنجائش نکالی جا رہی ہو مقصد صرف مہمانوں کو آرام دینا ہوتا ہے کیونکہ میزبان اور مہمان دونوں مسیح ِ دوراں ؑ کے حوالے سے ہر کام ثواب کی نیت سے کرتے ہیں۔ میزبان خود تکلیف اٹھا کر آرام پہنچانا عین راحت محسوس کرتے ہیں اور مہمان اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ کچھ کمی بیشی بھی ہو تو برداشت کرلیں۔ جس کے گھر زیادہ مہمان ٹھہرے ہوں وہ خود کو خوش نصیب سمجھتا ہے۔ اور جس گھر میں مہمان نہ ٹھہریں اُسے کوفت ہوتی ہے۔ اہل مراکز کی شہری حقوق کے شعور civic sense کی بھی تر بیت ہوتی ہے۔ گلی محلوں کی صفائی اور ٹریفک کنٹرول کا کام نوجوان ذوق و شوق سے کرتے ہیں۔ اجتماعی طور پر رضا کارانہ کام کرنے کی اتنی وسیع مثال روئے زمین پر اور کہیں نہیں ملتی۔ شہر کی رونقوں اور عام ماحول میں خوشگوار تبدیلی مرکز کو مزید پُر وقار بناتی ہے۔ گلی کوچوں سے محبت ہوتی ہے۔

عام ماحول کے ذکر میں پرالی سے لدے اونٹوں اور ریڑھوں کی یاد آتی ہے اور گندم پیسنے والی چکی کی مسلسل آواز جو تقریروں کی ریکارڈنگ میں بھی محفوظ ہوچکی ہے لنگر خانوں میں دیگوں کی آوازیں اور تازہ روٹیاں بننے کی خوشبو ایک سماں باندھ دیتی ہے۔ یہاں جسمانی مائدہ کی تیاری ہے دوسری طرف علمائے کرام شبانہ روز بہترین علمی مضامین کی تیاری میں مگن نئے سے نئے زاویوں سے دلائل کھوجتے ہیں۔

ایسے مقامات جہاں سیاحوں کی کثرت سے آ مدورفت ہو بڑے بڑے تجارتی مراکز بن جاتے ہیں۔ جلسہ سالانہ کا ایک ثمر یہ بھی ہے کہ مہمانان گرامی کی آمد سے ملک ملک کی اشیاء سے اہل مرکز کا ملکی مصنوعات کا بیرون ملک سے آنے والے مہمانوں سے تعارف ہوتا ہے۔ جس سے ملک کا نام روشن ہوتا ہے۔ بازاروں کی چہل پہل میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ خوشی کی بات یہ بھی ہے کہ ماحول عام دنیاوی بازاروں سے یکسر مختلف ہوتا ہے۔ دیانتداری، توکل اور تقویٰ کا معیار بہت بلند ہو تا ہے ہر عمر کے خریداروں کی ٹولیاں خاص طور پر ایسی چیزوں کی طرف لپکتی ہیں جنہیں وہ جلسہ سالانہ کی یاد گار کے طور پر اپنے پاس محفوظ رکھ سکیں اور دوست احباب کو تحفہ دے سکیں۔

جلسہ سالانہ کے بابرکت موقع پر کُتب کی نشر و اشاعت اور خریدوفروخت کا کام بھی عروج پر ہوتا ہے۔ صرف اسی ایک پہلو سے بھی جائز ہ ازدیادایمان کا باعث ہو سکتا ہے۔ 1892ء کے جلسہ سالانہ میں طے ہوا تھا کہ اشاعت ِ دین کے لئے ایک مطبع جاری کیا جائے جس کے لئے لوگ حسب استطاعت بخوشی چندہ دیں۔ 92 دوستوں نے ساڑھے پانچ پیسے سے دس دس روپے تک ماہوار چندہ لکھوایا جو کل ملا کر ایک مہینے میں 70 روپے دو آنے چار پائی بنتا تھا۔ یہ ابتداءتھی جس کی تدریجاً ترقی کا عالم یہ ہے کہ کئی جدید پریس جماعت کی مطبوعات شائع کر رہے ہیں۔ جلسہ کے دوسرے دن کی تقریر میں جن مطبوعات کا تعارف امامِ وقت کی زبانِ مبارک سے ہو جائے وہ زیادہ اشتیاق سے خریدی جاتی ہیں، جلسہ کے ایام میں جماعت کے اخبار و رسائل کے لئے چندے جمع کروائے جاتے ہیں۔ ثمرات کے ذکر میں علوم و ایمان میں ترقی اور دین کے مستقبل کو سنوارنے کی تدابیر بہت اہم ہیں۔ جید علماء کی تقاریر سے فیضیابی ہستی میں انقلاب برپا کر دیتی ہے۔ بعض احباب جو لکھنا پڑھنا نہیں جانتے وہ تقاریر کے توسط سے میدان مناظرہ و مباحثہ میں اپنے مقابل کو دلائل سے چاروں شانے چِت گرانے کے مشّاق ہو جاتے ہیں۔ امام ِوقت کی زبانی ترقی کا سال بہ سال جائزہ حمد وشکر کے ساتھ مقابلے کی روح پیدا کرتا ہے۔ نووادان خود کو مضبوط زمین پر مہر بان آ سمان کے سائے تلے محسوس کرتے ہیں ایسے مجاہدین جن کو تمام دنیا کی اصلاح کا بیڑہ اُ ٹھانا ہے ان کے لئے جلسہ سالانہ دعوت الی اللہ کا بہترین ذریعہ ثابت ہوا ہے۔ احمدی احباب اپنے غیر از جماعت دوستوں کو جلسہ میں لے کر آتے ہیں اس طرح وہ براہ راست علمائے سلسلہ احمدیہ سے جماعت احمدیہ کے بنیادی عقائد اور اختلافی مسائل پرمدلل جامع و مانع تقاریر سنتے ہیں۔ ہر احمدی شخص عالم اور فصیح البیان نہیں ہوتا۔ مہمانوں کو حق آشنا کرنے کا یہ بہترین طریق ہے۔ ا س طرح وہ دعوت اِلی اللہ کا ثواب بھی حاصل کرلیتے ہیں۔

کرہّ ارض پر ٹھیٹھ اسلامی ’مثالی‘ دینی معاشرہ اگر کہیں ہے تو وہ بلا شبہ احمدیت کے مراکز ہیں۔ مشاہدہ کرنا ہو تو جلسہ سالانہ پر آ کر مہمانوں کو شب ِ تنور گزارتے اور دعوتِ شیراز کھاتے دیکھ لیں۔ سادگی، درویشی۔ فقر اور فرزانگی کی اس سے بہتر مثال کہیں اور نہیں ملے گی۔ جلسہ ہر مرتبے کے احمدی کے لئے صرف بنیادی ضرورت کے ساتھ زندگی گزارنے کی مشق کراتا ہے۔ تکلفات سے اجتناب کی عملی تر بیت ہے۔ جسم و روح کا ضعف کمزوری اور کسل دور ہو کر ایک حالت انقطاع پیدا ہوتی ہے۔ اس دنیا کی لذات کو چھوڑ کر اُخروی زندگی کی تیاری کا جوش پیدا ہوتا ہے۔ جلسہ سالانہ روحانی قوت کی ایسی بیڑی ہے جو ہر سال نئے تعلق کی بجلی سے چارج ہو کر احباب جماعت کی ترقی کے سامان کرتی ہے۔ جلسہ کا کسی وجہ سے انعقاد نہ ہو سکنا اس رَو میں تعطل کے بجائے اضافی قوت عطا کرتا ہے۔ 1893ء میں جلسہ کے التواء سے حضرت مسیح موعودؑ نے جماعت کے لئے زیادہ دعائیں کیں۔ الٰہی جماعت پر آ زمائشوں کے کئی دور آئے۔ جلسہ نہ ہوا تو دل کا کرب دعاؤں میں ڈھل گیا۔ انفرادی طور پر اگر کوئی شخص جلسہ میں شامل نہ ہو سکا تو آہوں اشکوں اور دعاؤں کی فریاد آ سماں گیر ہوئی۔ جلسہ میں شمولیت کے شوق میں سَو طرح کی آزمائشوں سے گزرنے کی انفرادی داستانیں یکجا کر لی جائیں تو اخلاص و قربانی کا بحر ذخار دکھائی دے گا۔ کہیں نوکری آ ڑے آئی تو استعفیٰ دے دیا۔ کوئی بیمار ہے تو شافی خدا پر توکل کرتے ہوئے دین کو دنیا پر مقدم کیا۔ نانِ شبینہ کے محتاج نے بھی پیٹ کاٹ کر سفر خرچ جمع کیا مگر ابراہیمی طیور کی پرواز جاری رہی۔ جلسہ کی بندش بھی بے ثمر نہیں رہی۔ ایک در بند ہوا توہزار در کھل گئے۔ ایک ہی شجر ایمان کی شاخیں آسمانی پانی سے جگہ جگہ نمو پانے لگیں۔ قریہ قریہ ملک ملک جلسے ہونے لگے اگر ہر جلسے کی حاضری کو یکجا کیا جائے تو کئی گنا بڑھ جائے۔ اک سے ہزار اور وہ بھی بابرگ وبار یہ سب محض فضل ِ خدا وندی ہے۔ ازدیادِ ایمان کے لئے خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہمیشہ ذہن نشین رہنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے توسط سے یہ وعدہ سب اہل جماعت کے ساتھ ہے۔

اِنِّیْ مَعَکَ وَمَعَ اَھْلِکَ وَمَعَ کُلِّ مَنْ اَحَبَّکَ

(الہام حضرت مسیح موعودؑ تذکرہ صفحہ549)

’’میں تمہارے ساتھ ہوں اور تمہارے اہل کے ساتھ ہوں اور ان سب کے ساتھ ہوں جو تم سے محبت کرتے ہیں‘‘۔

محبت کرنے کا سلیقہ یہ ہے کہ کامل اطاعت کی جائے اور امام کے منشاء و احکامات کی روح کو سمجھ کر عمل کیا جائے۔ تا کہ الٰہی مدد شامِل حال رہے۔ حضرت مُصلح موعودؓ فر ماتے ہیں :
’’الٰہی مدد کا ثبوت یہ ہوتا ہے کہ باوجود دنیوی مخالفت کے ایک قوم بڑھتی چلی جاتی ہےاور کوئی روک اس کی ترقی میں حائل نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ایمان لانے والی قوم کی پشت پر آ جاتا ہے اور اس کے سایہ یعنی تصرف کو لمبا کر دیتا ہے اور اگر وہ ایسا نہ کرتا تو سایہ ایک جگہ ٹکا رہتا یعنی مومن دنیا میں کوئی ترقی نہ کرتے پھر جس طرح سورج کے مقام کو دیکھ کر پتہ لگ جاتا ہے کہ سایہ کدھر جائے گا اسی طرح خداتعالیٰ کی تائید ات کو دیکھ کر یہ پتہ لگایا جا سکتا ہے کہ کون سی قوم ترقی کرے گی ہاں یہ الٰہی مدد ہمیشہ ایک سی نہیں رہتی ایک مدت کے بعد جب قوم خراب ہوجاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی پشت پناہی چھوڑ دیتا ہے اور وہ سایہ غائب ہو جاتا ہے۔ پس کو شش کرو کہ تمہارا خدا تمہیں اور تمہاری اولادوں کو محمد رسول اللہ ﷺ کا ممتد سایہ بنادے اور تمہیں ایسی توفیق عطا فر مائے کہ تم محمد رسول اللہ ﷺ کے سایہ کو ہمیشہ قائم رکھنے اور اس کو آگے بڑھانے کا موجب بنو تا کہ شمس والی دلیل ہمیشہ قائم رہے اور تمہارے لئے الٰہی نصرتیں ظاہر ہوتی رہیں اور انسانی تدابیر تمہارے مقابلہ میں ہمیشہ ناکام رہیں‘‘

(تفسیر صغیر جلد ششم صفحہ510)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 اگست 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 اگست 2021