• 23 اپریل, 2024

اسلام میں حیات آخرت کا تصور (تقریر جلسہ سالانہ جرمنی 2021)

اسلام میں حیات آخرت کا تصور
تقریر جلسہ سالانہ جرمنی 2021

وَ مَا ہٰذِہِ الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا لَہۡوٌ وَّ لَعِبٌ ؕ وَ اِنَّ الدَّارَ الۡاٰخِرَۃَ لَہِیَ الۡحَیَوَانُ ۘ لَوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ

(العنکبوت: 65)

ترجمہ۔ اور یہ دنیا کی زندگی غفلت اور کھیل تماشہ کے سوا کچھ نہیں۔ اور یقینا آخرت کا گھر ہی دراصل حقیقی زندگی ہے کاش کہ وہ جانتے۔

حیات آخرت ایک ایسا عالم ہے جسے آج تک نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی دل میں اس کا خیال تک گذرا۔ ایک ایسی کائنات کا حدوداربعہ بیان کرنے کی کوشش کرنی ہے جس کی وسعتوں کا کوئی اندازہ نہیں اور ایک ایسی مملکت کے رہنے والوں کے خدو خال کی تصویر کھینچنی ہے جہاں عمل توہو گا مگر ناکامی نہیں، جہاں زندگی تو ہو گی مگر موت نہیں، جہاں ترقیات و کامیابیوں کے لامتناہی دروازے تو کھلے ہو ں گے مگر تنزلی کا نام و نشان نہیں ہو گا، جہاں قدم رکھنے کے بعد انسان آگے سے آگے ہی بڑھتا چلا جائے گا اور اس کی منزل کبھی ختم نہیں ہو گی۔ ایک ایسی زندگی جو انسان کا حقیقی مقدر ہے، جس سے کسی کو کوئی مفر نہیں۔ اور جو ارکان ایمان کا ایک اہم جزو بھی ہے۔

جب سے دنیا پیدا ہوئی اللہ تعالیٰ کی ہستی کے بعد اگر کوئی سوال دنیا کی توجہ کو اپنی طرف کھینچتا رہا ہے تو وہ حیات بعد الموت کا مسئلہ ہے۔ مگرمشکل یہ ہے کہ اس عالم آخرت کے احوال کا کوئی چشم دید گواہ ہمار ے پاس موجود نہیں۔ کیونکہ جواِس عالم سے اُس عالم میں چلا جاتا ہے وہ واپس نہیں آتالیکن ہم کبھی اس قسم کے حالات کی تہہ میں نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ الہام کی روشنی ہمیں ہدایت نہ دے۔اور جو مذہب ما بعدالموت کے حالات پر روشنی نہیں ڈالتا وہ ایک جسم بے جان ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلسہ اعظم مذاہب لاہور کے لیے اسلامی اصول کی فلاسفی کے نام سے اپنے معرکۃ الآراءمضمون کے ایک سوال میں اس پر قرآن کریم، احادیث نبویہ اور علم الٰہی سے پر معارف روشنی ڈالی ہے۔ ہم سب کو اس کتاب کو بار بار پڑھنا اور اپنے علم و عرفان کو وسیع کرنا چاہیے۔

اور آج کے اس موضوع کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ ہم سبھی یہاں جلسہ سالانہ میں شمولیت کے لیے جمع ہوئے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیعت اور جلسہ سالانہ کی اغراض و مقاصد میں سفر آخرت کی تیار ی کابھی ذکر فرمایا تھا۔ آپ نے فرمایا۔
’’تمام مخلصین،داخلین سلسلہ بیعت اس عاجز پر ظاہر ہو کہ بیعت کرنے سے غرض یہ ہے کہ تا دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو اور اپنے مولا کریم اور رسول مقبول ﷺ کی محبت دل پر غالب آ جائے اور ایسی حالت انقطاع پیدا ہوجائے جس سے سفر آخرت مکروم معلوم نہ ہو۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 248)

آپ نے مزید فرمایا:
’’اس جلسہ سے مدعا اور اصل مطلب یہ تھا کہ ہماری جماعت کے لوگ کسی طرح بار بار کی ملاقاتوں سے ایک ایسی تبدیلی اپنے اندر حاصل کر لیں کہ ان کے دل آخرت کی طرف بکلّی جھک جائیں اور ان کے اندر خداتعالیٰ کا خوف پیدا ہو اور وہ زُہد اور تقویٰ اور خدا تَرسی اور پرہیزگاری اور نرم دلی اور باہم محبت اور مواخات میں دوسروں کے لئے ایک نمونہ بن جائیں اور اِنکسار اور تواضع اور راستبازی ان میں پیدا ہو اور دینی مہمات کے لئے سرگرمی اختیار کریں۔‘‘

(شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد6 صفحہ394)

اس سلسلہ میں سب سے پہلا سوال یہ آخرت کی زندگی کیوں ضروری ہے؟ کیوں نہ یہ سمجھ لیا جائے کہ یہی زندگی انسان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ یہیں سے اس کا نقطہ آغاز ہوتاہے اور یہیں اس کا اختتام ہو جاتا ہے؟

بات یہ ہے کہ اگر آخرت کے وجود کو تسلیم نہ کیا جائے اور اسی مادی زندگی کو انسانی زندگی کی ابتدا اور انتہا تصور کر لیا جائے تو انسان کا مقصد حیات بلکہ کائنات کا وجود ہی عبث ہو کر رہ جاتا ہے۔ انسانی روح تو لا متناہی ترقیات کے لیے پیدا کی گئی ہے۔خود انسان کی فطرت بھی اس خیال کو دھکے دیتی ہے کہ اشرف المخلوقات کو محض اسی لیے پیدا کیا گیا ہو کہ وہ جانوروں کی طرح چند سال کھائے پیے اور پھر ہمیشہ کے لیے ختم ہو کر رہ جائے۔ وہ اپنی عقل و جذبات اور اپنی طاقت و دولت کو جیسے چاہے استعمال کرے، جس پر چاہے ظلم کرے یا جس پر چاہے رحم کرے مگرکوئی اسے باز پرس کرنے والایا اجر دینے والا نہ ہو؟۔انسان کا دل اس تصور سے کانپ اٹھتا ہے اوریہ فطرت کی پکار ہے جو اس کے دل و دماغ سے نکل کر ہر ذی شعور انسان سے پوچھ رہی ہے کہ ایسا کیوں ہو گا ؟ کیوں کوئی ہستی ایسی نہیں جس کے سامنے ہر انسان اپنے اعمال کا جواب دے گا۔

یہ فطرت کی پکار ہے جو اپنا جواب مانگتی ہے۔ خدافرماتا ہے کہ آخرت ہی وہ عالم ہے جہاں صحیح ترازو قائم ہو گا۔ وَ الۡوَزۡنُ یَوۡمَئِذِ ۣالۡحَقُّ (الاعراف: 9) یعنی حیات آخرت کے دن ہی تمام اعمال کے لیے انصاف کے درست ترین پیمانے قائم کیے جائیں گے۔

اور سب سے بڑھ کر یہ کہ فرمان خداوندی وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ (الذاریات: 57) کہ میں نے جن و انس کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔ ضرور پورا ہو کررہے گا جہاں تمام روحیں اگر دنیا میں خدا کی عبادت نہ کرتی تھیں تو نہ سہی مگربالآخر آخرت میں ضرور ایک دن عقوبت سے اصلاح پا کر جنت میں جائیں گی اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف ہو ں جائیں گی۔

اور جومادیت پرست فلسفی حیات آخرت کا انکار کرتے ہیں وہ دراصل نیک اعمال کے بجا لانے کو ایک قید محسوس کرتے ہیں کہ کیوں وہ اپنے ہر قول وفعل اور خیال کے جواب دہ قرار دیے جائیں گے؟ فَالَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَۃِ قُلُوۡبُہُمۡ مُّنۡکِرَۃٌ وَّ ہُمۡ مُّسۡتَکۡبِرُوۡنَ

(النحل: 23)

یعنی آخرت پر ایمان نہ لانے والے تکبر کی بناءپرکہتے ہیں کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اس زندگی کے بعد ہم کسی کے زیر حکومت رہیں اور کوئی ہستی ہم پر اپنا اختیار استعمال کرتی چلی جائے؟

منکرین کہتے ہیں:

ءَ اِذَا مَا مِتُّ لَسَوۡفَ اُخۡرَجُ حَیًّا

(مریم: 67)

کہ کیسے ممکن ہے کہ مرنے کے بعد جب ہمارا جسم یہیں گل سڑ جائے اور روح کا کچھ پتہ نہ ہو تو پھر ایک زندگی دیے جائیں؟

قربان جاؤں اپنے حکیم خداوند کریم کے۔ کہ وہ ان جاہلوں کو ان کی ذہنی سطح پر اتر کر اگلی ہی آیت میں فرماتا ہے:

اَوَ لَا یَذۡکُرُ الۡاِنۡسَانُ اَنَّا خَلَقۡنٰہُ مِنۡ قَبۡلُ وَ لَمۡ یَکُ شَیۡئًا

(مریم: 68)

یعنی انسان حیات بعد الموت پر جو حیرت اور انکار کا اظہار کرتا ہے تو کیا وہ غور نہیں کرتا کہ اس وقت بھی اللہ تعالیٰ نے ہی اسے بنایا تھا جب وہ کچھ بھی نہیں تھا۔ یعنی وہ خدا جس نے نیست سے ہستی دے دی تو کیا وہ اس موجود ہستی کو آگے جاری نہیں رکھ سکتا۔

مگر کچھ مومن ایسے بھی ہیں جن کے بارے میں اللہ اتعالیٰ فرماتا ہے :

اَلَّذِیۡنَ یَذۡکُرُوۡنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّ قُعُوۡدًا وَّ عَلٰی جُنُوۡبِہِمۡ وَ یَتَفَکَّرُوۡنَ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِۚ رَبَّنَا مَا خَلَقۡتَ ہٰذَا بَاطِلًاۚ سُبۡحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ

(اٰل عمران: 192)

یعنی نسل آدم میں سے کچھ ذی شعور ضرور نیکو کاردن رات،اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے میری کائنات کے اندر میری قدرت کے جلوے دیکھ دیکھ کرضرور سمجھ جائیں گے کہ قادر و حکیم خدا کی شان سے بعید تھا کہ وہ اس منظم اور پر حکمت کائنات کو بغیر کسی خاص مقصد کے لیے پیدا کرتا اور وہ پکار اٹھیں گے مَا خَلَقۡتَ ہٰذَا بَاطِلًا۔ یعنی اے ارض و سماءکے خالق تو نے یہ سب ہر گز بلا مقصد پیدا نہیں کیا اور ان کی زبان پر ایک ہی نعرہ ہو گا سبحانک یعنی اے خدا تو کسی چیز کو عبث و بے کار پیدا کرنے سے پاک ہے اور پھر وہ پکار پکار کر میرے حضور دعا کرتے رہیں گے کہ اے اللہ تو ہمیں اس آگ سے بچا لے جو تیرے ان نا سمجھ بندوں نے دنیا کو تباہ کرنے کے لیے تیار کر رکھی ہے۔

اب اگلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حیات آخرت تک انسان پر کون سے عالم گزرتے ہیں تو اس بارے میں امام الزماں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسلامی اصول کی فلاسفی میں فرماتے ہیں:
’’قرآنی تعلیم کی رو سے تین عالم ثابت ہوتے ہیں۔ اوّل یہ کہ دنیا جس کا نام عالَم کسب اور نشاء اولیٰ ہے۔ اسی دنیا میں انسان اکتساب نیکی یا بدی کا کرتا ہے۔۔۔دوسرے عالَم کا نام برزخ ہے۔ عالم برزخ میں مستعار طور پر ہر ایک روح کو کسی قدر اپنے اعمال کا مزہ چکھنے کے لیے جسم ملتا ہے۔ وہ جسم۔۔۔ ایک نور سے یا ایک تاریکی سے جیسا کہ اعمال کی صورت ہو جسم تیار ہوتا ہے۔گویا کہ اُس عالَم میں انسان کی عملی حالتیں جسم کا کام دیتی ہے۔۔۔میں اس میں صاحب تجربہ ہوں۔ مجھے کشفی طور پر عین بیداری میں بار ہا مردوں کی ملاقات کا اتفاق ہوا ہے۔ اور میں نے بعض فاسقوں اور گمراہی اختیار کرے والوں کا جسم ایسا سیاہ دیکھا ہے کہ گویا وہ دھوئیں سے بنایا گیا ہے۔۔۔پھر برزخ کے بعد وہ زمانہ ہے جس کا نام عالَمِ بعث ہے۔اُس زمانہ میں ہر ایک روح نیک ہو یا بد،صالح ہو یا فاسق ایک کھلا کھلا جسم حاصل کرے گی۔ اور یہ دن خدا کی ان پوری تجلیات کے لیے مقرر کیا گیا ہے جس میں ہر ایک انسان اپنے رب کی ہستی سے پورے طور پر واقف ہو جائے گا اور ہر ایک شخص اپنی جزاءکے انتہائی نقطہ تک پہنچے گا۔‘‘

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد10 صفحہ40 تا 408)

چونکہ حیات آخرت کا تعلق صرف روح کے ساتھ ہے تو یہاں ایک سوال پید اہوتا ہے کہ روح جسم سے الگ ہو کر کیسے اپنا وجود قائم رکھ سکتی ہے؟ روح جسم کے بغیر کیسے اللہ کی خوشنودی یا نارضگی کو محسوس کر سکتی ہے؟ تو اس سوال کا جواب بھی خدائے حکیم نے نیند کی مثال دے کر ہمیں سمجھایا۔

فرمایا :

اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الۡاَنۡفُسَ حِیۡنَ مَوۡتِہَا وَ الَّتِیۡ لَمۡ تَمُتۡ فِیۡ مَنَامِہَا ۚ فَیُمۡسِکُ الَّتِیۡ قَضٰی عَلَیۡہَا الۡمَوۡتَ وَ یُرۡسِلُ الۡاُخۡرٰۤی اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی

(الزمر: 43)

یعنی اللہ تعالیٰ ہر شخص کی روح کو اس کی موت کے وقت قبض کرتا ہے اورجس کو موت نہیں آئی (اس کی روح) نیند کے وقت قبض کرتا ہے۔

یعنی بتایا کہ دیکھو نیند میں بھی انسان ایک قسم کی موت کی حالت میں ہی ہوتا ہے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ نیند سے وہ بیداری کی طرف واپس آ جاتا ہے لیکن موت سے واپس زندگی کی طرف نہیں آ سکتا۔ پس نیند کی حالت پر اگر ادنیٰ سا غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ خواب کی حالت میں جسم تو بستر پر سویا پڑا ہوتا ہے لیکن سونے والا طرح طرح کے تأثرات کا تجربہ کرتا ہے جو کبھی خوشگوار، آرام دہ اورکبھی ڈراؤنے، ہیبت ناک، اور غم کے ہوتے ہیں۔ حالانکہ وہ انسان تو وہاں پڑا ہوا ہے۔ وہ تو کہیں نہیں گیا۔پھر رؤیا و کشو ف کا سلسلہ الگ ہے،انسان ان کو بھی جسم سے الگ ہو کر دیکھتا ہے۔

یعنی جس طرح ماں کے پیٹ میں بچہ بیرونی دنیا کا اثر قبول کر تا ہے۔جو مثبت بھی ہو تا ہے اور منفی بھی۔بالکل اسی طر ح ہماری روح پر ہمارے اچھے یا برے اعمال اثر انداز ہوتے ہیں۔ انسان کے ہر عمل کا اثر اس کی روحانی استعدادوں اور قویٰ پر پڑتا ہے جس کے نتیجہ میں وہ روحانی قویٰ پاکیزگی میں بڑھتے ہیں یا ان میں نقص او رکمزوری نمایا ں ہو جاتی ہے۔اور وہی آخرت میں متمثل ہو کر اس کے سامنے آئیں گےاور جنت یا دوزخ کا وارث بنائیں گے۔اسی بات کا ذکر قرآن کریم نے یوں بیان فرمایا:

وَ مَنۡ کَانَ فِیۡ ہٰذِہٖۤ اَعۡمٰی فَہُوَ فِی الۡاٰخِرَۃِ اَعۡمٰی وَ اَضَلُّ سَبِیۡلًا

(بنی اسرائیل: 73)

یعنی جس نے یہاں اپنی روحانی آنکھوں کو اندھا کر دیا تو وہ آخرت میں بھی اندھا ہی ہو گا۔اوراسی روحانی نا بینائی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :

فَاِنَّہَا لَا تَعۡمَی الۡاَبۡصَارُ وَ لٰکِنۡ تَعۡمَی الۡقُلُوۡبُ الَّتِیۡ فِی الصُّدُوۡرِ

(حج: 47)

کہ یہ جسمانی آنکھیں تو اندھی نہیں ہو جاتیں اصل میں دل کی آنکھیں ہوتی ہیں جو اندھی ہو جاتی ہیں۔

یہ بہت غور سے سمجھنے کا مسئلہ ہے۔ اگر یہ سمجھ میں آ جائے کہ وہی یادداشت جو روح کے اندر لکھی جاتی ہے اس شخص کا وہ حساب بھی ہے اور اس پر داروغہ بھی ہے۔ اس کے لیے خوشی کا ذریعہ بھی ہے اور دکھ کا سامان بھی۔ اس کی آئندہ زندگی کو جنت بنانے والی بھی ہے اور جہنم بھی۔تو دنیا سے گناہو ںکا سلسلہ ختم ہو جائے۔ پھر انسان ہر ممکن کوشش کرے گا کہ وہ اپنی روح کو پاکیزہ بنانے والا ہو نہ کہ ہلاکت میں ڈالنے والا۔ اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ زَکّٰہَا

(الشمس: 10)

یعنی کامیاب ہو گیا وہ شخص جس نے اپنی روح کو پاکیزہ بنایا۔

وَ قَدۡ خَابَ مَنۡ دَسّٰہَا

(الشمس: 11)

یعنی ہلاک ہو گیا وہ شخص جس نے اپنی روح کو خاک میں ملا دیا۔یعنی اپنی روح کو بیمار، کمزور کر دیا۔

پھر جنت و دوزخ بھی جسمانی نہیں بلکہ روحانی کیفیات ہی کا نام ہیں۔ ایک مرتبہ رسول اکرم ﷺ نے صحابہ کے سامنے یہ آیت کریمہ تلاوت کی:

سَابِقُوۡۤا اِلٰی مَغۡفِـرَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ جَنَّۃٍ عَرۡضُہَا کَعَـرۡضِ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ

(الحدید: 22)

یعنی اس میں ایک ایسی وسیع و عریض جنت کی خوشخبری دی جو تمام کائنات کی طرح ہر طرف محیط ہو گی۔ تو ایک صحابی نے حضور سے حیران ہو کر پوچھا کہ حضو ر اگر جنت کی وسعت ہی تمام کائنات پر محیط ہو گی تو پھر دوزخ کہاں اور کس مقام پر ہو گی؟ تو اس کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ جب دن چڑھتا ہے تو رات کہاں جاتی ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ دن اور رات دونوں بیک وقت ایک ہی جگہ موجود ہوتے ہیں مگر صرف انسان اپنی کیفیات اور حالات کی وجہ سے آدھی زمین پر دن اور آدھی پر رات دیکھتا ہے۔یعنی جنت و دوزخ بیک وقت ایک ہی جگہ موجود تأثرات کا نام ہے اورجو ارواح اللہ تعالیٰ کے نو رکے سامنے ہوں گی ان پر دن یعنی جنت،خوشی کا ساماں ہو گا اور جو روحیں اللہ تعالیٰ کے نور سے محروم ہوں گی ان پر اندھیرا،اور تأثرات دردناک اور تکلیف دہ ہوں گے۔

اور یہی مفہوم جنت کی نعماءکا ہے۔وہ نعمتیں دراصل اعمال صالحہ کی مختلف شکلیں ہوں گی۔ فرمایا:

مَثَلُ الۡـجَنَّۃِ الَّتِیۡ وُعِدَ الۡمُتَّقُوۡنَ

(محمد: 16)

متقیوں کو ملنے والی جنت تمثیلی رنگ میں ایسی ہے جیسے ایک باغ ہو۔یعنی یہ سب تمثیلی کلام ہے۔ اور جہنمیوں کے متعلق فرمایا:

وَ مَاۤ اَدۡرٰکَ مَا الۡحُطَمَۃُ۔ نَارُ اللّٰہِ الۡمُوۡقَدَۃُ۔ الَّتِیۡ تَطَّلِعُ عَلَی الۡاَفۡـِٕدَۃِ

(الہمزہ: 6تا 8)

یعنی اے مخاطب! تجھے کیا معلوم ہے کہ حطمہ کیا ہے ؟ وہ حطمہ اللہ تعالیٰ کی خوب بھڑکائی ہوئی آگ ہے جو دلوں کے اوپر سوار ہو گی۔یعنی جہنم کا تعلق جسم سے نہیں بلکہ حسیات اور دلی کیفیات سے ہو گا۔

ان حسّیات کی تفصیل جن سے جنتی لطف اندوز ہوں گے اور جہنمی تکلیف میں مبتلا ہوں گے قرآن کریم میں جگہ جگہ بیان ہے قلت وقت کی بناء پر چند ایک کا ذکر کرتا ہوں۔

جہنم میں دیکھنے کی حس کے متعلق فرمایا:

اِذۡ یَرَوۡنَ الۡعَذَابَ ۙ اَنَّ الۡقُوَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیۡعًا

(البقرہ: 166)

اگر وہ اس گھڑی کو جب وہ عذاب کو سامنے دیکھیں گے کسی طرح اب دیکھ لیتے تو جان لیتے کہ سب قوت اللہ ہی کو ہے۔

سننے کے متعلق فرمایا:

اِذَا رَاَتۡہُمۡ مِّنۡ مَّکَانٍۭ بَعِیۡدٍ سَمِعُوۡا لَہَا تَغَیُّظًا وَّ زَفِیۡرًا

(الفرقان: 13)

جب وہ جہنم ان کو دور سے دیکھے گی تو وہ جہنمی اس کے جوش کی اور آنے والی مصیبت کی آواز کو سنیں گے۔

چکھنے اور پینے کےمتعلق فرمایا :

مِنۡ وَّرَآئِہٖ جَہَنَّمُ وَ یُسۡقٰی مِنۡ مَّآءٍ صَدِیۡدٍ۔ یَّتَجَرَّعُہٗ وَ لَا یَکَادُ یُسِیۡغُہٗ

(ابراہیم: 17۔18)

جہنم میں اسے تیز گرم پانی پلایا جائے گا اور وہ اسے تھوڑا تھوڑا کر کے پیے گا اور اسے آسانی سے نگل نہیں سکے گا۔

سردی اور گرمی کی حس کے متعلق فرمایا

لَا یَذُوۡقُوۡنَ فِیۡہَا بَرۡدًا وَّ لَا شَـرَابًا۔ اِلَّا حَمِیۡمـًا وَّ غَسَّاقًا

(النباء: 52)

وہاں ان لوگوں کی حالت یہ ہو گی کہ تو اس میں کسی قسم کی ٹھنڈک محسوس کریں گے اور ہی کوئی پینے کی ایسی چیز انہیں ملے گی جو ان کی پیاس بجھا سکے ہاں مگر اللہ تعالیٰ انہیں تیز گرم پانی اور ناقابل برداشت ٹھنڈا پانی دے گا۔

بھوک کے متعلق فرمایا:

لَیۡسَ لَہُـمۡ طَعَامٌ اِلَّا مِنۡ ضَـرِیۡعٍ۔ لَّا یُسۡمِنُ وَ لَا یُغۡنِیۡ مِنۡ جُوۡعٍ

(الغاشیہ: 7۔8)

یعنی اس جماعت کو سوکھے گھاس کے سوا اور کھانا نہیں ملے گا جو نہ تو انہیں موٹا کرے گا اور نہ بھوک کی تکلیف سے بچائے گا۔

چھونے کی حس کے متعلق فرمایا:

لَہُمۡ مِّنۡ جَہَنَّمَ مِہَادٌ وَّ مِنۡ فَوۡقِہِـمۡ غَوَاشٍ

(الاعراف: 42)

ان کا بچھونا بھی جہنم ہی سے ہو گا اور ان کے اوپر اوڑھنے بھی اسی جہنم ہی کے ہوں گے۔

تنگی محسوس کرنے کےمتعلق فرمایا :

وَ اِذَاۤ اُلۡقُوۡا مِنۡہَا مَکَانًا ضَیِّقًا مُّقَرَّنِیۡنَ دَعَوۡا ہُنَالِکَ ثُبُوۡرًا

(الفرقان: 14)

جب وہ اس دوزخ کے ایک تنگ حصہ میں مشکیں باندھے ہوئے پھینکے جائیں گے اس وقت وہ موت کی آرزو کریں گے۔

ان تمام جہنم کی حسیات کے بالمقابل قرآن کریم میں جنتیوں کے بارے میں فرمایا کہ انہیں سماعت کے ذریعہ لطف نصیب ہو گا:

لَا یَسۡمَعُوۡنَ فِیۡہَا لَغۡوًا وَّ لَا تَاۡثِیۡمـًا۔ اِلَّا قِیۡلًا سَلٰمًا سَلٰمًا

(الواقعہ: 26۔27)

یعنی وہ مومن جنتوں میں نہ تو کوئی لغو بات سنیں گے اور نہ گناہ کا کلمہ۔ ہاں مگر ایساقول سنیں گے جو سلامتی کی دعا پر مشتمل ہو گا۔

و ہ گرمی اور سردی کی تکلیف بھی محسوس نہیں کریں گے۔ فرمایا :

لَا یَرَوۡنَ فِیۡہَا شَـمۡسًا وَّ لَا زَمۡہَرِیۡرًا

(الدھر: 14)

انہیں پینے کے لیے عمدہ اور خوشگوار مشروب میسر آئیں گے۔

وَ سَقٰہُـمۡ رَبُّہُـمۡ شَـرَابًا طَہُوۡرًا

(الدھر: 22)

وہ باغوں اور چشموں کے نظاروں سے لطف اندوز ہوں گے۔ فرمایا:

اِنَّ الۡمُتَّقِیۡنَ فِیۡ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوۡنٍ

(الحجر: 46)

وہ تھکان محسوس نہیں کریں گے۔

لَا یَمَسُّہُـمۡ فِیۡہَا نَصَبٌ

(الحجر: 49)

دل ودماغ کی راحتیں انہیں عطا ہوں گی:

فَرَوۡحٌ وَّ رَیۡـحَانٌ ۬ۙ وَّ جَنَّتُ نَعِیۡـمٍ

(الواقعہ: 90)

وہ تمام حالات میں ترو تازگی اور اور سرور محسوس کریں گے

وَ لَقّٰہُـمۡ نَضۡـرَۃً وَّ سُـرُوۡرًا

(الدھر: 12)

اللہ تعالیٰ کی رویت انہیں نصیب ہو گی:

وُجُوۡہٌ یَّوۡمَئِذٍ نَّاضِـرَۃٌ۔ اِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ

(القیامہ: 23۔24)

یعنی کچھ چہرے اس دن تروتازہ ہوں گے اور اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔

اور سب سے بڑھ کر انہیں رضائے الٰہی کی نعمت میسر ہو گی:

وَ رِضۡوَانٌ مِّنَ اللّٰہِ

(اٰل عمران: 16)

اور اسی اللہ کی رضوان کے بارے میں فرمایا کہ

وَ رِضۡوَانٌ مِّنَ اللّٰہِ اَکۡبَرُ

(التوبہ: 72)

یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی سب سے بڑی نعمت ہے جو انہیں ملے گی۔

ان تمثیلی نعماء جنت سے متعلق ایک حدیث قدسی خاص طور پر قابل ذکر ہے جہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

اَعْدَدْتُّ لِعِبَادِی الصَّالِـحِیْنَ مَالَا عَیْنٌ رَّاَتْ وَ لَآ اُذُنٌ سَمِعَتْ وَ لَا خَطَرَ عَلیٰ قَلْبِ بَشَرٍ

(صحیح بخاری، کتاب التفسیر باب قولہ لَا تَعۡلَمُ نَفۡسٌ مَّاۤ اُخۡفِیَ لَہُمۡ)

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے ایسی ایسی نعمتیں تیار کر رکھی ہیں جن کو کسی آنکھ نے نہیں دیکھا،نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں ان چیزوں کا خیال تک گزرا۔

اب ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جنت و جہنم دائمی ہوں گی؟ اس بارے میں قرآن کریم کی تعلیم یہ ہے کہ جنت دائمی ہے اور جہنم عارضی ہے۔ جنت کے متعلق فرمایا:

عَطَآءً غَیۡرَ مَجۡذُوۡذٍ

(ہود: 109)

کہ جنت ایک ایسی عطا ہے کبھی منقطع نہیں ہو گی۔جبکہ جہنم کے عارضی ہونے کے متعلق فرمایا:

عَذَابِیۡۤ اُصِیۡبُ بِہٖ مَنۡ اَشَآءُ ۚ وَ رَحۡمَتِیۡ وَسِعَتۡ کُلَّ شَیۡءٍ

(الاعراف: 157)

یعنی میں اپنا عذاب جس مستحق کو چاہتا ہوں دیتا ہوں مگر میری رحمت ہر ایک چیز پر حاوی ہے۔ گویا رحمت عذاب پر بھی حاوی ہے اور رحمت کی وسعت عذاب کو ختم کر دے گی۔خود رسول کریم ﷺ نے فرمایا:

یَأْتِیْ عَلیٰ جَہَنَّمَ زَمَانٌ لَّیْسَ فِیْھَا اَحَدٌوَّ نَسِیْمُ الصَّبَا تُـحَرِّکُ اَبْوَابَھَا

(تفسیر معالم التنزیل)

کہ ایک ایسا وقت آئے گا کہ جہنم خالی ہوجائے گی اور باد نسیم اس کے دروازوں کو کھٹکھٹائی گی۔ یعنی جہنم بے آباد ہو چکی ہو گی۔

لیکن یہ صحیح ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو عذاب آتا ہے وہ دردناک ہوتا ہے۔ یعنی شدت بھی اس میں ہوتی ہے اور لمبا بھی ہوتا ہے۔ عذاب اور دکھ کی تو ایک گھڑی بھی لمبی معلوم ہوتی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ کبھی ختم نہیں ہو گی

حیات بعد الموت میں سخت باز پرس کے تصور سے شدید پریشانی کے عالم میں ہمارے دل میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہماری نجات کی کوئی راہ ہے؟ اسی حالت میں جب قرآن کریم پر نگاہ پڑتی ہے تو غفور الرحیم خدا فرماتا ہے:

لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَۃِ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یَغۡفِـرُ الذُّنُوۡبَ جَمِیۡعًا

(الزمر: 54)

یعنی اے وہ تمام انسانو ں جو اپنے گناہوں کی وجہ سے سخت پریشان ہو، اپنے اعمال کو درست بھی کرو اور ساتھ ہی یاد رکھو کہ اللہ کی رحمت سے مایوس مت ہو۔یادرکھو خدا تعالیٰ تمام گناہوں کو معاف کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ وہ جہاں انتقام لینے میں سخت ہے، وہیں وہ ارحم الراحمین یعنی تمام رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا بھی تو ہے۔ مگر اس کی مغفرت سے وہی فائدہ اٹھا سکتا ہے جو سچے دل سے تمام گزشتہ گناہو ں سے توبہ و استغفار کرے اور آئندہ کسی گناہ کے نہ کرنے کا عہد کرے۔ حضرت رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ
اللہ تعالیٰ اپنا ہاتھ رات کوپھیلاتا ہے تا کہ دن کے وقت گناہ کرنے والوں کی توبہ کو قبول کرے۔ اور دن کے وقت ہاتھ پھیلاتا ہے تا کہ رات کے وقت گناہ کرنے والوں کی توبہ قبول کرے۔ اور اللہ تعالیٰ ایسا ہی کرتا رہے گا یہاں تک کہ سورج اپنے مغرب سے طلوع ہو

(صحیح مسلم،کتاب التوبہ بات قبول التوبہ من ذنوب)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں
’’سچی بات ہے کہ توبہ اور استغفار سے گناہ بخشے جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ ا س سے محبت کرتا ہے۔ سچی توبہ کرنے والا معصوم کے رنگ میں ہوتا ہے۔ پچھلے گناہ تو معاف ہو جاتے ہیں پھر آئندہ کے لیے خدا سے معاملہ صاف کر لے۔ اس طرح سے خدا تعالیٰ کے اولیاء میں داخل ہو جائے گا اورپھر اس پر کوئی خوف اور حزن نہیں ہو گا۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ594)

ہم پر خدا تعالیٰ کا بے پایاں فضل و احسان ہے کہ اس نے ہمیں نبوت کی قائم مقام خلیفة المسیح کی ذات عطا فرمائی ہے جوہمارے روحانی و اخلاقی نگران ہیں۔وہ ہمیں نہ صرف حیات الدنیا بلکہ حیات الآخرت میں بھی کامیابی و کامرانی کی خاطر دن رات راہنمائی عطا فرماتے اور نصائح سے نوازتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم خلیفۃ المسیح کی تمام نصائح کو سنیں،ان پرعمل کریں اور حرز جان بنائیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

(محمد فاتح احمد ناصر۔ مربی سلسلہ استاد جامعہ احمدیہ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

انڈیکس مضامین نومبر 2021ء الفضل آن لائن لندن

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ