• 19 اپریل, 2024

کسی عمل کے نتیجہ میں خدا کا فضل ہو تو ایسے موقعوں پر اللہ تعالیٰ کے حضور اور جھکنا چاہئے

کسی عمل کے نتیجہ میں خدا کا فضل ہو تو ایسے موقعوں پر اللہ تعالیٰ کے حضور اور جھکنا چاہئے۔ کسی قسم کی بڑائی دل میں نہیں آنی چاہئے بلکہ عاجزی میں ترقی ہونی چاہئے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مسافر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپؐ نے گھر کہلا بھیجا کہ مہمان کے لئے کھانا بھجواؤ۔ جواب آیا کہ پانی کے سوا آج گھر میں کچھ نہیں۔ اس پر حضورؐ نے صحابہ ؓ سے فرمایا اس مہمان کے کھانے کا بندوبست کون کرے گا۔ ایک انصاری نے عرض کیا: حضور! میں انتظام کرتا ہوں۔ چنانچہ وہ گھر گیا او ربیوی سے کہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان کی خاطر مدارات کا اہتمام کرو۔ بیوی نے جواباً: کہا۔ آج گھر میں تو صرف بچوں کے کھانے کے لئے ہے۔ انصاری نے کہا اچھا تو کھانا تیار کرو اور چراغ جلاؤ اور جب بچوں کے کھانے کا وقت آئے تو ان کو تھپتھپا کر اور بہلا کر سلا دو۔ چنانچہ عورت نے کھانا تیار کیا، چراغ جلایا، بچوں کو بھوکا سلا دیا۔ پھر چراغ درست کرنے کے بہانے اٹھی اور جا کر چراغ بجھا دیا۔ اور پھر دونوں مہمانوں کے ساتھ بیٹھ گئے۔ بظاہر کھانا کھانے کی آوازیں نکالتے رہے تاکہ مہمان سمجھے کہ میزبان بھی ہمارے ساتھ بیٹھے کھانا کھا رہے ہیں۔ اس طرح مہمان نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور وہ خود بھوکے سوگئے۔ صبح جب وہ انصاری حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؐ نے ہنس کر فرمایا: تمہاری رات کی تدبیر سے تو اللہ تعالیٰ بھی ہنسا اسی موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ’’یہ پاک باطن ایثار پیشہ مخلص مومن اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں۔ جبکہ وہ خود ضرورتمند اور بھوکے ہوتے ہیں۔ اور جو نفس کے بخل سے بچائے گئے وہی کامیابی حاصل کرنے والے ہیں‘‘۔

(بخاری کتاب المناقب باب یؤثرون علی انفسہم و لو کان بھم خصاصۃ)

(اس کا ترجمہ میں نے پڑھ دیا ہے۔) اس حدیث میں جو ہم میں سے بہت دفعہ بہت سے سن بھی چکے ہوں گے، پڑھ بھی چکے ہوں گے لیکن ہر دفعہ جب اس کو پڑھو اس کا عجیب لطف اور مزا ہے اور خواہش پیدا ہوتی ہے کہ کاش اس صحابی کی جگہ ہم ہوتے کیونکہ یہ مہمان نوازی تو ایسی اعلیٰ پائے کی مہمان نوازی ہے کہ جب تک یہ دنیا قائم ہے اللہ تعالیٰ نے اس مہمان نوازی کی مثال کو محفوظ کر لیا ہے اور ہمیشہ کے لئے یہ حوالہ بن چکی ہے اور ریکارڈ میں رہے گی۔ کیونکہ یہ ایسی مہمان نوازی ہے جس پر خوشنودی کا سرٹیفیکیٹ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے خود دیا ہے۔ یہ مثالیں قصے کہانیوں کے طور پر نہیں دی جاتیں۔ آج بھی اگر چاہو تو ایسی مہمان نوازی کی مثال قائم کرسکتے ہو۔ ہر ایک کی اپنی اپنی استعدادیں ہوتی ہیں، توفیق ہوتی ہے۔ اس کے مطابق جتنی زیادہ مہمان نوازی کی جا سکے کرنی چاہئے اور مہمان نوازی کے اعلیٰ معیار حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ لیکن یہ اعزاز بہرحال اس انصاری کا قائم ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے خوشنودی کا اظہار فرمایا۔ لیکن ساتھ یہ بھی ہے کہ اگر نیک نیتی کے ساتھ خدا کی رضا حاصل کرنے کے لئے اس کی خوشنودی کی خاطر قربانیوں کے اعلیٰ معیار قائم کرتے ہوئے مہمان نوازی کریں گے اور اس لئے مہمان نوازی کریں گے کہ یہ خدا کے پیارے مسیح کے مہمان ہیں، محض للہ یہاں یہ اکٹھے ہوئے ہیں۔ اور ان کی خدمت ہم نے کرنی ہے تو چاہے ہمیں پتہ چلے یا نہ چلے یہ مہمان نوازیاں بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں ریکارڈ ہو جائیں گی۔ اور اللہ تعالیٰ اپنی خاطر کئے گئے کسی فعل کو بغیر اجر کے نہیں چھوڑتا۔ تو چاہے اس جہان میں اجر دے، چاہے اگلے جہان میں رکھے، جو نیکیاں ہیں ان کا تو دونوں جہانوں میں اجر ملتا ہے۔ لیکن بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کے زندگی میں ہی ایسے سلوک ہو جاتے ہیں جو فوری طور پر ظاہر ہو جاتے ہیں۔ اور اس کے فضل نظر آ رہے ہوتے ہیں جس سے احساس ہوتا ہے کہ شاید یہ فضل فلاں وجہ سے ہوا ہے۔ اور جب کبھی ایسا موقعہ ہو تو ایسے موقعوں پر اللہ تعالیٰ کے حضور اور جھکنا چاہئے۔ کسی قسم کی بڑائی دل میں نہیں آنی چاہئے بلکہ عاجزی میں ترقی ہونی چاہئے۔

عبداللّہ بن طُھْفَہ رضی اللّہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کثرت سے مہمان آتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ ہر کوئی اپنا مہمان لیتا جائے۔ ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بہت زیادہ مہمان آ گئے۔ اور آپؐ نے فرمایا کہ ہر کوئی اپنے حصے کا مہمان ساتھ لے جائے۔ عبداللہ بن طُھْفَہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں ان میں سے تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گئے تھے۔ چنانچہ جب آپؐ گھر پہنچے تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا: کیا گھر میں کھانے کو کچھ ہے؟ انہوں نے عرض کی: جی ہاں ! حریرہ نامی کھانا ہے جو میں نے آپ کے افطار کے لئے تیار کیا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ آپ وہ کھانا ایک برتن میں ڈال کر لائیں۔ اس میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تھوڑا سا کھایا اور پھر فرمایا بسم اللہ پڑھ کر کھائیں اور مہمانوں کو دے دیا۔ چنانچہ کہتے ہیں کہ انہوں نے کھانے میں سے اس طرح کھایا کہ ہم اسے دیکھ نہیں رہے تھے۔ اس کے بعد آنحضرتؐ نے فرمایا اے عائشہ! کیا تمہارے پاس پینے کو کوئی چیز ہے۔ انہوں نے کہا :جی ہاں حریرہ ہے جو میں نے آپ کے لئے تیار کیا ہے۔ فرمایا کہ لے آؤ تو وہ لے آئیں۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ برتن لے کے اپنے منہ کو لگایا، اس میں سے تھوڑا سا لیا اور پھر مہمانوں کو دے دیا کہ بسم اللہ کرکے پینا شروع کریں۔ پھر کہتے ہیں کہ ہم بھی اسے اسی طرح پینے لگے کہ ہم اسے دیکھ نہیں رہے تھے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے کر وہ سونے کے لئے مسجد میں چلے گئے اور پھر کہتے ہیں صبح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور لوگوں کو الصَّلٰوۃ الصَّلٰوۃ کہہ کر لوگوں کو بیدار کرنے لگے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول تھا کہ جب آپؐ صبح کے وقت آتے تو لوگوں کو نماز کے لئے اٹھاتے۔ راوی کہتے ہیں جب میرے پاس سے گزرے تو میں اوندھے منہ لیٹا ہوا تھا۔ آپؐ نے دریافت فرمایا: تم کون ہو؟ میں نے عرض کیا میں عبداللہ بن طُھفہ ہوں۔ آپؐ فرمانے لگے سونے کا یہ انداز ایسا ہے جسے اللہ پسند نہیں کرتا۔

(مسند احمد بن حنبل جلد 5صفحہ 326مطبوعہ بیروت)

الٹے ہو کر سونا بھی ناپسندیدہ فعل ہے۔ سیدھے سونا چاہئے اور بہتر یہی ہے کہ دائیں کروٹ سوئیں۔ اگر کوئی مجبوری نہ ہو تو۔

جیسا کہ ہر معاملے میں جو بھی جماعتی طور پر ذمہ داریاں بانٹی جاتی تھیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حصہ میں ضرور کچھ نہ کچھ ذمہ داری لیا کرتے تھے۔ یہاں بھی جب مہمانوں کو گھروں میں لے جانے کا موقع آیا تو آپؐ کچھ مہمانوں کو اپنے ساتھ گھر لے گئے اور لگتا ہے کہ حضرت عائشہؓ نے جو بھی خوراک تیار کی ہوئی تھی، جیسا کہ روایت سے ظاہر ہے، وہ بہت تھوڑی مقدار میں تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تیار کی گئی تھی۔ جب آپؐ کو بتایا گیا کہ یہ خوراک تھوڑی سی مقدار میں ہے، آپؐ کی افطاری کے لئے تیار کی گئی ہے تو آپ نے اس وجہ سے بھی کہ آپؐ روزے دار تھے اور افطاری کرنی تھی اور اس لئے بھی کہ آپؐ کو پتہ تھا کہ آپ پہلے منہ لگائیں گے تو اللہ تعالیٰ اس خوراک میں برکت ڈال دے گا، پہلے خود کھایا اور پھر باقیوں کو دیا کہ اب کھاؤ۔ اور وہ بھی بغیر دیکھے کھاتے گئے۔ جتنے بھی لوگ تھے سب نے سیر ہو کر کھانا کھایا۔ پھر پینے کے لئے حریرہ منگوایا تو یہاں روزہ کھولنے والی بات تو کوئی نہیں، زیادہ غالب یہی ہے کہ اس لئے کہ اس خوراک میں برکت پڑ جائے اس کو بھی پہلے آپؐ نے خود پیا۔ تو اسی طرح اور بھی کھانے کے بہت سارے واقعات ہیں آپؐ پہلے لیتے تھے۔ مقصد یہی ہوتا تھا کہ اس میں برکت پڑ جائے کیونکہ جب میں کھاؤں گا، دعا کروں گا تو اس خوراک میں برکت ہو جائے گی۔ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خوراک پہلے استعمال کی یہ اصل میں مہمان نوازی کا حق ادا کرنے کے لئے تھا کہ تھوڑی سی خوراک ہے اور اس سے سیر نہیں ہو سکتے تو میں پہلے لوں اور اس پہ دعا پڑھوں تو اللہ تعالیٰ برکت ڈال دے گا۔ اس لئے یہ کوئی عام اصول نہیں ہے بلکہ مہمانوں کی جب خدمت کی جائے تو پہلے مہمانوں کو کھانے کا موقع دینا چاہئے اور اس کے بعد پھر بچا کھچا آپ کھانا چاہئے۔

ایک روایت ہے حضرت عبداللہ بن سلامؓ کہتے ہیں جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں قدم رنجہ فرمایا تو لوگ اژدھام کرکے آپؐ کے گرد جمع ہو گئے، بہت سارا ہجوم کرکے رش کرکے آ گئے۔ کہتے ہیں میں بھی ان میں شامل تھا جو دوڑ دوڑ کر آپؐ کی خدمت میں حاضرہوئے تھے۔ جب آپؐ کا چہرہ خوب مجھ پر روشن ہو گیا تو میں نے جان لیا کہ یہ منہ جھوٹے کا منہ نہیں ہے اور سب سے پہلی بات جو میں نے آپؐ کو کہتے ہوئے سنا وہ یہ تھی کہ سلام کو رواج دو، کھانا کھلایا کرو اور صلہ رحمی کیا کرو اور اس وقت نماز پڑھو جب لوگ سوئے ہوئے ہوں تو تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔

(مسند احمد بن حنبل۔ مسند باقی الانصار جلد ۵ صفحہ ۴۵۱) ( خطبہ جمعہ 23؍ جولائی 2004ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 مارچ 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 مارچ 2021