• 23 اپریل, 2024

اللہ تعالیٰ کے دربار میں اس کی سزا سخت

شدید مہنگائی کے دور میں قیمتی انسانی جانوں کا قتل سب سے سستا اور
اللہ تعالیٰ کے دربار میں اس کی سزا سخت

آج کا دور بھی عجیب ہے، ایک طرف ایسی ہوشربا مہنگائی کہ غریب جو تین وقت آرام سے روٹی کھا کر رات کو سوتا تھا، وہ دو وقت کا کھانے پر مجبور ہوگیا ہے، جو دووقت کھاتا تھا اس کی خوراک ایک وقت تک محدود ہو کے رہ گئی ہے۔ باقی آپ خود سمجھ لیں جو ایک وقت کھا کر گزارا کرتا تھا وہ فاقہ کرنے پر مجبور ہوگیا ہے۔ لیکن پاکستان جیسا بد قسمت ملک بھی دنیا میں کہیں نہیں پایا جاتا جہاں شدت پسند اور بنیاد پرست مولویوں کا ٹولہ عوام کو جنت میں جانے کا جھوٹا لالچ دے کر معصوم لوگوں کی جان لینے کے لئے اُکساتا پھر رہا ہے، گویا ریکارڈ مہنگائی کے اس دور میں انسانی جان کی قیمت ریکارڈ کم ہوکر زیرو پر آ گئی ہے۔ یا اس طرح کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ انتہائی قیمتی اور گرانقدر انسانی جان سب سے سستی ہوکے رہ گئی ہے۔ کسی کے گھر، دکان یا آفس میں گھس کر فائر کر کے اللہ کا بندہ ہلاک کر دینا گاجر مولی کاٹنے سے بھی بے وقعت ہو کے رہ گیا ہے۔ مولویوں کا کام تو قرآن کریم کی حسین تعلیم کو لوگوں کے دلوں میں جاگزیں کرکے ان کو سچا مسلمان بنانا ہے، لیکن اس کے برعکس انہوں نے نا صرف خود قرآنی تعلیمات کو اپنی پیٹھوں کے پیچھے پھینک دیا ہے بلکہ عوام کو بھی اس سے روکتے ہیں۔ ان کو کیا پتہ اللہ تعالیٰ نے ایک مومن کو قتل کرنے کی کیا سزا اپنی شریعت میں رقم کر رکھی ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ النساء کی آیت 94میں فرماتا ہے: ترجمہ: اور جو شخص کسی مومن کو دانستہ قتل کردے تو اس کی سزا جہنم ہوگی۔ وہ اس میں دیر تک رہتا چلا جائے اور اللہ اس سے ناراض ہوگا اور اسے اپنی جناب سے دور کردے گا اور اس کے لئے بہت بڑا عذاب تیار کرے گا۔

آج ایک اور قیمتی جان سستی ہو کے اللہ اور اس کی جماعت کی خاطر قربان ہوگئی۔ بہت دکھ اور افسوس کے ساتھ اطلاع دی جاتی ہے کہ اپنے گھر کا چشم و چراغ ، جماعت احمدیہ کا بے لوث مرد مجاہد اور سپوت ایک اور احمدی خادم مکرم کامران احمد ولد نصیر احمد صاحب آف سیٹھی ٹاؤن جو کہ انڈسٹریل اسٹیٹ کوہاٹ روڈ پشاور میں کام کرتے تھے، ان کو فیکٹری میں نامعلوم شخص نے فائرنگ کر کے شہید کر دیا۔ اِنّا لِلہ وَاِنّا اِلیہِ رَاجِعُون۔

یہ ہے وہ آزاد اسلامی جمہوریہ پاکستان جس کو سیکولر اسٹیٹ بنانے کا خواب قائد اعظم نے اپنے ہم وطنوں کو دکھایا تھا۔ اور اب ان ملاؤں کی ایما پر جہاں اس قدر آزادی ہے کہ ہر متعصب شخص کی تربیت ہی ایسے ماحول میں ہوتی ہے کہ جب جی چاہے، اسلحہ لے اور کسی بھی فرقے کے انسان کو چاہے وہ کلمہ گو مسلمان ہی کیوں نہ ہو اسے گولی مار دے اللہ کے نام پہ، اور یہ سلوک خاص طور پر اپنے ملک کے خیرخواہ اور مخلص احمدیوں کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے۔ اللہ ہی کے نام لیوا کو جان سے مارنا کہاں کی انصاف پسندی ہے۔ اس ملک کو مدینہ کی ریاست کابے پر کا خواب دکھانے والے حکمرانوں کے ہاں ایسے قاتل کی کوئی سزا نہیں؟۔ اب تک سینکڑوں احمدی مسلمان، جنہیں مسلمان کہنا بھی جرم بنا دیا گیا ہے تو پھر ایسوں کو قتل کرنا بھی آئین کی رو سے حلال قرار دے کے انسانی جان کو تعصب کے سپرد کرکے یہ ملک اللہ کے نبیﷺ کی کون سی سنت پوری کر رہا ہے یا کون سے قرآن پہ عمل کر رہا ہے۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔ اس پر تو ہزار دفعہ افسوس بھی کم پڑجائے گا۔

1974ء میں جو جھوٹا سیاسی فیصلہ کرکے جس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں تھا آئین بنایا گیا۔ تو مذہب کی آڑ میں اس وقت کی اسمبلی اور نام نہاد وزیراعظم نے نفرت، تعصب، فرقہ واریت، اور اسلام کی سراسر غلط تصویر دکھا کر وہ بیج بویا جو اب ایک درخت بن چکا ہے۔ اس آئین نے اسلام کو مزید ٹکڑے ٹکڑے کرکے ملک میں نفرت اور خوف کی فضا قائم کردی ہے ۔ ہر فرقہ دوسرے کو کافر کہتا ہے۔ حیرت ہے کہ بائیس کروڑ کی آبادی والے مسلمان ملک میں نوے ہزار مدارس اور کروڑوں شدت پسند مولوی ہونے کے باوجود دنیا کا کونسا غلیظ کام ہے جو اس اسلامی معاشرے میں نہیں ہورہا جس کو قرآن منع کرتا ہو۔ افسوس اس بات کا ہے کہ قرآن پاک کے سات سو احکام ہیں جن میں سے ایک پر بھی عمل نہیں ہورہا یعنی جن سے روکا جاتا ہے وہی کئے جارہے ہیں۔ اور جن کو کرنے کا حکم دیا جاتا ان سے چشم پوشی کی جاتی ہےبلکہ بہت دور پھینک دیا جاتا ہے۔ کیا ایسا ہوتا ہے اسلامی معاشرہ۔؟ رسول اللہ ﷺ کے دور حکومت میں تو ہر یہودی، عیسائی اور مشرک کی جان و مال کی حفاظت رسول اللہ ﷺ کے ذمے تھی۔ یہ کیسا اسلامی ملک ہے جہاں رشوت، چوربازاری، مافیا گردی، زنا، شراب، جعلسازی، اقرباپروری، مفاد پرستی، لوٹ کھسوٹ، اور ظلم و ناانصافی سب حلال ہے لیکن کسی انسان کے جان و مال کی حفاظت کرنا ریاست کا کام ہی نہیں ہے۔

کوئی مذہب ہی نہیں لیکن کاغذی اور ہوائی فتنہ بنا کے نفرت پھیلادی گئی ہے تاکہ اپنے غلیظ مقاصد کے لیئے استعمال کیا جاسکے۔ جبکہ سچے مہدی و مسیح علیہ اسلام کے پیروکاروں کو انکی بات سنے بغیر ،بغیر کسی تحقیق اور دلیل کے محض سیاست اور دنیادار ی کے لئے ان کلمہ گو مسلمانوں کو کافر،مرتد،اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دے کے کھلے عام نفرت ،ناانصافی اور قتل کی اجازت دینا کون سا اسلام ہے بلکہ اس ہوائی نام اور کاغذی کارڈ کو ہمیشہ اپنے جھوٹے مقاصد کے لیئے استعمال کرنا اور ایک پرامن اور شریف جماعت کو تختہ مشق بنانا کہاں کا اسلام ہے؟

ظاہر ہے سب سمجھتے ہیں کہ احمدی کا ایمان اور انکی تعلیم سچی ہے۔ یہ زندہ لوگ ہیں۔ یہ سچے اسلام پہ عمل کرتے ہیں۔ یہ سڑکوں پہ اپنے عزیزوں کے جنازے رکھ کے حکومت سے انصاف نہیں مانگتے بلکہ صبر اور دعا سے اللہ سے مدد مانگتے ہیں۔ یہ اصل میں قرآن پاک اور رسول اللہ ﷺ کی سنت اور حدیث کے مطابق چلنے والے سچے مسلمان ہیں۔ یہ رشوت، جعلسازی کرپشن، ظلم، جھوٹ، ناانصافی اور قتل و غارت سے دور لوگ ہیں۔ اور اس معاشرہ میں جتنی بھی غلاظت، بےحیائی، اور بدامنی ہے احمدی ان سے کوسوں دور ہے۔ لیکن پھر بھی انکے خلاف جھوٹا پراپیگنڈہ کرکے اپنے ذاتی اور سیاسی مفاد کے لیئے ایک ایک کرکے انکا قتل کرنا ایک مسلمان کی تعلیم ہے ہی نہیں۔ کیا ایسے یہ لوگ احمدیت کو پھیلنے سے روک سکتے ہیں؟ جو خدا کی قسم ایک الٰہی جماعت ہے، جو خدا سے محبت کرتی ہے اور خدا اس سے۔ اور جس کا خدا نے بیج بویا۔ اور خدا نے اپنے وعدے کے مطابق اسے ساری دنیا میں پھیلا دیا۔ اور پھیلا رہا ہے۔ اور قیامت تک پھیلاتا رہے گا۔ ان شاء اللّٰہ

اے پاکستان کے باسیو! یاد رکھو ! جس معاشرے میں انسانی قیمتی جان سب سے سستی ہوجائے۔ جہاں ظلم اور ناانصافی بڑھ جائے۔ جہاں اللہ کا نام لے کے اللہ کے بندوں پے ظلم کیا جائے۔ جہاں ریاست اور قانون بھی ایسے ظلم پہ ایک لفظ نہ بولے۔ تو پھر ایسے معاشرے کو ہلاک ہونے کے لیئے اللہ سے کوئی نہیں بچا سکتا پھر اللہ کا عذاب ہر طرف سے ایسے معاشرے کو تباہ کرتا چلا جاتا ہے۔ اور جب تک یہ جھوٹا غیر منصفانہ آئین موجود ہے پاکستان اس اجتماعی گناہ کے نتیجے میں تباہی کے گڑھے میں گرتا چلا جائے گا اور اللہ کی لعنتیں اور اللہ کا عذاب مہنگائی، بد امنی، ناانصافی، بے غیرتی، اور ظلم کی صورت میں اس قوم پر آتا ہی رہے گا۔

اپنے رب کو راضی کر لو۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے۔ اللہ ان پر رحم فرمائے اور ان کو صراط مستقیم دیکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

(قدسیہ نور والا۔ ناروے)

پچھلا پڑھیں

انڈیکس مضامین نومبر 2021ء الفضل آن لائن لندن

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ