• 24 اپریل, 2024

محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب

محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد سے وابستہ
ناقابلِ فراموش یادیں

سيدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے بڑے بیٹے حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے پوتے اور حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحبؓ مرحوم سابق ناظر اعلیٰ ربوہ کے صاحبزادے مرزا غلام احمد صاحب ناظر اعلیٰ ربوہ کی المناک وفات پر ہمارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ (مسجد بیت الفتوح لندن) میں بڑی تفصیل سے ان کی سوانحِ حیات اور جماعتی خدمات کا ذکرِ خیر فرما کر زبردست خراجِ تحسین پیش کیا اور دنیا بھر کے احمدیوں کو یہ پیغام دیا کہ وہ ان کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے احمدیت کی شمع کے جانثار پروانے بنیں۔ ذٰلک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشاء۔

محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد المعروف میاں احمد کی والدہ ماجدہ حضرت سید میر محمد اسحاق صاحبؓ کی بیٹی تھیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اہلیہ حضرت اماں جان سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ کی بھتیجی تھیں۔ حضرت اماں جان ؓ کا خاندان دہلی کے اولیاء اللہ سے نسبت کی وجہ سے بڑا معزز جانا جاتا تھا۔ اس طرح میاں احمد صاحب نجیب الطرفین ہوئے۔ پیدائشی طور پر ان کے خمیر میں نیکی گوندھی گئی تھی۔ یہ قدرت کی دین تھی جو آپ کو عطا ہوئی تھی۔ مزید برآں یہ کہ میاں احمد صاحب نے دنیاوی اعلیٰ تعلیم پا کر سندات حاصل کرکے اپنے آپ کو علم وفضل کے زیور سے آراستہ کیا اور خاندانِ مسیح موعود ؑ میں ممتاز ہوئے۔

آپ نے دنیاوی خواہشوں اور سندات کو چھوڑ چھاڑ کر دین کو دنیا پر مقدم کیا اور زندگی وقف کرکے دین کی راہ لی۔ ہاں وہ راہ جو مشکل ترین راہ ہے، جب اس راہ کے مسافر بنے اور وقف کی چُھری کے نیچے گردن دے دی تو پھر سارے دنیاوی القاب ترک کر دیے اور جماعت میں میاں احمد کے نام سے معروف ہوئے۔

آپ خاندانِ مسیح موعود ؑ کے چشم وچراغ تھے اس لیے خاندانی طور پر ایک پُرکشش اور بارعب شخصیت کے مالک تھے۔ وقار اور وضعداری نمایاں تھی، لیکن وقف کی چادر نے ان پر عاجزی اور مسکینی کو غالب کر دیا تھا۔ ایک بڑے سنجیدہ مزاج دانشمند ہوگئے تھے۔

محترم میاں احمد سے خاکسار کا تعارف غالباً 1963 میں میرے محسن وشفیق استاد اور سرپرست سید میر داؤد احمد صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ ربوہ نے کروا یا۔ جب آپ وقف کر کے ریویو آف ریلیجنز کے لیے مقرر ہوئے اور حضرت علی محمد صاحبؓ بی ٹی ایڈیٹر کے ساتھ نائب کے طور پر کام شروع کیا ان کا دفتر جامعہ احمدیہ کی بلڈنگ میں ہی تھا۔ میاں احمد صاحب حضرت سید داؤد احمد صاحب کے بھانجے تھے اور میر صاحب رسالہ کے نگران اعلیٰ تھے۔ خاکسار کو حضرت میر صاحب افسر جلسہ سالانہ نے اپنے ساتھ بطور معاونِ خاص کے رکھا ہؤا تھا ۔ خاکسار جلسہ سالانہ کے دنوں میں آپ کے ساتھ ڈیوٹی بجا لاتا تھا جو متواتر آٹھ سال تک ادا کرنے کی توفیق ملی، الحمد للّٰہ۔ اس عرصہ میں جلسہ سالانہ کے بابرکت ایام میں میاں احمد صاحب سے اکثر واسطہ پڑتا تھا۔ ان کی شخصیت کا ایک خاص تاثر میرے ذہن پر نقش ہو گیا تھا۔ ان کی کمپنی اور حلقۂ احباب میں میرے کلاس فیلو خلیفہ صباح الدین مرحوم مربی سلسلہ اور نواب منصور احمد خان صاحب ہوتے تھے، جو چائے وغیرہ پر اکٹھے نظر آتے تھے۔

میاں احمد صاحب کے یارِ خاص سید عبدالحئی صاحب مرحوم ناظر اشاعت تھے جو اکثر گول بازار میں ایک چائے خانہ ’’نعمت کدہ‘‘ میں نظر آتے تھے۔ خاکسار بھی بعض اوقات خلیفہ صباح الدین صاحب کے ہمراہ ان کی کمپنی میں شامل ہو کر ان کی گفتگو کو سنتا اور لطف اندوز ہوتا اور ان سے کافی اچھی باتیں سننے کو ملتیں۔ ان کا اندازِ گفتگو بڑا ہی سلجھا ہؤا اور پاکیزہ ہوتا جو بالعموم جماعتی کاموں کے متعلق ہوتا یا جماعتی مسائل وحالاتِ حاضرہ پر مشتمل ہوتا۔ ان کی گفتگو بہت اعلیٰ سطح کی ہوتی اس لیے ان کی بعض باتیں میرے سر کے اوپر سے گزر جاتیں۔ بایں ہمہ وہ کبھی یہ احساس نہیں ہونے دیتے تھے کہ وہ کوئی بالا تر یا بڑے تعلیم یافتہ ہیں، بلکہ بڑی شفقت سے پیش آتے تھے اور یہ بات ان کی عظمت پر دلالت کرتی ہے۔

حضرت میر صاحب نے تو بحیثیت سرپرست میری تربیت کے لیے اپنے ساتھ لگایا ہؤا تھا تاکہ میں جماعت کا خادم بنوں اور صحیح تربیت پاؤں۔ انہوں نے میرے اعتماد کو بڑھا کر پُراعتماد کردیا۔ خلیفہ صباح الدین کے گھر تو اکثر سبق کی دُہرائی اور امتحان کی تیاری کیلیے جانا ہوتا تھا اور ان سے ذرا بےتکلفی تھی۔

حضرت سید میر داؤد احمد صاحب کو میاں احمد صاحب سے غیرمعمولی محبت تھی۔ ہمہ وقت ان کی تربیت میں لگے رہتے تھے۔ ایک دفعہ حضرت میر صاحب نے مجھے بتایا کہ خاندان میں میاں احمد کی فیملی میں سب سے زیادہ ایم اے پاس ہیں، اعلیٰ تعلیم اس خاندان کا طرۂ امتیاز ہے۔ ان کے والد حضرت مرزا عزیز احمد صاحبؓ ایم اے، بھائی میاں خورشید صاحب بھی ایم اے اور بیگم صاحبزادی امتہ القدوس صاحبہ سلمہا اللہ تعالیٰ بھی ایم اے۔ گویا گھر کے اکثر افراد ایم اے پاس ہیں۔ اُس زمانے میں ایم اے ہونا بہت بڑی بات سمجھی جاتی تھی۔

حضرت میر صاحب میاں احمد کی محنت اور کام کے طریق کو بہت پسند کرتے اور سراہتے تھے۔ میاں احمد کو ریویوآف ریلیجنز کی پروف ریڈنگ میں کمال حاصل ہوگیا اور حوالوں کی چیکنگ تو ان پر ختم تھی۔ سلسلہ کے مسائل میں پیش آنے والے حوالوں کی بذات خود از سرِ نو ریسرچ کی اور تصحیح کی۔ اصل کتب ومآخذ تک پہنچے اور جب پوری تسلی ہوگئی تو پھر ہمیں بعض اوقات اپنی مجلس میں بتاتے کہ تم لوگ ملک خادم صاحب کی پاکٹ بک یا دوسرے علمائے سلسلہ کی کتب کے حوالوں پر نہ رہا کرو، ان کے حوالوں کو اصل ماخذوں سے چیک کر لیا کرو، کیونکہ غیروں سے بحث کرتے وقت غلط حوالہ پیش کرنے سے بہتر ہے کہ اس عنوان پر بات ہی نہ کرو۔

وفاتِ مسیح، امکانِ نبوت، آمد ِمسیح ومہدی، ختمِ نبوت، صداقتِ مسیح موعودؑ سے متعلق تمام حوالے ان کو ازبر تھے اور بڑے ٹھوس ثبوت کے ساتھ بات کرتے تھے۔ اس پہلو سے ہم نے میاں احمد سے بڑے کام کا نکتہ سیکھا جو میدانِ عمل میں بہت کام آیا۔ یقیناً اس کا ثواب میاں احمد کو پہنچتا رہے گا۔

حضرت مسیح موعودؑ کی یہ دعا میاں احمد کو لگی ہوئی تھی کہ میرے ماننے والے علم ومعرفت میں کمال حاصل کریں گے۔ میاں احمد پر یہ پیشگوئی چسپاں ہوتی نظر آتی تھی۔ بے شک حوالوں کے بادشاہ مولانا دوست محمد صاحب تھے لیکن حوالوں کی تحقیق وپڑتال کے بادشاہ میاں احمد تھے۔

میاں احمد جب صدر خدام الاحمدیہ منتخب ہوئے تو ان کی انتظامی صلاحیتوں اور انداز تقریر نے خدام کی تنظیم کو بام عروج تک پہنچا دیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے ان کے کام پر خوشنودی کا اظہار فرمایا۔ میاں احمد نے یہ اعزاز اس لیے پایا کہ انہوں نے خدام میں خلافت سے محبت کو اجاگر کیا، اخلاص و وفا اور عشق کے ساتھ خلافت کی تابعداری کرنے کا درس سکھایا۔ میاں احمد کی صدارت کا عجیب دور تھا۔ ہر طرف بڑی بیداری تھی، جلسے اور اجتماع ہوتے تھے۔ خدام بڑے جذبے سے ڈیوٹیاں دیتے نظر آتے تھے۔ خلیفۂ وقت کے اردگرد ایسے گھومتے نظر آتے جیسے شمع کے گرد پروانے۔ جلسہ سالانہ پر ان کا کام اور جذبہ قابلِ رشک ہوتا تھا۔

حضرت میر داؤد احمد صاحب افسرجلسہ سالانہ نے میاں احمد کو شعبہ لیبر کا افسر مقرر کرکے ان کو بڑا ذمہ دار منتظم بنا دیا تھا۔ ان کے ساتھ نواب منصور احمد خان صاحب کی ڈیوٹی ہوتی تھی۔ دونوں میں بڑی ہم آہنگی (understanding) تھی۔ ان کی ٹیم اس مشکل ترین شعبے کو بخوبی سنبھالتی، سارے ٹھیکیدار نانبائی وغیرہ میاں احمد سے رجوع کرتے۔ لاہور، فیصل آباد وغیرہ سے آئے ہوئے ٹھیکیداروں سے ڈیل کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ یہ لوگ میاں احمد کا سر کھپاتے اور دن رات مصروف رکھتے۔ میاں احمد تھے کہ اپنے آرام، نیند کا کچھ خیال نہ کرتے۔ ہاں، یاد آیا کہ فیصل آباد کے ایک خادم محمود صاحب ایڈوکیٹ کا میاں صاحب کا بہت ساتھ دیتے اور مزدوروں، ٹھیکیداروں کو سنبھالنے میں مدد کرتے۔

وہ سب نظارہ آج بھی آنکھوں کے سامنے فلم کی طرح چل رہا ہے۔ بڑا روح پرور منظر ہوتا تھا۔ میاں احمد بعض اوقات ہمیں پریشان لگتے تھے، مگر وہ اپنے لباس اور وضع قطع سے بےپروا اپنی ڈیوٹی میں مصروف رہتے تھے۔ جب وہ افسر جلسہ کے دفتر میں آتے تو چہرہ اور آنکھیں تھکان کی غمازی کرتے دکھائی دیتے۔ بالآخر ایک دن حضرت میر صاحب افسر جلسہ سالانہ نے میاں احمد کو حکم دیا کہ تم ابھی گھر جاؤ اور دو گھنٹے میں اپنی نیند پوری کرکے تازہ دم ہو کر آؤ تاکہ کل کو لنگر خانہ نمبر 1 پر متوقع پریشر کو برداشت کرسکو۔ میں اس واقعہ اور منظر کا گواہ ہوں۔ بندہ کام کرے تو ایسا کرے جیسا میاں احمد کیا کرتے تھے۔ ان کے معاونین کی ٹیم بھی ان سے خوب تعاون کرتی تھی۔ نواب منصور خان صاحب بھی جان مار کر کام کرتے کیونکہ افسر بھی ایسا ہی ملا تھا۔

انہی دنوں کی بات ہے کہ میاں احمد افسر جلسہ سے کہنے لگےکہ مجید کیا کرتا ہے؟ اسے تو کوئی کام ہی نہیں، بس آپ کے ساتھ جیپ پر لنگرخانوں، قیام گاہوں کے چکر لگاتا رہتا ہے۔ حضرت میرصاحب کو یہ بات اچھی نہ لگی۔ فرمانے لگے: احمد! تم اپنے شعبہ پر نظر رکھو، اس کی فکر نہ کرو۔ یہ میرے ساتھ رہتا ہے اور میں اس سے کام لیتا ہوں اور وہ مجھے پتا ہے۔ میر صاحب کی اس بات نے میاں احمد کو بھی خاموش کردیا اور میرا دل بھی رکھ لیا بلکہ جیت لیا۔ یہ واقعہ میں نے جان بوجھ کر تحریر کیا ہےکیونکہ یہ حضرت میر صاحب کی عظمت کی ایک مثال ہے اور میاں احمد کے لیے بھی اس میں ایک سبق تھا کہ کسی کے کام میں دخل اندازی کرنا مناسب نہیں۔ اس واقعہ کے بعد تو میاں احمد کا خوف میرے دل پر بیٹھ گیا اور زندگی بھر رہا۔ اسی طرح حضرت میر صاحب کے لیے دل سے دعا نکلتی ہے کہ انہوں نے میرا بھرم رکھا۔

ایک اور سنہری منظرجو اکثر میری نظروں کے سامنے آتا رہتا ہے وہ میاں احمد کے اعلانِ نکاح کے موقع کا ہے۔ 28 دسمبر 1964 کے جلسہ سالانہ کے موقع پر نمازِ ظہروعصر جلسہ گاہ میں محترم مولانا جلال الدین شمس صاحب کی اقتدا میں جمع کر کے پڑھی گئیں جس کے بعد محترم شمس صاحب نے بعض نکاحوں کا اعلان فرمایا۔ ان میں خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دو نکاح بھی شامل تھے۔ یعنی محترم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کے فرزندِ ارجمند صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب ایم اے کا نکاح صاحبزادی امتہ الحسیب صاحبہ بنت محترم صاحبزادہ مرزا منیر احمد صاحب کے ساتھ بعوض پانچ ہزار روپیہ حق مہر طے پایا۔ مکرم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب ایم اے ابن حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب کا نکاح صاحبزادی امتہ القدوس صاحبہ بنت حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کے ہمراہ بعوض دس ہزار روپیہ حق مہر قرار پایا۔

(بحوالہ الفضل 28؍ دسمبر 1964ء)

یوں میاں احمد صاحب اور صاحبزادی امتہ القدوس (بی بی قوسی) کی مثالی جوڑی بنی۔ اسی موقع پر کچھ چھوہارے حضرت میر داؤد احمد صاحب نے مجھے پکڑائے ہوئے تھے کہ اعلانِ نکاح کے بعد سٹیج پر بیٹھے بزرگوں میں تقسیم کرنا۔ چنانچہ یہ سعادت خاکسار کو ملی۔ سبحان اللہ! کیا شان تھی میاں احمد صاحب کی جن کو بی بی قوسی جیسا ہمسفر مل گیا، جنہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ چل کر زندگی بسر کی اور دونوں نے سلسلہ کی ناقابلِ فراموش خدمات دینیہ بجا لانے کی توفیق پائی جو آبِ زر سے لکھی جانے کے قابل ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس جوڑے کو غیر معمولی صلاحیتوں والے تین بیٹے اور دو بیٹیاں عطا کیں۔ مکرم مرزا فضل احمد صاحب ناظر تعلیم ربوہ، محترم مرزا ناصر انعام صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ یوکے، محترم مرزا احسان احمد صاحب یو ایس اے۔ سچ ہے درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے۔

میاں احمد صاحب کی وجہ سے مجھے ان کی اولاد بہت پیاری ہے اور ان سے حقیقی للّہی محبت ہے۔ الحمد للہ۔ اور وہ بھی احترام کرتے ہیں۔

آج یہاں خاکسار ایک سربستہ راز کو کھول کر لکھنے کی جسارت کرکے اپنے فرض کو بغرض دعا پورا کرنا چاہتا ہے۔ جلسہ سالانہ ربوہ کے بابرکت ایام میں حضرت میر داؤد احمد صاحب افسر جلسہ سالانہ نے مجھے بڑے خوشگوار موڈ میں بتایا کہ آج میں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒکو رپورٹ پیش کرتے ہوئے بڑی ذمہ داری سے عرض کردیا ہے کہ دو بندے میں نے تیار کردیے ہیں اور وہ ہیں میاں احمدصاحب اور چودھری حمید اللہ صاحب۔ اِن کو جماعت میں جو بھی ذمہ داری اورخدمت کاکام سپرد کر دیں یہ ان شاء اللہ اُس کو سنبھال لیں گے۔

حضرت میر داؤد صاحب سلسلہ کے لیے لیڈر اور خادم تیار کیا کرتے تھے۔ جماعت میں ٹیلنٹ ڈھونڈنا ان کو خوب آتا تھا جو محض للہ ہوتا تھا۔ ہم نے اپنی زندگی میں اپنی آنکھوں کے سامنے حضرت میر صاحب کی اس بات کو سو فیصد پورا ہوتے دیکھا۔ میاں احمد صاحب ایک روشن ستارے کی طرح دنیائے احمدیت پر جگمگائے اور ناظر اعلیٰ کے مقام تک خدمت کی توفیق پائی۔ ماشاءاللہ خلفائے احمدیت کے سلطانِ نصیر ہوئے۔ دوسری طرف چودھری حمید اللہ صاحب وکیل اعلیٰ ربوہ کے مقام پر خدمت کی سعادت اور ساری دنیا کے احمدی مشنوں کی نگرانی کی توفیق پا کرچند روز قبل خداکے حضورحاضر ہوگئے ہیں۔ یقیناً ان کو تیار کرنے میں میر داؤد احمد صاحب کی محنت کا حصہ ہے، کیونکہ آپ قائدگر وجود تھے۔ اللہ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کو مقام ِمحمود عطا فرمائے، آمین۔

میاں احمدصاحب کو بطور صدر مجلس انصار اللہ بھی اعلیٰ خدمات بجا لانے کی توفیق ملی ۔ ان کے دور کے کارنامے سنہرے حروف سے لکھے گئے ہیں جو تاریخ احمدیت کا حصہ ہے۔ ان کے معاونین نے ان پر کتب اور مقالے بھی یقیناً لکھے ہوں گےیا لکھیں گے۔ مجھے تو اتنا پتا ہے کہ ان کا دور بڑا بابرکت تھا کیونکہ یہ خلیفۂ وقت کی دعا اور اشارے کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھاتے تھے اور اپنی مجلس عاملہ اور معاونین کو بھی اسی رنگ میں رنگین کرتے اور تقریروتحریر میں بھی خلیفۂ وقت کی ہدایت پر عمل کرتے اور کبھی رپورٹ میں کوئی مبالغہ نہیں کرتے تھے۔ بڑے خوش خط تھےاور مختصر الفاظ میں رپورٹ پیش کرتے تھے جو بما قَلَّ و دَلَّ کی مصداق ہوتی، نہ اپنا وقت ضائع کرتے اور نہ خلیفۂ وقت کا، کیونکہ وہ اس ایمان پر قائم تھے کہ خلیفۃالمسیح کا وقت سب سے زیادہ قیمتی ہے۔ خلیفۂ وقت ہماری ڈھال ہے، وہ ہے تو ہم ہیں۔ اس کے بغیر ہم کچھ بھی نہیں، اس کے پیچھے رہ کر کام کرو، بس۔

میاں احمد صاحب تعلق باللہ میں بھی بہتوں سے آگے تھے۔ میں عینی شاہد ہوں۔ ایک دفعہ 1968ء میں ہم مسجد مبارک میں اعتکاف بیٹھے۔ میرا حجرہ مسجد مبارک کی داہنی طرف تھا۔مکرمہ صاحبزادی امتہ الباسط صاحبہ بیگم حضرت میر داؤد احمد صاحب نے اپنے گھر میں رہنے والے لڑکے ارشد کی ڈیوٹی لگائی تھی کہ وہ مجھے دو وقت کا کھانا پہنچا دیا کرے۔ حضرت میر صاحب میرے ٹینٹ میں ہی آکر درسِ قرآن سنتے اور جامعہ احمدیہ کے طلبہ کو واچ کرتے تھے۔ ہدایت تھی کہ سب طلبہ درس سننے کے ساتھ ساتھ نوٹس بھی لیا کریں۔ درس دینے والے چوٹی کے علماء تھے۔ حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب، حضرت قاضی نذیر احمد صاحب لائلپوری، حضرت مرزا طاہر احمد صاحب، حضرت مولانا عبدالمالک خان صاحب وغیرہ۔ میاں احمدصاحب بغور درس سنتے۔ رات کو جب بھی میں نے دیکھا ان کو سجدے میں ہی دیکھا، نوافل میں قیام طویل، رکوع میں طویل جھکاؤ اور سجود میں رقت آمیز کیفیت۔ میں ان کی عملی حالت سے بہت متاثر ہؤا کہ یہ پینٹ شرٹ میں حقیقی عبد ہے۔ اعتکاف میں معتکفین اپنی گریہ سے مسجد میں ایک عجیب روحانی اور وجد انگیز ماحول پیدا کرتے تھے۔ میاں احمدصاحب کی عبادت کا طریق مجھے پسند تھا جو اب تک میں محسوس کرتا ہوں کہ میاں احمدصاحب ایک عاجز بندہ جو خدا کے حضور سراپا عبادت گزار تھا۔

محترم میاں احمد صاحب کے سسر بزرگوارم حضرت مرزا منصور احمد صاحب ناظر اعلیٰ ربوہ لنگرخانہ نمبر ایک کے نگران اعلیٰ تھے اور اپنے مزدوروں اور کارکنان کو انعام واکرام سے نوازا کرتے تھے۔ کبھی گھبراہٹ یا جلد بازی میں نہ پڑتے۔ لنگرخانہ میں تندوروں سے روٹی وافرمقدار میں تیار کروا کرسٹور کرواتے۔ نان بائی اور مزدور، پیڑے بنانے والیاں سب ہی ان سے بےحد خوش رہتے۔ کیونکہ وہ آرام سے کام کرواتے اور انعامات دے کر دلجوئی کرتے۔ ایک دن ایسا ہوا کہ میاں احمد صاحب نے غیرارادی طور پر ٹارچ کی روشنی ڈال کرکچھ مزدوروں کو جگادیا۔ وہ اس بات پر ناراض ہوگئے اور ہڑتال کی دھمکی دے دی۔ بڑی مشکل سے ٹھیکیدار نے ان کو سمجھایا، معاملہ ٹھنڈا ہوا۔ ٹھیکیدار میاں احمدصاحب اور صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب سے کہنے لگا کہ ہم تو یہاں جلسہ کی برکتوں کے لیے آتے ہیں ورنہ کمائی تو ہم لاہور وفیصل آباد میں زیادہ کرتے ہیں۔ ہاں بڑے میاں منصور صاحب کا حسنِ سلوک ہے کہ ہمیں یہاں روٹی وغیرہ کی کمی نہیں آنے دیتے۔ یہ بات سچ ہے کہ ہنگامی صورت میں بعض اوقات لنگرخانہ نمبر ایک سے ہی روٹی کی سپلائی دوسرے لنگرخانوں کو بھی ہوتی تھی۔ یہاں مغز بھی پکتا تھا اور میاں منصور احمد صاحب سب کو بڑے پیار سے کھلاتے تھے۔ یہ روحانی منظر ہمہ وقت آنکھوں کے سامنے رہتا ہے اور مغز کی خوشبو ابھی بھی آتی ہے۔ اسی لنگرخانہ سے روٹی سالن قیامگاہ برائے مستورات نصرت جہاں کالج کو سپلائی کیا جاتا تھا۔ استاذی المکرم سید میر محمود احمد ناصرصاحب اس ڈیوٹی کو سرانجام دیتے تھے۔ یہ کام ان کو سجتا تھا کیونکہ لجنہ کی طرف بھی خاندان کی بیبیاں ڈیوٹی پر ہوتی تھیں۔ مکرم سید میر محمود احمد ناصر صاحب گھر کے فرد تھے جو جلسہ سالانہ پر اس شعبہ کے افسر بن کر بڑی محنت سے ڈیوٹی نبھاتے تھے۔ جلسہ کے دنوں میں میر صاحب کی حالت دیکھ کر رشک بھی ہوتا اور رحم بھی آتا۔ ان دنوں ان کی آواز بیٹھ جاتی اور فکر ایسی لگی ہوتی کہ جیسے لجنہ کو روٹی نہ ملی تو ختم۔

1981ء کے آخر میں جب خاکسار نائیجیریا اورسیرالیون سے دس سال بعد مرکز ربوہ پہنچا تو چند روز بعد ہی دفتر پرائیویٹ سیکریٹری سے پیغام آگیا کہ حضور (حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ) نے یاد فرمایا ہے۔ خاکسار دفتر پہنچا تو میاں احمدصاحب وہاں ملے اور فرمانے لگے مجید! تمہاری ملاقات ہے اور حضور نے تمہاری اسلام آباد میں کوٹھی بیت الفضل ایف 3/8 میں تقرری فرمائی ہے اور تم نے وہاں جاکر مولانا محمد شفیع اشرف صاحب سے چارج لینا ہے۔ بڑی اہم ملاقات تھی۔ وقت پر حضورؒ کے سامنے ملاقات کے لیے حاضر ہوا۔ میں بہت گھبرایا ہوا تھا کیونکہ ذہن میں کچھ بھی نہیں تھا۔ حضورؒنے میری گھبراہٹ دور کی اور حوصلہ دیا کہ فکر نہ کرو۔ میں نے بڑی دعا کے بعد تمہارا تقرر کیا ہے۔ میاں احمد تمہیں خط دے گا اور کچھ سمجھا دے گا۔ جتنے دن تم یہاں ہو ملاقات کے لیے آجایا کرو۔ دعا لے کر خوش خوش باہر آیا تو سٹاف پی ایس میں بہت محبت بھرا احترام دیکھا۔ دل نے اور حوصلہ پکڑا۔ دوسرے روز دفتر آیا تو سوچا تھا کہ شاید آج ہی اسلام آباد جانا ہے۔ میاں احمدصاحب کہنے لگے نہیں ٹھہرو، ابھی شفیع اشرف صاحب نے اپنے معاملات سمیٹنے ہیں۔ ہمیں ان کی طرف سے اطلاع ملے گی تو پھر تمھیں خط دے کر بھیجیں گے اور وہاں کے امیر شیخ عبدالوہاب صاحب کو اطلاع دیں گے۔ جب تک یہ مرحلہ مکمل نہیں ہوتا تم دفتر پی ایس آتے رہو۔ ایک اور ملاقات ہوئی، الحمد للہ حضورؒ نے گلے لگایا، اعتماد کا اظہار فرمایااور میری گھبراہٹ دور ہوئی، بنیادی اور ضروری باتیں سمجھائیں۔ اس سارے عرصے میں میاں احمدصاحب نے ہمدردانہ محبت بھرے مشوروں سے نوازا اور کام کرنے کا سلیقہ اور طریقہ بتایا۔ خدا جانتا ہے کہ مجھے تو کبھی خواب میں بھی یہ توقع نہ تھی کہ یہ حقیر نالائق خلیفۂ وقت کے اتنا قریب ہوکر سلسلہ کی خدمت کی توفیق پائے گا۔ ٹھیک ہے افریقہ میں دس سال گزار آیا تھا۔ لیکن خلافت کے اتنا قریب رہ کر ان کے دفتر میں کام کرنے کے آداب سے کلیۃً ناواقف تھا۔ دفتر میں محترم محمد اسلم منگلا صاحب پرائیویٹ سیکریٹری تھے اور ان کا عملہ سلیم صاحب، بابو لطیف صاحب، رشید صاحب اور دیگر دس بارہ کارکنان پر مشتمل تھا۔ میں نے وہاں کیا کرنا تھا؟ حضور پُر نور ان دنوں ترجمہ قرآن مجید اور مسجد بشارت سپین کی تعمیروتکمیل کا کام کروا رہے تھے۔ ایک ہی لگن تھی کہ یہ دو کام مکمل ہو جائیں۔ محترم میاں احمدصاحب کا مجھ پر بڑا احسان یہ ہے کہ انہوں نے مجھے آداب سکھائے، تربیت کی اور چند دنوں میں ہی مجھے قرینے اور سلیقے سکھا دیے، کام کی نوعیت اور اس کی اہمیت بتائی اور عالمگیر ڈائری، رابطوں سے آگاہی بخشی۔

حضور رحمہ اللہ سے ملاقاتیں ہوتیں تو مجھے محسوس ہونے لگا کہ حضورؒ تو میری چھوٹی چھوٹی باتوں سے بھی واقف ہیں حتی کہ ان کو یہ بھی پتا ہے کہ میری شادی کہاں ہوئی ہوئی ہے اور بچے کتنے ہیں۔ میرے والد محمد عبد اللہ صاحب جو بہت اونچا سنتے ہیں اور سسر ماسٹر محمد شریف صاحب ایم اے امیر حلقہ ڈسکہ ہیں۔ سب کو جانتے تھے۔ کمال ہے۔ میں حیران تھا کہ حضورؒ کو میری ساری ہسٹری یاد ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ حضور ؒ نے فرمایا میں نے تمہاری تقرری قبولیت دعا کے بعد کی ہے، گھبرانےکی کوئی وجہ نہیں۔ اسلام آباد جا کر چارج لو۔ میں وہاں آرہا ہوں۔

حضورؒ کی شخصیت انتہائی پیاری، مقدس، پُر نور اور مسحور کن تھی۔ چہرہ بارعب، آنکھیں پُرکشش، داڑھی سفید، پگڑی بامشرح، فرشتہ نما صورت، رنگت گندمی گلابی، مردانہ خوبصورتی کا مرقع، حسن وجمال باکمال۔ میں نے تو ان جیسا کوئی خوبصورت انسان کبھی دیکھا نہیں تھا۔ میں تو ایک نکما عام سا ادنیٰ درجے کا مربی ہی تھا، حضورؒ نے اتنی محبت دی کہ جس کا میں کبھی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ حضورؒ نے جو ہدایتیں دیں ان سے میرا اعتماد بڑھ گیا۔ باہر نکلتا تو دوست احباب، اسٹاف بڑی عزت سے ملتے اور صیغہ جات کے افسران بھی احترام ومحبت سے ملتے۔

چنانچہ نومبر 1981ء کو میاں احمدصاحب سے خط اور زبانی ہدایات لے کر اسلام آباد کوٹھی بیت الفضل ایف 3/8 پہنچا۔ محترم مولانا محمد شفیع اشرف صاحب سے چارج لیا اور اس کی ایک کاپی محترم میاں احمد صاحب کو پی ایس آفس بھجوا دی۔ مجھے کوٹھی میں ہی ایک حصے میں رہائش ملی اور اسی کمرے میں ٹیلیفون لگوا کر اپنا دفتر ترتیب دیا اور اللہ کا نام لے کر ڈیوٹی شروع کی۔

روزانہ دودفعہ صبح شام حضورؒکی ہدایت کے مطابق ربوہ ٹیلیفون پر حضورؒ سے بات ہوتی تھی۔ محترم میاں احمد صاحب کا اللہ بھلا کرے، جنہوں نے قدم قدم پر میری رہنمائی فرمائی اور میں پُراعتماد ہوکر اتنی اہم جگہ پر ڈیوٹی دینے کے قابل ہؤا اور حضور پُر نور کے مفوضہ امور سرانجام دینے لگا۔ حضورؒ کے وفد کو بھی سنبھالنے کی توفیق ملتی رہی۔

ایک دن میاں احمدصاحب اسلام آباد میں میرے دفتر اور کمرے میں آئے، بیٹھے اور مشاہدہ کے بعد کہنے لگے کہ تم نےیہ کیا دیوار پر بھی ٹیلیفون نمبر لکھے ہوئے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ بعض اوقات نوٹ بک سامنے نہیں ہوتی تو جلدی سے یہ دیوار میرے کام آتی ہے۔ میرے ذہن نشین نہیں رہتا کہ کس کا نمبر کہاں لکھا ہے۔ ویسے روٹین کا رجسٹر ہے جس میں سب نمبر وغیرہ ہیں اور انٹرنیشنل نمبر بھی ہیں۔ ضروری اہم شخصیات، ملکوں اور مشنوں کے نمبربھی ہیں۔ تاہم میاں احمدصاحب میرا بیڈروم اور باتھ روم وغیرہ دیکھ کر خوش ہوئے اور کہا کہ حضور خوش ہیں کہ تم نے کام سمجھ لیا ہے اور ڈیوٹی ذمہ داری سے نبھا رہے ہو۔ اس دن میری خوشی کی انتہا نہیں تھی۔ میاں احمد صاحب یہ کی خوبی تھی کہ اچھی خبر دے کر کارکن کا دل خوش کر دیتے۔

مالک خوش تو اللہ بھی خوش کہ کام ٹھیک ہو رہا ہے۔ حضورؒ جب تشریف لاتے تو کوٹھی پُر رونق اور پُرنور ہوجاتی۔ شمع کے پروانے جمع ہوجاتے۔ حضورؒ کے بیٹے اور عزیز بھی بعض اوقات خوشخبری سنا کر اس عاجز کا دل خوش کردیتے۔ الحمد للہ۔ اس کا سہرا تو میاں احمد صاحب کو جاتا ہے۔

میاں احمد صاحب ایک ہمدرد اور سچے انسان تھے جن کی سوچ اونچی، تفکر بلند اور دوراندیشی حد درجہ کی تھی۔ ہمہ وقت سلسلہ کی بھلائی کے لیے سوچ بچار کو ایک ہی نقطہ پر مرکوز کیا ہؤا تھا اور وہ تھا خلیفۂ وقت کے پیغام پر عمل پیرا ہونا اور اشاروں پر چلنا۔ دعاؤں سے کام لیتے، میاں خورشید صاحب، چودھری حمید اللہ صاحب اور دیگر اکابرین سے مشورہ لیتے اور جماعت کی بھلائی اور ترقی کے لیے کام کرتے۔ ہر اچھے نتیجے کو حضورؒ کی دعاؤں کا نتیجہ اور اللہ تعالیٰ کا فضل سمجھتے۔
لاہور، دار الذکر احمدیہ مسجد میں خون آشام واقعہ پیش آیا جس میں جماعت کے چھیاسی افراد شہید ہوئے۔ ان شہیدوں کے جنازوں کو جیسے جماعت نے سنبھالا اس میں میاں خورشید صاحب اور میاں احمد صاحب کا کردار نمایاں ہے۔ پھر شہداء کی فیملیوں اور لواحقین کو گھر گھر جاکر حوصلہ دینا، دلجوئی کرنا اور مشکل کے وقت ان کے کام آنا اور ان کو سنبھالنا، سہارا دینا، ان کے غم کو اپنا غم سمجھنا اور خلیفۂ وقت کو جو اس سانحہ سے تکلیف پہنچی اور غم ملا وہ ناقابل بیان ہے۔ لیکن میاں احمد صاحب نے ایسے محسوس کیا جیسے شہداء کے ورثاء تڑپےاور نڈھال ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے صبر دکھانے کی ہمت تو دی اس کا سہارا خلیفۂ وقت بنے۔ پاکستانی میڈیا کے اینکر مبشر لقمان وغیرہ کو میاں احمد صاحب نے ایسے زبردست منہ توڑ انٹرویو دیے کہ کمال کردیا، حق ادا کردیا، جماعت کا مؤقف ایسی جرأت اور حکیمانہ انداز سے اور مدلل طور پر پیش کیا کہ آئندہ مستقبل کا مؤرخ اس کو ضرور اجاگر کرے گا۔

میاں احمدصاحب اور ان کی ٹیم نے شہداء کے ورثاء کی بے لوث خدمت کی اور مختلف ممالک میں ان کو سیٹل کیا۔ خدا ان کی خدمت کو قبول فرمائے۔ جماعت کی شان بڑھائے۔ شہداء کو سلام۔ ان شہیدوں کا خون ایک دن ضرور رنگ لائے گا، قربانی نمایاں ہوگی۔ یہ پاکستانی قوم پر اُدھار ہے جو انہیں ضرور ادا کرنا ہے۔

میاں احمد صاحب خلیفۂ وقت کے سچے سلطان نصیر تھے۔ جماعت کے ہمدرد اور جماعت کے کارکنان کے خیرخواہ۔ ان کی مشکلوں کو آسان کرنا میاں احمدصاحب کی ترجیح ہوتی تھی۔ کسی کا بھی کوئی مسئلہ ہو اس کو حل کرکے، خوشی پہنچا کر سکون اور اطمینان محسوس کرتے تھے۔ اپنے عہدے اور مقام کا حق ادا کردیتے اور غریبوں کی دعائیں لیتے۔

میاں احمدصاحب بےحد زیرک، دوراندیش، معاملہ فہم، ذہین وفہیم اور ہمدرد انسان تھے۔ قائدانہ صلاحیت کمال کی تھی۔ بڑی سوچ بچار حکمت سے منصوبہ بندی کرتے اور کام کو ترتیب دیتے، جس سے اللہ تعالیٰ فضل فرماتا اور نتائج امید سے بڑھ کر اچھے نکلتے۔

الحمد للہ آگے ان کے بیٹوں میں یہی خوبی دیکھتا ہوں کہ وہ خلافت کے مضمون کا پورا پورا اِدراک رکھے ہوئے ہیں۔ خلیفۂ وقت کے وفادار، محبّ، جانثار ہیں، جو اپنے عمل اور کردار سے اپنے کارکنان پر نیک اثر رکھتے ہیں، جس سے ان کی عظیم ماں بی بی قوسی کو فخر اور خوشی ہے۔ میاں احمد کی روح بھی جنت الفردوس میں خوش ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو مقامِ محمود میں رکھے، ان کی ناقابلِ فراموش جماعتی وانسانی خدمات کا صلہ عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔

(از مجید احمد سیالکوٹی۔ برطانیہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 مارچ 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 مارچ 2021