• 25 اپریل, 2024

مباحثات ومناظرات ضلع چکوال

(قسط دوم)

عاجز (راجہ) محمد افضل خان (غیر احمدی)
مناظرہ چکوال (عیسائیوں سے) 15 تا 18جون 1932ء

چکوال میں 15 تا 18 جون 1932ء عیسائیوں کا جلسہ تھا جس میں انہوں نے آخری لیکچر کے بعد ایک گھنٹہ سوال و جواب کے لئے مقرر کیا ہوا تھا۔ 15 کو پادری عبدالحق کی تقریر اصلیتِ بائیبل کے موضوع پر تھی ایک گھنٹہ تقریر کرچکنے کے بعد اعلان کیا گیا کہ اگر کسی نے کوئی سوال کرنا ہوتو اپنا نام لکھ کر پیش کرے۔ اس پر خاکسار نے اپنا نام لکھ کر بھیج دیامگر پادری سلطان محمد پال نے جو اُس وقت پریذیڈنٹ جلسہ تھے باوجود اعلان کرنے کے وقت دینے سے انکار کردیا۔ دوسرے دن ہم پھر ان کے جلسہ میں گئے اور ملک عبدالرحمٰن خادم نے اپنا نام سوال و جواب کے لئے پیش کیا۔ مگر صاحبِ صدر نے صاف طور پر اعلان کردیاکہ ہم لوگ آپ لوگوں کو ہر گز وقت نہ دیں گے البتہ کوئی اور ہو تو اس کووقت دیاجاسکتا ہے۔ اس وقت جلسہ کے صدر پادری عبدالحق تھے۔ ہم واپس آگئے اور اعلان کیا کہ فلاں مقام پر عیسائیوں کے بیان کردہ مضامین کے متعلق تقاریر کی جائیں گی اور عیسائیوں کو اعتراضات کرنے کا کھلا موقع دیں گے۔ مگر عیسائیوں نے یہ نامعقول عذر پیش کرکے اپنی شکست کا اقرار کرلیا کہ ہم کبھی رات کو کسی کے جلسہ میں نہیں جاتے۔ مگر لطف یہ کہ انہی دنوں غیر احمدی صاحبان کا جلسہ بھی تھا اور تھا بھی رات کو۔ ان کے جلسہ میں پہنچ گئے اور ان سے وقت کا مطالبہ کیا۔ بایں ہمہ ہم نے ان کے اس بیہودہ عذر کو توڑنے کی خاطر دن کو بھی اپنا جلسہ کیا اور رات کو بھی اور ان کو تحریری دعوت بھیجی کہ وہ آئیں۔ ان کو سوال و جواب کا موقع دیا گیا مگر ان کو جرأت نہ ہوئی۔ آخر ہم نے مباحثہ کے لئے کھلا چیلنج پیش کیا جس کو قبول نہ کرتے ہوئے انہوں نے اپنی طرف سے ایک تحریری مباحثہ کا چیلنج دیا جس کو فوراً قبول کر لیا گیا۔ لیکن جب میں شرائط کے تصفیہ کے لئے ان کے مکان پر گیا۔ تو ان کی طرف سے پہلی شرط یہ پیش کی گئی کہ ہم کو اختیار دیا جائے کہ آپ کے مسائل سے ہم جو چاہیں منتخب کرلیں میں نے کہا ہاں آپ کو اختیار ہے۔ چنانچہ انہوں نے صداقتِ مسیح موعودؑ کا مضمون منتخب کیا۔مگر جب میں نے کہا کہ آپ مجھے بھی اختیار دیجئے کہ میں بھی آپ کے مسائل میں سے جونسا مضمون چاہوں منتخب کرلوں۔ تو کہنے لگے آپ کو اختیار نہیں ہے۔ آپ کے لئےبھی ہم اپنی طرف سے مضمون مقرر کریں گے۔ میں نے کہا کہ یہ کوئی انصاف نہیں اور نہ کوئی عقلمند آپ کی اس بات کی تائید کرسکتا ہے مگر انہوں نے کھلے الفاظ میں انکارکرکے کسرِ صلیب کا ایک بار پھر مظاہرہ کردیا۔ جب ہم نے دیکھا کہ وہ کسی طرح بھی مقابل پر نہیں آتے تو ہم نے ایک دوسرا چیلنج دے دیا اور شہر کے درو دیوار پر چسپاں کردیا کہ عیسائیوں کو اگر اپنی صلیب کا پاس ہے تو آئیں ہم سے جس مسئلہ پر چاہتے ہیں تحریری اور تقریری مباحثہ کرلیں۔ مگر ان کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے کامل فتح دی۔

(خاکسار:۔ عبدالغفورمہتمم تبلیغ حلقہ راولپنڈی)

خالدِ احمدیت ملک عبدالرحمٰن خادم کے بڑے صاحبزادہ ملک عبدالباسط صاحب کا بیان ہے کہ :
’’آپ دور دور جا کر احمدیت کے مخالفین سے مناظرے کرتے تھے اور بڑے فخر سے فرماتے تھے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے مجھے کبھی بھی شکست نہ ہوئی تھی بلکہ میں ہمیشہ ہی سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں کامیاب و کامران ہی واپس آتا تھا اور شاید یہی وجہ تھی کہ حضور کئی مناظروں کے لئے منتخب فرماتے تھے۔ آپ فرماتے تھے کہ اکثر مخالف مناظر مجھے دیکھ کر ہنس پڑتے تھے کہ اس کل کے بچے نے ہمارے ساتھ کیا مناظرہ کرنا ہے لیکن انہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ بچہ اکیلا ہی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ احمدیت کی صداقت اور تمام احمدی جماعت اور خصوصاً حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی دعاؤں کی عظیم اور بے پناہ طاقت ہے‘‘

(تاریخِ احمدیت جلد۔19 صفحہ679۔680)

مناظرہ چکوال 1935ء

محترم ومکرم کپتان ملک عبداللہ خان باب الابواب ربوہ جن کا تعلق دوالمیال ضلع چکوال سے ہے۔ انہوں نے خاکسار کو مناظرہ چکوال 1935ء کے بارے میں تفصیلات بتائیں۔

کپتان ملک عبداللہ نے بتایا کہ 1935 میں چکوال میں میاں کرم دین سکنہ بھیں اورجماعت چکوال کے ہاں ایک مناظرہ ہوا۔ یہ مناظرہ مولوی کرم دین بھیں والے کے ساتھ تھا۔ مولوی مظفر احمد بھی تھے۔ اور احمدیوں کی طرف سے مولانا شمس یا کوئی اور مولوی صاحب تھے اوردوالمیال سے ہم 25 کے قریب آدمی پیدل بذریعہ درہ سرلہ (کریالہ) کے راستے گئے تھے اور ہمارے ساتھ مکرم غلام محمد جن کو ’’بھائیا‘‘ کہا جاتا تھا وہ بھی ساتھ تھے۔ وریا مال کریالہ سے کپٹن شیر ولی جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے گارڈ رہے ہیں وہ بھی اس مناظرہ میں شامل تھے۔ چکوال سے ماسٹر محمد عبداللہ انگلش ٹیچر بھی اس مناظر ہ میں شامل تھے۔ بہت ہی مخلص اور جوشیلے احمدی تھے۔ اس مناظرہ میں جماعت احمدیہ کے مناظر نے قرآن مجید اور احادیث سے حوالہ جات نکال کر مولوی کرم دین بھیں کو لاجواب کر دیا۔

مباحثہ ڈلوال 1944ء

ضلع جہلم میں ڈلوال اور دوالمیال دو قصبے ہیں جہاں مولوی لال حسین اختر نے احمدیوں کو مناظرہ کا چیلنج دیا۔ جو جماعتِ احمدیہ نے منظور کرلیا اور اختر صاحب ہی کی شرائط پر 2،3فتح 1323ھش دسمبر 1944ء کو مناظرہ کی تاریخیں تجویز ہوئیں اور مناظرہ ان کی خواہش کے مطابق قصبہ ڈلوال کی جامع مسجد میں قرار پایا جہاں صرف دو احمدی تھے۔ پہلا مناظرہ وفات و حیات مسیح پر زیرِ صدارت مولوی محمد حسین ہوا۔مولوی لال حسین نے مدعی ہونے کی حیثیت سے جو احادیث و اقوال پیش کئے۔چوہدری محمد یارعارف نے اُن کے نہ صرف تسلی بخش جواب دیئے بلکہ قرآن مجید کی متعدد آیات اور احادیث سے حضرت عیسیٰؑ کی وفات ثابت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے انعامی چیلنج بھی پیش کئےجن کا جواب دینےمیں مولوی لال حسین احمدی مناظر کے مقابلہ میں ناکام رہے ہیں۔

دوسرے دن ’’فیضانِ ختمِ نبوت‘‘ کے مسئلہ میں مدعی جماعتِ احمدیہ تھی۔سید احمد علی احمدی مناظر نے قرآنِ کریم کی کئی آیات اور احادیثِ نبویہ سے ثابت کیا کہ آنحضرت ﷺ کی اتباع میں نبوت حاصل ہو سکتی ہے۔ مولوی لال حسین نے جو آیات، احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقوال پیش کئےان کا نہایت عمدہ جواب دیا گیا۔ اور اقوال بزرگان پیش کرکے جماعتِ احمدیہ کے عقیدہ کی صداقت ثابت کی گئی۔ مولوی لال حسین سوائے درشت کلامی کے کوئی جواب نہ دے سکے۔

تیسرا مناظرہ اسی دن دوپہر تھا۔اور یہی مناظرہ سننے کے لئے مولوی لال حسین اور اس کے ساتھی لوگوں کو تیار کررہے تھے۔ اسی مناظرہ پر پبلک کثرت سے آئی مسجد کی چھت اور اردگرد کے مکانوں کی چھتوں پر بھی کافی ہجوم تھا۔

جب مناظرہ شروع ہوا تو مولوی محمد یارعارف نے پہلی تقریر ہی ایسے رنگ میں کی کہ پبلک نے خاص توجہ سے سنی۔ آپ نے قرآن مجید کی چار آیات سے صداقت ثابت کرکے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ شعر پڑھا کہ

ہے کوئی کاذب جہاں میں لاؤ لوگو کچھ نظیر
میرے جیسی جس کی تائیدیں ہوئی ہوں باربار

اور اختر صاحب سے کوئی ایک ہی ایسی مثال پیش کرنے کا پُر زور مطالبہ کیا۔ عارف صاحب نے علاوہ قرآنی آیات کے 10 احادیث اور 20 پیشگوئیاں حضرت مسیح موعود ؑ کی صداقت کے ثبوت میں پیش کیں۔ مناظرہ کا مقررہ وقت ختم ہونے سے ایک گھنٹہ پیشتر ہی غیر احمدی مناظر کے ساتھیوں نے اپنے مناظر کی کمزوری محسوس کرکے نماز کے بہانہ سے مناظرہ ختم کرنا چاہا جو منظور کر لیا گیا مگر ہماری آخری تقریر میں شور کرنا شروع کردیا۔غیر احمدی شرفاء اور شیعہ معززین نے جماعتِ احمدیہ کی نمایاں کامیابی کا اقرار کیا۔

(الفضل 11فتح 1323ھ؍ دسمبر1944ء) (تاریخ احمدیت جلد10)

چکوال میں بہائیوں سے کامیاب مناظرہ

چند ماہ سے چکوال میں بہائیت کابہت چرچا تھا اور بہائی مبلغ اکثر اس جگہ آکر گفتگو کرتے رہے۔ جس کے نتیجے میں تین چار آدمی بہائیت میں داخل بھی ہو گئے۔ مسلمان ان کے مذہب سے کماحقہ واقف نہ ہونے کی وجہ سے کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے جس کی وجہ سے ان میں ایک اضطراب اور ہیجان پیدا ہوا۔ اس موقع پر ان کی نگاہیں جماعتِ احمدیہ پر پڑیں کہ بہائیوں کو اگر کوئی مسکت جواب دے سکتا ہے تو وہ یہی جماعتِ احمدیہ ہے۔

چنانچہ مسلمانوں کے ایک وفد نے احمدیہ دارالتبلیغ میں آکر سلسلہ کے مربی محمد اشرف ناصر شاہد سے ملاقات کی۔ اور یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ مسلمانوں کی طرف سے بہائیوں سے گفتگو کریں۔

طے شدہ پروگرام کے مطابق 15جولائی 1957ء بروز اتوار مسجد احمدیہ چکوال میں ساڑھے4بجے شام سے ساڑھے 7بجے تک ’’اسلامی شریعت اور بہائی شریعت میں موازنہ‘‘ کے موضوع پر گفتگو ہوئی۔ بہائیوں کی طرف سے ان کے مشہور مبلغ اور لیڈر محفوظ الحق علمی اور مسلمانوں کی طرف سے جماعتِ احمدیہ کے مربی متعین ضلع جہلم محمد اشرف ناصر پیش ہوئے۔ نصف نصف گھنٹہ تقریر کے لئے وقت مقرر کیا گیا۔ اول و آخر میں ہمارے مربی صاحب نے تقریر کی۔ مسجد احمدیہ کا صحن سامعین سے بھرا ہوا تھا اور اردگرد کے دیہات کے لوگ بھی شامل ہوئے تھے۔ صدر جلسہ کے فرائض جناب مولوی نور محمد خطیب مسجد خواجگان نے ادا کئے۔

خدا تعالیٰ نے ہمیں اس مناظرہ میں نمایاں کامیابی عطا فرمائی۔ ایک بہائی نے تو اُسی وقت سرِ عام بہائیت سے توبہ کی۔

صاحبِ صدر نے آخر میں ہمارے مربی کو مخاطب کرکے فرمایا کہ ’’آپ نے آج مسلمانوں کی بہت بڑی خدمت سر انجام دی ہے جس کے لئے میں مسلمانانِ چکوال کی طرف سے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ آپ کو آئندہ اس سے بڑھ کر خدمت کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘

(تاریخ احمدیت جلد19، صفحہ732) (الفضل 3اگست 1957 صفحہ8)

٭…٭…٭

(ریاض احمد ملک)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 ستمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 ستمبر 2020