• 19 اپریل, 2024

احسن رنگ میں والدین کی خدمت کرنی چاہئے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’سب سے بڑا فضل جو اس نے ہم پر کیاوہ یہ ہے کہ تمہیں ماں باپ دئیے جنہوں نے تمہاری پرورش کی، بچپن میں تمہاری بے انتہاء خدمت کی،راتوں کو جاگ جاگ کر تمہیں اپنے سینے سے لگایا۔ تمہاری بیماری اور بے چینی میں تمہاری ماں نے بے چینی اور کَرْب کی راتیں گزاریں، اپنی نیندوں کو قربان کیا، تمہاری گندگیوں کو صاف کیا۔ غرض کہ کون سی خدمت اور قربانی ہے جو تمہاری ماں نے تمہارے لئے نہیں کی۔ اس لئے آج جب ان کو تمہاری مدد کی ضرورت ہے تم منہ پرے کر کے گزر نہ جاؤ، اپنی دنیا الگ نہ بساؤاور یہ نہ ہو کہ تم ان کی فکر تک نہ کرو۔ اور اگر وہ اپنی ضرورت کے لئے تمہیں کہیں تو تم انہیں جھڑکنے لگ جاؤ…نہیں، بلکہ وہ وقت یاد کرو جب تمہاری ماں نے تکالیف اٹھاکر تمہاری پیدائش کے تمام مراحل طے کئے۔ پھر جب تم کسی قسم کی کوئی طاقت نہ رکھتے تھے، تمہیں پالا پوسا، تمہاری جائز وناجائز ضرورت کو پورا کیا۔ اور آج اگر وہ ایسی عمر کو پہنچ گئے ہیں جہاں انہیں تمہاری مدد کی ضرورت ہے جو ایک لحاظ سے ان کی اب بچپن کی عمر ہے،کیونکہ بڑھاپے کی عمر بھی بچپن سے مشابہ ہی ہے۔ان کو تمہارے سہارے کی ضرورت ہے۔تو تم یہ کہہ دو کہ نہیں، ہم تو اپنے بیوی بچوں میں مگن ہیں ہم خدمت نہیں کرسکتے۔اگر وہ بڑھاپے کی وجہ سے کچھ ایسے الفاظ کہہ دیں جو تمہیں ناپسند ہوں تو تم انہیں ڈانٹنے لگ جاؤ، یا مارنے تک سے گریز نہ کرو۔ بعض لوگ اپنے ماں باپ پر ہاتھ بھی اٹھا لیتے ہیں۔ میں نے خود ایسے لوگوں کودیکھاہے، بہت ہی بھیانک نظارہ ہوتاہے۔اُف نہ کرنے کا مطلب یہی ہے کہ تمہاری مرضی کی بات نہ ہوبلکہ تمہارے مخالف بات ہوتب بھی تم نے اُف نہیں کرنا۔ اگر ماں باپ ہر وقت پیار کرتے رہیں، ہربات مانیں، ہروقت تمہاری بلائیں لیتے رہیں، لاڈ پیار کرتے رہیں پھرتو ظاہر ہے کوئی اُف نہیں کرتا… تمہاری مرضی کے خلاف باتیں ہوں تب بھی نرمی سے، عزت سے، احترام سے پیش آنا ہے۔ اور نہ صرف نرمی اورعزت و احترام سے پیش آنا ہے بلکہ ان کی خدمت بھی کرنی ہے۔ اوراتنی پیار، محبت اور عاجزی سے ان کی خدمت کرنی ہے جیسی کہ کوئی خدمت کرنے والا کرسکتاہو۔ اور سب سے زیادہ خدمت کی مثال اگر دنیا میں موجود ہے تو وہ ماں کی بچے کے لئے خدمت ہی ہے…بعض لوگ لکھتے ہیں کہ ماں باپ کی خدمت نہیں کرسکتے، ایک بوجھ سمجھتے ہیں اور یہ لکھتے ہیں کہ جماعت ایسے بوڑھوں کے مراکز کھولے جہاں یہ بوڑھے داخل کروا دیئے جائیں کیونکہ ہم تو کام کرتے ہیں، بیوی بھی کام کرتی ہے، بچے اسکول چلے جاتے ہیں اور جب گھر آتے ہیں تو بوڑھے والدین کی وجہ سے ڈسٹرب (Disturb) ہوتے ہیں، اس لئے سنبھالنا مشکل ہے۔ کچھ خوفِ خدا کرنا چاہئے۔ قرآن توکہتاہے کہ ان کی عزت کرو، ان کا احترام کرو اور اس عمر میں اُن پررحم کے پرجھکا دو۔ جس طرح بچپن میں انہوں نے ہرمصیبت جھیل کر تمہیں اپنے پروں میں لپیٹے رکھا۔ تمہیں اگر کسی نے کوئی تکلیف پہنچانے کی کوشش کی تو مائیں شیرنی کی طرح جھپٹ پڑتی تھیں۔ اب ان کو تمہاری مدد کی ضرورت ہے توکہتے ہو کہ ان کو جماعت سنبھالے۔ جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے سنبھالتی ہے لیکن ایسے بوڑھوں کو جن کی اولاد نہ ہویاجن کے کوئی اور عزیز رشتے دار نہ ہوں۔ لیکن جن کے اپنے بچے سنبھالنے والے موجود ہوں تو بچوں کا فرض ہے کہ والدین کو سنبھالیں۔ تو ایسی سوچ رکھنے والوں کو اپنی طبیعتوں کو، اپنی سوچوں کو تبدیل کرنا چاہئے۔یہ نہیں کہ جب تک والدین سے فائدہ اٹھاتے رہے، اٹھا لیا، مکان اور جائیدادیں اپنے نام کروالیں، اب ان کو پرے پھینک دو۔ کسی احمدی کی یہ سوچ نہیں ہونیچاہئے۔‘‘

(خطبہ جمعہ مورخہ 16 جنوری 2004ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 فروری 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 فروری 2020