• 25 اپریل, 2024

دشمن جب اپنی دشمنی کی انتہا کو پہنچتا ہے

’’دشمن جب اپنی دشمنی کی انتہا کو پہنچتا ہے، اللہ والوں کو ختم کرنے کے لئے ہر قسم کے حیلے اور حربے استعمال کرتا ہے، مختلف طریقے سے نقصان پہنچانے کے لئے منصوبہ بندیاں کرتا ہے، جانی اور مالی نقصان پہنچانے کے لئے جو بھی اس سے بن پڑتا ہے کرتا ہے۔ ہر عمر اور ہر طبقے کے افراد کو ہر وقت ذہنی اذیتیں پہنچانے کے لئے اور ان کا ذہنی سکون برباد کرنے کے لئے گھٹیا ترین اور انسانیت سے گرے ہوئے کام کرتا ہے۔ حتیٰ کہ نہ بچے کا لحاظ، نہ بوڑھے کا لحاظ، نہ عورت کا لحاظ رہتاہے۔ ظالمانہ اور بہیمانہ روشیں اپنا لیتا ہے تا کہ ان اللہ والوں کو اللہ کی رضا کے حصول سے دور ہٹانے کی کوشش کرے۔ تو اُس وقت صبر و استقامت دکھانے والے مؤمنین اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہوئے اس سے مدد مانگتے ہیں۔ دشمن کی اس انتہا اور اس کے نتیجے میں مومنین کی اس کیفیت کا نقشہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے ایک شعر میں یوں کھینچا ہے۔ فرمایا

عدو جب بڑھ گیا شور و فغاں میں
نہاں ہم ہو گئے یارِ نہاں میں

پس یہ وہ نقشہ ہے جو مجبور و مظلوم مؤمنین کا اُن کی مجبوری اور مظلومیت کی حالت اور اُس کے ردّ عمل کے طور پر ہوتا ہے اور ہونا چاہئے۔ اور آج یہ کیفیت اس روئے زمین پر دنیا کے بعض مسلمان ممالک میں سوائے احمدیوں کے کہیں اور ہمیں نظر نہیں آتی اور پاکستان میں اس کی انتہا آئے دن ہمیں دیکھنے میں آتی ہے۔

اس شعر میں جہاں ایک طرف دشمن کی انتہائی حالت کا ذکر ہے تو دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنے والے اور صبر و استقامت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے حضور مزید جھکتے چلے جانے والوں کا ذکر ہے۔ دشمن پر واضح کیا گیا ہے کہ تم نے تو یہ شورشیں، یہ زیادتیاں، یہ ظلم، یہ بربریت ہم پر اس لئے روا رکھی کہ ہم تمہاری بات مان کر تمہارے پیچھے چل پڑیں گے۔ تمہارے آگے ہاتھ جوڑ کر رحم کی بھیک مانگیں گے۔ تمہارے پاؤں پڑ کر تم سے زندگی کی فریاد کریں گے لیکن یہ سب تمہاری بھول ہے۔ ہم تو اُس عظیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے ہیں جس نے خود بھی صبر اور عالی ہمتی کا عظیم نمونہ دکھایا اور اپنے صحابہ میں بھی قوتِ قدسی سے وہ جذبہ پیدا کیا جس نے صبر واستقامت کے وہ عظیم معیار قائم کر دئیے جن کا ذکر مَیں نے گزشتہ خطبات میں کیا تھا۔ ظلم و تعدی نے اُن سے اَحد اَحد کا نعرہ تو لگوایا لیکن کسی بُت کے بڑا ہونے کا نعرہ نہیں لگوایا۔ ظلم بڑھے تو ان کی سجدہ گاہیں اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑاتے ہوئے تَر ہوئیں، کسی بُت یا بُت کے پجاری کے آگے ماتھا ٹیک کر گڑگڑاتے ہوئے نہیں۔ پس جب ہمیں حکم ہے کہ اُن نمونوں کو پکڑو تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ہم اس اَصل کو بھول کر ان دشمنوں کے پیچھے چل پڑیں، ان مخالفینِ احمدیت کے پیچھے چل پڑیں۔ ہمیں ہمارے ایمان سے ہٹانے کی ہر کوشش اِنہی پر الٹ جائے گی۔ ان کے تمام منصوبے اکارت جائیں گے۔ ان کی خواہشات کبھی پوری نہیں ہوں گی، اس لئے کہ ہم نے اپنے سچے وعدوں والے خدا کو پہچان لیا ہے۔ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کے ساتھ خدا تعالیٰ کی فعلی شہادتوں کو پورا ہوتے دیکھ لیا ہے۔ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کو پورا ہوتے دیکھ لیا ہے توپھر ہم ان ڈرانے والوں اور ان کے ظلموں کی وجہ سے اپنے خدا کو کس طرح چھوڑ دیں جس نے جماعت کو ہر آزمائش میں اور ہر ابتلاء سے دلوں کی تسکین پیدا کرتے ہوئے گزارا ہے۔ ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے غلامِ صادق پر ایمان اور یقین میں مزید پختہ کیا ہے۔ پس یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ ہم اپنے خدا کو چھوڑ کر ان جیسوں کو جن کی ہمارے نزدیک ایک کوڑی کی بھی حیثیت نہیں ہے، خدا بنا لیں۔ اپنے ایمانوں کو ضائع کر دیں۔ اللہ تعالیٰ کے دنیا و آخرت میں پیار سے محروم ہو جائیں۔ اگر یہ ان لوگوں کی سوچ ہے تو ان جیسا شائد ہی دنیا میں اور روئے زمین پر کوئی پاگل ہو۔ اگر اس سوچ کے ساتھ یہ احمدیوں پر سختیاں اور تنگیاں وارد کر رہے ہیں تو یہ ان کی بھول ہے۔ یہ مشکلات اور تکلیفیں تو ہمیں خدا تعالیٰ سے دور ہٹانے کی بجائے اس کے قریب تر کر دیتی ہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 3 دسمبر 2010)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 ستمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 ستمبر 2020