• 20 اپریل, 2024

الحمد للہ کہنے کي حقيقت

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ِ کہنے کي حقيقت

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز فرماتے ہيں:۔
عموماً ہم جب اللہ تعاليٰ کے فضل اور انعام کو ديکھتے ہيں تو اکثريت کے منہ سے اللہ تعاليٰ کے فضل اور انعام کے ذکر پر اَلْحَمْدُلِلّٰہ نکلتا ہے، چاہے اُسے اَلْحَمْدُ کے گہرے معني کا علم ہو يا نہ ہو۔ ايک ماحول ميں اُٹھان کي وجہ سے يہ احساس ضرور ہے کہ چاہے تکلفاً ہي کہا جائے، اَلْحَمْدُلِلّٰہِ ضرور کہنا ہے۔ کم علم سے کم علم کو بھي يہ احساس ضرور ہوتا ہے کہ يہ الفاظ ضرور کہے جائيں جو اللہ تعاليٰ کي تعريف کي طرف اشارہ کرتے ہيں۔ پس ايک احمدي کے منہ سے ہر ايسے موقع پر جس سے خوشي پہنچ رہي ہو، جس پر جب اللہ تعاليٰ کے فضل نازل ہو رہے ہوں، اللہ تعاليٰ کي طرف سے کوئي انعام مل رہا ہو، يا کسي بھي طريقے سے يہ احساس ہو کہ اللہ تعاليٰ مجھے نواز رہا ہے تو اَلْحَمْدُلِلّٰہِ ضرور نکلتا ہے، چاہے وہ کسي کي ذاتي خوشي ہو يا جماعتي طور پر اللہ تعاليٰ کا فضل ہو۔ اور يہ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ کے الفاظ کي ادائيگي ہر ايسے موقع پر ايک احمدي کے منہ سے ہوني بھي چاہئے۔ ليکن ان الفاظ کي ادائيگي کا اظہار الفاظ کہنے والے کے لئے اور بھي زيادہ برکت کا موجب بن جاتا ہے جب وہ سوچ سمجھ کر، اُس کي روح کو جانتے ہوئے يہ الفاظ کہے۔ ہم احمدي خوش قسمت ہيں کہ ہم نے اس زمانے کے امام اور مسيح موعود کو مانا ہے، مہدي موعود کو مانا ہے اور اس ايمان کي وجہ سے ہميں اَلْحَمْدُلِلّٰہِ ياکسي بھي قرآني لفظ کے معاني اور روح کو سمجھنے ميں دقت نہيں ہے، بشرطيکہ ہماري اس طرف توجہ ہو۔ کيونکہ حضرت مسيح موعود عليہ الصلوة والسلام نے اللہ تعاليٰ سے علم پا کر اس کي روح سے ہميں روشناس کروايا ہے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہ کي مختلف رنگ ميں حضرت مسيح موعود عليہ الصلوة والسلام نے وضاحت فرمائي ہے۔ اس وقت مَيں ايک مختصر وضاحت حَمْد کے لفظ کي آپ کے الفاظ ميں بيان کرتا ہوں۔ آپ عليہ السلام فرماتے ہيں کہ:
’’واضح ہو کہ حمد اُس تعريف کو کہتے ہيں جو کسي مستحق تعريف کے اچھے فعل پر کي جائے۔ نيز ايسے انعام کنندہ کي مدح کا نام ہے جس نے اپنے ارادہ سے انعام کيا ہو اور اپني مشيئت کے مطابق احسان کيا ہو۔ اور حقيقتِ حمد کما حقہٗ صرف اُسي ذات کے لئے متحقق ہوتي ہے جو تمام فيوض و انوارکا مبدء ہو اور علي وجہ البصيرت کسي پر احسان کرے نہ کہ غير شعوري طور پر يا کسي مجبوري سے۔ اور حمد کے يہ معني صرف خدائے خبير و بصير کي ذات ميں ہي پائے جاتے ہيں۔ اور وہي محسن ہے اور اول و آخر ميں سب احسان اُسي کي طرف سے ہيں۔ اور سب تعريف اُسي کے لئے ہے، اِس دنيا ميں بھي اور اُس دنيا ميں بھي۔ اور ہر حمد جو اُس کے غيروں کے متعلق کي جائے، اُس کا مرجع بھي وہي ہے‘‘۔

(اردو ترجمہ عربي عبارت از اعجاز المسيح۔ بحوالہ تفسير حضرت مسيح موعودعليہ السلام جلد اول۔ سورة فاتحہ۔ صفحہ75-74۔ مطبوعہ ربوہ)

پس يہ وہ تفصيل ہے جس کا لفظ حَمد حامل ہے۔ اور جب ان باتوں کو سامنے رکھ کر اَلْحَمْدُلِلّٰہ کہا جائے تو وہ حقيقي حمد بنتي ہے جو ايک مومن کو خدا تعاليٰ کي کرني چاہئے۔ قرآنِ کريم ميں يہ لفظ حمد بہت سي جگہوں پر اللہ تعاليٰ کي حمد کي طرف توجہ دلاتے ہوئے استعمال ہوا ہے۔ بہر حال اس وقت مَيں اس اقتباس کے حوالے سے بات کروں گا، اس کي تھوڑي سي وضاحت کروں گا۔ اس ميں حضرت مسيح موعود عليہ الصلوة والسلام نے حمد کي وضاحت کے حوالے سے جن باتوں کي طرف توجہ دلائي ہے وہ يہ ہيں۔ ايک تو يہ بات کہ ايسي تعريف جو کسي مستحق تعريف کے اچھے فعل پر ہو۔ اور انسانوں ميں سے بھي مختلف لوگوں کي تعريف ہوتي ہے۔ ليکن فرمايا کہ جو تعريف کا مستحق ہے اور تعريف کا سب سے زيادہ مستحق اللہ تعاليٰ کے علاوہ اور کون ہو سکتا ہے؟ پس ايک بات تو يہ ذہن ميں رکھني چاہئے کہ تمام تعريفيں اللہ تعاليٰ کي اس لئے ہيں کہ وہي سب سے زيادہ تعريف کاحقدار ہے۔

آپ فرماتے ہيں کہ ايسے انعام دينے والے کي تعريف جس نے اپنے ارادے سے انعام ديا ہو۔ پس اللہ تعاليٰ کے انعام جب نازل ہوتے ہيں تو انعام حاصل کرنے والے کے اپنے عمل سے زيادہ اللہ تعاليٰ کے ارادے سے ملتے ہيں۔ اللہ تعاليٰ بعض دفعہ رحمانيت کا جلوہ دکھاتے ہوئے بغير کسي عمل کے بھي نواز ديتا ہے يا اُس عمل سے ہزاروں گنا زيادہ بڑھا کر نوازتا ہے جتنا کہ عمل کيا گيا ہو يا پھر رحيميت کے جلوے کے تحت اگر انعام ديتا ہے تو يہ بھي اللہ تعاليٰ کے ارادے سے ہے۔ اللہ تعاليٰ ہي بندے کو توفيق ديتا ہے کہ وہ کوئي کام کرے يادعا کرے اور اُس کے نتيجے ميں نيک نتائج ظاہرہوں اور پھر اللہ تعاليٰ بندے کو نوازے۔

اور پھر تيسري چيز يہ فرمائي کہ اپني مشيت کے مطابق احسان کيا ہو۔ اور اللہ تعاليٰ سے بڑھ کر کون ہے جو اپني مشيت کے مطابق کوئي احسان کرتا ہے يا کوئي بھي کام کرتا ہے، اپنے بندوں پر احسان کرتا ہے۔ اللہ تعاليٰ چاہتا ہے کہ اپنے بندوں پر احسان کرے۔ اس لئے اُس نے اپني رحمت کو وسيع تر کيا ہوا ہے اور جب اللہ تعاليٰ کے وعدے اُس کي مشيت کے ساتھ شامل ہو جائيں تو پھر انعاموں اور فضلوں اور احسانوں کي ايسي بارش ہوتي ہے جس کا انسان احاطہ بھي نہيں کر سکتا۔ اور يہ صورتحال اس دَور ميں ہميں حضرت مسيح موعود عليہ الصلوة والسلام کي جماعت کے ساتھ نظر آتي ہے کيونکہ اللہ تعاليٰ کے وعدے اور فيصلہ آپ کے غلبہ کا اعلان کرتا ہے۔

(خطبہ جمعہ 20؍ جولائي 2012ء بحوالہ الاسلام ويب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

حضرت مستری جان محمد ؓ آف بھڈیار

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 نومبر 2021