• 24 اپریل, 2024

خداتعالیٰ کی شناخت

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی معرکة الآراء تصنیف ’اسلامی اصول کی فلاسفی‘ میں خدا تعالیٰ کو پانے، اُسے پہچاننے، اُس پر ایمان مضبوط کرنے کے جو وسائل خدا تعالیٰ نے رکھے ہیں ان کا ذکر کرتے ہوئے آٹھ وسائل بیان فرمائے ہیں جو انسان کے مقصدِ پیدائش کو پورا کرنے والے بھی ہیں۔ اس وقت میں اپنے مضمون کے حوالے سے ایک وسیلے کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اقتباس پیش کروں گا جو پانچویں وسیلے کے طور پر آپؑ نے بیان فرمایا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ

’’پانچواں وسیلہ اصل مقصود کے پانے کے لیے خدا تعالی نے مجاہدہ ٹھہرایا ہے۔ یعنی اپنا مال خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے ذریعہ سے اور اپنی طاقتوں کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے ذریعہ سے اور اپنی جان کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے ذریعہ سے اور اپنی عقل کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے ذریعہ سے اس کو ڈھونڈا جائے۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔

جَاهِدُوْا بِاَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ (التوبہ:41) وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ (البقرہ:4) وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت:70)

یعنی اپنے مالوں اور اپنی جانوں اور اپنے نفسوں کو مع ان کی تمام طاقتوں کے خدا کی راہ میں خرچ کرو۔ اور جو کچھ ہم نے عقل اور علم اور فہم اور ہنر وغیرہ تم کو دیا ہے ۔ وہ سب کچھ خدا کی راہ میں لگاؤ۔ جو لوگ ہماری راہ میں ہر ایک طور سے کوشش بجا لاتے ہیں ہم ان کو اپنی راہیں دکھا دیا کرتے ہیں۔‘‘

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 419-418)

پھر خدا تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کا طریق بتاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ایک موقعے پر فرمایا کہ

’’تمہارے لیے ممکن نہیں کہ مال سے بھی محبت کرو اور خدا سے بھی۔ صرف ایک سے محبت کر سکتے ہو۔ پس خوش قسمت وہ شخص ہے کہ خدا سے محبت کرے ۔اور اگر کوئی تم میں سے خدا سے محبت کر کے اس کی راہ میں مال خرچ کرے گا تو میں یقین رکھتا ہوں کہ اس کے مال میں بھی دوسروں کی نسبت زیادہ برکت دی جائے گی۔ کیونکہ مال خود بخود نہیں آتا بلکہ خدا کے ارادہ سے آتا ہے۔ پس جو شخص خدا کے لیے بعض حصہ مال کا چھوڑتا ہے وہ ضرور اسے پائے گا لیکن جو شخص مال سے محبت کر کے خدا کی راہ میں وہ خدمت بجا نہیں لاتا جو بجا لانی چاہیے تو وہ ضرور اس مال کو کھوئے گا۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 497)

پھر آپؑ نے فرمایا کہ چاہیے کہ ہماری جماعت کا ہر ایک متنفس، ہر شخص یہ عہد کرے کہ میں اتنا چندہ دیا کروں گا۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کے لیے عہد کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے رزق میں برکت دیتا ہے۔

(ملفوظات جلد 6 صفحہ 41)

آپؑ نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ جن کو علم نہیں، جو نئے آنے والے ہیں، جو لاپرواہی کرتے ہیں یا لاپرواہی نہیں بھی کرتے توبعض دفعہ مالی قربانی کرنے کااحساس نہیں ہوتا ۔ ایسے لوگوں کو سمجھانا چاہیے کہ اگر تم سچا تعلق رکھتے ہو تو خدا تعالیٰ سے پکا عہد کر لو کہ اس قدر چندہ ضرور دیا کروں گا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے لاکھوں مخلصین ہیں جن کو جب چندے کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی جائے تو اللہ تعالیٰ کی محبت کو حاصل کرنے کے لیے مالی قربانی میں بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ میں گزشتہ کئی سال سے جماعتی نظام کو اس طرف توجہ دلا رہا ہوں کہ نئے آنے والوں کو مالی نظام یا مالی قربانی کے نظام میں ضرور شامل کرنا چاہیے۔ کوئی چاہے ایک پینس (pence) دینے کی ہی استطاعت رکھتا ہو تو وہ اپنی استطاعت کے مطابق ایک پینس دے۔ بعض جگہ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض دفعہ مالی کشائش کے لوگ یہ کہہ دیتے ہیں یا جماعتی نظام افریقہ میں یا غریب ملکوں میں بعض جگہوں پہ بعض لوگوں کو بعض دفعہ یہ کہہ دیتا ہے یہاں بعض لوگ اپنے غریب رشتہ داروں کی طرف سے چندے کی ادائیگی کر دیتے ہیں یا غریبوں کی طرف سے رقم دے دیتے ہیں کہ اچھا یہ ہماری طرف سے چندہ ہے۔ ٹھیک ہے یہ بھی ایک نیکی ہے لیکن ان لوگوں کو، چاہے وہ غریب ہیں خود حصہ لینا چاہیے جتنی بھی اس کی استطاعت ہو۔ صرف مال جمع کرنا مقصد نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی محبت کی خاطر اس کے دین کے لیے قربانی کرنا مقصد ہے۔ پس جہاں جماعتی نظام اس طرح چندہ وصول کرتا ہے اور بعض دفعہ ایسی باتیں میرے علم میں آ جاتی ہیں کہ لوگوں سے کہہ دیا اور کسی کے نام پہ ڈال دیا وہ غلط کرتا ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ مورخہ 3جنوری 2020ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 مارچ 2020

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ